سید عمران

محفلین
5۔ ایک فرقے کا پیر یا بزرگان دین دوسرے فرقے کا گمراہ شخص کہا جاتا ہے ۔ ایسے میں ولی اللہ کی یا پیر یا بزرگان دین کسے سمجھیں کہ فرقے تو تمام ایک دوسرے کو گمراہ اور بد مذہب کہتے ہیں اور خود کو فرقہ کہتے ہوئے بھی فرقہ نہیں مانتے تو کیا کسوٹی ہو جو سب کے لیئے ایک ہی ہو اور اسی پر ہم جیسے عام انسان پرکھ سکیں اور اسے قرآن و سنت کی تقویت بھی ہو۔
ایسے لوگ عموما وہ زر پرست اور جاہ پرست مولوی ہوتے ہیں جو نفرتیں پھیلا کر روٹی روزی کماتے ہیں۔ انہیں طریقت کی تو کیا شریعت کی ہوا بھی نہیں لگی۔ یہ لوگ مدرسہ کی سند لینے کے باوجود مولوی کہلانے کے لائق نہیں۔
ہر طبقہ کے جو معتدل علماء ہیں آپ ان کو کبھی اس طرح کی عامیانہ باتیں کرتے نہیں سنیں گے۔ وہ تو بس اپنے کام سے لگے رہتے ہیں یعنی دین کے احکامات بتاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا نفرتیں پھیلانے والے گلی محلے کے ان مفسدوں سے دامن بچا کے رہنا چاہیے۔
اور اتنا تو سبھی جانتے مانتے ہیں کہ ایسے شر پسند ولی اللہ تو ہرگز نہیں ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
مرید شیخ کے سامنے باادب رہے۔ بحث و مباحثہ نہ کرے۔ صرف کام کے سوال پوچھے، بے جا سوال نہ پوچھے جیسے کوئی ترکیب بتادیں کہ نظر بچانا آسان ہوجائے یا نفس میں بدنظری کرنے کا تقاضہ ہی پیدا نہ ہو۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ طالب کو اپنے مصلح سے اس قسم کے مطالبے کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ گناہوں سے بچنے میں مشقت اٹھانے سے گھبراتے ہیں اور شیخ سے ایسی تدبیر کی درخواست کرتے ہیں جس میں مشقت نہ ہو۔ کام تو مرید کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ شیخ کا کام تو بس راستہ بتا دینا ہے۔ وہ تمہیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر راہ طے نہیں کراسکتا۔ خواجہ مجذوب صاحب فرماتے ہیں؎
راہبر تو بس بتا دیتا ہے راہ
راہ چلنا راہرو کا کام ہے
تجھ کو مرشد لے چلے گا دوش پر
یہ ترا راہرو خیالِ خام ہے
آپ سمجھتے ہیں کہ پیر کندھے پر بٹھا کر راستہ طے کرادے گا۔ پیر راستہ بتاتا ہے، چلنا آپ کا کام ہے، ساری محنت آپ کو کرنی ہے۔ جیسے ڈاکٹر یا حکیم نسخہ بتا دیتا ہے. دوا پینا، پرہیز کرنا مریض کا کام ہے۔
مرید اپنے شیخ سے اس طرح کے سوال نہ پوچھے کہ ذکر کے دوران آوازیں کیوں سنائی دیں؟ روشنی کیوں نظر آئی؟ نورانی مخلوق کون تھی؟ بس اپنا حال بتائے کہ دوران ذکر اس طرح کا ماجرا پیش آیا۔ کیا کیوں کیسے، یہ سوال کرنا مرید کا کام نہیں۔ شیخ جو مناسب سمجھے گا آپ کے احوال کا جواب دے گا۔
مرید شیخ سے یہ فرمائشیں بھی نہ کرے کہ مجھ کو فلاں وظیفہ یا فلاں شغل بتادیں۔ جب آپ اپنا علاج خود تجویز کررہے ہیں بلکہ شیخ کو حکم دے رہے ہیں کہ میرا علاج اس طرح کرو، تو آپ مرید کہاں رہے، شیخ ہوگئے۔ البتہ اتنا پوچھ سکتے ہیں کہ کیا میں فلاں وظیفہ یا شغل کرسکتا ہوں۔ اگر شیخ آپ کے حال کے مطابق مناسب سمجھے گا تو تجویز کردے گا ورنہ منع کردے گا۔ جیسے ڈاکٹر کو جاکر یہ نہیں کہتے کہ مجھے فلاں اینٹی بایوٹک دے دیں۔ ڈاکٹر کہے گا دوکان سے جاکر خود خرید لیں، میرے پاس کیوں آئے ہیں۔ البتہ اگر مریض اس طرح پوچھے کہ میں یہ دوا کھا سکتا ہوں یا نہیں۔ تو ڈاکٹر جو مناسب سمجھے گا بتا دے گا۔
(جاری ہے)
 
میری معذرت قبول فرمائیے کہ ایسے سوالات پوچھ رہا ہوں جو بادی النظر میں بڑی جسارت معلوم ہوتے ہیں لیکن جس دور و ماحول میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ایسے سوالات کا بار بار سامنا ہوگا اور ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑے گا ۔ میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے دامن صبر ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور تحمل سے میرے سوالوں کے جواب دینے کی اپنی سعی کی ہے۔ جزاک اللہ خیرا

تو کیا اللہ تعالیٰ نے اتنا مشکل دین ہمیں بھیجا کہ اسے سیکھنے کے لیئے ایسی پرخار وادی میں جانا ضروری ٹھہرا کہ جہاں ہر سو ٹھگ ، ڈکیت اور قاتل رہ نما کا بھیس بدلے بیٹھے ہیں اور اتنا مشکل دین جس کا رہبر تلاش کرنا ہی آج کے دور میں کم از کم انتہائی مشکل ہے دائمی جہنموں اور جنتوں کے فیصلے ہونگے؟

یہ جو پیر ہم تلاش کریں گے ہمیں کس سے جوڑے گا ؟؟

اور یہ جن تھانوی صاحب کا ذکر آپ کر رہے ہیں کیا یہ وہی نہیں جن پر احمد رضا صاحب فاضل بریلوی جنہیں ایک بڑا گروہ اپنا امام مانتا ہے نے کفر کے فتوے لگائے تھے؟؟ ااور ان فتووں پر حرم شریف کے بہت سے علماء کی تصدیق بھی تھی؟؟؟ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں

پیروں سے استغاثے کرنا ، ان سے غائبانہ دعائیں مانگنا ، یہ سمجھنا کہ یہ قبروں سے اٹھ کر بھی ہمارا ہاتھ پکڑیں گے ۔ یہ کون سا دین ہے ؟؟ اگر کسی امام، پیر یا بابا کی کے قول یا فعل کے رد میں یا مخالفت میں آیت یا حدیث سامنے آ جائے تو ایسے میں کیا موقف ہونا چاہیئے رہ نمائی فرما دیں۔
 

سید عمران

محفلین
تو کیا اللہ تعالیٰ نے اتنا مشکل دین ہمیں بھیجا کہ اسے سیکھنے کے لیئے ایسی پرخار وادی میں جانا ضروری ٹھہرا کہ جہاں ہر سو ٹھگ ، ڈکیت اور قاتل رہ نما کا بھیس بدلے بیٹھے ہیں اور اتنا مشکل دین جس کا رہبر تلاش کرنا ہی آج کے دور میں کم از کم انتہائی مشکل ہے دائمی جہنموں اور جنتوں کے فیصلے ہونگے؟
شکر کریں آپ صرف پیر ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔
حضرت سلمان فارسی اور یہودی تو نبی ڈھونڈتے ڈھونڈتے جزیرۃ العرب آگئے تھے۔۔۔
دنیا سے تقابل کریں تو کیا دین مشکل ہے؟؟؟
ہم اچھی سے اچھی جاب کیسی تن دہی سے تلاش کرتے ہیں۔۔۔
بہتر سے بہتر بزنس آپشنز کے لیے جان، مال، وقت کس کس طرح نہیں لگاتے۔۔۔
پھر دین میں ذرا سی محنت کیوں مشکل لگتی ہے؟؟؟
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اور یہ جن تھانوی صاحب کا ذکر آپ کر رہے ہیں کیا یہ وہی نہیں جن پر احمد رضا صاحب فاضل بریلوی جنہیں ایک بڑا گروہ اپنا امام مانتا ہے نے کفر کے فتوے لگائے تھے؟؟ ااور ان فتووں پر حرم شریف کے بہت سے علماء کی تصدیق بھی تھی؟؟؟ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں
کیا واقعی وہ بزرگ ایسے تھے؟ ان کی حیات کھلی کتاب ہے۔ جب دوسروں کے فتوے پڑھ سکتے ہیں تو ان کے حالات بھی پڑھ لیں۔۔۔
ایسے متقی و متبع سنت بزرگ جن کے فیض سے آج تک لاکھوں لوگ سیراب ہورہے ہیں۔۔۔
جنہوں نے شک کی بنا پر اپنی موروثی جائیداد سب چھوڑ دی، ایک دھیلا تک وصول نہیں کیا، ایسے جگرا کس کس میں ہوسکتا ہے؟؟؟
بمبئی کے ایک سیٹھ نے اس وقت کے ایک لاکھ روپے کا ہدیہ بھیجا۔ آج کل اس کی قیمت ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہوگی۔ حضرت تھانوی نے حرام حلال کی وجہ سے نہیں، محض اپنے اصول و شرائط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے واپس لوٹادیا۔ سیٹھ صاحب نے کہا دیکھ لیں، آپ کو اتنی رقم دینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت تھانوی نے فرمایا آپ کو بھی اتنی رقم لوٹانے والا کوئی نہیں ملے گا۔۔۔
جب غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان گومگو کی صورت حال میں مبتلا تھے، مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی صاحب، حضرت تھانوی کے بھیتجے مولوی شبیر علی، مولانا عبد الغنی پھولپوری، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے جید علماء کو حضرت تھانوی قائد اعظم کے پاس بار بار ان کا موقف سننے بھیجتے تھے۔ جب ان کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو کھل کر قائد اعظم کی حمایت اور قیام پاکستان کے حق میں ہوگئے۔ ان علماء کی بار بار کی جانے والی تبلیغ کی بدولت قائد اعظم نے اپنے عقائد درست کیے۔ ان ہی علماء کی سخت محنت کی بدولت صوبہ سرحد کے عوام جو قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے، کٹر کانگریسی قیادت کے زیرِ اثر تھے، انہوں نے ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان خاص کر یو پی میں ان علماء کی کانگریس کے خلاف زبردست مساعی تھی کہ مسلمانوں کی وہ اکثریت جو قائد اعظم کے ظاہری حلیہ کی وجہ سے تذبذب کا شکار تھی قیام پاکستان کے حق میں ہوگئی۔ ان ہی مساعی کے باعث قائد اعظم کی فرمائش پر مشرقی پاکستان میں مولانا ظفر احمد عثمانی اور مغربی پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔۔۔
جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ خیر المدارس ملتان، دارالعلوم کورنگی کراچی و سینکڑوں مدارس حضرت تھانوی کے خلفاء کرام کی خدمات کا ثمرہ ہیں۔۔۔
مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے جید عالم جن کے علم کے باعث عربی جیسے متعصب لوگ تک ان کا احترام کرنے پر مجبور ہیں کیا حضرت تھانوی کی پیروی آنکھ بند کرکے کرسکتے تھے؟؟؟
تہمتیں اور الزامات تو انبیاء و صحابہ پر بھی بہت ہیں۔ پر کیا وہ سچے ہیں؟؟؟
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
پیروں سے استغاثے کرنا ، ان سے غائبانہ دعائیں مانگنا ، یہ سمجھنا کہ یہ قبروں سے اٹھ کر بھی ہمارا ہاتھ پکڑیں گے ۔ یہ کون سا دین ہے ؟؟ اگر کسی امام، پیر یا بابا کی کے قول یا فعل کے رد میں یا مخالفت میں آیت یا حدیث سامنے آ جائے تو ایسے میں کیا موقف ہونا چاہیئے رہ نمائی فرما دیں۔
اگر آپ شروع سے یہ مضمون پڑھتے تو آپ کو سب باتوں کے جواب مل جاتے۔۔۔
اسی لیے ہم نے جعلی پیروں کی جعل سازیاں کافی حد تک بیان کی ہیں!!!
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کیا اللہ تعالیٰ نے اتنا مشکل دین ہمیں بھیجا کہ اسے سیکھنے کے لیئے ایسی پرخار وادی میں جانا ضروری ٹھہرا کہ جہاں ہر سو ٹھگ ، ڈکیت اور قاتل رہ نما کا بھیس بدلے بیٹھے ہیں اور اتنا مشکل دین جس کا رہبر تلاش کرنا ہی آج کے دور میں کم از کم انتہائی مشکل ہے دائمی جہنموں اور جنتوں کے فیصلے ہونگے؟

یہ جو پیر ہم تلاش کریں گے ہمیں کس سے جوڑے گا ؟؟
دین سمجھنا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا تو ہاتھ پر انگارہ رکھ لینے کے مترادف ہے جیسا کہ حدیث شریف میں مذکور ہے۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا۔
جن تھانوی صاحب کا ذکر آپ کر رہے ہیں کیا یہ وہی نہیں جن پر احمد رضا صاحب فاضل بریلوی جنہیں ایک بڑا گروہ اپنا امام مانتا ہے نے کفر کے فتوے لگائے تھے؟؟ ااور ان فتووں پر حرم شریف کے بہت سے علماء کی تصدیق بھی تھی؟؟؟ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں
ان مسائل کو رہنے ہی دیں کہیں یہ لڑی فرقہ واریت کی نذر ہی نہ ہو جائے۔
پیروں سے استغاثے کرنا ، ان سے غائبانہ دعائیں مانگنا ، یہ سمجھنا کہ یہ قبروں سے اٹھ کر بھی ہمارا ہاتھ پکڑیں گے ۔ یہ کون سا دین ہے ؟؟ اگر کسی امام، پیر یا بابا کی کے قول یا فعل کے رد میں یا مخالفت میں آیت یا حدیث سامنے آ جائے تو ایسے میں کیا موقف ہونا چاہیئے رہ نمائی فرما دیں۔
میرے خیال میں اس کی ترغیب ہی نہیں دی گئی بلکہ تردید کی گئی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
دین سمجھنا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا تو ہاتھ پر انگارہ رکھ لینے کے مترادف ہے جیسا کہ حدیث شریف میں مذکور ہے۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا۔
بقول خواجہ مجذوب ؎
جو آسان سمجھو تو ہے عشق آساں
جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں
 

سید عمران

محفلین
حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ جب تک محقق شیخ نہ مل سکے اس وقت تک کتاب سے سلوک طے نہ کرو۔ سلوک سے متعلق کتابیں پڑھنا مفید ہے مگر وہ شیخ کے لیے ہے۔ مرید کو چاہیے کہ سلوک کی کتابیں پڑھ کر شیخ سے بحث نہ کرے، نہ اس پر تنقید کرے۔ مرید کو ان کتابوں کا مطالعہ مفید نہیں اور ان کو مطالعہ کر کے شیخ سے معارضہ کرنا سم قاتل ہے۔ تمہاری کتاب تو انسان کامل یعنی شیخ ہے۔ تم کو جو مشکل حل کرنا ہو اسی کے مطالعہ سے حل کرو ۔ ہاں اگر کسی کو شیخ نہ ملے تو پھر کتابوں کا مطالعہ کرو مگر ان کتابوں کا جن میں علوم معاملہ کا بیان و اصلاحِ نفس کے طریق مذکور ہوں ۔ اور جن کتابوں میں علوم مکاشفہ اور اسرار ہوں۔ ان کو ہرگز نہ دیکھا جائے۔
دو چیزیں ہیں ان ہی میں لگنے سے سالک کا کام بنتا ہے، اور جو بھی پہنچا ہے ان ہی سے پہنچا ہے۔ وہ باتیں یہ ہیں ذکر اور اطاعت مگر ان کا طریقہ کسی محقق (شیخ) سے دریافت کرو، اپنی رائے سے تجویز نہ کرو۔ باقی کیفیات و احوال کے درپے نہ ہو، وہ سب ان ہی دو کی باندیاں ہیں۔
حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ مشائخ کی وصیت ہے کہ مرید کو شیخ کے خانگی معاملات میں نہ گھسنا چاہئے کیونکہ جو شخص کسی کے خانگی معاملات سے واقف اور ان میں دخیل ہوتا ہے اس کے قلب سے دوسرے کی عظمت کم ہو جاتی ہے اور مشائخ کو یہی مناسب ہے کہ مریدوں کو اپنے خانگی معاملات پر مطلع یا ان میں دخیل نہ کرے کہ اس سے عام طبائع کو بجائے نفع کے ضرر ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
شیخ اگر کسی معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ کردے تو مرید فوراً اس سے معافی مانگ لے اور ایسی غلطی دوبارہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے۔ شیخ کی ڈانٹ ڈپٹ سے دل میلا نہ کرے، نہ اس کے خلاف کینہ پالے ؎
گر بہ ہر زخمے تُو پر کینہ شوی
پس کُجا بے صیقل آئینہ شوی
اگر تیرا سینہ شیخ کی ہر ڈانٹ پر پُر کینہ رہے گا تو بغیر رگڑے آئینۂ دل شفاف کیسے ہوگا۔
حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض نفس اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ بغیر ڈانٹ کے ان کا ڈینٹ نہیں نکلتا۔ پس جنہوں نے اللہ کے لیے مجاہدے اٹھائے، اپنے نفس کی اصلاح کرائی، مربّی کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت کی۔ ان ہی کو اللہ تعالیٰ کا تعلقِ خاص، نسبتِ خاص عطا ہوئی۔ مرید اگر اپنے مربّی کا سچا عاشق ہوتا ہے تو پیر کی ڈانٹ ڈپٹ پر یہ شعر پڑھتا ہے ؎
ہائے وہ خشمگیں نگاہ قاتلِ کِبر و عُجب و جاہ
اس کے عوض دل تباہ میں تو کوئی خوشی نہ لوں
شیخ کی غضبناک نگاہیں قاتلِ کبر و عجب و جاہ ہیں، وہ عجب و کبر اور جاہ کو قتل کردیتی ہیں۔ اس کے بدلہ مجھے دنیا کی کوئی خوشی نہیں چاہیے۔
جس سے علم دین سیکھا ہو، جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت سیکھی ہو، اس دینی مربی کو کبھی فراموش نہ کیجیے۔ کبھی وہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کردے تو اس سے دل میں کینہ مت لائیے۔ کبھی سخت بات کہہ دے تو دل میں گرانی مت محسوس کیجیے۔ یہ سمجھ لیجیے کہ اس کی محبت کے یہ ناز اللہ تعالیٰ کی محبت میں شمار ہوں گے۔ اگر کوئی اللہ والا اصلاح کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کردے تو یہ ڈانت ڈپٹ برداشت کرنا اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے کھاتہ میں لکھیں گے۔
جو مرید اپنے ارادہ میں سچے نہیں ہوتے وہ ایک ہی ڈانٹ میں بھاگ جاتے ہیں۔ ایک خواجہ صاحب تھے کہ ان کے شیخ حضرت تھانوی نے کسی بات پہ ناراض ہوکر خانقاہ سے نکال دیا تو خانقاہ کے باہر بستر لگا کر بیٹھ گئے اور یہ شعر پڑھا؎
اُدھر وہ در نہ کھولیں گے اِدھر میں در نہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے، کہیں اُن کی کہیں میری
یعنی خانقاہ کے باہر سڑک تو حضرت تھانوی کی ملکیت میں نہیں، یہاں سے کیسے نکالیں گے۔ حالانکہ خواجہ صاحب ڈپٹی کمشنر تھے۔ اتنے بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود شیخ کے سامنے خود کو ایسا مٹایا کہ اپنا وجود ہی کالعدم کردیا. اور شیخ کی ڈانٹ پر فرماتے ہیں ؎
لاکھ جھڑکو اب نہیں پھرتا ہے دل
ہوگئی اب تو محبت ہوگئی
اس کے بعد اپنے شیخ حضرت تھانوی کی خدمت میں یہ شعر لکھ کر بھیجا ؎
نہیں کچھ اور خواہش آپ کے در پر میں لایا ہوں
مٹا دیجئے مٹا دیجئے میں مٹنے ہی کو آیا ہوں
حضرت تھانوی نے ان کی سچی طلب اور اعترافِ قصور پہ ان کا سب قصور معاف کردیا۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؔرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ کے ہاتھوں فنا ہونے کا، اپنے نفس کو مٹانے کا حق ادا کردیا۔ شیخ کے ناز اٹھانے کی برکت سے خواجہ صاحب کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ بعد میں جب حضرت تھانوی نے ان کو خلافت دی تو وہ بڑے بڑے علماء کے شیخ ہوئے، حالانکہ خود انگریزی داں تھے۔ شیخ کے آگے مٹنے کے ثمرات کو خواجہ صاحب اس طرح بیان فرماتے ہیں؎
عشق میں ذلت بھی عزت ہوگئی
لی فقیری بادشاہت ہوگئی

(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
مرید کو اپنے شیخ سے کوئی روحانی بیماری نہیں چھپانی چاہیے۔ جس مرض میں مبتلا ہو اس کے بارے میں آگاہ کرکے اس سے بچنے کی تدابیر پوچھے۔ البتہ اتنا ہے کہ ان گناہوں کی تفصیل میں نہ جائے۔ مثلاً زنا میں مبتلا ہے تو اس کی تفصیل نہ بتائے، بس اتنا پوچھے کہ اس مرض میں مبتلا ہوں چھوڑنے کی تدبیر بتادیجیے۔
شیخ کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو کسی دوسرے عالم سے سمجھ لے۔ بلاوجہ دل میں شیخ سے بدگمانی نہ پالے۔
اپنے مرشد کے سامنے کسی دوسرے مرید کی برائی نہ کرے۔ یہ عمل اتنا خطرناک ہے کہ یا تو اُس مرید کے باطن کو ضرر پہنچے گا یا خود اِس کا باطن تباہ ہوجائے گا۔بعض مرتبہ کسی کی برائی دل میں اس طرح بیٹھ جاتی ہے کہ کوشش کے باوجود نکالے نہیں نکلتی۔ اس لیے اس عمل سے سختی سے گریز کریں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
شیخ کی محبت، اس سے حسنِ ظن اور ادب یہ وہ قرینے ہیں جن سے صدیوں کی مسافت لمحوں میں طے ہوجاتی ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں؎
از خدا جوئیم توفیقِ ادب
بے ادب محروم ماند از فضلِ رب
میں خدا سے ادب کی توفیق مانگتا ہوں، کیونکہ بے ادب رب کے فضل سے محروم رہتا ہے۔
حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب فرماتے تھے جو بھی اپنے بڑوں کا ادب کرے گا اپنے بڑوں کی عنایات سے مالا مال ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنے بڑوں کے معاملہ میں ایک دم پانی ہوجائیں جیسے چاہیں وہ ہم پر ناز دکھائیں، ہم اس کو برداشت کریں۔
بے ادبوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہیے کوئی شخص خواہ کتنا ہی عقل مند ہو لیکن اگر کسی بے ادب کے پاس رہتا ہے تو اس کے اندر بھی بے ادبی کے جراثیم پیدا ہوجائیں گے، اس لیے جس قوم نے یا جس طبقہ نے اکابر پر اعتراضات کیے ہیں ایسے لوگوں کے لٹریچر سے، ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہیے ورنہ وہ جراثیم اس کے اندر بھی آجائیں گے۔ یہ سارا راستہ اکابر کے اعتماد پر چلتا ہے۔
جس سے دین کا ایک حرف سیکھا ہو ہمیشہ اس کا ادب کیجیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک حرف علم سکھادیا میں اس کا غلام ہوں۔ دینی مربی خود نہیں کہتا کہ میں بڑا ہوں، وہ یہی کہے گا میں کچھ نہیں ہوں اور یہی کہنا ان کے بہت کچھ ہونے کی دلیل ہے۔
صحابہ کا ادب دیکھئے کہ جب مدینہ شریف ہجرت کی تو کمزور ہوگئے تھے۔ پھر بھی صحابہ نے یہ نہیں کہا کہ مدینے کی آب و ہوا ہم کو موافق نہیں آئی بلکہ یہ کہا کہ ہم مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو موافق نہیں ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے وہ سراپا ادب ہوگئے تھے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
مرید اپنے پیر سے پوچھے بغیر کوئی وظیفہ، شغل یا مراقبہ نہ کرے۔ اگر ایسا کرنے کا ارادہ ہو تو پہلے پیر سے اس بارے میں مشورہ کرے۔ اگر پیر منع کردے تو مرید اس ارادہ سے باز آجائے۔ حتیٰ کہ پیر کے بتائے ہوئے ذکر کی تعداد میں بھی کمی پیشی پیر کو بتائے بغیر نہ کرے۔ اس راہ میں خود رائی سے منزل نہیں ملتی۔
جب مرشد دین کی کوئی بات کررہا ہو اس وقت ذکر و تلاوت و نوافل ملتوی کردو، بعد میں ادا کرلو۔ ہاں جماعت کی نماز یا فرض نماز و سنن مؤکدہ کا وقت تنگ ہورہا ہو تو پیر کو بتا کر ان کی ادائیگی کے لیے چلے جاؤ۔
مرید کو چاہیے کہ شیخ کی مجلس میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہے۔ کسی اور طرف توجہ نہ کرے، ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ ہی کسی سے بات کرنے میں مشغول ہو۔
شیخ کے سامنے خود کو مٹا کر رہیں۔ اگر بہت بڑے عالم یا مفتی ہیں تب بھی شیخ کے سامنے اپنے ہر فن و ہنر و قابلیت کی نفی کریں اور اس کے قلب میں موجود اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر منتقل کرنے کا ارادہ رکھیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ اور کتنے بڑے بڑے علماء کرام، اپنے علم و قابلیت کے باوجود ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیض سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہوئے۔
شیخ سے بے تکلفی مرید کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ تعلق دوستی یاری کا نہیں غلامی کا ہے۔ دین پر عمل کرنے کے لیے اپنے نفس کو شیخ کا غلام بنا کر اس کے ہاتھ میں دے دو، اور وہ جو اعمال بتائے اس پر غلاموں کی طرح سر جھکا کر عمل کرو۔
آخر میں اتنا سمجھ لیجیے کہ شیخ کے ادب و احترام میں غلو کا عنصر شامل نہ ہو۔ شیخ نہ خدا ہے نہ ہی رسول۔ اس لیے اس کے آگے تعظیماً جھکنا بھی حرام ہے اور اس کی خلاف شرع باتوں پر عمل کرنا یا اس معاملہ میں اس کا ساتھ دینا بھی حرام۔ بلکہ طریقت کی بھی کوئی بات اگر خلاف شرع لگے اس پر بھی عمل نہیں کیا جائے گا۔
(جاری ہے)
 
Top