یوم خواتین __ 8 مارچ 2021

ہانیہ

محفلین
خیر حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ان شعبوں میں خواتین نہ بھی ہوں تو بھی معاشرہ چلتا رہے گا۔۔۔
کیا اس سے پہلے معاشرہ نہیں چل رہا تھا؟؟؟
یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین یہ کام نہ کریں، یہ بھی کریں اور بھی بہت کچھ ہے کرنے کو، وہ بھی کریں۔۔۔
لیکن جو کام ان سے منسوب کیے جاتے ہیں ان میں سے بھی وہ کتنے کرتی ہیں؟؟؟
کیا مشہور باورچی مرد ہی نہیں ہوتے؟؟؟
کیا مارکیٹ میں ننانوے فیصد درزی مرد نہیں ہوتے؟؟؟
ان پیشوں میں عورتوں کو آنے سے کس نے روکا ہے؟؟؟
ان ہی کی فطرت نے روکا ہے۔۔۔
کیا وہ کئی سیر وزنی دیگوں میں روزانہ کفگیر چلا سکتی ہیں، انہیں اٹھا اٹھا کر گاڑی میں لوڈ ان لوڈ کرسکتی ہیں؟؟؟
کیا وہ عیدین اور تہواروں کے سیزن میں رات رات بھر اکیلی دوکان میں بیٹھ کر سلائی کرسکتی ہیں؟؟؟
آخر کہاں تک ان کو ان کی فطرت کے خلاف لے جایا جائے گا؟؟؟

سر آپ کا عورت کے باہر نکلنے کے خلاف ہونا ایک طرف۔۔۔ اور عورت کو بار بار کمزور اور نکما بتا کر تحقیر کرنا ایک طرف۔۔۔۔ کیا فیکٹریوں میں عورتیں گھنٹوں سلائی کڑھائی نہیں کرتی ہیں۔۔۔۔

ہاں عورت کمزور ہے۔۔۔ کمزور ہے۔۔۔ کمزور ہے۔۔۔مرد طاقتور ہے طاقتور ہے طاقتور ہے۔۔۔۔ مرد حاکم ہے۔۔۔۔مرد کو سربراہ بنایا گیا ہے۔۔۔

لیکن آپ جو کر رہے ہیں اس پر حیران ہوں میں
۔۔۔ اور عورتیں کس طرح comfortable ہیں اپنی جنس کی تذلیل ہونے پر اس پر بھی حیران ہوں۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
تجارت کیسے کیا کرتی تھیں؟؟؟

ویسے تو میں خود بھی اسلامک ہسٹری کی سٹوڈنٹ رہ چکی ہوں ۔۔۔ خود لکھ سکتی تھی۔۔۔ لیکن سوچا کہ آنلائن آرٹیکل ٹھیک رہے گا۔۔۔ کم از کم اپنی طرف سے بات بنانے کا کہا تو نہیں جائے گا۔۔۔ کہ کہانیاں اپنی طرف سے بنا دیں۔۔


صحابیات کی معاشی سر گرمیاں
شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذ قرآن و حدیث ہیں۔عہد رسالت میں قرآن کا نزول ہوا ہے اور حدیث کی ابتدا و انتہاء بھی۔اس مبارک دور میں جو مردو خواتین آپﷺ پر ایمان لائے،انہیں صحابہ و صحابیات کے القابات سے نوازا گیا ہے۔زیر نظر مقالہ چونکہ خواتین کی معاشی سرگرمیوں سے متعلق ہے،لہٰذا ذیل کی سطور میں صحابیات کی معاشی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادوار میں کس طرح سے معاشی سرگرمیاں انجام دیں تاکہ عصر حاضر کی خواتین کے لئے انہیں مشعل راہ ثابت کیا سکے۔



تجارت
قرآن کریم نے تجارت کے لفظ کو بار بار دہرایا ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے تجارت کے پیشہ میں بہت برکت رکھی ہے۔ حدیث میں بھی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دس حصوں میں سے نو حصے رزق اللہ نے تجارت میں رکھا ہے([14])۔امام ابراہیم نخعی﷫سے سوال کیا گیا کہ آپ کی نظر میں سچا تاجر زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر رکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سچا تاجر زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے کہ وہ حالت جہاد میں ہے۔ شیطان ہر طرف سے اسے پھسلانے کی کوشش کرتا ہے کبھی ناپ تول میں کمی بیشی کا کہتا ہے تو کبھی لین دین میں مکربازی کی چالیں سمجھاتا ہے لیکن وہ تاجر ان سب سے انکار کرکے جہاد کرتا ہے۔ ([15]) عہد رسالت میں صحابیات تجارت سے وابستہ تھیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:



عطریات
انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشبو کو پسند کرتا ہےاور بدبو سے نفرت کرتا ہے۔اسلام جو کہ دین فطرت ہے خوشبو کی ترغیب دیتا ہے۔نبی کریم ﷺ ہمہ وقت خوشبو سے معطر رہتے تھے ۔صحابیات میں سے حضرت اسماء بنت مخزمہ ﷞ عطر کا کاروبار کرتی تھیں ۔ابن سعد فرماتے ہیں کہ ان کا بیٹا عبد اللہ بن ربیعہ یمن سے عطر خرید کر انہیں بھیجتا تھا اور وہ اسے فروخت کرتی تھیں ۔ربیع بنت معوذکہتی ہیں کہ ہم چند عورتوں نے ان سے عطر خریدا ۔جب انہوں نے ہماری بوتلیں عطر سے بھر دیں تو گویا ہوئیں "اکتبن لي علیکن حقي" میری جو رقم تمہارے ذمہ واجب الاداء ہے،مجھے لکھ دو([16])۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عطر کی خریدو فروخت نقد کے ساتھ ساتھ ادھار پر بھی کیا کرتی تھیں۔



حضرت خولہ بنت توقیت﷞ اس قدر عطر فروخت کرتی تھیں کہ وہ عطارہ کے نام سے مشہور ہوگئیں تھیں۔جب وہ رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لاتیں تو آپ ﷺ انہیں عطر کی خوشبو سے پہچان لیا کرتے تھے۔ایک دن وہ آپ ﷺ لے گھر تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ﷞سے فرمایا تم نے ان سے کچھ خریدا نہیں؟انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺآج یہ عطر فروخت کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے خاوند کی شکایت لیکر آئی ہیں تو آپ ﷺ نے ان کی شکایت کا ازالہ کیا۔([17])



حضرت سائب بن اقرع ثقفی ﷜کی والدہ حضرت مکبلہ عطر فروشی کاکام کرتی تھیں۔حضرت سائب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری والدہ آپ ﷺ کے پاس عطر فروخت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں۔نبی کریم ﷺ نے عطر کی خریداری کے بعد ان سے ان کی حاجت کے بارے میں دریافت فرمایا۔انہوں نے عرض کیا کہ حاجت تو کوئی نہیں البتہ اپنے چھوٹے بچے،جو ان کے ساتھ تھا،کے لئے دعا کی درخواست کی۔آپ ﷺ نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔([18])



درج بالا تمام واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عورت تجارت و کاروبار میں حصہ لے سکتی ہے۔عصر حِاضر میں تجارت و کاروبار کا ایک وسیع میدان عورتوں سے متعلق ہے جس میں عورتوں کے ملبوسات اور زیب و زینت کی بے شمار اشیاء شامل ہیں۔اگر عورتیں تجارت میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو ان کے لئے بہترین مواقع عورتوں سے متعلقہ اشیاء ہیں جن سے دُہرا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ایک تو یہ کہ عورت رزقِ حلال میں حصہ لے سکتی ہے اور دوسرے یہ کہ خریدار عوتوں سے شرم و حیاء کا دامن بھی نہیں چھوٹتا۔نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ، تکلیف سے یہ بات سہنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں شرم و حیاء کی دھجیاں اڑا کر یہ کام مَردوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جس کے مُضر اثرات سب کے سامنے ہیں۔


عہد نبوی میں صحابیات کی معاشی سرگرمیاں، عصر حاضر کی خواتین کے لیے مشعل راہ - Asian Research Index - Religion
 

ہانیہ

محفلین
اسی آرٹیکل سے مزید۔۔۔۔

زراعت و کاشتکاری
زراعت و کاشتکاری معاشی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔روزِ اول سے ابتدائی معاشی سر گرمیوں میں زراعت و کاشتکاری ہی رہی ہے۔انسان نے سب سے پہلے زمین پر اگایا اور پھر اسی سے کھایا۔حضرت آدم ﷤کا پیشہ بھی زراعت و کاشتکاری ہی تھا۔حضرت موسی ﷤کے قصے میں، جب وہ مصر کو چھوڑ کر مدین روانہ ہوئے تو آٹھ دن کی مسافت کے بعد ایک کنوئیں پر پہنچے جہاں لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور ازدہام کی کیفیت تھی۔ایک طرف کو دو لڑکیاں اپنی بکریوں روکے کھڑی تھیں۔آپ ﷤نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے تو ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں گی۔([19]) گویا حضرت شعیب﷤ کے گھر کا دارومدار مویشی پالنے اور زراعت پر تھا۔



آپ ﷺ نے اس پیشے کی فضیلت یوں بیان فرمائی کہ جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لئے صدقہ ہے۔([20])زراعت اپنے بیش بہا فوائد کی بناء پر کس قدر ضروری ہے؟اس کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو یہ گوارانہ تھا کہ زمین کا کوئی قطعہ یونہی خالی پڑا رہے اور اس سے پیداوار حاصل نہ کی جائے اس لئے کہ زمین اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کی قدر اسی میں ہے کہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور جس قدر فوائد اٹھائے جاسکتے ہیں، اٹھائے جائیں ۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کے لئے ہے۔ ([21]) دوسری جگہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہے تو اول اسے خود کاشت کرنی چاہئے ، اگر وہ خود کاشت نہیں کر سکتا تو اس کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے۔([22])حضرت عمر﷜نے فرمایا کہ جو شخص زمین کو بے کار اور بے کاشت رکھے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہو جائے گا۔([23])



گوکہ یہ پیشہ سخت جان اوربلند ہمت کا متقاضی ہے۔ اس میں کڑکتی سردی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے اور تپتی دھوپ بھی، لہذا اس شعبے کے لئے مرد ہی زیادہ موافق ہیں اور وہی اسے سنبھالتے آئے ہیں مگر بوقت ضرور یا بامر مجبوری عورتیں بھی اسے اپنا سکتی ہیں۔حضرت جابر بن عبداللہ ﷠سے روایت ہے کہ ان کی خالہ کو طلاق ہو گئی تو انہوں نے چاہا کہ وہ اپنی کھجوروں کی خبر لیں تو ایک شخص نے انہیں ڈانٹا (کہ وہ دوران عدت گھر سے نکل رہی ہیں) وہ آپ ﷺ کے پاس تشریف لے آئیں اور قصہ عرض کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں؟تم جاؤ اپنی کھجوروں کی دیکھ بھال کرو۔عین ممکن ہے کہ تم اس کی کمائی سے صدقہ خیرات یا کوئی اور نیکی کا کام کرو۔([24])سید جلال الدین انصر اس کے ذیل میں رقم طراز ہیں”ان الفاظ کے ذریعے آپ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کی خالہ کو انسانیت کی بہی خواہی اور فلاح و بہبود پر اکسایا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کر سکے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں“([25])۔ام مبشر انصاریہ کا ایک کھجوروں کا باغ تھا،آپ ﷺ ان کے کھجوروں کے باغ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ یہ کجھوریں کسی مسلمان کی ہیں یا کافر کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ مسلمان کی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لئے صدقہ ہے۔([26])



درج بالا دونوں قصوں سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں صحابیات شعبہ زراعت سے بھی وابستہ تھیں اور ان کے اپنے اپنے باغات ہوتے تھے جس کی وہ دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔دیکھ بھال میں جو کام اپنے کرنے کے ہیں،وہ خود بھی بجا لائے جاسکتے ہیں اور جو کام صنف نازک کے بس سے باہر ہوں،ان میں خادم بھی رکھا جاسکتا ہے مثلا فصل کو پانی لگانا،درختوں سے پھل اتارنا وغیرہ وغیرہ۔



حضرت اسماء بنت ابی بکر﷠ کہتی ہیں کہ میری زبیر سے شادی ہوئی تو نہ ان کی کوئی زمین تھی اور نہ ہی کوئی مال، البتہ ایک اونٹ تھا جو پانی لادنے کے کام آتا تھا اور ایک گھوڑا۔میں خود گھوڑے کو چارہ ڈالتی اور پانی بھر کے لاتی،آٹا گوندھتی۔مجھے روٹی پکانا نہ آتی تھی۔انصار کی عورتیں، جو بڑی ہی مخلص تھیں،وہ مجھے روٹی پکا کے دے دیتیں۔آپ ﷺ نے حضرت زبیر﷜ کو ایک قطعہ اراضی دے دیا تھا جو میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھا،میں وہاں جاتی اور کجھور کی گٹھلیاں چن کر لاتی۔ایک دن میں گٹھلیاں لے کر آرہی تھی اور گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ راستے میں آپ ﷺ سے ملاقات ہوگئ۔آپ ﷺ کے ساتھ انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور اونٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا کہ میں آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھوں۔مجھے بیٹھنے سے حیا آئی اور زبیر﷜ کی غیرت کا خیال آیا۔آپ ﷺ نے اس کو بھانپ لیا اور چل دیئے۔میں نے گھر آ کر سارا قصہ زبیر﷜ کو بتایا وہ کہنے لگے کہ تمہارا کھیت سے گٹھلیاں لانا مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر ﷜نے مجھے ایک خادم دے دیا جو گھوڑے کی تمام تر دیکھ بھال کرتا تھا۔اس کے آنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے آزادی مل گئی ہو([27]) ۔ حضرت سہل بن سعد ﷜سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے کھیت میں ایک سبزی (سلق،چقندر)اگایا کرتی تھی۔جمعہ کے دن وہ اس کا سالن بنایا کرتی تھی،ہم جمعہ کی نماز کے بعد اس کے گھر چلے جاتے۔اسے سلام کرتے اور وہ ہمارے لئے کھانا لگا دیتی۔ہم پورا ہفتہ، جمعہ کا انتظار صرف اسی لئے کرتے تھے(کہ نماز جمعہ کے بعد کھانا ملے گا)۔([28])



معاویہ بن حکم سلمی ﷜کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ بھیڑیے نے حملہ کیا اور ایک بکری کو کھا گیا تو مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے ایک تھپڑ چہرے پر دے مارا۔بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر ڈالا تو میں حضور اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور قصہ عرض کرنے کے بعد دریافت کیا کہ کیا میں اسے آزاد کر وں؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو میرے پاس لاؤ۔میں اسے لیکر حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے؟اس نے کہا آسمانوں میں۔پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا میں کون ہوں؟تو اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے۔([29])



میمونہ بنت حارث﷞ کےہاں کام کاج کے لئے ایک بچی تھی،جسے انہوں نے آزاد کردیا۔نبی کریمﷺ جب آپ کے ہاں تشریف لائے تو آپ نے آگاہ کیا کہ میں نے باندی کو آزاد کر دیا ہے۔نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کیا واقعی؟انہوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہﷺ۔آپﷺ نے فرمایا یہ بہتر ہوتا کہ تم اسے اپنے بھائی کوبکریاں چرانے کے لئے ہدیہ کردیتیں ۔([30])



درج بالا واقعات میں اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین میں آزاد اور باندی ہر دو قسم کی خواتین شامل تھیں جو زراعت اور مال مویشی کی دیکھ بھال میں حصہ لیتی تھیں۔دورِ حاضر میں جانوروں کی افزائشِ نسل اور پھر ان سے گوشت اور دودھ کی پیداوار ڈیری اور لائیو سٹاک فارمنگ سے عبارت ہے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی میں غذا کی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کا کام ہے جس کے لئے بلا شبہ افرادی قوت درکار ہے۔ دیہی خواتین میں مویشی پالنے،مرغیاں رکھنے کا پہلے ہی رواج ہے مگر یہ منظم طریقے سےنہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جدید خطوط پر ڈیری صنعت کو استوار کرے۔اعلیٰ نسل کے مویشی دیہی خواتین کو فراہم کرے۔پھر ان کے طبی معائنے،دوا علاج کی خدمات مہیا کرے۔حکومت کے موجودہ شفاخانہ حیوانات اس سلسلے میں باالکل ناکافی ہیں۔باقی رہی سہی کسر کرپشن پوری کر دیتی ہے اور ایک عام کسان کو اپنے جانوروں کے لئے انجیکشن تک مشکل سے میسر آتاہے۔اس کے بعد سب سے اہم قدم حکومت کی جانب سے دودھ کی پیداوار کے حصول کے بعد دیہاتوں سے اس کی وصولی ہے۔ذرائع نقل وحمل کی مشکلات اور صنفی نزاکت کے سبب دیہاتی خواتین اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ اپنی مصنوعات کو قریبی منڈیوں میں فروخت کر سکیں۔ چاروناچار انہیں انہی افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان کے دروازے پر چیز کو وصول کرے۔یہ چیز صحیح قیمت کے تعین میں آڑے آتی ہے اور خاتون کسان کو وہ قیمت نہیں مل پاتی جو اس کی محنت تقاضا کرتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہروں میں قائم ملک شاپ کی برانچیں دیگر شہروں میں پھیل جاتی ہیں لیکن خاتون کسان کا گھر یونہی کچے کا کچہ رہتاہے۔



زراعت اگر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو یہ عورتیں اس کی افرادی قوت ہیں۔مئی جون کی جان لیوا گرمی میں جیسے مرد گندم کی کٹائی حصہ لیتے ہیں تو عورتیں بھی ان کے برابر کٹائی میں شریک ہوتی ہیں اور بائیس کروڑ عوام کے لئے خوراک کا بندو بست کرتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے خاندان سمیت جس طرح سے ملکی معیشت میں حصہ لے رہی ہے وہ انتہائی حوصلہ افزاء اور باعث ترغیب ہے۔درج ذیل اعداد و شمار اس دعوے کو کچھ یوں ثابت کرتے ہیں:



وطن عزیز کی ملکی معیشت میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے جو ۳ء۴۲فیصد افراد کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ملکی مجموعی پیداوار میں یہ شعبہ ۸ء۱۹ فیصد اضافے کا باعث ہے۔([31])



پاکستان میں تقریبا آٹھ ملین یعنی اسی لاکھ افراد لائیو اسٹاک سے وابستہ ہیں۔مالی سال ۲۰۱۵۔۲۰۱۶ میں مجموعی ملکی پیداوار میں لائیو اسٹاک کا حصہ ۷ء۱۱ فیصد تھا۔دودھ کی پیداوار ۵۴،۳۲،۸۰۰۰ ٹن اور گوشت کی پیداوار ۳۸۷۳۰۰۰ٹن ہوئی۔([32]) لائیو اسٹاک میں دودھ کی پیداوار، گوشت،چربی،جانوروں کی کھالیں،اون اور دیگر اشیاء حاصل ہوتی ہیں۔ جن کی بدولت بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کھانے پینے یہاں تک کہ رہنے سہنے اور ملبوسات تک کے لئے بندوبست ممکن ہوا ہے۔



پولٹری کا شعبہ ایک اعشاریہ پانچ ملین یعنی ۱۵لاکھ افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے۔۲۰۰ ارب سے زائد کی سرمایہ کاری اس شعبے میں کی گئی ہے۔ پاکستان کا شمار پولٹری فراہم کرنے والے گیارہویں بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے جو کہ ایک اعشایہ دو ارب بوائلر مرغیاں سالانہ پیدا کر رہا ہے۔گوشت کی کل پیداوار میں تیس فیصد حصہ پولٹری کا بھی ہے۔۲۰۱۶۔۲۰۱۵ میں مجموعی ملکی پیداوار میں پولٹری کا حصہ ایک اعشاریہ چارفیصد ہے۔۲ء۱۵۱ ،ارب روپے پولٹری سے حاصل ہوتے ہیں۔درج بالا اعدادو شمار تو ایسے ماحول کے ہیں جہاں حکومتی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے برابر ہے اگر حکومت خلوصِ دل اور دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرے تو وہ دن دور نہیں جب وطن عزیز کا شمار ان ممالک میں ہوگا جن کی معیشتیں نہایت مستحکم ہیں۔([33])
 

ہانیہ

محفلین
دستکاری
حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کی زوجہ حضرت زینب ﷞دستکاری سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے بچوں یہاں تک کہ خاوند کے اخراجات کا بندوبست کرتی تھیں۔ایک دن وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں دستکاری سے خوب واقف ہوں اور چیزیں بنا کر فروخت کرتی ہوں۔میرے بیٹے اور خاوند کے پاس کوئی کام کاج نہیں ہے ۔میں ہی ان پر خرچ کرتی ہوں اور ان پر خرچ کرنے کی وجہ سے میں غرباء پر صدقہ نہیں کرسکتی تو کیا بیٹے اور خاوند پر خرچ کرنے سے مجھے اجر ملے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں؟ تم ان پر جو بھی خرچ کرو گی،تمھیں اس کا اجر ضرور ملے گا ۔([34]) ام المؤمنين حضرت زینب بنت جحش﷞ اپنے ہاتھ سے طرح طرح کی چیزیں تیار کر کے انہیں فروخت کرتیں اور جو کمائی انہیں حاصل ہوتی اسے راہ خدا میں صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔



حضرت عائشہ﷞ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت زینب بنت جحش﷞ سے بہتر کوئی نہ دیکھی جو اپنے ہاتھ سے کما کر صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔([35])وہ صرف صدقہ و خیرات کے لئے اشیاء تیار کرتی تھیں وگرنہ انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس کی قطعا ضرورت نہ تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مجبوری کے عالم میں عورت کو کمانے کی اجازت ہے بلکہ اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے بھی عورت کما سکتی ہے۔



حضرت سہل بن سعد﷜سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر آئی جس کے کنارے بُنے ہوئے تھے۔(معلوم ہوا کہ عورتیں اپنے گھروں میں کشیدہ کاری سے بھی وابستہ تھیں)اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ چادر میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے تاکہ میں اسے آپ کو پہناؤں۔آپ ﷺ نے اس کا یہ ہدیہ قبول فرمایا۔سہل ﷜ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ آپ ﷺ نے اس چادر کا تہبند بنا رکھا تھا۔ایک آدمی نے اسے دیکھ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ یہ چادر مجھے دے دیجئے۔آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے تم لے لو۔واپس آنے کے بعد آپ ﷺ نے وہ چادر تہہ کروا کر اس آدمی کو بھیجوا دی۔لوگوں نے اس آدمی سے کہا کہ تم بھی عجیب ہو۔رسول اللہ ﷺ سے چادر کا سوال کر ڈالا،تمہیں معلوم نہیں کہ وہ کسی سائل کا سوال رَد نہیں فرماتے۔اس شخص نے کہا اللہ کی قسم ،میں نے آپ ﷺ سے یہ چادر صرف اسلئے مانگی کہ بوقت موت یہ میرا کفن بن سکے۔سہل ﷜کہتے ہیں کہ جب اس شخص کی موت ہوئی تو یہ چادر اس کا کفن تھی۔ ([36])



کاروبار کی نگرانی
عہد رسالت میں عورتیں نہ صرف یہ کہ اپنے کاروبار میں نہ صرف یہ کہ خود حصہ لیتی تھیں اور بطور کارکن خود ہی کام کرتی تھیں بلکہ اس بات کے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ وہ خود کاروبار کی ادارت اور نگرانی کرتیں اور کام کاج کوئی اور کرتا تھا۔امام بخاری﷫ نے حضرت جابر بن عبداللہ ﷠سے روایت کی ہے کہ انصار کی ایک عورت نے آپ ﷺ کو یہ عرض کیا کہ کیا میں آپ کے لئے ایک منبر نہ بنوادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم چاہو تو بے شک بنوادو، تو اس عورت نے منبر بنوا کر دیا۔جمعہ کے روز آپ ﷺ اسی پر تشریف فرما ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے۔([37]) حضرت خدیجہ﷞ کی تجارت بھی کچھ اسی طرح کی تھی کہ وہ اپنا مال مضاربت پر دے کے خود کاروبار کی نگرانی کر تیں تھیں اور منافع مضاربین اور اپنے ما بین تقسیم کر لیتی تھیں۔آپ نے نبی کریمﷺ کو بھی مضاربت کی بنیاد پر مال دیا تھا جسے آپﷺ نے فروخت کیا تو دُ گنا منافع ہوا تھا۔



خولہ بنت ثعلبہ﷞ کے خاوند نے ان سے ظہار کیا۔وہ دونوں رسول اکرمﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے کی غرض سے تشریف لائے تو آپﷺ نے فرمایا جب تک کوئی حکم نہیں آجاتا تم اپنی بیوی سے دور رہو۔حضرت خولہ نے عرض کیا:



"يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَهُ مِنْ شَيْءٍ وَمَا يُنْفِقُ عَلَيْهِ إِلا أَنَا" ([38])



کہ میرے خاوند کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ان پر تو میں ہی خرچ کرتی ہوں۔



درج بالا واقعات کی روشنی میں خواتین گھریلو دستکاری کو احسن طریقے سے فروغ دے سکتی ہیں جن میں سلائی کڑھائی،ملبوسات پر فینسی کام،قالین بافی،کھانے پینے کی اشیاء کے خام مال کی تیاری،چھوٹے پیمانے پر مختلف اشیاء کی پیکنگ،کھیلوں کے سامان کی تیاری وغیرہ شامل ہے۔یہ کام وہ بذات خود بھی سر انجام دے سکتی ہیں اور اگر وہ ملازمین کے ذریعے کروانا چا ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔شرط صرف یہ ہے کہ شرعی امور کی پاسداری رہے۔اس سلسلے میں حکومت پنجاب نے کچھ اقدامات بھی کئے ہیں جو کہ قابل ستائش ہیں ۔مثال کے طور پر ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں فیشن ڈیزائینگ ،ٹیلرنگ اور کمپیوٹر اپلی کیشنز کے تین سے آٹھ ماہ تک کے کورسز مفت کروائے جاتے ہیں اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔خواتین کو چاہئے کہ وہ ان اقدامات سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے گھروں میں کمپوٹر کورسز، چھوٹے پیمانے پر سافٹ وئیر کی تیاری،ٹیلرنگ شاپ قائم کر کے اپنا معیار زندگی بلند کریں۔



طبابت
عہد رسالت میں بہت سی صحابیات طبابت کے پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔صحابیات جنگوں میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تشریف لیجاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فیضہ سر انجام دیا کرتی تھیں۔ان میں سے ایک بنو اسلم کی حضرت رفیدہ انصاریہ ﷞تھیں۔ابن اسحاق﷫ سے مروی ہے کہ:



وكان رسول الله ﷺ حين أصاب سعدا السهم بالخندق، قال لقومه:"اجعلوه في خيمة رفيدة حتى أعوده من قريب، وكان رسول الله ﷺ يمر به فيقول: " كيف أمسيت وكيف أصبحت؟ " فيخبره"([39])



غزوہ خندق میں جب حضرت سعد﷜تیر سے زخمی ہوگئے تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں رفیدہؓ کے خیمے میں منتقل کردیا جائے تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کر سکوں۔۔۔نبی کریمﷺ ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے تو سعد﷜کا حال دریافت فرماتے کہ صبح طبیعت کیسی تھی اور شام کیسی گزری تو سعد﷜آپﷺ کو اپنا حال بتاتے۔



حضرت انس﷜ سے روایت ہے کہ غزوات میں ام سلیم ﷞اور انصار کی عورتیں نبی کریمﷺ کے ہمراہ ہوتی تھیں جو جنگ کے دوران پانی بھر کر لاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔([40]) ام عطیہ﷞ فرماتی ہیں کہ میں سات غزوات میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ رہی۔میں مجاہدین کے لئے کھانا بناتی،زخموں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دوا کرتی تھی۔([41])خارجہ بن زید﷜ روایت کرتے ہیں کہ ام علاء﷞نے انہیں بتایا کہ عثمان بن مظعون﷜ کو ،ان رہائش گاہوں میں جو انصار نے مہاجرین کے لئے وقف کر دی تھیں،بخار ہوا اور وہ ہمارے ہاں مریض ٹھہرے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔([42])



حضرت انس﷜ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے انصار کی عوتوں کو بخار اور کانوں کے امراض کے علاج کی اجازت دی تھی۔ درج بالا واقعات یہ شہادت پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ عورت معالج بن سکتی ہے بلکہ وہ مردوں کا علاج بھی کر سکتی ہے بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہو۔وطن عزیز میں اس وقت صحت کی صورتحال سرکاری سطح پر زبوں حالی کا شکار ہے جس کا اندازہ درج ذیل کے اعداد وشمار سے لگایا جا سکتا ہے:



پاکستان میں اس وقت سرکاری سطح پر ۱۱۶۷ ہسپتال،۵۹۶۵، ڈسپنسرنیاں،۵۴۶۴ بنیادی مراکز صحت اور ۷۳۳ میٹرنٹی ہومز ہیں جن میں ۱۸۴۷۱۱ ڈاکٹرز،۱۶۶۵۲ ڈنٹسٹ،۹۴۷۶۶ نرسیں اور ہسپتالوں میں ۱۱۸۱۷۰ ،بستر ہیں۔اگر انہیں تقریبا بیس کروڑ کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ۱۰۳۸ افراد پر ایک ڈاکٹر،۱۲۴۴۷ افراد پر ایک ڈنٹسٹ ۱۵۹۱
 
آخری تدوین:

ہانیہ

محفلین
صحابیات کی جہاد فی سبیل اللہ میں جنگی خدمات __________اللہ اکبر کبیرہ

شریعت
نے ریاست کے دفاع اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی، لیکن اس کے باوجوداللہ کے دین کو سر بلند دیکھنے کی تمنا اس کو دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر لے آتی اور مردوں کے ساتھ وہ بھی کفر کا علم سر نگوں کرنے میں حصہ لیتی رہی:

1.ایک انصاری صحابیہ اُمّ عمارہ ؓ نے جنگ ِاُحد میں مردوں کی سی ثابت قدمی اور دلیری کا مظاہرکیا۔سعد بن ربیع کی صاحبزادی اُمّ سعدؓنے اس کارنامہ کے متعلق دریافت کیا توتفصیل سے بتایا کہ میں صبح سویرے ہی مجاہدین کی خدمت کے لیے میدانِ کارزار میں پہنچ گئی تھی۔
ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، لیکن بعد میں جب فتح و نصرت نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیاتواُن میں افراتفری اورانتشار پھیل گیا۔اِس وقت حضور اکرمﷺ کے قریب پہنچ کر آپﷺکی مدافعت میں تیر اور تلوار چلانے لگی۔یہاں تک کہ دشمن کی ضر ب مجھ پر آن پڑی۔ اُمّ سعد کہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر بہت ہی گہرے زخم کا نشان دیکھا اور پوچھا، کس نے آپ پر اتنا سخت حملہ کیا تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا،ابن قمہ نے! اللہ اسے غارت کرے! جب مسلمان شکست کھا کر حضورﷺکے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ چلاتا ہوا آیا: بتاؤ محمد(ﷺ) کہاں ہے؟ اگر وہ اس جنگ میں بچ گیا تو میری نجات نہیں۔یہ میری ہلاکت اور موت ہے۔ یہ سن کر میں اور مصعب بن عمیر ؓ اور چند دوسرے اَصحاب نے جو آپ کے ساتھ جمے ہوئے تھے، اس کا سامنا کیا۔اس مقابلہ میں اُس نے مجھ پر یہ وار کیا جس کا نشان تم دیکھ رہی ہو۔ میں نے بھی تلوار سے کئی ایک حملے کیے، لیکن دشمنِ خدا دو دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔نبیﷺ کی مدافعت میں اُنہوں نے جس ہمت اور پامردی کا ثبوت دیا اس کی شہادت خود آپﷺنے ان الفاظ میں دی ہے:
«ما التفتُ یمینًا ولا شمالاً إلا وأنا أراہا تُقابل دوني» سيرة ابن هشام:3/ 29, 30
''دائیں بائیں جس طرف بھی میں نے رُخ کیا اُمّ عمارہ ؓ کو اپنی مدافعت میں لڑتے دیکھا۔''
اس دن ان کے جمائواور ثابت قدمی کو دیکھ کر حضورﷺنے فرمایا:
«لمقام نسیبة بنت کعب الیوم خیر من مقام فلان وفلان»
''آج نسیبہ بنت کعب (اُمّ عمارہ) کی ثابت قدمی اور استقلال فلاں اور فلاں سے بہتر ہے۔''
اُحد کے علاوہ اُنہوں نے خیبر، حنین اور یمامہ کی جنگ میں بھی شرکت کی تھی۔یمامہ کے دن لڑتے لڑتے ان کا ہاتھ شہید ہو گیا اور اس کے علاوہ تلوار اور نیزوں کے بارہ زخم ان پر دیکھے گئے۔(طبقات ابن سعد:8/ 301تا304)

2.رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ میں عکرمہ ؓ بن ابو جہل کی بیوی اُمّ حکیمؓ شریک تھیں۔ اجنادین کی لڑائی میں عکرمہؓ شہید ہو گئے،چار ماہ دس دن کی عدت کے بعد مرجِ صفر نامی ایک مقام پر ان کا نکاح خالد بن سعید ؓ سے ہو گیا۔ نکاح کے دوسرے دن خالد بن سعید ؓ نے دعوتِ ولیمہ کی، ابھی لوگ دعوت سے فارغ ہونے بھی نہ پائے تھے کہ رومیوں نے صف بندی شروع کر دی ۔جب گھمسان کا رن پڑا تو اُمّ حکیمؓ ، جن پر اب تک شب ِعروسی کے آثار نمایاں تھے اپنے خیمے کا ایک ڈنڈا لے کر میدان میں کود پڑیں اور دشمن کے سات افراد کو اس دن موت کے گھاٹ اتار دیا۔(الاستيعاب فى اسماء الاصحاب تذكره ام حكيم)

3.اَسماء بنت یزید کے ہاتھ سے جنگِ یرموک میں نو رومیوںکو موت کاپیالہ پینا پڑا۔(الاصابه فى تمييز الصحابه:4/ 335)

4.ایک اور انصاری خاتون اُمّ حارث ؓکی ثابت قدمی اور شجاعت دیکھئے کہ جنگِ حنین میں اسلامی فوج کے قدم میدان سے اُکھڑ چکے ہیں، لیکن یہ چند باہمت نفوس کے ساتھ پہاڑ کی طرح جمی ہوئی ہے۔(الاستيعاب فى الاسماء الاصحاب تذكره ام حارث)

5.حضرت انس کی والدہ اُمّ سلیم ؓ خنجر لئے ہوئے اُحد میں آئی تھیں۔ حنین میں بھی ان کے پاس خنجر تھا، اس طرح مسلح ہو کر آنے کا مقصد حضورﷺنے دریافت فرمایا تو جواب دیا:
«اتخَذْتُه إن دنا مني أحد من المشرکین بقرتُ به بطنه» صحيح مسلم:1809
''میں نے اس کو اس لیے ساتھ رکھا ہے تا کہ اگر کوئی مشرک قریب ہو تو اس سے اس کا پیٹ چاک کر دوں۔''

6.رومیوں میں جہاد میں شہرت رکھنے والی نامور شخصیت حبیب بن مسلمہ ؓ سے ان کی بیوی نے ایک جنگ کے موقع پر دریافت کیا۔ بتائیے! کل آپ کہاں ہوں گے؟ جواب دیا: یا تو دشمنوں کی صفوں کے اند ریا جنت میں۔اِن شاء اللہ،جواب سن کر بیوی نے بھی پورے عزم کے ساتھ کہا، ان دونوں جگہوں میں سے جہاں بھی آپ ہوں گے مجھے توقع ہے کہ میرا مقام بھی وہی ہو گا۔(البيان و التبيين :2/ 170)

7.ربیع بنت معوذ ؓکا بیان ہے:
«کنا لنغزو مع النبي ﷺ فنسقی القوم نخدمهم ونرد القتلی والجرحی إلی المدینة» صحيح بخارى:2883
''ہم نبیﷺکے ہمراہ جہاد پر جاتی تھیں اورہماری خدمات یہ ہوتی تھیں کہ مجاہدین کو پانی پلاتیں۔ ان کی خدمت کرتیں اور جنگ میں کام آنے والوں اور زخمی ہونے والوں کو مدینہ لوٹاتیں۔''

8.ایک اور صحابیہؓ جو حضورﷺکے ساتھ غزوات میں شریک ہوئی تھیں، بیان کرتی ہیں:
« کنا نداوي الکلمی ونقوم علی المرضی» مسند احمد:5/ 84
''ہم زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کا علاج معالجہ اور ان کی تیمار داری کرتی تھیں۔''

9.اُمّ ؓ عطیہ اپنے متعلق فرماتی ہیں:
''میں نبی کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی تو میں لوگوں کے لیے کھانا بناتی،زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتی۔'' مسند احمد:5/ 84

10.اُحد کے زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی اور خدمت کے لئے بہت سی صحابیات جنگ کے بعد مدینہ سے گئی تھیں، طبرانی کی روایت ہے :
«لمّا کان یوم أحد وانصرف إلی الصحابة یعینونهم وکانت فاطمة في من خرج» فتح البارى:7/ 287
''جس دن اُحد کی جنگ ہوئی اور جنگ کے بعد مشرکین واپس ہو گئے تو خواتین صحابہ کی معاونت کے لیے روانہ ہوئیں۔ حضرت فاطمہ ؓ بھی ان ہی میں تھیں۔''
چنانچہ حضورﷺ اس د ن زخمی ہوئے تو حضرت فاطمہ ؓ ہی نے اسے چٹائی کی راکھ سے بھرا تھا۔

11.حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جنگ اُحد میں حضرت عائشہ ؓ اور اُمّ سلیمؓ نے بھی مجاہدین کی خدمت کی تھی :
« لقد رأیت عائشة بنت أبي بکر وأم سلیم وإنهما المشمّرتان أری خدم سوقهما تنقزان القرب علی متونهما ثم تفرغانه في أفواہ القوم ثم ترجعان فتملانهما ثم تجیئان فتفرغانه في أفواه القوم»صحيح بخارى:4064
''میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور اُمّ سلیم کو کمر بستہ (لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے) دیکھا۔ وہ اس قدر تیزی سے دوڑ دھو پ کر رہی تھیں کہ میں نے ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھے، وہ اپنی پشت پر پانی سے بھرے ہوئے مشک لاد لاد کر لاتی تھیں اور مجاہدین کو پلاتیں پھر واپس جاتیں اور بھر کر لاتیں اور مجاہدین کی تشنگی دور کرتیں۔''

12.ایک انصاری خاتون اُمّ سلیطؓ کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں:
«إنها کانت تزمز لنا القرب یوم أحد» صحيح بخارى:2881
'' اُحد کے دن وہ ہمارے لیے مشکیزے بھرتی تھیں۔''

13.حمنہ بنت حَجشؓ نے بھی اس دن یہ خدمات انجام دی ہیں۔ ابن سعد نے لکھا ہے:
«وقد کانت حضرت أحدًا تسقی العطش وتداوي الجرحٰی» طبقات ابن سعد:8/ 185
''وہ اُحد میں موجود تھیں۔ پیاسوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتیں۔''

14.اُمّ ایمن کے حالات میں بھی ابن سعدؓ نے اسی قسم کی روایت نقل کی
ہے:
«وقد حضرتْ أمّ أیمن أحدًا وکانت تسقي الماء وتداوي الجرحٰی وشهدت خیبر مع رسول اﷲ ﷺ» طبقات ابن سعد:ص163

15.جنگ خیبر کے سلسلے میں مورخ ابن اسحق نے صراحت کی ہے:
«وقد شهد خیبر مع رسول اﷲ لنساء المسلمین» سيرة ابن هشام:3/ 334
''خیبر میں حضورﷺکے ساتھ مسلمان خواتین میں سے بہت سی خواتین نے شرکت کی۔''

16.حشربن زیاد کی دادی اور پانچ عورتیں بھی اس جنگ میں گئی تھیں۔ اُنہوں نے حضورﷺسے آنے کا مقصد ان الفاظ میں ظاہر کیا:
«یا رسول اﷲ! خرجنا نغزل شعر ونعین به في سبیل اﷲ ومعنا دواء للجرحی ونناول السهام ونسقی السویق»سنن ابو داؤد:2729
'' اللہ کے رسول! ہم بالوں کو بٹتی ہیں اور ا س کے ذریعے اللہ کے رستے میں تعاون کرتی ہیں۔ ہمارے ہمراہ زخمیوں کے لیے دوا ہوتی ہے، ہم تیر پکڑاتی اور ستو پلاتی ہیں۔''

17.خیبر ہی میں ابو رافع ؓکی بیوی، سلمہ ؓ قبیلہ اَشہل کی ایک خاتون اُمّ عامر، ایک انصاری عورت اُمّ خَلا(طبقات ابن سعد:8/ 336) اور کعیبہ بنت ِسعد کی شرکت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔(طبقات ابن سعد:ص213)

18.اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت یہ خدمات انجام نہیں دیتی تھیں بلکہ محافظین دین کی رفاقت اور تعاون کو اپنے لیے باعث ِ عزت سمجھ کر خود ہی پیش کش کرتی تھیں۔ اسی جنگ ِ خیبر کا واقعہ ہے کہ رسولﷺروانہ ہونے لگے تو قبیلہ غفار کی چند عورتوں نے آکر عرض کیا:
« إنا نرید یا رسول اﷲ أن نخرج معک إلیٰ وجهک هذا فنداوی لجرحی ونعین المسلمین بما استطعنا»
''اے اللہ کے رسولﷺ! اس مبارک سفرمیں جس پر آپ جا رہے ہیں ہم بھی آپﷺکے ساتھ چلنا چاہتی ہیں تاکہ زخمیوں کا علاج کریں اور اپنے بس بھر مسلمانوں کی مدد کریں۔''

19.بعض خواتین میدان جنگ سے باہر بھی یہ خدمات انجام دیتی تھیں۔ مثلاً رفیدہ نامی قبیلہ اسلم کی عورت کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے :
''وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی اور اُنہوں نے مسلمانوں کے زخمیوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔''
چنانچہ مسجد ِ نبویؐ میں ان کا خیمہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذؓ جنگ خندق میں زخمی ہوئے تو حضور1 نے ان کو رفیدہ ہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا تا کہ آپ بآ سانی ان کی عیادت کر سکیں۔(طبقات ابن سعد:8/ 213)

 

سید عمران

محفلین
سر آپ کا عورت کے باہر نکلنے کے خلاف ہونا ایک طرف۔۔۔ اور عورت کو بار بار کمزور اور نکما بتا کر تحقیر کرنا ایک طرف۔۔۔۔ کیا فیکٹریوں میں عورتیں گھنٹوں سلائی کڑھائی نہیں کرتی ہیں۔۔۔۔

ہاں عورت کمزور ہے۔۔۔ کمزور ہے۔۔۔ کمزور ہے۔۔۔مرد طاقتور ہے طاقتور ہے طاقتور ہے۔۔۔۔ مرد حاکم ہے۔۔۔۔مرد کو سربراہ بنایا گیا ہے۔۔۔

لیکن آپ جو کر رہے ہیں اس پر حیران ہوں میں
۔۔۔ اور عورتیں کس طرح comfortable ہیں اپنی جنس کی تذلیل ہونے پر اس پر بھی حیران ہوں۔۔۔
یہ آپ نے خود سوچ لیا کہ عورت کی تذلیل کی جارہی ہے۔۔۔
جہاں تک کسی کی سوچ نہیں گئی وہاں آپ اپنی سوچ لے گئیں۔۔۔
آپ شاید یہاں آئی ہی بے کار مباحثہ کرنے کے لیے ہیں، کیوں کہ اب تک آپ کی ساری سوچ منفی ہے، نہ آپ کا کچھ سیکھنے کا ارادہ ہے نہ سمجھنے کا۔۔۔
اس پر فخر یہ کہ سب کی باتوں کے جواب دے رہی ہیں، حالاں کہ جواب تو آپ سے ایک کا بھی نہیں بن پایا، صرف اعتراضات اور نت نئے سوال کھڑے کرنے کا کام کیا ہے۔ ظاہراً توبہ توبہ کی جارہی ہے کہ ہم اور شریعت کے خلاف بات۔ مگر بین السطور سارے اعتراضات شریعت پر۔ کبھی پھول دار چادر تو کبھی شیشہ کے کام والی چادر، کبھی لفنگے مردوں کو روکنے کے لیے شریعت تو کبھی عورت کو باہر نکالنے کے لیے شریعت پر غصہ۔ ابھی آپ کو محفل جوائن کیے جمعہ جمعہ چار دن نہیں ہوئے اور باتیں ساری پرانے منجھے ہوئے گھاگ لوگوں کی سی۔ دھڑا دھڑ لمبے لمبے مضامین کاپی پیسٹ کرنا۔ یہ کام کوئی نیا آدمی نہیں کرسکتا۔ اسے تو کئی کئی دن محفل کا ماحول اور محفلین کا مزاج سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔
اسی لیے تو ہم نے کہا تھا۔۔۔
جال پرانا لایا شکاری نیا!!!
 

ہانیہ

محفلین
یہ آپ نے خود سوچ لیا کہ عورت کی تذلیل کی جارہی ہے۔۔۔
جہاں تک کسی کی سوچ نہیں گئی وہاں آپ اپنی سوچ لے گئیں۔۔۔
آپ شاید یہاں آئی ہی بے کار مباحثہ کرنے کے لیے ہیں، کیوں کہ اب تک آپ کی ساری سوچ منفی ہے، نہ آپ کا کچھ سیکھنے کا ارادہ ہے نہ سمجھنے کا۔۔۔
اس پر فخر یہ کہ سب کی باتوں کے جواب دے رہی ہیں، حالاں کہ جواب تو آپ سے ایک کا بھی نہیں بن پایا، صرف اعتراضات اور نت نئے سوال کھڑے کرنے کا کام کیا ہے۔ ظاہراً توبہ توبہ کی جارہی ہے کہ ہم اور شریعت کے خلاف بات۔ مگر بین السطور سارے اعتراضات شریعت پر۔ کبھی پھول دار چادر تو کبھی شیشہ کے کام والی چادر، کبھی لفنگے مردوں کو روکنے کے لیے شریعت تو کبھی عورت کو باہر نکالنے کے لیے شریعت پر غصہ۔ ابھی آپ کو محفل جوائن کیے جمعہ جمعہ چار دن نہیں ہوئے اور باتیں ساری پرانے منجھے ہوئے گھاگ لوگوں کی سی۔ دھڑا دھڑ لمبے لمبے مضامین کاپی پیسٹ کرنا۔ یہ کام کوئی نیا آدمی نہیں کرسکتا۔ اسے تو کئی کئی دن محفل کا ماحول اور محفلین کا مزاج سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔
اسی لیے تو ہم نے کہا تھا۔۔۔
جال پرانا لایا شکاری نیا!!!

تذلیل تو آپ عورت کی کر رہے ہیں مسلسل سر۔۔۔ عورت کھانا نہیں پکا سکتی۔۔۔۔ صحابیات زخمیوں کے لئے غزوات میں کھانا پکا رہی تھیں۔۔۔

آپ کا کہنا ہے کہ عورت اتنی کمزور ہے کہ اپنی فطرت کے خلاف کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔ صحابیات غزوات میں حصہ لے رہی تھیں۔۔۔ کفار کا قتال کر رہی تھیں۔۔۔

تحقیر تو آپ نے کی ہے سر۔۔۔ اور خوب کی ہے۔۔۔ اور اس میں آپ نے سب عورتوں کو کہا ہے۔۔۔ اسلامک ہسٹری سے اگر آپ واقف ہوتے تو کم از کم سب عورتوں کو کہنے کے بجائے آجکل کی عورت کو نکما کہہ دیتے تو شاید اتنا دکھ نہیں ہوتا۔۔۔

سر آپ نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔۔۔۔ اسلامی شریعت کی آڑ لے کر آپ نے ہرعورت کو کہا کہ عورت یہ نہیں کر سکتی وہ نہہں کر سکتی۔۔۔۔

اور مردوں کو کیوں بری نگاہ ڈالنے سے نہ روکا جائے؟ قرآن میں کیا مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کا نہیں کہا گیا ہے؟

مردوں کو کنٹرول کرنے پر آپ کا کہنا ہے کہ میں اسلامی شریعت کے خلاف ہو گئی۔۔۔ واہ سر۔۔۔

سر جواب اب آپ کے پاس نہیں ہیں اسلامک ہسٹری سامنے آنے پر۔۔۔ اسی لئے میں گھاگ بھی لگوں گی۔۔
شکاری اور شاطر اور بھی بہت کچھ لگوں گی۔۔۔اقر اسلامی یعت کے خلاف بھی لگوں گی۔۔۔
جو کہنا ہے کہئیے۔۔۔۔

لیکن معافی آپ کی بنتی ہے ۔۔۔۔اب اسلامک ہسٹری آنے کے بعد کہ آپ سب عورتوں کی تذلیل نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔۔ آپ نے بین السطور صحابیات کی تذلیل کی ہے یہ کہہ کر کہ عورت یہ نہیں کر سکتی وہ نہیں کر سکتی۔۔۔
ہم آجکل کی عورتیں نکمی کمزور وغیرہ سب کچھ ہیں ۔۔۔۔ لیکن صحابیات ہم سب کی سر کی تاج ہیں۔۔۔ انھوں نے بڑے بڑے مشکل اور سخت اور بہت محنت طلب کام انجام دئیے۔۔۔ آپ نے ان کے خلاف بات کی ہے۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
تذلیل تو آپ عورت کی کر رہے ہیں مسلسل سر۔۔۔ عورت کھانا نہیں پکا سکتی۔۔۔۔ صحابیات زخمیوں کے لئے غزوات میں کھانا پکا رہی تھیں۔۔۔

آپ کا کہنا ہے کہ عورت اتنی کمزور ہے کہ اپنی فطرت کے خلاف کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔ صحابیات غزوات میں حصہ لے رہی تھیں۔۔۔ کفار کا قتال کر رہی تھیں۔۔۔

تحقیر تو آپ نے کی ہے سر۔۔۔ اور خوب کی ہے۔۔۔ اور اس میں آپ نے سب عورتوں کو کہا ہے۔۔۔ اسلامک ہسٹری سے اگر آپ واقف ہوتے تو کم از کم سب عورتوں کو کہنے کے بجائے آجکل کی عورت کو نکما کہہ دیتے تو شاید اتنا دکھ نہیں ہوتا۔۔۔

سر آپ نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔۔۔۔ اسلامی شریعت کی آڑ لے کر آپ نے ہرعورت کو کہا کہ عورت یہ نہیں کر سکتی وہ نہہں کر سکتی۔۔۔۔

اور مردوں کو کیوں بری نگاہ ڈالنے سے نہ روکا جائے؟ قرآن میں کیا مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کا نہیں کہا گیا ہے؟

مردوں کو کنٹرول کرنے پر آپ کا کہنا ہے کہ میں اسلامی شریعت کے خلاف ہو گئی۔۔۔ واہ سر۔۔۔

سر جواب اب آپ کے پاس نہیں ہیں اسلامک ہسٹری سامنے آنے پر۔۔۔ اسی لئے میں گھاگ بھی لگوں گی۔۔
شکاری اور شاطر اور بھی بہت کچھ لگوں گی۔۔۔اقر اسلامی یعت کے خلاف بھی لگوں گی۔۔۔
جو کہنا ہے کہئیے۔۔۔۔

لیکن معافی آپ کی بنتی ہے ۔۔۔۔اب اسلامک ہسٹری آنے کے بعد کہ آپ سب عورتوں کی تذلیل نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔۔ آپ نے بین السطور صحابیات کی تذلیل کی ہے یہ کہہ کر کہ عورت یہ نہیں کر سکتی وہ نہیں کر سکتی۔۔۔
ہم آجکل کی عورتیں نکمی کمزور وغیرہ سب کچھ ہیں ۔۔۔۔ لیکن صحابیات ہم سب کی سر کی تاج ہیں۔۔۔ انھوں نے بڑے بڑے مشکل اور سخت اور بہت محنت طلب کام انجام دئیے۔۔۔ آپ نے ان کے خلاف بات کی ہے۔۔۔
ہاہ۔۔۔
خودساختہ کلام کی بڑبڑاہٹیں!!!
 

سید رافع

محفلین
خیر حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ان شعبوں میں خواتین نہ بھی ہوں تو بھی معاشرہ چلتا رہے گا۔۔۔
کیا اس سے پہلے معاشرہ نہیں چل رہا تھا؟؟؟
یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین یہ کام نہ کریں، یہ بھی کریں اور بھی بہت کچھ ہے کرنے کو، وہ بھی کریں۔۔۔
لیکن جو کام ان سے منسوب کیے جاتے ہیں ان میں سے بھی وہ کتنے کرتی ہیں؟؟؟
کیا مشہور باورچی مرد ہی نہیں ہوتے؟؟؟
کیا مارکیٹ میں ننانوے فیصد درزی مرد نہیں ہوتے؟؟؟
ان پیشوں میں عورتوں کو آنے سے کس نے روکا ہے؟؟؟
ان ہی کی فطرت نے روکا ہے۔۔۔
کیا وہ کئی سیر وزنی دیگوں میں روزانہ کفگیر چلا سکتی ہیں، انہیں اٹھا اٹھا کر گاڑی میں لوڈ ان لوڈ کرسکتی ہیں؟؟؟
کیا وہ عیدین اور تہواروں کے سیزن میں رات رات بھر اکیلی دوکان میں بیٹھ کر سلائی کرسکتی ہیں؟؟؟
آخر کہاں تک ان کو ان کی فطرت کے خلاف لے جایا جائے گا؟؟؟

ماشاء اللہ۔ اللہ آپکو اس تحریر کا بہترین اجر دے۔ آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہانیہ بہن میں نے آپ کے تمام مراسلے پڑھے اُن کا جواب عمران بھائی اس مراسلے میں پہلے سے آپ کو دے چکے
مجبوری کا رونا یہاں کوئی نہیں رو رہا ہے، سب عورت کو گھر سے باہر نکالنے کی بات کررہے ہیں۔۔۔
مجبوری کے حالات بالکل مختلف ہوتے ہیں، تب عورت مجبوری میں کمانے نکلتی ہے اور جب مجبوری رفع ہوجاتی ہے تو واپس اپنے آشیانے میں آکر قرار پکڑلیتی ہے!!!
اور اس کے علاوہ آپ نے چند اور کاروبار کے متعلق اشارہ کیا ہے جو اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی سہولت کے مطابق کیے جا سکتے ہیں اُن میں بھی قطعاً کوئی قباحت نہیں ہے
 

سید عمران

محفلین
ہانیہ بہن میں نے آپ کے تمام مراسلے پڑھے اُن کا جواب عمران بھائی اس مراسلے میں پہلے سے آپ کو دے چکے۔
اور اس کے علاوہ آپ نے چند اور کاروبار کے متعلق اشارہ کیا ہے جو اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی سہولت کے مطابق کیے جا سکتے ہیں اُن میں بھی قطعاً کوئی قباحت نہیں ہے
اصل میں انہیں معلومات لینے نہیں دینے کا شوق تھا۔۔۔
اس طرح کے لوگ آپ سے کچھ سیکھنے نہیں آپ کو سکھانے آتے ہیں۔۔۔
نئے نئے ناموں کی آئی ڈی سے پرانے گھسے پٹے فارمولے آتے ہیں!!!
 

ہانیہ

محفلین
ہانیہ بہن میں نے آپ کے تمام مراسلے پڑھے اُن کا جواب عمران بھائی اس مراسلے میں پہلے سے آپ کو دے چکے

اور اس کے علاوہ آپ نے چند اور کاروبار کے متعلق اشارہ کیا ہے جو اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی سہولت کے مطابق کیے جا سکتے ہیں اُن میں بھی قطعاً کوئی قباحت نہیں ہے

بھیا ۔۔۔لگتا ہے آپ نے صحابیات سے متعلق میرے اقتباسات غور سے نہیں پڑھے ہیں۔۔۔ صحابیات بغیر مجبوری کے بھی کام کرتی تھیں اور صدقہ خیرات کر دیتی تھیں ۔۔۔ اور گھر سے باہر نکل کر بھی کام کرتی تھیں۔۔۔
۔۔۔ مجبوری تو میری اور میری جیسی عورتوں کا رونا ہے۔۔۔ کیونکہ مجھ جیسیوں کو اندر سے کہیں ڈر لگتا ہے غیر اسلامی والا طعنہ سننے کا کہ ہم گھر میں نہیں بیٹھی ہوئی ہیں۔۔۔ ہمیں بھی اپنے دین سے محبت ہے۔۔۔ لیکن ہم پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ اسلام کے خلاف ہیں کیونکہ ہم گھر سے باہر نکلتی ہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

ہانیہ

محفلین
اصل میں انہیں معلومات لینے نہیں دینے کا شوق تھا۔۔۔
اس طرح کے لوگ آپ سے کچھ سیکھنے نہیں آپ کو سکھانے آتے ہیں۔۔۔
نئے نئے ناموں کی آئی ڈی سے پرانے گھسے پٹے فارمولے آتے ہیں!

سر تو اگر آپ اسلامی شریعت کا نام لے کر صحیح اسلامی ہسٹری نہیں بتائیں گے تو ۔۔۔۔ تو کسی کو تو بتانا تھی نا۔۔۔۔ میں ہی سہی۔۔۔
 
Top