یوں

عیشل

محفلین
سارہ خان نے کہا:
عیشل نے کہا:
ہم تو وہ لوگ ہیں جو
نہ کسی کے دستِ شمار میں ہیں
نہ کسی کی نگاہ کے حصار میں ہیں
یوں
جیسے کوئی ہو صدیوں کا بے انت سفر
صحرا صحرا پھرتا کوئی خاک بسر
کیا پوچھتے ہو کہ ہم کون ہیں
ہم تو جگنو بھی نہیں ہیں
کہ کسی کی آنکھ میں چمکتے
کسی کو سنوارتے
ہم تو آنسو کی طرح ہیں
آنکھ سے ٹپکے اور ڈوب گئے
محبت کی آس میں
گھر سے نکلے اور بے سمت مسافت میں
در بدر پھرتے ہوئے
کسی بے نام شام کی نذر ہوئے۔۔۔۔

بہت خوب ۔۔۔

شکریہ
 

عیشل

محفلین
ضبط نے کہا:
عیشل نے کہا:
ہم تو وہ لوگ ہیں جو
نہ کسی کے دستِ شمار میں ہیں
نہ کسی کی نگاہ کے حصار میں ہیں
یوں
جیسے کوئی ہو صدیوں کا بے انت سفر
صحرا صحرا پھرتا کوئی خاک بسر
کیا پوچھتے ہو کہ ہم کون ہیں
ہم تو جگنو بھی نہیں ہیں
کہ کسی کی آنکھ میں چمکتے
کسی کو سنوارتے
ہم تو آنسو کی طرح ہیں
آنکھ سے ٹپکے اور ڈوب گئے
محبت کی آس میں
گھر سے نکلے اور بے سمت مسافت میں
در بدر پھرتے ہوئے
کسی بے نام شام کی نذر ہوئے۔۔۔۔
خوب۔!!
شکریہ
 

سارہ خان

محفلین
یوں اُداس اُداس پِھرنا، یہ کسی سے کچھ نہ کہنا
یوں بے سبب نہیں ہے، کوئی حادثہ تو ہو گا
 

سارہ خان

محفلین
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

(ناصر کاظمی)

 

عیشل

محفلین
یہ کشش تھی میرے خیال کی جو یوں تھم گئے ہیں تیرے قدم
یہ تیری ادائے دلبری میری چاہتوں کی اسیر ہے
 

شمشاد

لائبریرین
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وارکے
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
جوں اعتماد نامہ و خط کا ہو مہر سے
یوں عاشقوں میں ہے سببِ اعتبار داغ
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
مہر بجائے نامہ لگائی بر لبِ پیکِ نامہ رساں
قاتلِ تمکیں سنج نے یوں خاموشی کا پیغام کیا
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
سدِّ اسکندر ہو از بہرِ نگاہِ گُل رخاں
گر کرے یوں امر نہئیِ بو تراب آئینے پر
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
برگِ گل کا ہو جو طرفانِ ہوا میں عالم
اُس کے جولاں میں نظر آئے ہے یوں دامنِ دیں
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
کبھی نہ امتحاں لینا یوں پیار میں سچوں کا
محبت نے جھکایا ہے سر اچھے اچھوں کا
 
Top