اسی آرٹیکل سے مزید۔۔۔۔
زراعت و کاشتکاری
زراعت و کاشتکاری معاشی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔روزِ اول سے ابتدائی معاشی سر گرمیوں میں زراعت و کاشتکاری ہی رہی ہے۔انسان نے سب سے پہلے زمین پر اگایا اور پھر اسی سے کھایا۔حضرت آدم کا پیشہ بھی زراعت و کاشتکاری ہی تھا۔حضرت موسی کے قصے میں، جب وہ مصر کو چھوڑ کر مدین روانہ ہوئے تو آٹھ دن کی مسافت کے بعد ایک کنوئیں پر پہنچے جہاں لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور ازدہام کی کیفیت تھی۔ایک طرف کو دو لڑکیاں اپنی بکریوں روکے کھڑی تھیں۔آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے تو ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں گی۔(
[19]) گویا حضرت شعیب کے گھر کا دارومدار مویشی پالنے اور زراعت پر تھا۔
آپ ﷺ نے اس پیشے کی فضیلت یوں بیان فرمائی کہ جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لئے صدقہ ہے۔(
[20])زراعت اپنے بیش بہا فوائد کی بناء پر کس قدر ضروری ہے؟اس کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو یہ گوارانہ تھا کہ زمین کا کوئی قطعہ یونہی خالی پڑا رہے اور اس سے پیداوار حاصل نہ کی جائے اس لئے کہ زمین اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کی قدر اسی میں ہے کہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور جس قدر فوائد اٹھائے جاسکتے ہیں، اٹھائے جائیں ۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کے لئے ہے۔ (
[21]) دوسری جگہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہے تو اول اسے خود کاشت کرنی چاہئے ، اگر وہ خود کاشت نہیں کر سکتا تو اس کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے۔(
[22])حضرت عمرنے فرمایا کہ جو شخص زمین کو بے کار اور بے کاشت رکھے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہو جائے گا۔(
[23])
گوکہ یہ پیشہ سخت جان اوربلند ہمت کا متقاضی ہے۔ اس میں کڑکتی سردی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے اور تپتی دھوپ بھی، لہذا اس شعبے کے لئے مرد ہی زیادہ موافق ہیں اور وہی اسے سنبھالتے آئے ہیں مگر بوقت ضرور یا بامر مجبوری عورتیں بھی اسے اپنا سکتی ہیں۔حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ کو طلاق ہو گئی تو انہوں نے چاہا کہ وہ اپنی کھجوروں کی خبر لیں تو ایک شخص نے انہیں ڈانٹا (کہ وہ دوران عدت گھر سے نکل رہی ہیں) وہ آپ ﷺ کے پاس تشریف لے آئیں اور قصہ عرض کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں؟تم جاؤ اپنی کھجوروں کی دیکھ بھال کرو۔عین ممکن ہے کہ تم اس کی کمائی سے صدقہ خیرات یا کوئی اور نیکی کا کام کرو۔(
[24])سید جلال الدین انصر اس کے ذیل میں رقم طراز ہیں”ان الفاظ کے ذریعے آپ ﷺ نے حضرت جابر
ؓ کی خالہ کو انسانیت کی بہی خواہی اور فلاح و بہبود پر اکسایا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کر سکے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں“(
[25])۔ام مبشر انصاریہ کا ایک کھجوروں کا باغ تھا،آپ ﷺ ان کے کھجوروں کے باغ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ یہ کجھوریں کسی مسلمان کی ہیں یا کافر کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ مسلمان کی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لئے صدقہ ہے۔(
[26])
درج بالا دونوں قصوں سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں صحابیات شعبہ زراعت سے بھی وابستہ تھیں اور ان کے اپنے اپنے باغات ہوتے تھے جس کی وہ دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔دیکھ بھال میں جو کام اپنے کرنے کے ہیں،وہ خود بھی بجا لائے جاسکتے ہیں اور جو کام صنف نازک کے بس سے باہر ہوں،ان میں خادم بھی رکھا جاسکتا ہے مثلا فصل کو پانی لگانا،درختوں سے پھل اتارنا وغیرہ وغیرہ۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری زبیر سے شادی ہوئی تو نہ ان کی کوئی زمین تھی اور نہ ہی کوئی مال، البتہ ایک اونٹ تھا جو پانی لادنے کے کام آتا تھا اور ایک گھوڑا۔میں خود گھوڑے کو چارہ ڈالتی اور پانی بھر کے لاتی،آٹا گوندھتی۔مجھے روٹی پکانا نہ آتی تھی۔انصار کی عورتیں، جو بڑی ہی مخلص تھیں،وہ مجھے روٹی پکا کے دے دیتیں۔آپ ﷺ نے حضرت زبیر کو ایک قطعہ اراضی دے دیا تھا جو میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھا،میں وہاں جاتی اور کجھور کی گٹھلیاں چن کر لاتی۔ایک دن میں گٹھلیاں لے کر آرہی تھی اور گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ راستے میں آپ ﷺ سے ملاقات ہوگئ۔آپ ﷺ کے ساتھ انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور اونٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا کہ میں آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھوں۔مجھے بیٹھنے سے حیا آئی اور زبیر کی غیرت کا خیال آیا۔آپ ﷺ نے اس کو بھانپ لیا اور چل دیئے۔میں نے گھر آ کر سارا قصہ زبیر کو بتایا وہ کہنے لگے کہ تمہارا کھیت سے گٹھلیاں لانا مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے مجھے ایک خادم دے دیا جو گھوڑے کی تمام تر دیکھ بھال کرتا تھا۔اس کے آنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے آزادی مل گئی ہو(
[27]) ۔ حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے کھیت میں ایک سبزی (سلق،چقندر)اگایا کرتی تھی۔جمعہ کے دن وہ اس کا سالن بنایا کرتی تھی،ہم جمعہ کی نماز کے بعد اس کے گھر چلے جاتے۔اسے سلام کرتے اور وہ ہمارے لئے کھانا لگا دیتی۔ہم پورا ہفتہ، جمعہ کا انتظار صرف اسی لئے کرتے تھے(کہ نماز جمعہ کے بعد کھانا ملے گا)۔(
[28])
معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ بھیڑیے نے حملہ کیا اور ایک بکری کو کھا گیا تو مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے ایک تھپڑ چہرے پر دے مارا۔بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر ڈالا تو میں حضور اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور قصہ عرض کرنے کے بعد دریافت کیا کہ کیا میں اسے آزاد کر وں؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو میرے پاس لاؤ۔میں اسے لیکر حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے؟اس نے کہا آسمانوں میں۔پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا میں کون ہوں؟تو اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے۔(
[29])
میمونہ بنت حارث کےہاں کام کاج کے لئے ایک بچی تھی،جسے انہوں نے آزاد کردیا۔نبی کریمﷺ جب آپ کے ہاں تشریف لائے تو آپ نے آگاہ کیا کہ میں نے باندی کو آزاد کر دیا ہے۔نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کیا واقعی؟انہوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہﷺ۔آپﷺ نے فرمایا یہ بہتر ہوتا کہ تم اسے اپنے بھائی کوبکریاں چرانے کے لئے ہدیہ کردیتیں ۔(
[30])
درج بالا واقعات میں اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین میں آزاد اور باندی ہر دو قسم کی خواتین شامل تھیں جو زراعت اور مال مویشی کی دیکھ بھال میں حصہ لیتی تھیں۔دورِ حاضر میں جانوروں کی افزائشِ نسل اور پھر ان سے گوشت اور دودھ کی پیداوار ڈیری اور لائیو سٹاک فارمنگ سے عبارت ہے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی میں غذا کی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کا کام ہے جس کے لئے بلا شبہ افرادی قوت درکار ہے۔ دیہی خواتین میں مویشی پالنے،مرغیاں رکھنے کا پہلے ہی رواج ہے مگر یہ منظم طریقے سےنہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جدید خطوط پر ڈیری صنعت کو استوار کرے۔اعلیٰ نسل کے مویشی دیہی خواتین کو فراہم کرے۔پھر ان کے طبی معائنے،دوا علاج کی خدمات مہیا کرے۔حکومت کے موجودہ شفاخانہ حیوانات اس سلسلے میں باالکل ناکافی ہیں۔باقی رہی سہی کسر کرپشن پوری کر دیتی ہے اور ایک عام کسان کو اپنے جانوروں کے لئے انجیکشن تک مشکل سے میسر آتاہے۔اس کے بعد سب سے اہم قدم حکومت کی جانب سے دودھ کی پیداوار کے حصول کے بعد دیہاتوں سے اس کی وصولی ہے۔ذرائع نقل وحمل کی مشکلات اور صنفی نزاکت کے سبب دیہاتی خواتین اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ اپنی مصنوعات کو قریبی منڈیوں میں فروخت کر سکیں۔ چاروناچار انہیں انہی افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان کے دروازے پر چیز کو وصول کرے۔یہ چیز صحیح قیمت کے تعین میں آڑے آتی ہے اور خاتون کسان کو وہ قیمت نہیں مل پاتی جو اس کی محنت تقاضا کرتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہروں میں قائم ملک شاپ کی برانچیں دیگر شہروں میں پھیل جاتی ہیں لیکن خاتون کسان کا گھر یونہی کچے کا کچہ رہتاہے۔
زراعت اگر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو یہ عورتیں اس کی افرادی قوت ہیں۔مئی جون کی جان لیوا گرمی میں جیسے مرد گندم کی کٹائی حصہ لیتے ہیں تو عورتیں بھی ان کے برابر کٹائی میں شریک ہوتی ہیں اور بائیس کروڑ عوام کے لئے خوراک کا بندو بست کرتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے خاندان سمیت جس طرح سے ملکی معیشت میں حصہ لے رہی ہے وہ انتہائی حوصلہ افزاء اور باعث ترغیب ہے۔درج ذیل اعداد و شمار اس دعوے کو کچھ یوں ثابت کرتے ہیں:
وطن عزیز کی ملکی معیشت میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے جو ۳ء۴۲فیصد افراد کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ملکی مجموعی پیداوار میں یہ شعبہ ۸ء۱۹ فیصد اضافے کا باعث ہے۔(
[31])
پاکستان میں تقریبا آٹھ ملین یعنی اسی لاکھ افراد لائیو اسٹاک سے وابستہ ہیں۔مالی سال ۲۰۱۵۔۲۰۱۶ میں مجموعی ملکی پیداوار میں لائیو اسٹاک کا حصہ ۷ء۱۱ فیصد تھا۔دودھ کی پیداوار ۵۴،۳۲،۸۰۰۰ ٹن اور گوشت کی پیداوار ۳۸۷۳۰۰۰ٹن ہوئی۔(
[32]) لائیو اسٹاک میں دودھ کی پیداوار
، گوشت
،چربی
،جانوروں کی کھالیں
،اون اور دیگر اشیاء حاصل ہوتی ہیں۔ جن کی بدولت بڑھتی ہوئی آبادی
کے لئے کھانے پینے یہاں تک کہ رہنے سہنے اور ملبوسات تک کے لئے بندوبست ممکن ہوا ہے۔
پولٹری کا شعبہ ایک اعشاریہ پانچ ملین یعنی ۱۵لاکھ افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے۔۲۰۰ ارب سے زائد کی سرمایہ کاری اس شعبے میں کی گئی ہے۔ پاکستان کا شمار پولٹری فراہم کرنے والے گیارہویں بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے جو کہ ایک اعشایہ دو ارب بوائلر مرغیاں سالانہ پیدا کر رہا ہے۔گوشت کی کل پیداوار میں تیس فیصد حصہ پولٹری کا بھی ہے۔۲۰۱۶۔۲۰۱۵ میں مجموعی ملکی پیداوار میں پولٹری کا حصہ ایک اعشاریہ چارفیصد ہے۔۲ء۱۵۱ ،ارب روپے پولٹری سے حاصل ہوتے ہیں۔درج بالا اعدادو شمار تو ایسے ماحول کے ہیں جہاں حکومتی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے برابر ہے اگر حکومت خلوصِ دل اور دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرے تو وہ دن دور نہیں جب وطن عزیز کا شمار ان ممالک میں ہوگا جن کی معیشتیں نہایت مستحکم ہیں۔(
[33])