الف نظامی
لائبریرین
حضرت نظام الدین اولیاء کے حوالے سے تاریخ فیروز شاہی میں ضیا الدین برنی نے لکھا ہے کہ کیفیت یہ ہوگئی تھی کہ لوگ مضافات سے حضرت کے دیدار کے لیے آتے تھے تو لوگوں نے راستے میں جگہ جگہ چھپر ڈلوا دیے تھے اور وضو کے لیے لوٹے رکھوا دیے تھے۔ مصلے بچھوا دیے تھے تا کہ وہ نماز ادا کریں اور لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھتے تھے کہ بھائی فلاں نماز میں حضرت صاحب کون سی سورہ پڑھتے ہیں اور فلاں نماز میں کون سی سورہ پڑھتے ہیں۔ شام کو کیا ورد ہوتا ہے اور صبح کو کیا ورد ہوتا ہے اور اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ کون کون سے گناہ سے بچیں۔
تو صاحب اگر آپ کرامات کے قائل نہیں ہیں، تب بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسانوں کے قلوب کو نیکی فلاح کی طرف راغب کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ بزرگ علمی و ادبی اعتبار سے ایک بڑے دبستاں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک بہت بڑا ادارہ ایک بہت بڑا Institution تھے۔ دبستان نظام کا پہلا باب جو ہے، وہ حضرت سلطان جی رحمتہ اللہ علیہ کی معلومات کی گہرائی ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اتنا حاضر علم تھا کہ کسی نے قرآن مجید کی کسی آیت کا کوئی لفظ منہ سے نکالا تو آپ نے وہ آیت پڑھ دی۔ کسی نے کسی حدیث کا تذکرہ چھیڑا تو آپ نے اُس حدیث کی روایت بیان کر دی۔ کسی نے کسی شعر کا مصرع پڑھا تو آپ نے پورا شعرپڑھ دیا۔ تو یہ چیز جو ہے یہ برجستگی اور تیزی یہ حافظہ یہ یادداشت، اس پہ قربان جانے کو دل چاہتا ہے۔
( ڈاکٹر اسلم فرخی رحمۃ اللہ علیہ )
تو صاحب اگر آپ کرامات کے قائل نہیں ہیں، تب بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسانوں کے قلوب کو نیکی فلاح کی طرف راغب کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ بزرگ علمی و ادبی اعتبار سے ایک بڑے دبستاں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک بہت بڑا ادارہ ایک بہت بڑا Institution تھے۔ دبستان نظام کا پہلا باب جو ہے، وہ حضرت سلطان جی رحمتہ اللہ علیہ کی معلومات کی گہرائی ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اتنا حاضر علم تھا کہ کسی نے قرآن مجید کی کسی آیت کا کوئی لفظ منہ سے نکالا تو آپ نے وہ آیت پڑھ دی۔ کسی نے کسی حدیث کا تذکرہ چھیڑا تو آپ نے اُس حدیث کی روایت بیان کر دی۔ کسی نے کسی شعر کا مصرع پڑھا تو آپ نے پورا شعرپڑھ دیا۔ تو یہ چیز جو ہے یہ برجستگی اور تیزی یہ حافظہ یہ یادداشت، اس پہ قربان جانے کو دل چاہتا ہے۔
( ڈاکٹر اسلم فرخی رحمۃ اللہ علیہ )
آخری تدوین: