پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیئے ہوئے غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا