یوں

عیشل

محفلین
پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیئے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا
 

عیشل

محفلین
یوں کہ عبارت کی زباں اور ہے کوئی
کاغذ میری تقدیر کا سادہ بھی نہیں ہے
کس موڑ پہ لے آیا ہمیں ہجر مسلمل
تا حد ِ نگاہ وصل کا وعدہ بھی نہیں ہے​
 

عمر سیف

محفلین
ہم اپنے آپ میں‌ یوں گُم ہوئے ہیں مدت سے
ہمیں تو جیسے کسی کا بھی انتظار نہیں
کسی کو ٹوٹ کر چاہیں یا چاہ کر ٹوٹیں
ہمارے پاس تو اتنا بھی اختیار نہیں
 

عیشل

محفلین
کبھی یوں بھی ہو تیرے روبرو میں نظر ملا کے یہ کہہ سکوں
میری حسرتوں کو شمار کر میری خواہشوں کا حساب دے
یہ جو خواہشوں کا پرند ہے اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اڑے گا اپنی ہی موج میں اسے آب دے کہ سراب دے
 

شمشاد

لائبریرین
خدا جانے رہِ الفت میں یوں ہوتا تو کیا ہوتا!
ک۔ہ آنکھیں بند ہوتیں اور تی۔را س۔امنا ہ۔۔وت۔ا
(سرور)
 

ہما

محفلین
کبھی یوں بھی تو ہو
دریا کا ساحل ہو
پورے چاند کی رات ہو
اور تُم آؤ

کبھی یوں بھی ہو
پریوں کی محفل ہو
کوئی بات تُمہاری ہو
اور تُم آؤ
 
Top