یوم خواتین __ 8 مارچ 2021

سیما علی

لائبریرین
ایک زبردست مذاق یہ ہے کہ جو لوگ خواتین کو پڑھنے نہیں دیتے اور انہیں میڈیکل میں نہیں آنے دیتے وہ شٹل برقعے میں تشریف لاکر فرماتے ہیں کہ مرد ہاتھ نہ لگائے. بھائی کہاں سے لائیں خواتین کو. انہیں پڑھنے دو اور کام کرنے دو اس شعبے میں.
ساتھ ہی ساتھ مرد ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں. ستر فیصد خواتین کا میڈیکل میں داخلہ ہوتا ہے اور جو مرد داخل ہوتے ہیں وہ بھی پڑھ لکھ کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں. کوٹہ سسٹم تو اب ہے نہیں کہ پچاس پچاس فیصد دونوں ڈاکٹر ہوں. خواتین پڑھ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں اور امت مسلمہ میں اضافہ ان کے ذمے لگا دیا جاتا ہے.
ایک جاہل کبڈ معاشرہ بن رہا ہے اور جاہلوں میں اضافہ ہورہا ہے
درست تجزیہ ہے ہے فاخر رضا بیٹا آپ کا ،ہماری ایک بہت اچھی دوست ڈاکٹر ہیں وہ ایسی باتیں ہسپتالوں کی با”بتاتی ہیں جن کو سنُ کے عقل دنگ رہ جاتی ہے کہتے ہیں ہماری عورت کو مر جانے دو مگر مرد ڈاکٹر ہاتھ نہ لگائے افسوس صد افسوس پھر لاتے کیوں ہیں ہسپتال میں!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
پچاس فیصد دونوں ڈاکٹر ہوں. خواتین پڑھ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں اور امت مسلمہ میں اضافہ ان کے ذمے لگا دیا جاتا ہے.
ایک جاہل کبڈ معاشرہ بن رہا ہے اور جاہلوں میں اضافہ ہورہا ہے
بے حد دکھ جب ڈاکٹر شادی کے بعد گھر بیٹھ جاتیں ہیں ۔اور وہ جو اتنی محنت اور مشکل سے اپنی تعلیم مکمل کرتی ہے اپنے آپ کو کبھی سسرال کی وجہ کبھی کسی اور وجہ سے اپنی پروفیشنل زندگی سے الگ ہوجاتی ہے ۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
ایک طرف تو آپ اپنے والد اور بھائیوں کو پروٹیکٹ کرتی ہیں تواِسی طرح اگر دوسری خواتین اپنے بھائی اور والد اور بیٹے کو اچھا کہیں تو بےجاطرفداری کہیں گی تو یہ تو انصاف نہ ہوا ہمارے والد اور بھائیوں نے اگر ہم پہ اعتماد کیا اور اعتماد دیا تو وہ کیونکر برُے ہوسکتے ہیں برُوں کو برُا کہیں مگر سب کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکیں ہم اپنی بہو کو بھی ایسے ہی سمجھتے ہیں جیسے اپنی بیٹی کو بلکہ اُن سے بھی کچھ زیادہ یہی وجہ ہے کسی قسم کا امتیازی سلوک کسی رشتے میں نہیں برتا جاتا ۔۔اکثر و بیشتر ہمارا بیٹا ہماری ڈانٹ غلطی نہ ہونے پہ سن لیتا تو یہ اُسکی فرمانبرداری ہے اور ہمیں ہمیشہ اسکا احساس رہتا ہے اللّہ تمام لوگوں کو آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تکلیفوں کو آسانیوں میں بدل دے معاشرہ ہم سب سے ملکر بنتا ہے ۔۔اسی میں انتہائی اچھے لوگ بھی ہیں جہاں بُرے لوگ ہیں جب باہر نکلتی ہیں تو اگر صد فی صد بُرے لوگ ہوں تو ایک دن بھی ہم کام نہ کر سکیں ۔۔۔۔۔

خدا نہ کرے مجھ پر اتنا برا وقت آئے کہ میرا باپ یا بھائی اگر چوری کریں یا رشوت لیں یا کسی عورت پر بری نگاھ ڈالیں تو میں خاموش رہوں۔۔۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے سگے بھی برائی میں ملوث ہوں گے تو میں انگلی اٹھاؤں گی ۔۔۔۔۔ میری اما کا تو یہ رہا ہے کہ وہ بھائیوں کے معاملے میں اتنی سخت ہیں کہ اگر میری بھابھی مذاق میں بھی ان سے شکایت لگا دیتی ہیں تو وہ سب کے سامنے ان کی عدالت لگا بیٹھتی ہیں۔۔۔۔ بھائی قسمیں بھی کھا رہے ہوں تو یقین کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔

آپ ایک بات بتائیں میم ۔۔۔۔ یہ جو کرپٹ حکمران ہیں۔۔۔۔۔ ملک کا پیسہ ہڑپ کر بھاگ گئے ۔۔۔ کیا ان کی حرکتوں کا ساتھ دینے میں ان کی گھر کی عورتوں کا ہاتھ نہیں ہے۔۔۔۔ مریم نواز کو لے لیں۔۔۔۔ کیسے اپنے باپ کے جرائم کو چھپانے کے لئے ملک گیر تحریک چلا رہی ہے۔۔۔۔مزے سے پیسے پر راج کرو چاہے جہاں سے بھی آرہا ہے اور مردوں کو سب کرنے دو۔۔۔۔

ہم عورتوں کا بھی کردار ہوتا ہے ان برائیوں کو پھیلانے میں۔۔۔۔۔ ہم بھی شامل ہوتی ہیں ان مردوں کے کرتوتوں میں ان کا ساتھ دینے میں۔۔۔۔۔ اللہ میاں نے یہ نہیں کہا کہ مردوں کی خدمت کرنے کا مطلب ان کی برائیوں میں ان کا ساتھ دینا ہے اور چپ رہنا ہے۔۔۔۔ یہ ہم نے خود اپنے لئے راہ چنی ہے۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
ایک بہت اچھا پوائنٹ اٹھایا گیا اور وہ تھا اسپتالوں سے متعلق
ایم ایل او (میڈیکو لیگل آفیسر) صرف اور صرف مرد ہوتے ہیں. کم از کم میری معلومات کی حد تک. اس شعبے پر خواتین ڈاکٹرز کو توجہ دینی چاہئے. بہت زیادہ ضرورت ہے. بہت شرمناک صورتحال ہوتی ہے اسپتال میں جب کسی خاتون کا پوسٹ مارٹم یا دیگر معائنے کی نوبت آتی ہے. مگر معاشرے سے بے شرمی ختم نہیں ہوتی.

خواتین اگر آگے بڑھیں اور خواتین کے لئے خصوصی اسپتال بنا دیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے
یورولوجی ڈیپارٹمنٹ میں خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں. یہ بہت شرمناک معاملہ ہے.

جو خواتین صحت کے شعبے سے منسلک ہیں ان سب کو سلام کرنا چاہیے. کام کی بے انتہا زیادتی کی وجہ سے ان کے مزاج بھی تیز ہوجاتے ہیں اور پھر خواتین ہی پریشان ہوتی ہیں. اگر زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں آئیں تو بہت اچھا ہے
ایک زبردست مذاق یہ ہے کہ جو لوگ خواتین کو پڑھنے نہیں دیتے اور انہیں میڈیکل میں نہیں آنے دیتے وہ شٹل برقعے میں تشریف لاکر فرماتے ہیں کہ مرد ہاتھ نہ لگائے. بھائی کہاں سے لائیں خواتین کو. انہیں پڑھنے دو اور کام کرنے دو اس شعبے میں.
ساتھ ہی ساتھ مرد ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں. ستر فیصد خواتین کا میڈیکل میں داخلہ ہوتا ہے اور جو مرد داخل ہوتے ہیں وہ بھی پڑھ لکھ کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں. کوٹہ سسٹم تو اب ہے نہیں کہ پچاس پچاس فیصد دونوں ڈاکٹر ہوں. خواتین پڑھ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں اور امت مسلمہ میں اضافہ ان کے ذمے لگا دیا جاتا ہے.
ایک جاہل کبڈ معاشرہ بن رہا ہے اور جاہلوں میں اضافہ ہورہا ہے

بھیا سچ میں نےآپ نے تو دل ہی جیت لیا۔۔۔۔ اللہ جزا دے آپکو۔۔۔۔ سچ بولا اور حق بولا۔۔۔۔

کاش کہ ہر کوئی آپ کی جیسی سوچ کا مالک ہو تو یہ ملک جنت نظیر بن جائے۔
 

ہانیہ

محفلین
آپ کا کہنا بالکل ٹھیک ہے ہانیہ کہ عورت خود مرد کو یہ راستہ بتاتی ہے ۔۔۔ اور یہ وہی عورت ہوتی ہے جس کے پاس تعلیم نہیں ہوتی ۔۔۔

اب چوں کہ مجھے لگتا ہے یہ ضروری ہے میں اپنا ایک مضمون جو ہماری سالانہ مجلہ کے لیے میں نے لکھا تھا " آج کے دور میں ہو سکتا ہے عیسی پیدا " شئیر کروں گی ۔۔۔ ان شا اللّه[/QUOTE

بالکل کیجئے گا فرحین۔۔۔۔ میں انتظار کروں گی۔۔۔۔ مجھے میری وال پر بتا دیجئے گا کہ آپ نے شئیر کر دیا ہے۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
خدا نہ کرے مجھ پر اتنا برا وقت آئے کہ میرا باپ یا بھائی اگر چوری کریں یا رشوت لیں یا کسی عورت پر بری نگاھ ڈالیں تو میں خاموش رہوں۔۔۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے سگے بھی برائی میں ملوث ہوں گے تو میں انگلی اٹھاؤں گی ۔۔۔۔۔ میری اما کا تو یہ رہا ہے کہ وہ بھائیوں کے معاملے میں اتنی سخت ہیں کہ اگر میری بھابھی مذاق میں بھی ان سے شکایت لگا دیتی ہیں تو وہ سب کے سامنے ان کی عدالت لگا بیٹھتی ہیں۔۔۔۔ بھائی قسمیں بھی کھا رہے ہوں تو یقین کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔
یہی بات ہم آپکو سمجھانا چاہ رہے ہیں جہاں مریم نواز جیسی خواتین ہیں جنکے قول و فعل میں کھلاُ تضاد ہے ۔۔۔
وہاں آپکی والدہ جیسی اور ہماری جیسی خواتین ہیںُ جو جھوٹ پر بھی اپنے ہی بیٹوں کو ڈانٹ رہی ہوتیں ہیں ۔اور ہمارا بھی بھائی یا بیٹا غلط بات کرے تو وہ بھی اُسی سزا کا مستحق ہوگا جتنا کوئی دوسرا ۔۔لیکن جن کی تربیت درست ہوئی اُن سے آپ کو ایسی باتوں کی اُمید ہی نہیں ۔اللّہُ سلامت رکھے ایسے سپوتوں جن پر اُنکی ماؤں کو فخر ہے اور جو اُنکی تربیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتے۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
اسی میں انتہائی اچھے لوگ بھی ہیں جہاں بُرے لوگ ہیں جب باہر نکلتی ہیں تو اگر صد فی صد بُرے لوگ ہوں تو ایک دن بھی ہم کام نہ کر سکیں ۔۔۔۔۔

جی صد فیصد تو لوگ برے نہیں ہیں ۔۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر بھی ہماری قومی حالت کو اچھا تو نہیں کہا جا سکتا ہے نا۔۔۔ برائیاں ہیں اور بہت ہیں۔۔۔۔ اور ہم ان برائیوں کی وجہ سے دنیا میں پیچھے ہیں۔۔۔۔ قرضدار ہیں۔۔۔۔ ترقی کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔۔۔۔ جو قومیں آگے ہیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ویسے وہ ماڈرن ہوں لباس وغیرہ میں آزاد خیال ہوں لیکن وہ محنتی ہیں اور ایماندار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ آگے ہیں۔۔۔
 

فاخر رضا

محفلین
ابھی کچھ دن پہلے ڈان اخبار میں ایک مضمون چھپا تھا جس میں خواتین سیاست دانوں پر بات ہوئی تھی
ان کی سیاست تک تنقید رہے تو اچھا ہے اگر اس سے بعد ذاتیات پر تنقید ہو یا قن کی پرسنل لائف یا ان کی پسند نا پسند پر تو یہ قابلِ قبول نہیں
زیادہ تر پھکڑ باز لوگ ناک نقشے، اور کپڑوں پر تنقید کرتے نظر آئیں گے، کیونکہ سیاست پر وہ بات کر ہی نہیں سکتے.
جو خواتین سیاست میں ہیں ان پر میرے خیال میں کسی بھی قسم کی تنقید نہ کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ وہ پہلے ہی کافی مشکل حالات میں مردوں کا مقابلہ کرکے یہاں تک پہنچی ہیں
اس میں صرف پاکستان نہیں بلکہ کشمیر، فلسطین اور دیگر جگہوں کو بھی مدنظر رکھئے جہاں مردوں کے لئے احتجاج جان لیوا بن چکا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
جو خواتین سیاست میں ہیں ان پر میرے خیال میں کسی بھی قسم کی تنقید نہ کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ وہ پہلے ہی کافی مشکل حالات میں مردوں کا مقابلہ کرکے یہاں تک پہنچی ہیں
اس میں صرف پاکستان نہیں بلکہ کشمیر، فلسطین اور دیگر جگہوں کو بھی مدنظر رکھئے جہاں مردوں کے لئے احتجاج جان لیوا بن چکا ہے
بالکل درست کہا آپ نے پاکستان ،ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں خواتین سیاست دانوں کو بڑے پیمانے پر نازیبا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
خواتین کو مختلف شعبوں کی طرح سیاست میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خاتون ہونے کے ناطے مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے ، خواتین کے کپڑوں تک پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں مگر خواتین کو اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنائیں کہ کوئی کچھ نہ کر سکے۔خواتین کو سیاست کا حصہ بھی بننا چاہئے تاکہ ملک میں اہم مثبت تبدیلیاں رونما ہوں۔۔۔اور انکے کام پر بات کی جائے بجائے اُنکی ذاتیات کے !!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے محترم افتخار عارف صاحب کے کلام سے

عجب اک سلسلہ ہے
خدیجہ (ع) ، فاطمہ (ع) ، زینب (ع)
وفا کے باب میں ، صدق و صفا کے باب میں ، صبر ورضا کے باب میں
کیسا منور راستہ ہے
خدیجہ (ع) ، فاطمہ (ع) ، زینب (ع)
طلوعِ حرفِ اقرا سے صدائے استغاثہ تک
حرا سے کربلا تک
مشیت نے جو اک خطِ جلی کھینچا ہوا ہے
اسی کا نور ہے جو دل بہ دل منزل بہ منزل ہرطرف پھیلا ہوا ہے
رسالت کی گواہی ہو ، ولایت کی گواہی ہو ، امامت کی گواہی ہو
جو یہ کہہ دیں وہی میزانِ حق میں مستند مانا گیا ہے
خدیجہ (ع) ، فاطمہ (ع) ، زینب (ع)
گواہی میں تسلسل اور پھر ایسا تسلسل
آپ خود اپنی جگہ اک معجزہ ہے
عجب اک سلسلہ ہے
خدیجہ (ع) ، فاطمہ (ع) ، زینب (ع)

وفا کے باب میں ، صدق و صفا کے باب میں ،
صبر ورضا کے باب میں
کیسا منور راستہ ہے
 

اے خان

محفلین
گر میری بھابھی مذاق میں بھی ان سے شکایت لگا دیتی ہیں تو وہ سب کے سامنے ان کی عدالت لگا بیٹھتی ہیں۔۔۔۔ بھائی قسمیں بھی کھا رہے ہوں تو یقین کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔
میاں بیوی کو اپنا معاملہ خود حل کرنا چاہیے تیسرے کا کیا کام ؟
شوہر انسان ہوتا ہے اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو بیوی کو چاہیے انہیں احسن طریقے سے سمجھائے نہ کہ دوسروں سے ان کی شکایتیں لگائیں
 

سید عمران

محفلین
خواتین کے عالمی دن پر تمام ورکنگ ویمن کے نام
”ورکنگ لیڈی“
نہ چُوڑی کی کَھن کَھن ، نہ پائل کی چَھن چَھن
نہ گجرا ،نہ مہندی ، نہ سُرمہ ، نہ اُبٹن
میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟
جو ڈیوڑھی سے نکلی تو بچے کی چیخیں
وہ چُولھا ، وہ کپڑے، وہ برتن ، وہ فیڈر
وہ ماسی کی دیری، وہ جلدی میں بَڑ بَڑ
نہ دیکھا تھا خود کو، نہ تُم کو سُنا تھا
بس اسٹاپ پر اب کھڑی سوچتی ھُوں
کسے ساتھ رکھا ، کسے چھوڑ آئی
میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟
وہ چُبھتی نگاھیں ، وہ آفس کی دیری
سیاھی کے دھبوں میں رَنگی ھتھیلی
وہ باتوں کی ھیبت ، جو سانسوں نے جھیلی
وہ زَھری رویے ، وہ اُلجھی پہیلی
مری مُٹھیوں میں سُلگتی دوپہری
میں کی بورڈ پر انگلیاں چھوڑ آئی
میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟
جلی شام ! پر سرمئی رُت کدھر ھے ؟؟
تھکی ماندی آنکھوں میں لمبا سفر ھے
یہ دہلیز ، آنگن مگر سکھ کدھر ھے ؟؟
ادھورے کئی کام رکھے ھیں، گھر ھے
ہر اک سانس اب وقت کی دھار پر ھے
وہ آسودہ لمحے کہاں چھوڑ آئی ؟؟
میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟
تھکن بستروں پر پڑی اونگھتی ھے
نگاھوں کی گرمی تلک سو چکی ھے
ھر اک پل ھمیں اگلے دن کی پڑی ھے
مجھے یہ تسلی کہ خود جی سکوں گی
تمھیں یہ سہارا کہ ثروت بہت ھے
وہ فرصت کے دن میں کہاں چھوڑ آئی ؟؟
میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی؟؟
ان ہی اذیتوں سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت کو رزق کمانے کے لیے مارے مارے پھرنے سے بچایا ہے۔۔۔
اور اس کو گھر بٹھا کر کھلانا اس کے مردوں کے ذمہ لگادیا!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ان ہی اذیتوں سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت کو رزق کمانے کے لیے مارے مارے پھرنے سے بچایا ہے۔۔۔
اور اس کو گھر بٹھا کر کھلانا اس کے مردوں کے ذمہ لگادیا!!
پر بہ حالتِ مجبوری اور ضرورت کے ٹحت کبھی کبھی عورت کو کبھی اپنے بچوں کی خاطر اور کبھی آپنے بوڑھے ماں باپ کی خاطر نکلنا پڑتا ہے بالکل درست کہا آپ نے نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہے ۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
پر بہ حالتِ مجبوری اور ضرورت کے ٹحت کبھی کبھی عورت کو کبھی اپنے بچوں کی خاطر اور کبھی آپنے بوڑھے ماں باپ کی خاطر نکلنا پڑتا ہے بالکل درست کہا آپ نے نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہے ۔۔۔۔
جی ہاں جن کو مجبوری میں نکلنا پڑتا ہے ایسی خواتین معاشرہ کی توجہ کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔۔۔
سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کی ایسی خدمت کریں کہ انہیں دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں!!!
 

ہانیہ

محفلین
ابھی کچھ دن پہلے ڈان اخبار میں ایک مضمون چھپا تھا جس میں خواتین سیاست دانوں پر بات ہوئی تھی
ان کی سیاست تک تنقید رہے تو اچھا ہے اگر اس سے بعد ذاتیات پر تنقید ہو یا قن کی پرسنل لائف یا ان کی پسند نا پسند پر تو یہ قابلِ قبول نہیں
زیادہ تر پھکڑ باز لوگ ناک نقشے، اور کپڑوں پر تنقید کرتے نظر آئیں گے، کیونکہ سیاست پر وہ بات کر ہی نہیں سکتے.
جو خواتین سیاست میں ہیں ان پر میرے خیال میں کسی بھی قسم کی تنقید نہ کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ وہ پہلے ہی کافی مشکل حالات میں مردوں کا مقابلہ کرکے یہاں تک پہنچی ہیں
اس میں صرف پاکستان نہیں بلکہ کشمیر، فلسطین اور دیگر جگہوں کو بھی مدنظر رکھئے جہاں مردوں کے لئے احتجاج جان لیوا بن چکا ہے

بہت ہی اچھی بات کہی آپ نے بھیا۔۔۔۔جو عورتیں کام کرنا چاہتی ہیں کسی بھی شعبے میں۔۔۔۔۔ ان کو کام کرنے دیا جانا چاہئے۔۔۔۔بلاوجہ ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔۔۔۔بلکہ عورتیں کیا مردوں کو بھی پرسنل باتیں بول کر تنگ نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔ یہ ہمارت معاشرے کی پستی ہے کہ ہم ایسی باتیں نوٹ کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور ایسی باتوں پر پورے پورے صفحے اخبار میگزینز میں مل جاتے ہیں ۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
میاں بیوی کو اپنا معاملہ خود حل کرنا چاہیے تیسرے کا کیا کام ؟
شوہر انسان ہوتا ہے اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو بیوی کو چاہیے انہیں احسن طریقے سے سمجھائے نہ کہ دوسروں سے ان کی شکایتیں لگائیں

عورت بیوی کے روپ میں مجبور ہوتی ہے بہت جگہ پر۔۔۔۔ شوہر سے زبان نہیں چلانی ہے۔۔۔ شوہر کی بات ماننی ہے۔۔۔ شوہر سے بحث نہ کی جائے چاہے خود بیوی اپنی جگہ پر صحیح ہو۔۔۔۔ شوہر کے ماں باپ حتی کہ پورے سسرال کی خدمت کرنی ہے۔۔۔۔ سب کے ساتھ مل کر رہنا ہے۔۔۔۔

مرد چونکہ باہر کمانے جاتا ہے اور سخت محنت کر کے آتا ہے تو کبھی کبھی آکر غصہ بیوی پر نکالتا ہے۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی کبھی لڑتا ہے۔۔۔۔ ایاے میں بیویاں بری طرح پا جاتی ہیں۔۔۔۔ میری اماں نے اس بات کا خیال رکھا ہوا ہے کہ کہیں بھائی کبھی بلاوجہ بھابھیوں پر غصہ نہ نکالیں۔۔۔ایک ہی گھر میں رہتے ہیں معلوم ہو جاتا ہے کس کی غلطی ہے۔۔۔۔ اور میری اماں ویسے بھی دوسروں کی بیٹیوں کے معاملے میں بہت ڈرتی ہیں۔۔۔۔ اور بھائیوں کی عادات اور مزاجوں سے بھی ہم واقف ہیں ۔۔۔۔ مرد کسی کے رعب میں آئے یا نہ آئے لیکن امنی ماں کی بات ضرور مانتا ہے اور یہی میرے بھائیوں کا ہے۔۔۔۔ وہ بھابھیوں سے تو بد گمان ہو جاتے ہیں اور کئی بار بلاوجہ غصہ کرتے ہیں لیکن ماں جی کے سامنے درست رہتے ہیں اور ان کی ہی سب سے زیادہ بات سنتے ہیں۔۔۔ماں جی کے چیک رکھنے کی وجہ سے بات ہمیشہ چھوٹی ہی رہتی ہے لبھی بڑھتی نہیں ہے،۔۔
 

ہانیہ

محفلین
ایک چیز مجھے بہت تنگ کرتی ہے۔۔۔۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں کتنی ہی گالیاں ایجاد ہوئی ہیں جو عورتوں کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔۔۔۔ ماں کے نام کی گالی لوگ کتنے فخر سے دیتے ہیں پوری دنیا میں۔۔۔۔۔مرد آپس میں لڑیں گے۔۔۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے لیکن بیچ میں ماں آجاتی ہے۔۔۔
 
ایک چیز مجھے بہت تنگ کرتی ہے۔۔۔۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں کتنی ہی گالیاں ایجاد ہوئی ہیں جو عورتوں کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔۔۔۔ ماں کے نام کی گالی لوگ کتنے فخر سے دیتے ہیں پوری دنیا میں۔۔۔۔۔مرد آپس میں لڑیں گے۔۔۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے لیکن بیچ میں ماں آجاتی ہے۔۔۔
گالی تو بہرحال لائق ملامت شے ہے .... سو اس کی نسبت خواہ کسی بھی رشتے سے ہو، ہر صورت میں قابل نفرین ہے.
رہا سوال یہ کہ عومی رواج میں عورتوں سے منسوب ہفوات کیوں بکی جاتیں ہیں ... سو اس کا جواب شاید یہ ہے کہ انسان گالی دیتا ہی کسی کی تحقیر کرنے یا بزعم خود عزت خراب کرنے کے لیے ہے ... چونکہ ہماری معاشرت میں بہن، بیٹی اور ماں کا ناموس بہرحال مردوں سے زیادہ بلند ہوتا ہے، بلکہ یہ رشتے عزت کے استعاروں کے طور پر ہی معروف ہیں ... اس لیے دشنام طرازی کے دوران انسان اپنے تئیں مخالف کی عزت خراب کرنے کے انہیں رشتوں پر حملہ آور ہوتا ہے ... جو کہ بہرحال ایک قابل نفرت سماجی رویہ ہے اور اس کی بلاشبہ ہرممکن طریقے سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے.
واضح رہے کہ یہاں محض اس سماجی رویے کے پس پردہ سوچ کی نشاندہی کی گئی ہے ... ظاہر ہے کہ کوئی ذی شعور اس عمل کی تائید نہیں کر سکتا ... تاہم اس کے تدارک کا طریقہ گالیوں کی مطلق حوصلہ شکنی کرنا ہے ... نہ کہ ماڈرن فیمنزم کے زیر اثر ان گالیوں کے مقابلے پر مردانہ رشتوں پر مبنی گالیوں کو رواج دینا (اور یہ کوئی افسانہ نہیں، بدقسمتی سے راقم کے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہے)
 

ہانیہ

محفلین
آجکل عورتیں شوہر یا بھائی یا باپ نہ ہونے کی وجہ سے کمانے پر مجبور نہیں ہیں صرف۔۔۔۔۔ یہ تو ہمارے پیارے حکمران ہیں ۔۔۔۔ اور اکثریت مرد حکمرانوں کی ہی ہے۔۔۔۔ انھوں نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ سفید پوش طبقے کے لئے اپنا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔۔۔۔ آخر میں عورت کو بھی اب ہاتھ بٹانا پڑتا ہے۔۔۔ چاہے دیہات میں اپنے مردوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا ہو۔۔۔۔ گھروں کی لپائی کرنا ہو۔۔۔یا پھر گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں ہوں یا ۔۔۔۔۔۔ شہروں میں لیڈی ڈاکٹرز ہوں یا ٹیچرز یا کوئی بھی۔۔۔۔ پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں عورتیں کام کرتی ہیں۔۔۔۔ اور وہ اسلئے کرتی ہیں کہ مردوں کی کمائی میں بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں۔۔۔۔ اور وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔۔۔۔ اس میں ان کے گھر کے مردوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔ کیونکہ وہ تو بیچارے جو کما رہے ہیں ان کو جو مل رہا ہے جو مواقع میسر ہیں اس ملک میں ۔۔۔۔ وہ گھر لا کر پورا دے دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اس ملک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ آمدنی ہے ہی کم ہر شعبے میں۔۔
کامیاب تو زیادہ تر وہی ہیں جو غلط کام کرتے ہیں۔۔۔ جو ایماندار ہیں وہ تو بس تکلیف ہی اٹھائیں گے۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top