سید عمران

محفلین
اکثر مرید اپنے پیر سے محبت یا تعلق یا دیگر وجوہات کی بنا پر اسے چھوڑنے میں ہچکچاتے ہیں یا غلط تاویلیں کرتے ہیں مثلاً پیر جانے خدا جانے، ہمارے ذمہ پیر کی اصلاح نہیں یا صرف ہمارا پیر ہی غلط نہیں کررہا سب لوگ ہی ایسا کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ مرید اپنے غلط پیر کو نہ چھوڑنے کے لیے ایک واقعہ بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:
’’ایک ڈاکو بوڑھا ہو گیا، کسی کام کا نہ رہا تو ایک گاؤں کے قریب جنگل میں جا کر بیٹھ گیا، اور جہاں کسی کو آتے دیکھتا کوئی نہ کوئی عبادت شروع کردیتا۔ کچھ لوگ متاثر ہوکر اس سے بیعت ہوگئے۔ جعلی پیر نے انہیں خوب ذکر بتادئیے جن کی برکت سے وہ لوگ منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ اب انہوں نے مشورہ کیا کہ حضرت کا مقام دیکھتے ہیں کس مرتبہ کا ہے۔ خوب مراقبہ کیا مگر مقام ہوتا تو نظر آتا۔ آخر مرشد کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نے خوب کوشش کی مگر آپ کے مقام کا پتہ نہ چلا۔ پیر صاحب نے جواب دیا بھائیو میں ایک ڈاکو تھا، بڑھاپے میں کچھ نہ ہوسکا تو پیری مریدی کا یہ پیشہ بہت آسان لگا۔ باقی درویشی کے فن سے مجھے کچھ مناسبت نہیں۔ تم محض حسن عقیدت کی بنا پر اس مرتبہ کو پہنچ گئے۔‘‘
اس واقعہ کی نہ کوئی سند ہے نہ حوالہ کہ سچا ہے یا محض ایک حکایت، ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اب ناسمجھ لوگ اپنے غلط پیر سے ترک تعلق نہ کرنے کے لیے اس واقعہ کو دلیل بنانے لگے ہیں کہ جب ڈاکو کے مرید اللہ والے ہوگئے تو ہم بھی غلط پیر کرنے کے باوجود منزل تک پہنچ جائیں گے۔
مستند روایات سے ثابت ہے کہ آج تک تمام اولیاء کرام ایسے متبع شریعت و سنت پیر کے علاوہ جس کا کوئی نہ کوئی سلسلہ تھا جو حضور اقدس تک پہنچتا تھا، کسی اور راہ سے ولی کامل نہیں ہوئے۔
اگر اس واقعہ کو دلیل بنا لیا گیا تو سچے اللہ والوں اور جعلی پیروں میں فرق ہی ختم ہوجائے گا۔
لہٰذا لوگوں کے نفوس کی شرارت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہوگیا کہ اب اس واقعہ کو بیان کرنا بالکل ترک کردیا جائے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
یاد رکھیے اگر آپ نے خدا کے حصول کے لیے پیر کیا ہے تو ان حیلوں بہانوں سے آپ کے ہاتھ خدا کی محبت و نسبت تو کیا آئے گی دین کے نام پر غلط باتیں سیکھ کر یا ایسے کم دینوں کا ساتھ دے کر جنت بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے؎
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
کبھی کبھی شیطان جعلی پیروں کی شکل میں بھی ہوتا ہے۔ پس ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے سے بچو۔
نقلی پیر چھوڑنے کے متعلق ایک بہانہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دوسرا پیر کہاں سے ملے گا جو ان خامیوں سے پاک ہو. تو مولانا رومی فرماتے ہیں؎
در تگِ دریا گُہر با سنگ ہاست
فخرہا اندر میانِ ننگ ہاست
دریا کی گہرائی میں پتھروں کے درمیان ہی کہیں موتی چھپا ہوتا ہے۔ اسی طرح راہزنوں اور جعلی پیروں کے درمیان تلاش کرنے سے اصلی اللہ والے بھی مل جاتے ہیں۔
اسی کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کا کوئی بندہ ایسا نہیں جو اللہ کی تلاش میں نکلے اور اسے خدا نہ ملے۔
تو اللہ کی محبت کے لیے کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرنے سے قبل پیروں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ اصلی اللہ والا ہے یا نہیں. یا بعد میں علم ہو کہ اس کی حالت شریعت و سنت کے مطابق نہیں تو علم ہونے پر اسے چھوڑنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ کی جائے۔ یہ ترکِ تعلق بھی مرید پر شیخ کے حقوق میں شامل ہے۔ کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والے کی اتباع نہ کرنا شرعاً فرض ہے۔
مرید پر شیخ کے صرف یہی حقوق نہیں ہیں کہ اس سے نیک گمان رکھتے ہوئے اس کی اتباع کرے بلکہ شریعت کے معاملہ میں ہر وقت چوکنا بھی رہے۔ اگر مرید دیکھے کہ شیخ بدعقیدہ، بد عمل ہو رہا ہے، راہ تقویٰ و سنت چھوڑ رہا ہے تو مرید اسے چھوڑ دے۔ یہ بھی مرید پر شرعاً فرض ہے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
مرید خود اپنی بھی جانچ کرے اور پیروں سے متعلق جو غلط باتیں مشہور ہیں ان کی وجہ سے کسی پیر سے تعلق قائم نہ کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے پیر سے تعلق قائم کرے۔
پیروں کے بارے میں پھیلائے جانے والے عام عقائد یہ ہیں کہ پیر کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ پیر کی پاس جانے سے تمہاری دنیا کی ساری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ وہ ایسا تعویذ دیتا ہے کہ ہر کام بن جائے گا۔ پیر ایسی توجہ ڈالتا ہے کہ دل روشن ہوجاتا ہے۔ یا ایسا وظیفہ بتائے گا کہ خودبخود گناہ چھوٹ جائیں گے اور آدمی نماز روزہ کا پابند ہوجائے گا۔ یا پیر کے پاس کشف و کرامت کی ایسی طاقت ہے کہ تمہارے دل کے حال پڑھ لے گا اور تمہاری بگڑی بنا دے گا۔
تو یہ ساری باتیں جعلی پیروں کی بنائی ہوئی ہیں۔ پیر سے تعلق صرف دین پر چلنے، آخرت میں نجات پانے والے اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کے باعث جب اللہ تعالی سے تعلق بڑھتا ہے تو بندہ کی پریشانیاں دور ہونے لگتی ہیں، دل کو سکون، چین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اس کی بگڑی بن جاتی ہے۔ مگر یہ پیر نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم نیک اعمال کرتے رہو گے تو میں تمہیں ضرور ضرور ایسی پاکیزہ و اطمینان والی حیات بخشوں گا کہ نہ صرف تم بلکہ ایک عالم تمہارے اطمینان پر حیران ہوگا۔
(جاری ہے)
 
مرید خود اپنی بھی جانچ کرے اور پیروں سے متعلق جو غلط باتیں مشہور ہیں ان کی وجہ سے کسی پیر سے تعلق قائم نہ کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے پیر سے تعلق قائم کرے۔
پیروں کے بارے میں پھیلائے جانے والے عام عقائد یہ ہیں کہ پیر کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ پیر کی پاس جانے سے تمہاری دنیا کی ساری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ وہ ایسا تعویذ دیتا ہے کہ ہر کام بن جائے گا۔ پیر ایسی توجہ ڈالتا ہے کہ دل روشن ہوجاتا ہے۔ یا ایسا وظیفہ بتائے گا کہ خودبخود گناہ چھوٹ جائیں گے اور آدمی نماز روزہ کا پابند ہوجائے گا۔ یا پیر کے پاس کشف و کرامت کی ایسی طاقت ہے کہ تمہارے دل کے حال پڑھ لے گا اور تمہاری بگڑی بنا دے گا۔
تو یہ ساری باتیں جعلی پیروں کی بنائی ہوئی ہیں۔ پیر سے تعلق صرف دین پر چلنے، آخرت میں نجات پانے والے اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کے باعث جب اللہ تعالی سے تعلق بڑھتا ہے تو بندہ کی پریشانیاں دور ہونے لگتی ہیں، دل کو سکون، چین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اس کی بگڑی بن جاتی ہے۔ مگر یہ پیر نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم نیک اعمال کرتے رہو گے تو میں تمہیں ضرور ضرور ایسی پاکیزہ و اطمینان والی حیات بخشوں گا کہ نہ صرف تم بلکہ ایک عالم تمہارے اطمینان پر حیران ہوگا۔
(جاری ہے)
آپ نے ایک بہت اہم اور حقیقی موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ واقعی، پیروں سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں عوام میں پھیلائی جاتی ہیں، جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔

  1. اصلاحی تعلق: پیر سے تعلق قائم کرنے کا مقصد صرف دین پر عمل، گناہوں سے بچنا اور اللہ کی محبت حاصل کرنا ہونا چاہیے۔
  2. غلط عقائد کی نشاندہی: جعلی پیروں کی جانب سے پھیلائے گئے عقائد جیسے ہر دعا کی قبولیت، دنیاوی مسائل کا فوری حل، یا کرامات کا دعویٰ لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور ان کے ایمان کو نقصان پہنچاتا ہے۔
  3. اصل مددگار اللہ تعالیٰ ہے: یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پریشانیاں دور کرنا، دل کو سکون دینا، یا گناہوں سے بچانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اور یہ سب نیک اعمال اور اخلاص کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
  4. دین کی تعلیم: عوام کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں، بجائے اس کے کہ وہ کسی پیر یا وظیفے کو اپنی مشکلات کا حل سمجھیں۔
  5. حقیقی روحانی رہنما: اگر کسی کو رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ ایسے پیر سے رجوع کرے جو خود دین پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو اللہ کی جانب راغب کرتا ہو، نہ کہ دنیاوی فوائد کا وعدہ کرے۔





اس بات کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ دین اسلام کا مقصد بندے کو اللہ سے جوڑنا ہے، نہ کہ دنیاوی فوائد کے پیچھے دوڑنا۔ آپ نے جو بات کی ہے، وہ عوام کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگی۔
 
کیا آج کے دور میں بھی پیر کی ضرورت ہے ؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں پیر کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے !
مجھے لگتا ہے کہ جو برسوں کی محنت سے ایک مقام پیر کو حاصل ہوا ہے پیر وہ مریدکو ایک سال میں یا چالیس دنوں تک پہنچا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو بہت ہی خوب ہے جو لوگ تصوف میں یا اللہ سے قریب ہونا چاہتے ہیں اُنہیں ضرور پیر کامل کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دینا چاھئیے ۔
کیونکہ جو آخرت کے پیچھے لگ جاتا ہے تو دُنیا خود با خود ہی اُسے مل جاتی ہے ۔ اگر خدا نخواستہ اُسے دُنیا نا بھی ملے تو پھر بھی وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ کیونکہ وہ آخرت کے لئے بہت سا سامان اکھٹا کرچکا ہوگا۔ جو اُسے ابدی سکون و راحت نصیب کردے گا ۔
واللہ عالم
 

علی وقار

محفلین
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
 
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
اگر کسی کو ایسا پیر یا روحانی استاد مل جائے تو ہمیں بھی ضرور بتائیں۔
 

سید عمران

محفلین
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
کوئی کڑا معیار نہیں ہے۔۔۔
یہ صفات تو بے شمار عام آدمی میں بھی موجود ہیں کہ مالی کرپشن نہ کرے، جنسی اسکینڈل میں ملوث نہ ہو، شو بازی یعنی دکھلاوا نہ کرے۔ ہاں رہی بات چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کی تو ان سے کامل طور پر بچنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ عام آدمی تو بہت سے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتا یا انہیں خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں ضرورت پڑتی ہے ایسے مرشد کامل کی کہ جو نہ صرف خود ان گناہوں سے بچے بلکہ مرید کو بھی گناہوں سے بچا کر راستہ طے کراکے خالق حقیقی سے واصل کرا دے۔
حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک گناہ گار ہے مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ معصوم صرف انبیاء کرام ہیں، ان کے علاوہ ہر ایک سے گناہ ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ مرشد سے بھی گناہ ہوسکتا ہے البتہ اتنی بات ہے کہ نیک لوگوں سے ایک تو گناہوں کا صدور بہت ہی کم ہوتا ہے اور اگر ہوجائے تو خود خیال آنے پر یا کسی دوسرے کے متوجہ کرنے پر فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ سے توبہ کرنے والوں کو بہترین لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے۔
تین ہی باتیں ہیں، ذکر اللہ کی کثرت جس میں ذکر، نماز، تلاوت، صدقات شامل ہیں۔ صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں سے بچنا جس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ اور صحبت شیخ۔ بس ان ہی تین باتوں پر عمل کرنے سے ایک دن آدمی کو وہ نور نسبت حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔
ہمارا یہ مضمون پڑھتے رہیے اور جانتے رہیے کہ نسبت جیسی عظیم الشان نعمت کا حصول اتنا بھی مشکل نہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
مرشد ڈھونڈیں۔۔۔
لوگوں نے مرشد کی تلاش میں ملکوں ملکوں خاک چھانی۔۔۔
ہمارے تو ملک میں ہی بہت لوگ ہیں۔۔۔
مرشد کے بغیر وصول الی اللہ نہیں ہوسکتا۔ جیسا نکاح کے بغیر اولاد کا حصول ناممکن ہے۔۔۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کتابیں چار نازل فرمائیں اور انبیاء کرام لاکھوں۔۔۔
کیونکہ کتاب اللہ پر عمل کرانا رِجالُ اللہ ہی کا کام ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
پہلے ہم نے تذکرہ کیا تھا مرید پر شیخ سے متعلق ان شرعی امور و حقوق کا جن کی بنا پر ایسے شیخ سے تعلق قائم نہ کرنا چاہیے اور اگر کرلیا تو اسے چھوڑدینا چاہیے۔
اب بات کرتے ہیں مرید پر شیخ سے متعلق ان حقوق کی جن کی بجا آوری مرید پر شرعی احکام کی طرح فرض واجب تو نہیں لیکن راہِ طریقت کے لیے انتظامی لحاظ سے ضروری ضرور ہے۔
جب ہر طرح سے اطمینان ہوجائے کہ شیخ دنیا پرست، ہوس پرست و زر پرست نہیں، سچا اللہ والا ہے تو اس سے اللہ کی محبت حاصل کرنے لیے فوراً تعلق قائم کرلیا جائے۔ اب اس کی باتوں پر بلا چوں و چرا کیے عمل کرنا ہے۔کیونکہ جانچ لیا ہے کہ وہ خلافِ شرع کوئی حکم نہیں دے گا۔ اگر بچہ استاد سے بحث کرے کہ الف کھڑا کیوں ہے اور ب پڑا کیوں ہے تو بس سیکھ چکا وہ علم۔ لہٰذا پہلے بلا چوں و چرا کیے شیخ کی ہدایت پر عمل کریں۔ جب قلب روشن ہوجائے گا تو ان گنت ان کہی باتیں خود بخود سمجھ میں آنے لگیں گی۔ اسی کو خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎
شیخ کے ہیں چار حق رکھ ان کو یاد
اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد
یعنی شیخ سے خط و کتابت کے ذریعہ یا زبانی ان کو اپنے حالات کی اطلاع دیتے رہو، اور وہ جو جواب دیں اس پر عمل کرو۔ شیخِ کامل کے طریقۂ تعلیم پر اعتماد رکھو کہ وہ جو بتا رہا ہے اس لیے بتا رہا ہے کہ اس منزل، اس راستہ کو طے کرچکا ہے۔ چنانچہ بلاجھجھک، بغیر کسی شک و شبہ کے ان کی بات مانو۔ چاہے عقلاً سمجھ میں نہ آئیں، چاہے طبعاً۔ پھر ایک دن اسی اتباع و انقیاد کی برکت سے ان شاء اللہ وہ بھی سمجھ میں آنے لگیں گی۔
(جاری ہے)
 
کوئی کڑا معیار نہیں ہے۔۔۔
یہ صفات تو بے شمار عام آدمی میں بھی موجود ہیں کہ مالی کرپشن نہ کرے، جنسی اسکینڈل میں ملوث نہ ہو، شو بازی یعنی دکھلاوا نہ کرے۔ ہاں رہی بات چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کی تو ان سے کامل طور پر بچنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ عام آدمی تو بہت سے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتا یا انہیں خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں ضرورت پڑتی ہے ایسے مرشد کامل کی کہ جو نہ صرف خود ان گناہوں سے بچے بلکہ مرید کو بھی گناہوں سے بچا کر راستہ طے کراکے خالق حقیقی سے واصل کرا دے۔
حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک گناہ گار ہے مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ معصوم صرف انبیاء کرام ہیں، ان کے علاوہ ہر ایک سے گناہ ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ مرشد سے بھی گناہ ہوسکتا ہے البتہ اتنی بات ہے کہ نیک لوگوں سے ایک تو گناہوں کا صدور بہت ہی کم ہوتا ہے اور اگر ہوجائے تو خود خیال آنے پر یا کسی دوسرے کے متوجہ کرنے پر فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ سے توبہ کرنے والوں کو بہترین لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے۔
تین ہی باتیں ہیں، ذکر اللہ کی کثرت جس میں ذکر، نماز، تلاوت، صدقات شامل ہیں۔ صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں سے بچنا جس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ اور صحبت شیخ۔ بس ان ہی تین باتوں پر عمل کرنے سے ایک دن آدمی کو وہ نور نسبت حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔
ہمارا یہ مضمون پڑھتے رہیے اور جانتے رہیے کہ نسبت جیسی عظیم الشان نعمت کا حصول اتنا بھی مشکل نہیں!!!
میں بہت وقت سے سوچ رہا تھا کہ کوئی ایسا سلسلہ شروع ہو اردو محفل میں ۔
اِس سلسلے میں ابھی تک اور بحث کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک نچوڑ نہیں نکلا اِس موضوع کا ۔
 

سید عمران

محفلین
مرید کو شیخ سے دو باتوں میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ مجھے اللہ تک کوئی پہنچا سکتا ہے تو وہ میرے شیخ ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ اس راہ پر چلنے کے لیے جو ہدایات دیں وہ ہر لحاظ سے میرے لیے مفید ہیں۔ چاہے مجھے سمجھ میں آئیں چاہے نہ آئیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر اخلاص کے باوجود بشری کمزوری کے باعث شیخ سے تربیت میں کبھی کوئی غلطی بھی ہوجائے تب بھی مرید کو اس پر عمل کرنے سے نفع ہی ہو گا۔ کیونکہ نفع دینے والے تو حق تعالیٰ ہیں۔ جب وہ سالک کی سچی طلب کو دیکھتے ہیں اور اس کو اپنے ولی کی اطاعت میں پختہ دیکھتے ہیں تو اس کے حال پر کرم فرما دیتے ہیں، چاہے شیخ سے غلطی ہی ہو۔ اس راستہ میں اطاعت و انقیاد بڑی چیز ہے۔ اطاعت شیخ کے ساتھ کسی کو محروم ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور خود رائی کے ساتھ کسی کو کامیاب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا؎
فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ
جز شکستہ می نگیرد فضل شاہ
راہِ سلوک میں شیخ کو ہوشیاری و چالاکی دکھانے سے یہ راستہ طے نہیں ہوتا۔ اس راہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل عاجز و شکستہ ہی کے شامل حال ہوتا ہے۔ اس پستی اور شکستگی کی نسبت مولانا رومی فرماتے ہیں؎
ہر کجا پستی آب آں جا رود
ہر کجا مشکل جواب آں جا رود
ہر کجا دردے دوا آں جا رود
ہر کجا رنجے شفا آں جا رود
جہاں پستی ہو پانی وہیں جاتا ہے، جہاں مشکل ہو اسی کے حل کے لیے جواب ملتا ہے، جہاں درد ہو دوا وہیں اثر کرتی ہے اور جہاں رنج ہو شفا وہیں ملتی ہے.
(جاری ہے)
 
بصد احترام خادم کے کچھ سوال عرض ہیں کہ موجودہ دور میں پیران عظام کے خلاف اور ان کے حق میں بہت گفتگو ہوتی ہے جس سے عامۃ الناس میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں اگر اصحاب علم اس سلسلے میں برہان قطعی کا استعمال فرماتے ہوئے قرآن و سنت سے رہ نمائی فرما کر شکرگزاری کا موقع دیں ۔

1۔ ولی کون ہے اور کون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہو کہ یہ ولی اللہ ہے یا ولی النفس یا ولی الشیطان ؟؟
2۔ پیر صاحب کی کیا ضرورت ہے ؟؟ قرآن و سنت یا صحیح احادیث سے رہ نمائی فرمائیں۔
3۔ جنہیں آج کے اکثر فرقے بزرگ یا پیر مانتے ہیں ان سے منسوب قصے کہانیوں اور ان سے منسوب کتابوں میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بظاہر قرآن و سنت سے براہ راست متصادم ہیں اس تصادم سے بعض مقامات پر واقعات کا یقین کیا جائے تو کلمہ یا عمل کفر صادر ہونے تک پر بات چلی جاتی ہے بعض مقامات پر تو بپیر صاحب کی شان بڑھانے کی کوشش میں راہ راست توہین انبیاء اور توہین رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک بات چلی جاتی ہے ایسے میں ہم عام لوگ جو نہ عالم ہیں نہ ایسے کسی معاملے کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو قرآن و سنت سے متصادم ہو وہ کیا کریں کیونکہ صورت حال واقعتا نازک تو ہے ۔اور معاملہ بھی بندے اور اللہ کے تعلق کا ہے ۔
4۔ غوث ۔ قطب ۔ ابدا ل ۔ اخیار ۔ کون ہیں اور ان سے ہمارا تعارف کہاں ہوتا ہے ۔ کیا قرآن و سنت میں ان کا ذکر اور ان سے جڑنے کا کوئی حکم آیا ہے؟؟ اگر ہے تو حوالہ دیجئے اور اگر نہیں تو اگر یہ اتنے اہم تھے تو انہیں دین متین میں قرآن و سنت میں کیوں حکم دے کر تلاش کرنے اور ان سے جڑنے کے لئے نہیں کہا گیا حالانکہ رہ نمائی تو کم و بیش ہر موضوع پر کی گئی ۔ یہ موضوع کیوں چھوڑا گیا ۔ رہ نمائی فرمائیں
5۔ ایک فرقے کا پیر یا بزرگان دین دوسرے فرقے کا گمراہ شخص کہا جاتا ہے ۔ ایسے میں ولی اللہ کی یا پیر یا بزرگان دین کسے سمجھیں کہ فرقے تو تمام ایک دوسرے کو گمراہ اور بد مذہب کہتے ہیں اور خود کو فرقہ کہتے ہوئے بھی فرقہ نہیں مانتے تو کیا کسوٹی ہو جو سب کے لیئے ایک ہی ہو اور اسی پر ہم جیسے عام انسان پرکھ سکیں اور اسے قرآن و سنت کی تقویت بھی ہو۔
 
آخری تدوین:
بصد احترام خادم کے کچھ سوال عرض ہیں کہ موجودہ دور میں پیران عظام کے خلاف اور ان کے حق میں بہت گفتگو ہوتی ہے جس سے عامۃ الناس میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں اگر اصحاب علم اس سلسلے میں برہان قطعی کا استعمال فرماتے ہوئے قرآن و سنت سے رہ نمائی فرما کر شکرگزاری کا موقع دیں ۔

1۔ ولی کون ہے اور کون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہو کہ یہ ولی اللہ ہے یا ولی النفس یا ولی الشیطان ؟؟
2۔ پیر صاحب کی کیا ضرورت ہے ؟؟ قرآن و سنت یا صحیح احادیث سے رہ نمائی فرمائیں۔
3۔ جنہیں آج کے اکثر فرقے بزرگ یا پیر مانتے ہیں ان سے منسوب قصے کہانیوں اور ان سے منسوب کتابوں میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بظاہر قرآن و سنت سے براہ راست متصادم ہیں اس تصادم سے بعض مقامات پر واقعات کا یقین کیا جائے تو کلمہ یا عمل کفر صادر ہونے تک پر بات چلی جاتی ہے بعض مقامات پر تو بپیر صاحب کی شان بڑھانے کی کوشش میں راہ راست توہین انبیاء اور توہین رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک بات چلی جاتی ہے ایسے میں ہم عام لوگ جو نہ عالم ہیں نہ ایسے کسی معاملے کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو قرآن و سنت سے متصادم ہو وہ کیا کریں کیونکہ صورت حال واقعتا نازک تو ہے ۔اور معاملہ بھی بندے اور اللہ کے تعلق کا ہے ۔
4۔ غوث ۔ قطب ۔ ابدا ل ۔ اخیار ۔ کون ہیں اور ان سے ہمارا تعارف کہاں ہوتا ہے ۔ کیا قرآن و سنت میں ان کا ذکر اور ان سے جڑنے کا کوئی حکم آیا ہے؟؟ اگر ہے تو حوالہ دیجئے اور اگر نہیں تو اگر یہ اتنے اہم تھے تو انہیں دین متین میں قرآن و سنت میں کیوں حکم دے کر تلاش کرنے اور ان سے جڑنے کے لئے نہیں کہا گیا حالانکہ رہ نمائی تو کم و بیش ہر موضوع پر کی گئی ۔ یہ موضوع کیوں چھوڑا گیا ۔ رہ نمائی فرمائیں
5۔ ایک فرقے کا پیر یا بزرگان دین دوسرے فرقے کا گمراہ شخص کہا جاتا ہے ۔ ایسے میں ولی اللہ کی یا پیر یا بزرگان دین کسے سمجھیں کہ فرقے تو تمام ایک دوسرے کو گمراہ اور بد مذہب کہتے ہیں اور خود کو فرقہ کہتے ہوئے بھی فرقہ نہیں مانتے تو کیا کسوٹی ہو جو سب کے لیئے ایک ہی ہو اور اسی پر ہم جیسے عام انسان پرکھ سکیں اور اسے قرآن و سنت کی تقویت بھی ہو۔
انسان کے اندر اللہ تعالٰی نے ایک طاقت ضمیر کی رکھی ہے ۔ ضمیر اُسے ہوشیار کردیتا ہے جب بھی وہ کوئی گنا ہ کی طرف جارہا ہوتا ہے ۔ بس اپنے ضمیر کی آواز پردھیان دیں ۔ لیکن اپنے اعمال کو قرآن و حدیث میں ضرور فلٹر کریں اگر کوئی بھی عمل قرآن و حدیث سے مطابقت نہیں رکھتا تو چاہے آپ کا ضمیر اُس عمل کو درست ہی کیوں نا کہے یا کوئی پیر مرشد اُس عمل پر عمل درآمد نا کریں ۔
اگر آپ گناہ سے بچنا چاہیں گے تو ضرور اللہ پاک آپ کو سیدھا راستہ دکھائیں گے ۔ علماء کی صحبت سے بھی بہت سے مسائل کا حل نکل جاتا ہے۔
واللہ عالم
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
1۔ ولی کون ہے اور کون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہو کہ یہ ولی اللہ ہے یا ولی النفس یا ولی الشیطان ؟؟
عام ولایت تو ہر مومن کو حاصل ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
اللہ ولی الذین اٰمنوا
اللہ مومن بندہ کا ولی ہے۔
لیکن ولایت خاصہ اس خاص نسبت اور تعلق کو کہتے ہیں جو نیک اعمال کرنے، تقویٰ سے رہنے اور کسی اللہ والے کی صحبت میں ذکر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
ولی اللہ کی خاص پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ متبع شریعت و سنت ہوتا ہے۔ کبھی کسی گناہ کا شکار نہیں ہوتا، نہ صغیرہ نہ کبیرہ۔ اور اس کا کسی اللہ والے سے تعلق ہوتا ہے۔
وقت کے دیگر اکابر اور علماء کا اس پر اعتماد اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ یہ ولی اللہ ہے۔
 

سید عمران

محفلین
2۔ پیر صاحب کی کیا ضرورت ہے ؟؟ قرآن و سنت یا صحیح احادیث سے رہ نمائی فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

۱) واتبیع سبیل من اناب الی (لقمان :۱۵)​

اس کی اتباع کرو جو میری طرف جھکنے والا ہے۔

۲) الرحمٰن فسئل بہ خبیرا
رحمن کا نام ان سے پوچھو جو اسے جانتے ہیں۔

۳) فسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
اہل ذکر لوگوں سے پوچھو جو تم نہیں جانتے ۔

۴) یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ، و کونوا مع الصادقین
اے ایمان والو، تقویٰ اختیار کرو، اور اس کے لیے صحبت صالحین میں رہ پڑو۔

اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں کہا کہ تم خود سے دین سیکھ سکتے ہو، اس پر عمل کرسکتے ہو۔ جا بجا اہل علم سے سیکھنے، ان کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار آسمانی کتابوں کو سکھانے کے یے لاکھوں انبیاء کرام مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے اس دین کو صرف سکھایا ہی نہیں اس کے لیے جانیں تک لٹائیں۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ اس راہ میں کتنے انبیاء قتل کیے گئے۔
آج کل امت کو گمراہ کرنے کا نعرہ چلا ہے کہ خود قرآن حدیث پڑھ کر دین سیکھو۔ اللہ چاہتے تو جبرائیل کے ذریعہ قرآن حطیم پر رکھ کر اعلان کروادیتے کہ اسے پڑھو اور عمل کرو۔ لیکن کیا ایسا کیا؟ نہیں نا؟ اس کے لیے کیسا مہتم بالشان رسول بھیجا جس نے اس دین کو سکھانے کے لیے بے تحاشہ صعوبتیں اٹھائیں۔ پھر ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حدیث خود سمجھ لیں گےَ؟
اور سچی بات تو یہ ہے کہ یہ وہی لوگ کہتے ہیں جو خود نہ قرآن پڑھ کر اسے سمجھتے ہیں نہ حدیث پڑھ کر۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو پتا چل جاتا کہ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ جابجا کسی رہنما، کسی استاد کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔
حتی کہ قرآن و حدیث کے تراجم بھی ہر عالم نہیں کر سکتا۔ اور جس نے کیے وہ بھی بڑے عالم تھے۔ ایک عام انجینئر، ڈاکٹر، اکاؤنٹنٹ کی اتنی استعداد بھی نہیں کہ ترجمہ ہی کرسکے۔ اس کی تفسیر کرنا یعنی سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔
چنانچہ ظاہری علوم ہوں یا باطنی کسی رہبر کی ضرورت ہے جس کا خود بھی کوئی رہبر ہو۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ اسی لیے دین میں سند کی اہمیت ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
3۔ جنہیں آج کے اکثر فرقے بزرگ یا پیر مانتے ہیں ان سے منسوب قصے کہانیوں اور ان سے منسوب کتابوں میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بظاہر قرآن و سنت سے براہ راست متصادم ہیں اس تصادم سے بعض مقامات پر واقعات کا یقین کیا جائے تو کلمہ یا عمل کفر صادر ہونے تک پر بات چلی جاتی ہے بعض مقامات پر تو بپیر صاحب کی شان بڑھانے کی کوشش میں راہ راست توہین انبیاء اور توہین رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک بات چلی جاتی ہے ایسے میں ہم عام لوگ جو نہ عالم ہیں نہ ایسے کسی معاملے کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو قرآن و سنت سے متصادم ہو وہ کیا کریں کیونکہ صورت حال واقعتا نازک تو ہے ۔اور معاملہ بھی بندے اور اللہ کے تعلق کا ہے ۔
اولیاء کرام کے واقعات کی سند اس طرح محفوظ نہیں ہے جس طرح قرآن و حدیث کی ہے۔ اس لیے جہاں ان کے اقوال و افعال قرآن و حدیث کے خلاف ملتے ہیں صاف ظاہر ہے کہ یہ بعد میں یا تو اعتقاد میں غلو کرنے والے لوگوں نے شامل کیے یا عناد پرست و شر پسند عناصر نے۔ لہٰذا ایسے واقعات قابل اتباع نہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
4۔ غوث ۔ قطب ۔ ابدا ل ۔ اخیار ۔ کون ہیں اور ان سے ہمارا تعارف کہاں ہوتا ہے ۔ کیا قرآن و سنت میں ان کا ذکر اور ان سے جڑنے کا کوئی حکم آیا ہے؟؟ اگر ہے تو حوالہ دیجئے اور اگر نہیں تو اگر یہ اتنے اہم تھے تو انہیں دین متین میں قرآن و سنت میں کیوں حکم دے کر تلاش کرنے اور ان سے جڑنے کے لئے نہیں کہا گیا حالانکہ رہ نمائی تو کم و بیش ہر موضوع پر کی گئی ۔ یہ موضوع کیوں چھوڑا گیا ۔ رہ نمائی فرمائیں
یہ لوگ اہل تکوین میں سے ہیں۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلام۔ ان کی اتباع کا حکم نہیں جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کا حکم ہے۔
اولیاء اللہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
۱) قطب التکوین
۲) قطب الارشاد
تکوینی خدمات پہ مامور نہایت اونچے درجہ کے اولیاء کو قطب التکوین کہا جاتا ہے۔ ان کے نیچے غوث و ابدال و مجاذیب وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان کا کام دین پھیلانا نہیں ہوتا، دنیا میں خدا کے ان احکامات کو نافذ کرنا ہوتا ہے جس کا ان کو ہر وقت حکم ملتا رہتا ہے۔ کہاں بارش ہوگی، کہاں زلزلے آئیں گے، کہاں مہنگائی کرنی ہے، کہاں انقلاب لانے ہیں۔
جیسے جب بوسنیا میں قتل و غارت گری مچی ہوئی تھی تو ایک ابدال نے کہا کہ اس وقت ہمیں بوسنیا جانے کا حکم ہوا ہے۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کہاں تو قتل عام بچا ہوا تھا، بچہ بچہ خاک و خون میں لتھڑا ہوا تھا اور کہاں دیکھتے ہی دیکھتے آناً فاناً تصفیہ بھی ہوگیا، ایک الگ ملک بھی بن گیا اور امن و امان بھی ہوگیا۔
چونکہ ان کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، نہ ہی دین سکھاتے ہیں اس لیے ان سے جڑنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ لوگ لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
قرآن میں اس کی مثال حضرت خضر کے واقعہ سے ملتی ہے۔ اور مشکوۃ شریف کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی سے بعض لوگوں نے گزارش کی کہ آپ اہل شام پر لعنت اور بد دعا فرمادیں، تو حضرت علی نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ملک شام میں چالیس ابدال ہوتے ہیں، جب ان میں سے کسی ایک کی وفات ہوجاتی ہے توان کی جگہ دوسرے کو قائم مقام کر دیا جاتا ہے اور انھیں کی برکت اور دعاوٴں سے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے اور کفار اور دشمنوں کے خلاف اہل شام کی مدد کرتا ہے اور انھیں کی برکت سے اہل شام کے اوپر سے عذاب کو دور فرماتا ہے۔ واللہ اعلم۔
بہرحال اس موضوع پہ بہت کچھ بتایا جا سکتا ہے لیکن اس کا فائدہ کچھ نہیں، فائدہ تو دوسری قسم کے اولیاء کرام سے پہنچتا ہے جس کو قطب الارشاد کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کا کام ہوتا ہے دین کی اشاعت و تبلیغ کرنا۔ اور ان ہی لوگوں سے یا ان کے شاگردوں سے دین سیکھنے کے لیے قرآن و حدیث میں رجوع کا حکم آیا ہے۔ اسی لیے ان کا درجہ تکوینی قطب سے بڑا ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top