الف نظامی

لائبریرین
حضرت نظام الدین اولیاء کے حوالے سے تاریخ فیروز شاہی میں ضیا الدین برنی نے لکھا ہے کہ کیفیت یہ ہوگئی تھی کہ لوگ مضافات سے حضرت کے دیدار کے لیے آتے تھے تو لوگوں نے راستے میں جگہ جگہ چھپر ڈلوا دیے تھے اور وضو کے لیے لوٹے رکھوا دیے تھے۔ مصلے بچھوا دیے تھے تا کہ وہ نماز ادا کریں اور لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھتے تھے کہ بھائی فلاں نماز میں حضرت صاحب کون سی سورہ پڑھتے ہیں اور فلاں نماز میں کون سی سورہ پڑھتے ہیں۔ شام کو کیا ورد ہوتا ہے اور صبح کو کیا ورد ہوتا ہے اور اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ کون کون سے گناہ سے بچیں۔

تو صاحب اگر آپ کرامات کے قائل نہیں ہیں، تب بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسانوں کے قلوب کو نیکی فلاح کی طرف راغب کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ بزرگ علمی و ادبی اعتبار سے ایک بڑے دبستاں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک بہت بڑا ادارہ ایک بہت بڑا Institution تھے۔ دبستان نظام کا پہلا باب جو ہے، وہ حضرت سلطان جی رحمتہ اللہ علیہ کی معلومات کی گہرائی ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اتنا حاضر علم تھا کہ کسی نے قرآن مجید کی کسی آیت کا کوئی لفظ منہ سے نکالا تو آپ نے وہ آیت پڑھ دی۔ کسی نے کسی حدیث کا تذکرہ چھیڑا تو آپ نے اُس حدیث کی روایت بیان کر دی۔ کسی نے کسی شعر کا مصرع پڑھا تو آپ نے پورا شعرپڑھ دیا۔ تو یہ چیز جو ہے یہ برجستگی اور تیزی یہ حافظہ یہ یادداشت، اس پہ قربان جانے کو دل چاہتا ہے۔
( ڈاکٹر اسلم فرخی رحمۃ اللہ علیہ )
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جو لوگ علماء اور صوفیاء میں تفریق کرتے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ صوفی کے لیے علومِ متداولہ کی تحصیل ضروری ہوتی ہے۔ یعنی تصوف کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے علومِ متداولہ کی سرحد کو پار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے اکثر مشائخ کا علمی مرتبہ بہت بلند تھا۔ اُن کا قول تھا کہ بے علم صوفی شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے۔ چناچہ حضرت شیخ الاسلام فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ابتدائے احوال میں جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے دستِ بیعت ہو کر اُن کے ہمراہ دہلی چلنے لگے تو انہوں نے آپ کو لے جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا پہلے علم حاصل کرو پھر میرے پاس آو۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الہی قرآن مجید کے علاوہ صحاح ستہ کے بھی حافظ تھے اور ان کو ہندوستان کے اڑھائی سو جید علماء نے شیخ الاسلام کے عہدے کے لیے منتخب کیا تھا۔ گویا جب ہم کسی صوفی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ عالم پہلے ہوتا ہے اور صوفی بعد میں۔

(بحوالہ: صوفیا کا علمی مرتبہ ،مشمولہ از کتاب خانقاہی نظام از مولانا نور احمد خان فریدی ، صفحہ 17)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ذکر و شغل کے علاوہ ضروریات دین کی تعلیم کا حصول بھی خانقاہ کے مقاصد میں شامل ہے۔ یعنی عقائد کی درستی، روز مرہ ادا کی جانے والی عبادات جیسے فرض، واجب، سنتیں، نماز اور اذان و اقامت کی درست ادائیگی، نمازِ جنازہ کا طریقہ، آدابِِ معاشرت یعنی لوگوں کے درمیان رہنے سہنے کے طریقے، معاملات یعنی لین دین کے طریقے، اخلاق یعنی باطنی امراض دور کرنے کے طریقے جیسے حسد، غیبت، بدنظری، جھوٹ، دھوکہ دہی وغیرہ۔ اور قرآن پاک کی درست تجوید۔
خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کراچی کے مولانا حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جب ان کے شیخ نے کہا کہ آپ کی قرآن پاک کی تجوید اچھی تو ہے مگر اسے مزید اعلیٰ کرنے کے لیے کسی قاری صاحب کی زیر نگرانی مشق کریں ۔ بس پھر دنیا نے دیکھا کہ اپنے وقت کا عالم، دنیا بھر کے مشائخ کا شیخ، پیر طریقت، عارف باللہ کس طرح اپنے شیخ کے ایک حکم پر ساری دنیا سے بے پرواہ ناظرہ کی جماعت میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے درمیان بیٹھا قرآن پاک درست کر رہا ہے۔۔۔
ایں چنیں شیخِ گدائے کوبکو
عشق آمد لاابالی فاتقوا
ڈرو اس لا اُبالی عشق سے، جب اس کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے تو خداکی محبت میں بڑے سے بڑے شیخ کو اپنے مرشد کی جوتیاں سر پہ رکھ کر گلی گلی پھرا دیتا ہے۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اب تک آپ نے بار بار ذکر کے ساتھ شغل کا استعمال سنا۔ تو یہ شغل کیا ہے؟ شغل سے مراد کچھ مراقبے ہیں جو ہر شیخ مرید کے لحاظ سے الگ الگ بتاتا ہے۔ ان اشغال کا مقصد محض توجہ میں یکسوئی حاصل کرنا ہے۔ توجہ کی اس یکسوئی سے حق تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے میں رُسوخ حاصل ہوتا ہے۔ جب توجہ میں رُسوخ حاصل ہوجاتا ہے پھر چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رہتی ہے۔ عبادات میں دل لگتا ہے اور گناہ کرنے کے خیال سے دل لرزنے لگتا ہے ۔لیکن توجہ میں یہ رُسوخ وہ نسبتِ کاملہ نہیں جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔ کیونکہ یہ توجہ آپ کی طرف سےہے اور نسبت کی توجہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لہٰذا ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
کثرتِ ذکر و شغل سے سالکین کو بعض اوقات کیا اکثر اوقات مختلف احوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی نورانی مخلوق نظر آتی ہیں تو کبھی رنگ و نور ، کبھی خوشبو اور کبھی مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کبھی عبادات میں بہت دل لگتا ہے کبھی بالکل اندھیرا چھا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب شیخ کی رہنمائی کے سوا چارہ نہیں۔
شیخ نہ ہو تو مرید یا تو بے کیفی کے دورانیہ سے مایوس ہوکر ہمت ہار بیٹھتا ہے اور سب کچھ چھوڑ دیتا ہے یا ان انوار و کیفیات کو ہی سب کچھ سمجھ کر خوش ہوجاتا ہے اور اسی پر بس کردیتا ہے۔ اس بے کیفی کو روحانی قبض اور سرمستی کے عالم کو روحانی بسط کہتے ہیں۔ عام بول چال میں صرف قبض اور بسط کہا جاتا ہے۔ اب مرشد بتاتا ہے کہ کون سی کیفیت محمود یعنی اچھی ہے، کون سی غیر محمود یعنی غیر ضروری۔ وہی سمجھاتا ہے کہ یہ مقام رُکنے والا نہیں ہے۔ جیسے انگور حاصل کرنا ہے تو انگور کی بیل کے پتے کو منزل سمجھ کر رک نہ جاؤ ، ابھی آگے بڑھنا ہے، رس بھرے شیریں انگور تک پہنچنا ہے۔
اسی طرح یہ کیفیات و انوار محمود تو ہیں کہ ان سے سالک کے دل میں عبادات کرنے کا ذوق و شوق بڑھ جاتا ہے مگریہ مقصود نہیں ہیں، کیونکہ یہ اللہ نہیں ہیں۔ اللہ کو حاصل کرنا ہے تو ان کیفیات پر نظر نہیں کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر شیخ اگر مناسب سمجھتا ہے تو ذکر کم کروا کے یہ تمام کیفیات ختم کروا دیتا ہے۔ اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ راستہ پر ڈال دیتا ہے۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اسی لیے مرشد سے محبت اور اس سے حسنِ ظن راہِ طریقت کی تمام مہمات کی کنجی ہے۔ جب تک مرید شیخ کو کچھ سمجھے گا نہیں اس سے سیکھے گا کیا اور اس پر عمل کیا کرے گا۔ تصوف کی اصطلاح فنا فی الشیخ سے بس یہی مراد ہے کہ شیخ سے حسن ظن رکھتے ہوئے اس کی ہدایات پر دل و جان سے عمل کرے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر وہ محبت جو اللہ کے لیے ہو حُب فی اللہ میں داخل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اسے اپنی محبت میں ہی داخل کرتے ہیں جیسے بیوی بچوں کی محبت، والدین کی محبت، بہن بھائیوں کی محبت، اللہ کے لیے نیک لوگوں کی محبت۔ اور نیک لوگوں سے محبت میں شیخ کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے کیونکہ شیخ سے محبت اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔ اللہ کی محبت کا حصول اتباع شیخ کےبغیر ناممکنات میں سے۔ احادیث مبارک میں اللہ والوں سے محبت کی فضیلت بھی ہے، ترغیب بھی اور دعا بھی:

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ
(ترمذی، ابواب الدعوات)
اے خدا! مجھے اپنی محبت بھی دے اور اپنے عاشقوں کی محبت بھی دے اور ان اعمال کی محبت بھی دے جن سے تیرے عشق و محبت کی دولت ملتی ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث پاک میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ والوں کی محبت اس لیے مانگی کیونکہ اللہ والوں کی محبت ایسی چیز ہے جو خدا کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان رابطہ قائم کردیتی ہے۔ یعنی اہل اللہ کی محبت و صحبت سے اعمال کرنا آسان ہوجاتے ہیں اور ان اعمال کی بدولت اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوجاتی ہے۔
(جاری ہے)
 

الف نظامی

لائبریرین
تمام نظری علوم قولی ہیں مگر جسے حرفت یا صناعی کہتے ہیں وہ محض سننے یا پڑھنے سے نہیں آتی یہ کرنے سے ہوتی ہے۔ فن زرگری کی کتاب پڑھنے سے کوئی زرگر نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے عمل مسلسل کی ضرورت ہے۔ لیکن جس کو درویشی یا فقر کہتے ہیں اور جس کا مقصد تنویر و تزکیہ باطن ہے اس میں اصل فیضان کسی اہل دل کی صحبت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کو علم بھی حاصل ہو اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوں مگر کسی برگزیدہ روحانی انسان کی صحبت اسے نصیب نہ ہوئی ہو تو اسے فقر کا کوئی اعلی درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔اگر علم و عمل و صحبت اولیاء تینوں چیزیں میسر آ جائیں تو زہے قسمت۔
فیضان صحبت سے جب انشراح صدر ہوتا ہے تو خود انسان کےاندر سے آب حیات کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے۔

بحوالہ:
رین بسیرا ، الطاف سویرا
ابوالوفا حضرت صدیق احمد سیدوی رحمۃ اللہ علیہ کے خطوط و مضامین کا مجموعہ
ترتیب و تحقیق: لیفٹیننٹ کرنل الطاف محمود ہاشمی ، صفحہ 271
 

الف نظامی

لائبریرین
جو لوگ علماء اور صوفیاء میں تفریق کرتے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ صوفی کے لیے علومِ متداولہ کی تحصیل ضروری ہوتی ہے۔ یعنی تصوف کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے علومِ متداولہ کی سرحد کو پار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے اکثر مشائخ کا علمی مرتبہ بہت بلند تھا۔ اُن کا قول تھا کہ بے علم صوفی شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے۔ چناچہ حضرت شیخ الاسلام فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ابتدائے احوال میں جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے دستِ بیعت ہو کر اُن کے ہمراہ دہلی چلنے لگے تو انہوں نے آپ کو لے جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا پہلے علم حاصل کرو پھر میرے پاس آو۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الہی قرآن مجید کے علاوہ صحاح ستہ کے بھی حافظ تھے اور ان کو ہندوستان کے اڑھائی سو جید علماء نے شیخ الاسلام کے عہدے کے لیے منتخب کیا تھا۔ گویا جب ہم کسی صوفی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ عالم پہلے ہوتا ہے اور صوفی بعد میں۔

(بحوالہ: صوفیا کا علمی مرتبہ ،مشمولہ از کتاب خانقاہی نظام از مولانا نور احمد خان فریدی ، صفحہ 17)
شاہ ابو الخیر فرماتے ہیں:
ہم نے مسند امام احمد کا مطالعہ از اول تا آخر پانچ مرتبہ کیا ہے۔
طبقات ابن سعد کا سات مرتبہ مطالعہ اور امام بخاری کی صحیح بارہ مرتبہ مطالعہ کر چکے ہیں۔
(بحوالہ: مقاماتِ خیر از ابو الحسن زید فاروقی صفحہ 353)
 

سید عمران

محفلین
اللہ کے لیے کسی سے محبت کرنا جن میں اہل اللہ مشائخ خصوصیت سے شامل ہیں، ان کے بارے میں حدیث ہے:
لاَ يَجِدُ أَحَدٌ حَلاَوَةَ الاِيمَانِ حَتّٰى يُحِبَّ المَرْءَ لاَ يُحِبُّہُ إِلَّا للہ
(‌صحيح البخاری، حدیث 6041)
کوئی شخص ایمان کی حلاوت ( مٹھاس ) اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک وہ کسی شخص سے محبت کرے توصرف اللہ کے لیے کرے۔

مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں ملا علی قاری حلاوتِ ایمانی کی شرح یوں فرماتے ہیں:
وَقَدْ وَرَدَ اَنَّ حَلاَوَۃَ الْاِیْمَانِ اِذَا دَخَلَتْ قَلْبًا لَاتَخْرُجُ مِنْہُ اَبَدًا فِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلٰی بَشَارَۃِ حُسْنِ الْخَاتِمَۃِ
اللہ تعالیٰ جس قلب کو ایک بار ایمان کی مٹھاس دیتے ہیں پھرکبھی واپس نہیں لیتے۔ اس حدیث میں اشارہ ہوگیا کہ جس کو حلاوتِ ایمانی مل گئی اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔
ایک اور حدیث پاک ہے:
إِنَّ اللهَ تَعَالَی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَيْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِی؟ اَلْیَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِی ظِلِّی، یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّی
(اخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : فی فضل الحب فی اللہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے آج کہاں ہیں کہ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں، کیونکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔
اہل اللہ سے تعلق کے بارے میں مشکوٰۃ کی عربی شرح مرقاۃ کے شارح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِ اَؤْلِیَائِہٖ بِاللُّطْفِ وَالْکَرَمِ فَمَنْ کَانَتْ مَحَبَّتُہٗ فِیْ قُلُوْبِہِمْ یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ بِاللُّطْفِ وَالْکَرَمِ
جو اللہ کے کسی ولی سے دوستی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے اولیاء کے قلوب کو ہر وقت لطف و کرم سے دیکھتے ہیں۔تو جن جن کی محبت ان اللہ والوں کے دلوں میں ہوتی ہے اللہ کا کرم ان پر بھی ہوجاتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ وہ بھی ولی اللہ ہوجاتا ہے ؎
تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
تو خانقاہ کا اصل مقصد معلوم ہوگیا کہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کے طریقے سیکھانا جن میں صحبتِ شیخ، ذکر و شغل اور صفائی قلب و تزکیہ نفس سر فہرست ہیں۔ صفائی قلب و تزکیہ نفس کا حصول ذکر و شغل اور باطنی امراض دور کرنے سے ہوتا ہے۔ ذکر و شغل کے بارے میں تو کچھ بیان ہوگیا۔ اب دیکھتے ہیں باطنی امراض سے چھٹکارہ پانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ عشق کی یہ دولت یونہی نہیں مل جاتی ؎
عشق را صد ناز و استکبار ہست
عشق با صد ناز می آید بدست
عشق کے ہزارہا ناز و نخرے ہیں۔ یہ ہزاروں ناز نخرے اٹھوانے کے بعد ہاتھ آتا ہے ؎
اے ترا خارے بپا نہ شکستہ کے دانی کہ چیست
حالِ شیرانے کہ شمشیرِ بلا بر سر خورند
اے دنیا والو! تم کیا جانو اللہ والوں کے مجاہدات کو۔ تمہارے پیر میں تو کبھی خدا کے لیے کانٹا تک نہیں چبھا۔ تم کیا جانو ان اللہ والے شیروں کا حال جو ہر وقت اللہ کے حکم کی تلوار کھاتے رہتے ہیں جس کی بدولت ان کے دلوں میں دریائے خوں رواں رہتا ہے۔
خواجہ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ آپ کے دل میں یہ جو خدا کی محبت مؤجزن ہے اس کا کچھ حصہ مجھےبھی دے دیں۔ تو خواجہ صاحب نے فرمایا ؎
مے یہ ملی نہیں ہے یوں قلب و جگر ہوئے ہیں خوں
کیوں میں کسی کو مفت دوں مے مری مفت کی نہیں
یہ دولت یوں ہی مفت میں نہیں ملتی۔ پہلے رگڑے کھاؤ، نفس کو مٹاؤ ، پھر دل دل بنے گا۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل
حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ اللہ کا تعلق اگر آسانی سے مل جاتا تو لوگ آسانی سے بیچ بھی دیتے۔ دنیا کے عوض بِک جاتے، اس لیے اللہ تعالیٰ مجاہدات کراکے ملتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا
حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ہماری راہ میں مشقت اُٹھاتے ہیں۔ ہم ان کے لیے اپنی بارگاہ تک رسائی کے بے شمار دروازے کھول دیتے ہیں۔
جو نعمت مشقت سے ملتی ہے اس کی قدر ہوتی ہے لیکن مشقت کا انعام بھی تو عظیم ہے۔ خواجہ مجذوب صاحب فرماتے ہیں ؎
پہنچنے میں ہوگی مشقت جو بے حد
تو راحت بھی کیا انتہائی نہ ہوگی
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
صحیح سمت میں سفر طے کرنے اور صحیح مرشد کی رہنمائی کے طفیل کچھ عرصہ مجاہدات کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو محروم نہیں رکھتے کیونکہ اپنے پاس آنے کا راستہ طے کرنے کا حکم وہ خود دے رہے ہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ:

وسارعوا الى مغفرة من ربكم
تیزی سے لپکو اپنے رب کی طرف ۔

اور کہیں ارشاد ہوتا ہے:

سابقوا الى مغفرة من ربكم
ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی طرف۔

تو کہیں فرمایا جاتا ہے:
فَفِرُّوا اِلَى اللّٰہ
بھاگو اپنے رب کی طرف۔

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ آرام سے، سستی سے میری طرف چلو بلکہ ساری رکاوٹیں پھلانگ کر تیزی سے اپنی طرف آنے کو کہا ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات لامتناہی ہے لہٰذا ان کا راستہ بھی لامتناہی ہے۔ اس لیے کوئی بھی خود سے ان تک نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ خود ہی لپک کر بندہ تک آتے ہیں۔ جیسے چھوٹا بچہ جب لرزتے کانپتے چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے گرنے سے پہلے ہی باپ لپک کر اسے اپنی آغوش میں اٹھا لیتا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ چند دن بندہ کی کوشش اور شوق دیکھتے ہیں پھر خود ہی آگے بڑھ کر اسے تھام لیتے ہیں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
حدیث پاک میں آتا ہے:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف دو ہاتھ بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں ۔‘۱؎
اللہ کا راستہ طے کرنے کے لیے مولانا رومی یوں ترغیب دیتے ہیں ؎
اے کہ صبرت نیست از فرزند وزن
صبر چوں داری ز رب ذوالمنن
تم کو اپنے بیوی بچوں پر صبر نہیں آتا اور جس مولیٰ نے تم کو پیدا کیا اس کی جدائی پر صبر کرتے ہو۔ اسے حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ذرا سی دیر کی مشقت ہمیشہ کی راحت ہے۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
نیم جاں بستاند و صد جاں دہد
آنچہ در و ہمت نیاید آں دہد
تم اللہ کو اپنی آدھی جان دے دو۔ بدلہ میں تمہیں ایسی سینکڑوں جانیں دیں گے جن کے بارے میں تم نے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ سوچا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سالک اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے راہِ طریقِ عشقِ الٰہی میں قدم رکھتا ہے اور ہر امتحان میں سرخ روئی کے لیے اپنا سر خم کردیتا ہے؎
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
جو لوگ اللہ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کیے رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ عالمِ غیب سے ان کی جان پر بے شمار جان برستی ہے۔
اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنا عمدہ شعر فرمایا کہ خدا کب ملتا ہے؟ جب دنیا کے چاندوں کو چھوڑو گے تو اللہ کا چاند مل جائے گا، کتنا پیارا شعر ہے ؎
میں نے لیا ہے دردِ دل کھو کے بہارِ زندگی
ایک گلِ تر کے واسطے میں نے چمن لُٹا دیا
ہم نے دنیا کی ساری بہاریں کھو کر دل میں اللہ کی محبت کا درد لیا ہے۔ اس ایک گُل یعنی خدا کے لیے ہم دنیا کا سارا چمن لُٹا دیا۔ ساری دنیا لُٹا کر خدا کی دائمی محبت مل جائے تو سودا سستا ہے؎
توڑ ڈالے مہہ و خورشید ہزاروں ہم نے
تب کہیں جاکے دکھایا رخِ زیبا تم نے
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل قَالَ : إِذَا تَلَقَّانِی عَبْدِی بِشِبْرٍ، تَلَقَّيْتُہُ بِذِرَاعٍ۔ وَإِذَا تَلَقَّانِی بِذِرَاعٍ، تَلَقَّيْتُہُ بِبَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِی بِبَاعٍ، جِئْتُہُ أَتَيْتُہُ بِأَسْرَعَ۔ (اخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب الحث علی ذکر الله تعالی، 4؍2061، الرقم : 2675)
 
Top