سید عمران

محفلین
اکثر مرید اپنے پیر سے محبت یا تعلق یا دیگر وجوہات کی بنا پر اسے چھوڑنے میں ہچکچاتے ہیں یا غلط تاویلیں کرتے ہیں مثلاً پیر جانے خدا جانے، ہمارے ذمہ پیر کی اصلاح نہیں یا صرف ہمارا پیر ہی غلط نہیں کررہا سب لوگ ہی ایسا کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ مرید اپنے غلط پیر کو نہ چھوڑنے کے لیے ایک واقعہ بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:
’’ایک ڈاکو بوڑھا ہو گیا، کسی کام کا نہ رہا تو ایک گاؤں کے قریب جنگل میں جا کر بیٹھ گیا، اور جہاں کسی کو آتے دیکھتا کوئی نہ کوئی عبادت شروع کردیتا۔ کچھ لوگ متاثر ہوکر اس سے بیعت ہوگئے۔ جعلی پیر نے انہیں خوب ذکر بتادئیے جن کی برکت سے وہ لوگ منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ اب انہوں نے مشورہ کیا کہ حضرت کا مقام دیکھتے ہیں کس مرتبہ کا ہے۔ خوب مراقبہ کیا مگر مقام ہوتا تو نظر آتا۔ آخر مرشد کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نے خوب کوشش کی مگر آپ کے مقام کا پتہ نہ چلا۔ پیر صاحب نے جواب دیا بھائیو میں ایک ڈاکو تھا، بڑھاپے میں کچھ نہ ہوسکا تو پیری مریدی کا یہ پیشہ بہت آسان لگا۔ باقی درویشی کے فن سے مجھے کچھ مناسبت نہیں۔ تم محض حسن عقیدت کی بنا پر اس مرتبہ کو پہنچ گئے۔‘‘
اس واقعہ کی نہ کوئی سند ہے نہ حوالہ کہ سچا ہے یا محض ایک حکایت، ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اب ناسمجھ لوگ اپنے غلط پیر سے ترک تعلق نہ کرنے کے لیے اس واقعہ کو دلیل بنانے لگے ہیں کہ جب ڈاکو کے مرید اللہ والے ہوگئے تو ہم بھی غلط پیر کرنے کے باوجود منزل تک پہنچ جائیں گے۔
مستند روایات سے ثابت ہے کہ آج تک تمام اولیاء کرام ایسے متبع شریعت و سنت پیر کے علاوہ جس کا کوئی نہ کوئی سلسلہ تھا جو حضور اقدس تک پہنچتا تھا، کسی اور راہ سے ولی کامل نہیں ہوئے۔
اگر اس واقعہ کو دلیل بنا لیا گیا تو سچے اللہ والوں اور جعلی پیروں میں فرق ہی ختم ہوجائے گا۔
لہٰذا لوگوں کے نفوس کی شرارت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہوگیا کہ اب اس واقعہ کو بیان کرنا بالکل ترک کردیا جائے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
یاد رکھیے اگر آپ نے خدا کے حصول کے لیے پیر کیا ہے تو ان حیلوں بہانوں سے آپ کے ہاتھ خدا کی محبت و نسبت تو کیا آئے گی دین کے نام پر غلط باتیں سیکھ کر یا ایسے کم دینوں کا ساتھ دے کر جنت بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے؎
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
کبھی کبھی شیطان جعلی پیروں کی شکل میں بھی ہوتا ہے۔ پس ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے سے بچو۔
نقلی پیر چھوڑنے کے متعلق ایک بہانہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دوسرا پیر کہاں سے ملے گا جو ان خامیوں سے پاک ہو. تو مولانا رومی فرماتے ہیں؎
در تگِ دریا گُہر با سنگ ہاست
فخرہا اندر میانِ ننگ ہاست
دریا کی گہرائی میں پتھروں کے درمیان ہی کہیں موتی چھپا ہوتا ہے۔ اسی طرح راہزنوں اور جعلی پیروں کے درمیان تلاش کرنے سے اصلی اللہ والے بھی مل جاتے ہیں۔
اسی کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کا کوئی بندہ ایسا نہیں جو اللہ کی تلاش میں نکلے اور اسے خدا نہ ملے۔
تو اللہ کی محبت کے لیے کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرنے سے قبل پیروں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ اصلی اللہ والا ہے یا نہیں. یا بعد میں علم ہو کہ اس کی حالت شریعت و سنت کے مطابق نہیں تو علم ہونے پر اسے چھوڑنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ کی جائے۔ یہ ترکِ تعلق بھی مرید پر شیخ کے حقوق میں شامل ہے۔ کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والے کی اتباع نہ کرنا شرعاً فرض ہے۔
مرید پر شیخ کے صرف یہی حقوق نہیں ہیں کہ اس سے نیک گمان رکھتے ہوئے اس کی اتباع کرے بلکہ شریعت کے معاملہ میں ہر وقت چوکنا بھی رہے۔ اگر مرید دیکھے کہ شیخ بدعقیدہ، بد عمل ہو رہا ہے، راہ تقویٰ و سنت چھوڑ رہا ہے تو مرید اسے چھوڑ دے۔ یہ بھی مرید پر شرعاً فرض ہے۔
(جاری ہے)
 
Top