سید عمران

محفلین
خدام کے اس جمگھٹے کے باعث اکثر لوگ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم پیر صاحب کو اپنے شہر بیان کے لیے مدعو کرنے کے خواہشمند ہیں، مگر وہ اپنے ساتھ تیس تیس، سو سو مرید لے آتے ہیں، اتنے لوگوں کا انتظام ہماری دسترس سے باہر ہے۔ اس لیے ان کو بلانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہمارے گزشتہ و موجودہ تمام اکابر کا عمل یہی ہے کہ منتظمین کی جانب سے جتنے افراد کی اجازت ہے بس وہی ان کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ بلکہ اکثر حضرات کا تو معمول ہی یہ ہے کہ سفر میں ایک دو سے زائد افراد ساتھ نہیں رکھتے۔

اس ہجوم کو ساتھ لیے لیے پھرنے کے اتنے مفاسد ہیں کہ بیان سے باہر۔ یہ نقصان کیا کم ہے کہ دیگر شہروں میں دینی خدمات سے محرومی نصیب ہو رہی ہے۔ اتنے لوگ جہاں جاتے ہیں وہاں کا میزبان زبان سے کچھ نہ کہے مگر مالی و انتظامی لحاظ سے زیرِ بار ہوجاتا ہے۔ دوسروں کو ایسی ایذا دینا ہرگز جائز نہیں۔ ایسے مواقع کی حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نے کیا خوب منظر کشی کی ہے ؎
سارے مرغے یہ خبر سن کے سہم جاتے ہیں
جب وہ سنتے ہیں کہ بستی میں کوئی پیر آیا
اب مرغے سہمیں یا نہیں لیکن اتنا ہجوم دیکھ کے منتظمین ضرور سہم جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خطوط کے معاملہ کی طرح دیگر دینی امور میں مشورے کا معاملہ بھی بعض پیروں کے یہاں اُس وقت تکلیف دہ ہوجاتا ہے جب وہ مرید کو خود مشورہ دینے کے بجائے دیگر خلفاء کے سپرد کردیتے ہیں۔ اب جس آدمی کو پیر صاحب مشورہ کے لیے فرماتے ہیں ضروری نہیں کہ مشورہ لینے والے کو ان صاحب سے مشورہ کرنا پسند بھی ہو۔
یہ بات بہت لوگوں کو ناگوار گزرتی ہے کہ ہم نے جس کو کچھ سمجھ کر پیر بنایا اس کی بجائے کسی اور سے مشورہ کریں۔ کسی اور سے مشورہ کرنا ہوتا تو پیر کے پاس نہ آتے اور پیر کی طرف سے مسلط کیے گئے ناپسندیدہ شخص کی بجائے اپنی مرضی کے آدمی سے مشورہ کرتے۔
شیخ سے اہم امور میں مشورہ کرنا طریقت کے لوازم میں سے ہے۔ اگر شیخ کے پاس مریدوں کے لیے وقت نہیں تو وہ مریدوں کو دوسرے پیر سے رجوع کرنے کا اعلان کرکے اس منصب سے دست بردار ہوجائے، مسلمانوں کا قیمتی وقت ضائع نہ کرے۔
کوئی آپ کے پاس کسی دینی مشورے پر عمل کرنے کی غرض سے آئے تو اس وقت اس کو جواب دینے سے زیادہ اہم بات کوئی اور نہیں ہونی چاہیے، نہ بیان بازی، نہ ملفوظات کی بارش۔ یہ اتنا اہم امر ہے کہ نابینا صحابی حضرت عبد اللہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق کوئی اہم مسئلہ دریافت نہیں کرنا تھا بلکہ بھلائی کی عام باتیں پوچھنے آئے تھے۔
اس وقت حضور اکرم قریش کے کافروں کو اسلام کی تبلیغ اس نیت سے فرما رہے تھے کہ یہ اسلام لے آئیں۔ آپ نے بار بار پوچھنے کے باوجود نابینا صحابی کی طرف توجہ نہیں فرمائی کہ یہ تو ہر وقت حاضر رہتے ہیں بعد میں بھی آجائیں گے۔ بلکہ آپ کو ان کا بار بار پوچھنا ناگوار گزرا اورچہرہ اطہر پر اس کے اثرات ظاہر ہوگئے۔
اُدھر آپ کی توجہ نہ پا کر وہ صحابی دل شکستگی کی حالت میں اٹھے اور چلے گئے۔ وہ گئے اور وحی آگئی:
عَبَسَ وَتَوَلَّی، اَنْ جَاءَہُ الْأَعْمَی، وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّہُ یَزَّكَّى، أَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّكْرَى
ان کی تیوری پر بل پڑ گئے اور انہوں نے منہ پھیر لیا کہ ان کے پاس نابینا آیا ہے، کاش ان کو معلوم ہوتا کہ شاید وہ (نابینا ان سے دین کی بات سیکھ کر) پاکیزگی حاصل کرلیتا،یا وہ جو نصیحت کرتے اس نصیحت سے اسے فائدہ پہنچتا۔
بس اس کے بعد آپ علیہ السلام جب بھی ابن اُم مکتوم کو دیکھتے ان کا بہت اکرام فرماتے کہ یہ وہ ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے تنبیہ فرمائی اور تبلیغ کے آداب سکھائے۔ (جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
سلوک کا راستہ اپنے کو مٹانے کے سوا کچھ نہیں۔ پیر اپنے مریدوں کو بھی یہی تعلیم دے اور خود بھی اسی پر عمل پیرا ہو۔ اپنے کو مٹا کے رکھے اور سمجھے۔ خود کو نہ روحانی القاب سے نوازے نہ علمی۔ نام نہاد القابات کے بوجھ تلے نہ خود دبے، نہ مریدوں کو ایسا کرنے دے۔ خصوصاً غیر عالم پیر صاحبان دو چار سالہ دینی کورس کرکے اپنے نام کے آگے مولانا لگادیتے ہیں یا مولانا کا لقب لگوانے کے لیے یہ کورس کرتے ہیں۔ اگر ہم عالم نہیں تو اس کا اعلان کریں۔ مولانا کا لقب ان علماء کرام کے ساتھ لگتا ہے جو درسِ نظامی کا آٹھ سالہ کورس کسی مدرسہ میں اساتذہ کرام کی زیر نگرانی پاس کرتے ہیں۔ یہی بات معروف ہے۔ لہٰذا کوئی غیر عالم شارٹ کورسز کرکے اپنے نام کے ساتھ مولانا کا لقب لگاتا تو لوگ اسے معروف درس کا عالم ہی سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنا مبالغہ آمیزی میں آتا ہے جو کسی طور مستحسن نہیں۔ اکثر مشائخ جب کسی غیر عالم کو خلافت دیتے تو لکھ دیتے کہ یہ خلافت نامہ آپ کو اللہ کی محبت کی باتیں بیان کرنے کے لیے دیا جارہا ہے، فقہی مسائل بیان کرنے کے لیے نہیں۔
ہم لاکھ شارٹ کورسز کرلیں درس نظامی کے مربوط نظام کے تحت علم حاصل کرنے والے علماء کا علمی میدان میں ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہماری تو صرف و نحو کی بنیاد ہی مضبوط نہیں، آگے کی عمارت کیسے عمدہ ہوگی، قرآن و حدیث و فقہی مسائل کیسے سمجھ میں آئیں گے ؎
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا میرود دیوار کج
جس عمارت کی بنیادی اینٹ ہی کچی ہو وہ عمارت آسمان تک بھی چلی جائے ناقص ہی رہے گی۔
شارٹ کورسز کرنے والے تو کامل سند یافتہ عالم بھی نہیں مگر جو متبحر عالم تھے یعنی شرح مسلم اور ریاض الصالحین جیسی مشہور کتابوں کے مصنف امام نووی رحمۃ اللہ علیہ، ان کی دینی و علمی خدمات کی بنیاد پر جب ان کے معاصرین نے ان کو محی الدین کے لقب سے موسوم کیا تو انہوں نے سخت ناراضگی کااظہار کیا ، اور فرما دیا إِنِّیْ لَا أجْعَلُ أحَداً فِیْ حِلِّ مَنْ یُّسَمِّیْنِیْ بِمُحْیِ الدِّیْنِ میں کسی کو بھی محی الدین کے لقب سے پکارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ (المدخل جلد ۱ صفحہ ۱۱۱ فصل فی النعوت)
ہم شارٹ کورسز ضرور کریں لیکن صرف اپنی دینی استعداد بہتر بنانے کے لیے، نہ کہ عوام کو مسائل بتانے کے لیے۔ اس کے لیے مولانا کا لقب لگا کر خود کو ایسا عالم دین ظاہر کرنا جو فقہی مسائل میں بھی رہنمائی کرنے کا اہل ہو، کسی طور مناسب نہیں۔
ہمارے اہل علم اکابر کا بھی یہی عمل ہے کہ اپنے لیے القاب پسند ہی نہیں کرتے۔ اپنے نام کے ساتھ سادگی پسند کرتے ہیں۔ اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی مثال ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے جن کے علم و عمل کا عرب و عجم میں غلغلہ مچا ہوا ہے لیکن نہ ان کے القاب میں نہ سراج السالکین ہے، نہ عارف باللہ، نہ رہبر شریعت و طریقت ہے نہ فقیہ دوراں۔ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے، کچھ نہیں لکھتے ؎
کچھ ہونا میرا ذلت و خواری کا سبب ہے
یہ ہے میرا اعزاز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ جب علامہ سید سلیمان ندوی میرے پاس آئے تو میں نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ یہ خود بڑے عالم ہیں، ان کو کچھ کہوں گا تو انہیں پہلے سے معلوم ہوگا، آپ مجھے وہ بات کرنے کی توفیق عطا فرمادیں جو ان کے لیے نافع ہو۔
جب سید صاحب حضرت تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ سلوک سراسر عبدیت کا نام ہے، اپنے کو مٹانے کا نام ہے۔ اس کے بعد حضرت نے جو قرآن و حدیث کے دلائل سے شرح فرمائی تو سید صاحب خود فرماتے ہیں کہ حضرت کی تقریر کے بعد میرے علم کا سب پندار ختم ہوگیا اور میں پانی پانی ہوگیا کہ میرے پاس علم تو بہت تھا بس یہی کمی تھی۔ اس کے بعد خانقاہ تھانہ بھون کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر یہ اشعار پڑھے ؎
جانے کس انداز سے تقریر کی
کچھ نہ پیدا شبۂ باطل ہوا
آج ہی مزہ پایا قرآن کا
جیسے قرآن آج ہی نازل ہوا
چھوڑ کر درس و تدریس و مدرسہ
شیخ بھی رندوں میں اب شامل ہوا
آج کل کے بعض مشائخ خود تو جیسے بھی مٹے ہوئے ہوں مگر ان کے مرید ان کے نام کے آگے القابات کی وہ لائن لگاتے ہیں جس کے بوجھ تلے پیر صاحب ایسے دب جاتےہیں کہ اصل شناخت ہی مدھم پڑجاتی ہے۔ القاب دینے والے اس آیت کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
سَتُكْتَبُ شَھَادَتُھُمْ وَ یُسْ۔۔ٴَ۔لُوْنَ (سورہ الزخرف آیت نمبر 19)
اب لکھ لی جائے گی اُن کی گواہی اور ان سے جواب طلب ہوگا ۔
کسی کو مختلف القابات دینے والے لوگوں کےلیے اللہ رب العزت کے حکم سے یہ گواہی لکھ لی جاتی ہے۔ قیامت کے دن آپ کے دئیے گئے ہر لقب کے متعلق آپ کو جواب دینا ہو گا ۔ اسی لیے امامِ غزالی فرماتے ہیں اگر کسی کی تعریف میں مبالغہ آمیزی شروع ہوئی تو یہ جھوٹ پرختم ہوگی۔ اس کی مثال ایک حدیث سے ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تعریف میں مبالغہ کو ناپسند فرماتے تھے ۔ قبیلہ بنو عامر کی وفد نے آپ تعریفیں کرنی شروع کی تو آپ نے یہ کہہ کر روک دیا:
قولوا بقولکم أوبعضَ قولکم ،ولا یستجرینّکم الشیطان (سنن ابوداؤد:۴۸۰۸،باب في کراہیۃ التمادح)
بس اپنی اسی بات پر یا انہیں میں سے بعض باتوں پر اکتفا کرو (جو ظاہراً بالکل صحیح ہیں) ، کہیں شیطان (بڑھاتے بڑھاتے)تم سے وہ باتیں نہ کہلوا دے جو درست نہ ہو ۔
قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ کی رو سے اس کی بالکل ممانعت ہے کہ کوئی ایسے دعوے کرے، ایسے القاب اختیار کرے جس میں پاکیزگی، تقدس اور بڑائی کا پہلو پایا جاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (سورہ النجم آیت نمبر ۳۲)
تم اپنی پاکیزگی مت بیان کرو ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے ۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ دعویٰ تقدس حرام ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب بن ابی سلمہ فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس وقت میرا نام ’’برّہ‘‘ تھا (جس کے معنی ہیں نیک و گناہوں سے پاک عورت) میں نے وہی بتایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَاتُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ، اَللہُ أَعْلَمُ بِأَھْلِ الْبِرِّ مِنْکُمْ (رواہ مسلم و بخاری باب تحویل الاسم) یعنی تم اپنے گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو، یہ علم صرف اللہ ہی کو ہے کہ تم میں سے نیک اور پاک باز کون ہے ۔ پھر ’’برہ‘‘ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا ۔ چونکہ اس نام میں صورتاً نیک ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے ، اس لیے آپ نے اس سے منع فرما دیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذاتِ اقدس کے متعلق ارشاد فرمارہے ہیں:
لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ (صحیح بخاری باب و اذکر فی الکتاب مریم)
لوگو! میری تعریف میں مبالغہ سے کام نہیں لینا ، جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق مبالغہ اختیار کیا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر کافر اور مشرک ہوگئے ، میرے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا إِنِّیْ عَبْدُاللہِ وَ رَسُوْلُہٗ میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ لہٰذا تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو ۔
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف فرمائی ہے اور ان کو اچھے اچھے القابات سے نوازا ہے بس وہی القاب مستند ہیں۔
آج کل مریدوں کی جانب سے بخشے جانے والے القابات کا سیل رواں آیا ہوا ہے، مرشد کو چاہیے اس سیلاب میں خس و خاشاک کی مانند بہہ جانے کے بجائے اس کے آگے بند باندھے اور دعوائے تقدس پر مبنی القابات جیسے غوث العالم، عارف باللہ، صدیق زماں، قطب وقت وغیرہ سے اجتناب کرے، اپنے اکابر کے طریقے کے مطابق سادگی پر قائم رہے۔ ورنہ اس پر تفاخر، غلو، بے اعتدالی اور خود پسندی جیسے اشکال قائم ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اور اس کے زیر تربیت مرید آگے چل کر کیا غضب ڈھائیں گے، اس کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں۔ یہ عمل اس وقت مزید افسوس ناک ہوجاتا ہے جب بعض مشائخ اپنے حلقہ میں اپنے نام کے ساتھ القاب لگانے کی باقاعدہ تاکید کرتے ہیں، اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ لوگ کسی جلسہ یا اجتماع کے پوسٹر پر بھی اپنے نام کے آگے لگانے کے لیے القابات منتظمینِ جلسہ کو بتاتے ہیں۔
القاب امانت ہوتے ہیں ، جو ایسے استاد، مربی اور مشائخ دے سکتے ہیں جن پر خود امت کے معتمد علماء اور اکابر کا اعتماد ہو۔ جو مرید کو ہر لحاظ سے اس کا اہل سمجھتے ہوں۔ اگر وہ غیر اہل کو تفویض ہوگئے تو اللہ کے نزدیک اس عمل کا شمار بد دیانتی میں ہوسکتا ہے۔
القاب شخصیتوں کو عزت نہیں دیتے، شخصیتیں القاب کو عظمتوں کے درجہ پر فائز کرتی ہیں۔عظیم شخصیات القاب کے سہارے نہیں، اپنے کردار، اقوال اور اعمال سے امت کی نظروں میں احترام اور وقار کا درجہ حاصل کرتی ہیں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
سلوک خالصتاً عمل کا راستہ ہے۔ اس میں قیل و قال سے زیادہ ادائیگی اعمال کی ضرورت ہے۔ سلف صالحین، ماضی قریب کے اور موجودہ اکابر بیان بازی سے زیادہ مریدوں کو کام پر لگانے کو ترجیح دیتے تھے ؎
قال را بگزار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملِ پامال شو
باتیں بنانا چھوڑو اور مرد حال بنو یعنی کام پہ لگو، اور اس کے لیے کسی مرشد کامل کے سامنے اپنے کو پیش کردو۔
کار کن کار بگذر از گفتار
کاندرین راه کار دارد کار
کام کرو اور کام کرنے پر باتیں بنانا چھوڑو۔ کہ کام کرنے کی راہ پر چلنے کا یہی طریقہ ہے کہ کام پر لگا جائے۔
تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب فرماتے تھے باتوں سے خوش ہو لینا ہماری عادت ہوگئی ہے اور اچھے کام کی باتیں کر لینے کو ہم اصل کام کے قائم مقام سمجھ لیتے ہیں۔ اس عادت کو چھوڑو ، کام کرو کام۔ (ملفوظ از حضرت مولانا محمد الیاس صاحبرحمۃ اللہ علیہ )
اکابر کا معمول تھا کہ بیان تو ہفتہ میں ایک یا دو فرماتے تھے، اس کے علاوہ باقی وقت سالکین کو انفرادی توجہ دینے میں صرف کرتے تھے، جن میں ان کے حالات سنتے، ان کے جوابات مرحمت فرماتے، دور دراز کے لوگوں کے خطوط کے جواب خود عنایت فرماتے، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے مشورے دیتے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنی صحبت سے مستفید فرماتے۔ اور سلوک کا یہی جزوِ اعظم ہے جس کی برکت سے صدیوں کی مسافت دنوں میں طے ہوجاتی ہے ؎
یک زمانے صحبتے با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
مشائخ کا سالکین پر سب سے بڑا حق یہی ہے کہ ہر ایک کی انفرادی حالت پر خصوصی توجہ دیں۔ اس راہ میں جتنے سالک ہیں اتنے ہی طریقے ہیں۔ حضرت تھانوی فرماتے تھے کہ طریقت میں ہر شیخ مجدد ہے کہ ہر سالک کو اس کے حال کے مطابق سلوک طے کراتا ہے۔
اکثر بزرگ سالکین سے یہی فرماتے تھے کہ بیان کے علاوہ بھی ہمارے پاس انفرادی طور پر آئیں۔ کیونکہ جتنے کم لوگ ہوں گے شیخ کی توجہ اتنی زیادہ حاصل ہوگی۔
یہ جبھی ممکن ہے جب شیخ کے پاس اتنا وقت، اتنی فرصت ہو۔ اگر اس کی ساری توانائی محض بیان کرنے، بیان کرنے کے لیے سفر کرنے یا بیانات کرنے کے لیے اجتماعات و جلسوں میں شرکت پر صرف ہوگئی تو مریدوں کو منزل تک کب اور کیسے پہنچائے گا؟
ہر وقت کثرت بیان میں مشغول رہنے سے کئی خرابیاں ظاہر ہوتی ہیں مثلاً بیان کرنے والے کو ہر وقت نت نئے مضامین بیان کرنے کی فکر رہتی ہے۔ کیونکہ بیانات میں ندرت نہ ہوگی تو سننے والا ایک جیسی باتیں سن کر اکتا جاتا ہے۔ نئے مضامین لانے کے لیے خصوصاً غیر عالم حضرات ایسی باتیں کرجاتے ہیں جن میں شدت ہوتی ہے یا غلو، کبھی قرآن و سنت اور فقہی احکامات سے ہٹ جاتے ہیں تو کبھی عقائد پر بھی ضرب لگ جاتی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو علماء کے حلقہ میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتیں۔
جن مشائخ نے اپنے آپ کو ہمہ وقت بیان نشر کرنے میں مصروف کرلیا ہے خود ان کے پاس ذاتی عبادات میں مشغولی اور سالکین کو انفرادی اعمال میں مشغول کرنے کا وقت کیسے ملے گا؟
یہی وجہ ہے کہ ایک بیان کے بعد مرشد کو فوراً کمرۂ استراحت میں لے جایا جاتا ہے۔ تاکہ کچھ دیر آرام کرکے اگلے بیان کے لیے تازہ دم ہوسکیں۔ اس دوران کسی مرید کو شیخ سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بس چند خادم خاص حضرت کے پاس رہتے ہیں جو حضرت کی راحت رسانی کو امت کے فیض عام پر ترجیح دیتے ہیں۔
بہت سے مشائخ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو ذاتی عبادات میں مشغولی کی بجائے اپنے گھنٹوں کے بیانات سننے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس دوران کوئی تھکا ہوا ہے، آرام کرنا چاہتا ہے، یا کسی عبادت کے ذریعہ اللہ سے لو لگانا چاہتا ہے تو اس کی اجازت نہیں ملتی۔
ہر وقت بیانات میں مصروف رہنا اور مریدوں کو بالکل وقت نہ دینا یا بہت کم وقت دینا قرآن اور حدیث دونوں کے خلاف عمل ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْہُمْ
(اے ہمارے نبی) آپ اپنی جان کو (صحابہ کی)صحبت سے نوازتے رہیں (چاہے )آپ کو (اس کے لیے اپنی طبیعت پر) صبر ہی (کیوں نہ ) کرنا پڑے۔ (یہ صحابہ) صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی رضا چاہتے ہیں۔ (بس) آپ کی نگاہیں انہیں چھوڑ کے کہیں اور نہ جائیں۔
کفار نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ ہم ان غریب صحابہ کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ آپ ہمیں الگ سے وقت دیں۔ اس سے پہلے کہ آپ انہیں جواب دیتے، اللہ نے جواب دیا، اور جواب کیا دیا، صاف جواب دے دیا۔ بلکہ اپنے نبی کو حکم دیا کہ مجھے چاہنے والے صحابہ کو چھوڑ کر آپ کہیں اور نہیں جائیں گے۔کافروں کو اسلام میں لانے کے لیے بیانات کرنے کی وجہ سے صحابہ کو اپنی صحبت سے محروم نہیں کریں گے۔
حدیث کی رو سے بھی بہت زیادہ بیانات کرنا پسندیدہ عمل نہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ ہر روز وعظ کیا کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ایسا کرنے سے مجھے ایک ہی بات روکتی ہے کہ میں تمہیں اُکتاہٹ اور بیزاری میں مبتلا کردوں۔ میں موقع محل دیکھ کر تمھیں نصیحت کرتا ہوں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم اکتا نہ جائیں نصیحت کرنے میں وقت اور موقع کا لحاظ فرماتے تھے، کیوں کہ اکتاہٹ کے وقت وعظ کا کوئی فائدہ نہیں۔(مشكوة المصابيح، كتابُ الْعِلْمِ،روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز، حدیث نمبر: 207، رواه البخاری، 68 )
محض بیانات کرنے سے نہ سلوک طے کروایا جاتا ہے، نہ ہر وقت اس مشغلے میں مشغول رہنے سے، محض بیانات پہ بیانات سننے سے سالک کا سلوک طے ہوتا ہے۔ کام تو کام کے طریقے سے ہوگا۔ ان سب کا خلاصہ حضرت تھانوی کے اجل خلیفہ خواجہ عزیز الحس مجذوب صاحب نے دو اشعار میں پیش کردیا ؎
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسنِ کلام سے ہوگی
ذکر کے التزام سے ہوگی
فکر کے اہتمام سے ہوگی
بس راہِ سنت ہی راہِ نجات ہے۔ جب راہ سنت سے بٹا جائے گا غلو میں آگے بڑھا جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے بیانات فرماتے تھے۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کا کیا عمل تھا۔ سلف صالحین سے لے کر آج تک ہمارے اکابر کس کی سنت پر عمل پیرا ہیں؟ ان سب کی تحقیق ایک توجہ طلب اور عمل طلب امر ہے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
بعض اوقات مقتداء حضرات کو ایسے کام بھی نہیں کرنے چاہئیں جو بظاہر جائز ہوں۔ جیسے ایک بزرگ صبح سویرے ساحلِ سمندر کی سیر کو گئے۔ اب ان کے مریدوں نے دلیل پکڑلی کہ یہ حضرت کا معمول ہے لہٰذا خود بھی کبھی دوستوں کے ساتھ تو کبھی گھر والوں کے ساتھ جب چاہا سمندر کی سیر کو نکل گئے۔ انہیں یہ تو یاد رہا کہ حضرت نے سمندر کی سیر کی لیکن یہ نہیں دیکھا کہ حضرت کتنی حدود و قیود کے ساتھ گئے۔ صبح سویرے ایسے وقت گئے اور اس جگہ گئے جہاں لوگوں کا ہجوم نہیں تھا، کھیل تماشے نہیں ہورہے تھے، خواتین کی موجودگی کی وجہ سے بے پردگی کا امکان نہیں تھا۔
اسی لیے شیوخ کو ایسے باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو دین کے لیے، ان کے مریدوں کے لیے اور خود ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہوں۔ جیسے چائے پینا ایک مباح عمل ہے لیکن ایک صاحب کے لیے عین جمعہ کے بیان کے دوران گرما گرم چائے لائی گئی۔اب چائے بھی پی جارہی رہے اور بیان بھی جاری ہے۔ مجمع پر ان کے اس عمل نہایت برا اثر پڑا۔ لوگوں نے چہ مگوئیاں بھی کیں اور ان سے دوری بھی اختیار کی۔
اسی طرح مشائخ کے مرید ان کی بدنی خدمت اپنی خوش نصیبی و سعادت سمجھ کر کرتے تھے، لیکن اس وقت جب وہ پیرانہ سالی کو پہنچ گئے تھے اور اس کی حقیقی معنوں میں ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اب جوان پیر بھی ان کی دیکھا دیکھی مریدوں سے ٹانگیں دبوا رہے ہیں، سر پر تیل کی مالشیں ہورہی ہیں۔ بلا ضرورت یہ خدمت لینا آخر کار عادت بن گئی۔ اب جب تک مرید ان کی خدمت کا کام نہ کرلیں ان کی بے قراری کو قرار نہیں آتا۔
جب یہ عادت جڑ پکڑتے پکڑے بڑھ گئی تو پیر صاحب اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس طرح کی خدمت سرعام عوام کے سامنے نہیں لی جاتی۔ چنانچہ مسجد ہو یا مدرسہ، خلوت ہو یا جلوت، اپنا گھر ہو یا کسی اور کے گھر مدعو ہوں، پیر صاحب بات و بیان بعد میں کریں گے تولیہ اور تیل کی بوتل پہلے مانگیں گے۔ اب بیان کے دوران سر کھولے تیل کی مالش ہورہی ہے، مسجد میں بیٹھے ہیں اور بال گرتے ہیں تو نمازیوں کو شکایت ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں یہ کام ہو تو گھر والوں کو صفائی کی اذیت اٹھانی پڑتی ہے۔اور لوگ اسے انتہائی معیوب سمجھ کر ناگواری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
ان اعمال کی بدولت نیکی برباد گناہ لازم والی مثال صادق آتی ہے۔ دین تو کیا نشر ہوتا پیر صاحب کے اعمال کی شہرت ہوجاتی ہے جو دیگر لوگوں کی بھی ان حضرات سے بے زاری کا سبب بنتی ہے۔
پیری مریدی مزے کرنے، مریدوں پر رعب جمانے، ان کی عقیدت و محبت کے باعث انہیں اپنا ذاتی ملازم سمجھنے کا نام نہیں ہے۔ پیری مریدی دردِ سری ہے۔ پیر کو نہ چاہنے کے باوجود کئی کام کرنے پڑتے ہیں مثلاً کبھی طبیعت میں ضعف ہے، آرام کرنے کی خواہش ہے، کسی سے ملاقات کرنے کی ہمت نہیں۔ مگر طالب حضرات دین سیکھنے آئے ہیں۔ اب نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی دینی خدمت کے لیے وقت نکالنا ہے۔ اسی طرح بہت سے جائز کام چاہتے ہوئے بھی نہیں کرسکتے اس وجہ سے کہ مرید جانے کس نظر سے دیکھیں گے، کیا سمجھیں گے اور کیا عمل کریں گے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
شیخ کسی کو خلافت دے تو بہت کڑی شرائط کے ساتھ دے۔ مثلاً دین کے اعمال کا پابند ہو، گناہوں سے بچتا ہو، دین کے اہم احکامات جیسے فرض، واجب، سنن مؤکدہ کے مسائل اچھی طرح جانتا ہو، شیخ کی اتنی طویل صحبت اٹھا چکا ہو کہ لوگوں کے ظاہری و باطنی اعمال و احوال سمجھ کر ان کا علاج تجویز کرسکے۔
آج کل ایک نئی خرابی چل نکلی ہے کہ شیخ جھٹ کسی دینی یا دنیاوی ذی اثر شخص کو خلافت دے دیتا ہے۔ اس نیت سے کہ اس کو اپنا بنا لیں گے تو یہ ہمارے علاوہ کہیں اور نہیں جائے گا، جہاں جائے گا ہمارے ہی گن گائے گا، خلافت دینے کے عوض جب ہم اس کے شہر، اس کے علاقہ جائیں گے ہمارا خوب اکرام کرے گا، جگہ جگہ ہمارا تعارف کرائے گا۔
اس جلد بازی کی خرابی اکثر صورتوں میں یہ ظاہر ہوتی ہے کہ وہ خلیفہ صاحب بھی اپنی خلافت چمکانے کے لیے ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں کہ خلافت دینے والے کی بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اب شیخ صاحب نادم ہوتے ہیں، خلافت سلب کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن اعلان اس خلیفہ کے حلقہ تک کون پہنچائے کہاں تک پہنچائے۔ لہٰذا خلافت سلبی کا اعلان شیخ صاحب کے حلقہ تک ہی محدود رہتا ہے اور ناخلف خلیفہ کی کارستانیوں کا دائرہ سمیٹے نہیں سمٹتا۔
اس لیے مشائخ خلافت دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ بعض مشائخ کے ایسے کم عمر اور کم فہم خلیفہ ہیں جو شریعت کی مبادیات سے بھی واقف نہیں، زندگی کے تجربات سے متعلق شریعت کے احکامات نہیں جانتے، روحانی مدارج تلوین و تمکین سے تو کیا واقف ہوں گے۔ یہ لوگ دوسروں کو مشورے دیتے ہیں تو ناتجربہ کاری کے باعث اکثر کی زندگی خراب کردیتے ہیں۔ لہٰذا مشائخ بہت احتیاط سے برسوں مرید پر نظر رکھنے، اسے مختلف طریقوں سے آزمانے اور عمر کی پختگی کے بعد خلافت دیں۔ ہر مرید حضرت مولانا ابرار الحق صاحب جیسا نہیں ہوسکتا اور ہر پیر حضرت تھانوی جیسا نہیں۔ لہٰذا اس فرق کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں۔
خود حضرت تھانوی کے یہاں خلافت دینے کی نہایت کڑی شرائط تھیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ الحمد للہ میرے اکثر تو کیا قریباً سارے مرید روحانی طور سے اس درجہ پر فائز ہیں کہ دوسروں کو تلقین کرسکتے ہیں۔ لیکن میں خلافت دیتے وقت بہت شرائط دیکھتا ہوں۔
(جاری ہے)
 

علی وقار

محفلین
آج کل ایک نئی خرابی چل نکلی ہے کہ شیخ جھٹ کسی دینی یا دنیاوی ذی اثر شخص کو خلافت دے دیتا ہے۔ اس نیت سے کہ اس کو اپنا بنا لیں گے تو یہ ہمارے علاوہ کہیں اور نہیں جائے گا، جہاں جائے گا ہمارے ہی گن گائے گا، خلافت دینے کے عوض جب ہم اس کے شہر، اس کے علاقہ جائیں گے ہمارا خوب اکرام کرے گا، جگہ جگہ ہمارا تعارف کرائے گا۔
معلوم نہیں، سوال جواب کی یہاں اجازت ہے یا نہیں۔

ہم خلیفہ کے نام سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں۔ :)

یہ فرمائیے کہ ایک پیر کے خلفاء کتنے ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی حد مقرر ہے؟

پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ ہر پیر کا ایک خلیفہ ہوتا ہے۔ یہ تو چند ماہ قبل انکشاف ہوا کہ خلفاء کی تعداد دو یا اس سے زائد ہو سکتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
معلوم نہیں، سوال جواب کی یہاں اجازت ہے یا نہیں۔

ہم خلیفہ کے نام سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں۔ :)

یہ فرمائیے کہ ایک پیر کے خلفاء کتنے ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی حد مقرر ہے؟

پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ ہر پیر کا ایک خلیفہ ہوتا ہے۔ یہ تو چند ماہ قبل انکشاف ہوا کہ خلفاء کی تعداد دو یا اس سے زائد ہو سکتی ہے۔
اگر خلیفہ باکمال ہو تو اس سے متاثر ہونا فطری تقاضہ ہے۔ کیونکہ اس کے قلب میں وہ گوہر مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہوتی ہے۔ اسی گوہر کے حصول کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں رہتا ہے۔۔۔
جب کوئی مرید محنت کرکے روحانیت کے اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے جسے تمکین کہتے ہیں تو پیر اسے اجازت یعنی خلافت دیتا ہے۔ اس بات کی کہ اب آپ راستہ کی کٹھنائیوں سے واقف ہوکر منزل تک پہنچ چکے ہیں۔ اب دوسروں کو بھی اس راہ پر چلا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔ اس کی علم شریعت کی استعداد، باوقار شخصیت و معاشرہ میں قدر ہونا تاکہ لوگ اس کی بات سنیں۔ اسے حقیر سمجھ کر بے اعتنائی نہ برتیں۔ اور بھی بہت کچھ جو شیخ کامل کی صواب دید پر منحصر ہوتا ہے۔ جتنے بھی مرید باصلاحیت ہوں وہ خلافت کے مستحق ہوسکتے ہیں۔
البتہ جس معاملہ میں فرد واحد ہی ہوتا ہے وہ ہے جاں نشینی۔ یعنی پیر کے مرنے کے بعد ان کی خانقاہ کا انتظام کون سنبھالے گا۔ تو اگر اس کی اولاد اہل ہو تو پہلا حق اسی کا ہے۔ ورنہ جو مرید اہل ہو۔ بہرحال آج کل اس معاملہ میں بھی بڑی گڑبڑیں ہورہی ہیں۔ الا ما شاٗ اللہ!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ایسے خلیفہ صاحب بھی یہ سمجھ لیں کہ خلافت ملنے کے بعد خود کو مصلح سمجھ کر کسی سے اصلاح نہ کرانا ایک مہلک بیماری ہے۔ خلافت کوئی شرعی چیز نہیں ہے۔ نہ اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ قرب ملتا ہے، نہ آخرت میں نجات کا مدار اس پر قائم ہے اور نہ ہی جنت کے اعلیٰ درجات حاصل ہوتے ہیں۔ خلافت ملنے کی وجہ سے کوئی اپنے کو کسی شمار میں نہ لائے کہ قیامت کے دن جب عام مسلمان جنت میں جارہے ہوں گے تو خلیفہ صاحب اپنی کسی غلطی کی وجہ سے ہاتھ گردن سے باندھے ہوئے لائے جائیں گے۔
اہل اللہ کسی مرید کے شریعت و سنت کے مطابق ظاہری حالات دیکھتے ہوئے محض اپنے حسن ظن کے مطابق اس کو خلافت دیتے ہیں کہ جیسے یہ خود شریعت پر عمل کر رہا ہے ایسے ہی دوسروں کو اس کی تلقین کرے گا۔ بس، خلافت کا اس سے زیادہ کوئی کردار نہیں۔ یہ نہیں کہ خلیفہ بننے سے اس کو کوئی اعلیٰ مقام حاصل ہوگیا یا ہمیشہ کے لیے پاک دامن ہوگیا یا عبادات سے مستثنیٰ ہوگیا۔خلیفہ بس اس وقت تک قابلِ اعتماد و قابلِ اعتبار رہے گا جب تک شریعت و سنت پر عمل پیرا رہے گا۔ اگر وہ شریعت سے ہٹے گا تو اس کی خلافت عملاً ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ جس شریعت پر عمل کرنے کرانے کے مقصد سےخلافت دی گئی تھی وہ مقصد ختم ہوگیا تو خلافت ختم ہوگئی۔
اس لیے خلافت کو برکت کی چیز تو سمجھیں مگر اس سے زیادہ اپنے بزرگوں کی امانت سمجھتے ہوئے ہر وقت لرزاں و ترساں رہیں، کوئی ایسا عمل نہ کریں جو بزرگوں کے طریقہ کے خلاف ہو، کبھی خود کو اعمالِ شریعہ سے مستثنیٰ و مستغنی نہ سمجھیں۔ کثرت عبادات کو اپنا سب سے پہلا شغل بنائیں کہ اس پر ہی ولایت کا دارومدار ہے، کما قال رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام وَمَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّہُ۔
اکابر حضرات ہمیشہ یہ فرماتے چلے آئے ہیں کہ ہمارے خلفاء جب تک شریعت مطہرہ پر قائم ہیں ان کی خلافت قائم ہے، اگر وہ راہ سے گمراہ ہوئے تو خلافت سلب سمجھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگانِ دین کی زندگی میں کوئی خلیفہ دین سے ہٹا تو اس کی خلافت خود سلب فرمالیتے تھے۔ اور اگر ان کے وفات کے بعد خلیفہ نے ایسا معاملہ کیا تو منجانب اللہ تکویناً ان کی خلافت کی برکات ختم ہوجاتی ہیں اور ان کی دینی خدمات سلب کرلی جاتی ہیں۔
اس لیے دینی خُدّام تبلیغی حضرات کے اس فرمان کو ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ کرتے رہو، ڈرتے رہو۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
کشف و کرامات، مبشرات منامیہ اور الہامات لوازم ولایت میں سے نہیں ہیں۔ یعنی اگر کسی متبع شریعت و سنت ولی اللہ کو یہ چیزیں حاصل نہیں تو اس کے درجہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور یہ سب حاصل ہیں تو درجات بڑھانے میں معاون نہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے دو چار کرامات کے علاوہ کچھ ثابت نہیں، جبکہ بے شمار اولیاء اللہ ہیں جن سے لاتعداد کرامات کا ظہور ہوا۔ لیکن سارے اولیاء مل کر بھی حضرت ابو بکر کے قدموں کی خاک کو نہیں پہنچ سکتے۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے نصوص سے ثابت ہے کہ صحابہ کے برابر کوئی غیر صحابی نہیں پہنچ سکتا۔
اللہ تعالیٰ اپنے کسی پیغمبر کے ہاتھوں معجزہ کا یا کسی ولی کے ہاتھوں کرامات کا صدور فرماتے ہیں تو کھیل تماشہ یا تفریح کے لیے ایسا نہیں کرتے، اللہ جل شانہٗ ان تمام برائیوں سے پاک ہیں، بلکہ معجزہ ہو یا کرامت صرف دین کی عظمت یا سر بلندی یا مدد کے لیے ان کا ظہور فرماتے ہیں۔
جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے پانی کے سوتوں کا پھوٹنا اس لیے تھا کہ جہاد کے لیے اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے صحابہ پیاس سے سیراب ہوں اور نماز کے لیے وضو کریں۔ اسی طرح اولیاء اللہ سے بھی جب کسی کرامت کا صدور ہوا دین کی سربلندی یا دشمن کے شر کو دور کرنے کے لیے ہوا۔
لیکن کشف و کرامات کو عوام میں اتنی اہمیت حاصل رہی ہے کہ وہ اعمال شریعہ کو اس کے سامنے اہمیت نہیں دیتے۔ خاص کر بعض پیروں کے کچھ مرید اپنی خام خیالی کو اور اپنی بے خوابیوں کی خرابی کو رائی کا پہاڑ کر پیر کو عظمتوں کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ پیر صاحب بھی ان تصنع کاریوں پر خوش ہوتے ہیں اور اپنے کو نجانے کن مقامات پر فائز سمجھنے لگتے ہیں۔ جیسے ایک مرید کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پیر صاحب نماز میں تھے کہ ہوا میں اڑ گئے۔
اس بات کا دین کی عظمت سے، اس کی ترویج سے یا اس کی مدد سے کیا تعلق؟ ایسی باتیں مذاق کا نشانہ بنتی ہیں، سچے اللہ والوں سے بھی عوام کو بے زار کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ پیر صاحب اڑ کر کہاں گئے؟ کسی خاص مقصد کے لیے گئے یا یونہی سیر و تفریح کرنےگئے؟ وہ کون سا خاص مقصد تھا جس کے لیے نماز چھوڑنی پڑی؟
ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ ان کا مرید دس سال ان کی خدمت میں رہنے کے بعد یہ کہہ کر رخصت ہونے لگا کہ ان دس سالوں میں ، میں نے آپ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ بزرگ نے پوچھا کہ میرا کوئی کام خلافِ شریعت دیکھا، یا کوئی گناہ کرتے دیکھا؟ بولا نہیں۔ تو فرمایا کہ اس سے بڑی کرامت اور کیا چاہتے ہو؟
بس یہی وہ چیز ہے جس کے حصول کے لیے اہل اللہ کی صحبت اختیار کی جاتی ہے، پیر کا دامن پکڑا جاتا ہے کہ زندگی کا ہر عمل قرآن و سنت کے سانچہ میں ڈھل جائے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ الحمد للہ، شریعت طبیعت ثانیہ بن چکی ہے۔
رہی بات کشف و کرامات کی جو پہلے کے بزرگوں سے کثرت سے صادر ہوتی تھی، آج کل تقریباً مفقود ہوگئی۔ تو سبب اس کا کثرتِ ذکر و شغل ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو کبھی شغلِ حبسِ سرمدی بتاتے تھے، کبھی سلطان الاذکار، کبھی ستر ہزار بار لا الٰہ الالاللہ پڑھنے کو بتاتے تھے تو کبھی ایک لاکھ بار اسم ذات یعنی اللہ اللہ۔ یہ اعمال تھے کہ بقول حضرت تھانوی کام کیے جاؤ، کشف و کرامات لونڈی کی طرح لپٹی چلی آئیں گی۔ آج کسی میں اتنی ہمت و طاقت نہیں کہ اتنا ذکر و شغل کرسکے۔ لہٰذا کشف و کرامات کا باب بھی بس اب بند ہی سمجھیے، الا ماشاء اللہ۔ لہٰذا نہ کشف و کرامات کی وجہ سے پیر کو پکڑیں نہ اس کی وجہ سے پیر کو چھوڑیں۔
پیر صاحب کو بھی چاہیے کہ اب یہی تعلیم اپنے مریدوں کو دیں کہ شریعت پر عمل اصل ہے۔ آج کل کے دور میں کشف و کرامات کے پیچھے نہ پڑو، کہ اب ان کا وقوع شاذ و نادر ہوگیا۔پیر مریدوں کو ان کھیل تماشوں میں لگنے اور خود اپنی ذات کو ان میں ملوث کرنے سے اجتناب کی سختی سے تلقین کریں۔
کسی کی کیا مجال تھی کہ حضرت تھانوی کی تعریف میں مبالغہ آرائی کرسکے۔ کوئی سچے دل سے بھی تعریف کرتا تو فرماتے: ’’خیر میں کیا چیز ہوں، مگر یہ سب حضرت حاجی (امداد اللہ )صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی برکات ہیں جو ایک بے حس نل سے جاری ہیں۔‘‘ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۱۲۰)
جو پیر مریدوں کے کہنے سے سر چڑھے، ان کے خوابوں سے خود کو آسمانوں پر اڑتا محسوس کرے، ان کی بے سر و پا باتوں کو کشف و کرامات سمجھے یا ان کے دینے سے القاب لے تو سمجھ لیں کہ وہ کس درجہ پر فائز ہے۔
پیر کو مرید کے مقام کو سمجھنا اور بتانا ہوتا ہے۔ مرید کی اتنی اہلیت نہیں ہوتی کہ پیر کے مقام کوسمجھ سکےیا اسے کسی منصب پر فائز کرسکے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
من تفقہ و لم یتصوف فقد تفسق و من تصوف و لم یتفقہ فقد تزندق و من جمع بینھما فقد تحقق
علم فقہ حاصل کرنے کے بعد جس نے تصوف اختیار نہیں کیا وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو گیا اور جس نے صوفیت اختیار کی اور علم شریعت سے دور رہا وہ بے دین و زندیق ہوگیا اور جس نے ایک ساتھ دونوں حاصل کرلیے اس نے حقیقتِ مراد پالی۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۲؍۱۹۰، کتاب العلم، الفصل الثالث)
اکابر فقہاء کے اقوال آج کل کے مشائخ کو اپنے حالات پر منطبق کرتے رہنے چاہیٗیں۔ کیونکہ یہی راہِ اعتدال اور راہِ نجات ہے ؎
مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہو کر تیرے دیوانے گئے
دیکھا گیا ہے کہ جس خانقاہ میں علم و فقہ کا فقدان ہوا وہ خانقاہ کچھ ہی عرصہ میں خواہ مخواہ ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ غیر عالم خلفاء کو خلافت نامہ دیتے وقت مُجاز للعوام لکھتے تھے۔ تاکہ خلفاء کو یہ احساس رہے کہ ہم اتنے بڑے اہل علم نہیں ہیں کہ علماء کی تربیت کرسکیں، اور اس احساس کی وجہ سے ہمیشہ اہل علم سے دینی مسائل میں رجوع کرتے رہیں۔
حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب کا عرصہ تک یہ معمول تھا کہ غیر عالم خلفاء کے خلافت نامہ پر یہ تحریر فرماتے تھے کہ میں نے آپ کو اجازت اللہ کی محبت کی باتیں بیان کرنے کے لیے دی ہے، مسائل بیان کرنے کے لیے نہیں۔
صرف عوام ہی نہیں اہل علم بھی اگر قرآن، حدیث، آثار الصحابہ اور طریق اولیاء سے ہٹے اور ایسے تفردات پیش کیے جو علماء کے حلقے میں سندِ اعتماد حاصل نہ کرسکے تو ایسوں کا چراغ جلد ہی گل ہوگیا۔ کچھ کا ان کی زندگی میں ہی، اور کچھ کا مرنے کے بعد۔ بہرحال ایسے سلسلے چل نہ سکے جو تفردات، رسومات اور کسی حد تک بدعت سے آلودہ ہوچکے تھے۔
سلسلہ کوئی بھی ہو خصوصاً غیر اہل علم مشائخ نے جب بھی اپنے شیخ کی باتوں سے ہٹ کر، ان کے ملفوظات سے الگ ہوکر اپنے کو کہنہ مشق مقرر و خطیب سمجھ کر اپنے ملفوظات کا رنگ جمانے کی کوشش کی، ان کے تمام رنگ مدھم پڑگئے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
علم و فقہ کے فقدان کے اثرات غیر عالم مشائخ کی زندگی میں جابجا نظر آتے ہیں، اِلّا یہ کہ وہ ہر وقت خود کو کسی عالم یا مفتی کے زیر نگرانی رکھے، ہر نئی بات جو ذہن میں آئے پہلے ان سے پوچھے۔ اور یہ عالم بھی ان کے مرید یا ملازم نہ ہوں کہ بعض اوقات عقیدت کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باعث صحیح تجزیہ نہیں کرپاتے۔ چنانچہ ہر مسئلہ ایسے مفتی حضرات سے پوچھیں جن کا علم اور للٰہیت معروف ہو اور جو پیر صاحب کے ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہوں۔
ان علمی کمزوریوں کے باعث مشائخ کی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جن کے سبب علماء معترض ہوتے ہیں۔شیخ کے اعمال و اقوال کا مریدوں پر گہرا اثر ہوتا ہے، اس لیے خصوصاً غیر عالم مشائخ خود بھی راہِ اعتدال پر رہیں اور مریدین پر بھی نظر رکھیں کہ وہ اعتدال سے ہٹ کر غلو کی طرف یا اعلیٰ سے ہٹ کر ادنیٰ کی طرف گامزن تو نہیں ہورہے۔
غیر عالم مشائخ کی فقہی اغلاط،علمی کمزوریوں اور عملی کوتاہیوں کے واضح اثرات ان کے بیانات میں بھی نظر آتے ہیں، ملفوظات میں بھی اور عملی زندگی میں بھی۔ جہاں وہ اپنے اکابر بالخصوص اپنے شیخ کی باتوں سے ہٹ کر اپنے عقائد و نظریات اور نت نئے مسائل پیش کرتے ہیں وہیں ٹھوکر کھاتے ہیں۔
کس مسئلہ کا کیا درجہ ہے، اسے کس درجہ میں رکھنا ہے، کیسے لاگو کرنا ہے بغیر جید مفتی حضرات سے پوچھے بغیر ہرگز کسی کو نہ بتائیں۔ دین کا مسئلہ بتانا گویا اس مسئلہ کی نسبت اللہ کی طرف کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے بڑے بڑے علماء بھی مسئلہ بتا کر کہہ دیتے ہیں واللہ اعلم۔ یعنی ہم قرآن و حدیث و آثار الصحابہ کی روشنی میں یہ سمجھے ہیں، لیکن سو فیصد صحیح مسئلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
دینی مسائل تقویٰ اور اللہ والا ہونے سے نہیں آتے، بلکہ برسوں عرق ریزی سے مستند علماء کی زیر نگرانی حاصل کرنے سے آتے ہیں۔ صحابہ کرام سے بڑا اللہ والا کون ہوگا، لیکن کتنے صحابہ تھے کہ خود مسائل نہیں بتاتے تھے بلکہ غیر صحابی جیسے حضرت سعید بن المسیب (تابعی) کی طرف رجوع کرنے کا اشارہ کردیتے تھے ۔
اسی طرح غیر عالم صوفیاء کو علماء کے باہمی اختلافات کے بارے میں بحث و تبصرے نہیں کرنے چاہئیں۔ وہ اپنے شیخ کے مسئلہ پر عمل کرنا چاہیں تو بے شک عمل کریں مگر دوسرے کی مخالفت کرنے کا علمی لحاظ سے انہیں کوئی حق نہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس بھی قرآن و حدیث کے علمی دلائل موجود ہوتے ہیں جن سے غیر عالم ناواقف ہوتے ہیں۔
ماثر حکیم الامت میں ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات نقل فرماتے ہیں کہ حضرت والا ہمیشہ اپنے کو طالب علم کہہ کر تحدث بالنعمتہ فرمایا کرتے ہیں اور رسمی درویشی کے طالبوں سے فرما دیا کرتے ہیں کہ مجھے پیر جیون والی درویشی نہیں آتی۔ میں تو ایک طالب علم ہوں۔ مجھ سے تو قرآن وحدیث کی باتیں پوچھی جائیں۔ مجھے تو سیدھا سادھا قرآن وحدیث ہی آتا ہے اور میں تو اسی کو اصل درویشی سمجھتا ہوں۔ نیز علماء کی اشد ضرورت ظاہر فرمایا کرتے ہیں کہ انہی کے وجود پر دین کا دارو مدار ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کرتے ہیں کہ صوفیاء سے زیادہ علماء کی ضرورت ہے کیونکہ انہی کی بدولت انتظام دین قائم ہے ورنہ کسی کو احکام دین اور ان کے حدود ہی کا پتہ نہ چلے۔ درویشی تو اس کے بعد کی چیز ہے۔
(ماثر حکیم الامت، از ڈاکٹر عبد الحی صاحب، ص: 89)
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
دین کا ہر شعبہ، ہر خدمت ایک دوسرے سے اس طرح جڑی ہے جیسے ایک عمارت کی اینٹیں آپس میں۔ ہر اینٹ کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ ایک اینٹ بھی ہلائیں گے تو عمارت کے خد و خال بدل جائیں گے۔لہٰذا مشائخ کو خود بھی یہی سمجھنا چاہیے اور مریدین کو بھی یہی تعلیم دینی چاہیے کہ تبلیغ کا کام ہو یا مدارس میں علم دین میں مشغول طلباء و علماء، دین کا ہر شعبہ اہم ہے۔ کسی کے کسی کام کو کم حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو، سب کو اپنے سے بڑھ کر سمجھو۔
مولانا ابرار الحق صاحب ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں کہ تبلیغی جماعت ہو یا مدارس کے علماء ہوں یا خانقاہ کے مشائخ ہوں سب دین کے کاموں میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں فریق نہیں ہیں۔یعنی مددگار ہیں مخالف نہیں ہیں۔
دین کے ہر شعبے کو ہر ایک سنبھالے ہوئے ہے تو دوسرے شعبے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ سب دین کا کام کر رہے ہیں۔حتی کہ مسجد کی خدمت کرنے والا خادم بھی دین کے کام کے چین کی ایک کڑی ہے. اگر وہ نہ ہو اور مسجد گرد غبار سے اٹ جائے تو کون نماز پڑھنے آئے گا؟ نورانی قاعدہ پڑھانے والا ہو یا بخاری شریف پڑھانے والا دونوں کو ان شاءاللہ ایک جیسا ثواب ملے گا کیونکہ دونوں کے نزدیک مقصد دین کی تبلیغ اور اللہ کی رضا ہے۔یہ ہے ہمارے اکابر کی تعلیم۔
مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب وقتاً فوقتاً نہ صرف جعلی پیروں کی نشاندہی فرماتے رہتے تھے بلکہ اصلی پیروں کی غلطیوں پر ان کو بھی متوجہ کرتے تھے۔ آپ نے اس موضوع پر پورا ایک بیان فرمایا ہے جس کا نام ہے ’’اصلی پیری مریدی کیا ہے؟‘‘حتیٰ کہ بعض اکابر کو ان کی کسی غلطی کی نشاندہی پر خطوط تک تحریر فرمائے جس پر ان حضرات نے نہایت خوشی کا اظہار فرمایا اور اپنے اس عمل سے رجوع کیا جس کی طرف حضرت اقدس نے اشارہ فرمایا تھا۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے حالات کی اصلاح کی اس قدر فکر رہتی تھی کہ آخر عمر میں جب بینائی جاتی رہی اور پڑھنے کے قابل نہیں رہے، تب بھی کسی سے فرمانے لگے کہ فلاں صاحب ہمارے بارے میں نہایت مخالفانہ بات کرتے ہیں تو ان کی تحریر پڑھ کر سناؤ، ہوسکتا ہے کوئی بات ایسی ہو جس سے ہماری غلطی کی نشاندہی ہو۔ ان صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان کی کتاب میں آپ کے لیے صرف گالیاں ہی بھری ہیں۔ پھر بھی حضرت گنگوہی سننے پر مصر رہے کہ شاید میری کوئی غلطی واضح ہوجائے۔ یہی عمل حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ آپ نے باقاعدہ ’’ترجیح الراجح‘‘ کے نام سے ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس میں اپنی غلطیوں سے رجوع کا اعلان فرماتے رہتے تھے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی "اصلاح و ایضاح" کے نام سے ماہنامہ البلاغ میں باقاعدہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں اگر کوئی ان کی کسی غلطی سے آگاہ کرتا ہے تو اس غلطی سے رجوع فرماتے ہیں بلکہ اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ جو برسوں پہلے شائع ہوئی تھی، اس پر آج تک تحقیقی کام جاری ہے، اس نظر سے کہ کسی حدیث یا قول کی سند غیر معتبر ہو تو اس سے رجوع کیا جائے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ تھے تو روئے زمین پر ان سے بہترین انسان کوئی نہیں تھا۔ اور رعب اتنا تھا کہ لوگ بات کرنے سے کانپتے تھے۔ لیکن امت میں جب بھی کسی مرد یا عورت کو ان کے کسی قول یا فعل پر شک گزرتا بلا جھجھک اس بارے میں ان سے سوال کرلیتے تھے۔ جس پر آپ اس کی یا تو وضاحت کرتے یا اگر غلطی ہوتی تو فوراً رجوع فرمالیتے اور اس کی تعریف بھی کرتے۔
آج کل بعض پیر دوسروں کی برائیوں کے بارے میں تو بڑے جوش و خروش سے گھنٹوں بیان کرتے ہیں لیکن جب اپنی غلطیاں سامنے آتی ہیں تو ماننا تو دور کی بات، انہیں سننا بھی گوارا نہیں کرتے؎
عیب ہر شخص میں جو ڈھونڈ رہے تھے انجمؔ
آئینہ ان کو دِکھایا تو بُرا مان گئے
ایسے مشائخ اپنے مریدوں کی اس طرح ذہن سازی کرتے ہیں کہ کوئی شیخ کے خلاف بات کرے تو اس سے الگ ہو جاؤ۔ معلوم ہوا اس میں بھی دو باتیں ہیں۔ پیر کے خلاف صحیح بات کی جا رہی ہے یا غلط۔ اگر غلط بات کی جا رہی ہے تو پہلے تو اس برائی کرنے والے کو سمجھائیں گے، ورنہ اس سے الگ ہو جائیں گے۔ لیکن الگ ہوتے ہوئے بھی شریعت کا خیال رکھیں گے، کسی مسلمان سے اس صورت میں قطع تعلق تو ہرگز جائز نہیں، البتہ اس سے عرض کردیں گے کہ ہم اپنے بزرگوں کی برائی نہیں سن سکتے۔
اور اگر پیر کے متعلق صحیح بات کی جا رہی ہے، کسی غلطی سے آگاہ کیا جارہا ہے تو مرید کو چاہیے کہ کسی ذریعے سے پیر کو اس بات سے آگاہ کر ے۔ اور اگر پیر بڑی غلطی پر ہے اور سمجھانے سے بھی نہیں مان رہا یا مرید کے پاس اسے سمجھانے کا راستہ نہیں ہے تو ایسے پیر سے تعلق توڑا جائے گا۔ لیکن کیا اس طرح کے مرید جو پیر کے خلاف صحیح بات بھی سننا گوارا نہیں کرتے اس سے تعلق توڑ سکیں گے؟
ان مریدوں کی ایسی ذہن سازی ہوتی ہے کہ معاذ اللہ وہ پیر کی بات کے آگے قرآن و حدیث کے دلائل بھی نہیں مانتے، صحابہ اور دیگر اکابر کے طریقہ سے بھی آنکھیں موند لیتے ہیں۔ یہی ہے اصل تعریف بطر الحق کی کہ حق بات ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ انہیں خدا اور رسول کی شریعت سے زیادہ عزیز پیر کی دستار فضیلت ہوتی ہے۔
کم لوگ ہیں جو راہِ حق میں ہر طرح کی کٹھنائیاں برداشت کرتے ہیں۔ ہر ایک حضرت سلمان فارسی نہیں ہوتا جو سچے پیغمبر کی تلاش میں برسوں کا سفر طے کرتا ہے، ہزاروں صعوبتیں جھیلتا ہے، تب کہیں جا کے خدا اور رسول کو پاتا ہے اور جگر مراد آبادی کے اس شعر کا مصداق بنتا ہے ؎
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
ایسے غیر معتدل پیروں کی اصلاح تو کیا، اگر ان کی کسی غلطی کی نشاندہی بھی کی جائے تو بجائے اصلاح کرنے کے، غلطی دور کرنے کے وہ نشاندہی کرنے والے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اس کے خلاف بیان بازی کرکے مریدین کی ذہن سازی کے عمل کا آغاز کردیتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی خفیہ فورس تک اس کے پیچھے لگادیتے ہیں:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِ۔۔ٴُ۔وْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(سورۃ الصٰف، آیت:۸)
ان کا ارادہ ہے کہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ ( لیکن یہ اپنے ارادے میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے کیونکہ) اللّٰہ تعالیٰ اپنے نور کو پھیلا کر رہیں گے، چاہے کافروں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔
( مضمون کے لحاظ سے یہاں کافروں کی بجائے نافرمان سمجھیں)
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
یہ لوگ خود امت کی اصلاح کرنے کے داعی ہیں مگر اپنے آپ کو ہر قسم کی اصلاح سے ماوراء سمجھتے ہیں۔ کوئی اصلاح تو درکنار کسی غلطی کی نشاندہی بھی کرے تو کہتے ہیں اپنی فکر کرو، کیا فرشتے ہو جو ہماری فکر میں لگے ہو؟ کیا یہی اصول ان پر بھی لاگو نہیں ہوتا؟ اگر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے یہ تو فرشتے ہوگئے؎
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
پیر سے تعلق کیسے قائم کریں؟

اللہ والوں سے تعلق قائم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو ان سے بیعت ہوجائیں۔ بیعت ایک سنت عمل ہے۔ بیعت ارادہ، وعدہ اور عزم کا نام ہے۔ ایک بیعتِ خلافت ہوتی ہے جو حکمران سے اظہارِ وفاداری کے لیے کی جاتی ہے۔ لیکن پیر سے تعلق قائم کرنے کے لیے جو بیعت کی جاتی ہے وہ پیر کے ہاتھوں پر گناہوں سے توبہ کرنے اور نیکیوں پر عمل کرنے کے ارادہ اور و عدہ کا نام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مختلف معاملات پر بیعت لی ہے۔ جیسے ایمان لانے پر، گناہوں سے بچنے پر، توبہ کرنے پر، نیک اعمال کرنے پر۔
بیعت کرنے سے پیر و مرید کے تعلق میں برکت ہوجاتی ہے۔ بس، بیعت کی اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں۔ یہ نکاح کی طرح نہیں ہے کہ اب پیر و مرید کے درمیان تعلق ٹوٹ ہی نہیں سکتا۔ نہ کسی خونی تعلق کی طرح ہے کہ قطع تعلق بالکل حرام ہے۔ بلکہ اگر مستقبل میں پیر راہِ اعتدال سے ہٹ جائے، غلو کا شکار ہوجائے، یا قرآن و سنت کے احکامات نہ مانے یا ان کی غلط تاویل کرے یا کسی صریح گناہ میں مبتلا ہوجائے اور ان اعمال سے سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے تو بیعت ہونے کے باوجود مرید کو ایسے پیر سے تعلق توڑنا واجب ہے۔ اس تعلق کو توڑنے کے لیے کوئی خاص انتظام و اہتمام کی ضرورت نہیں، محض ایسے پیر سے دوری اختیار کرلے، اور کسی دوسرے سچے اللہ والے متبع سنت پیر سے تعلق قائم کرلے۔ تعلق توڑنے کے لیے اس پیر کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ میں آپ سے تعلق توڑ رہا ہوں۔ بس خاموشی سے الگ ہوجائے۔ اس بات کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تربیت السالک میں سالکین کے خطوط کا جواب دیتے ہوئے یوں بیان فرماتے ہیں:
’’حال: میں ایک شخص سے مرید ہو گیا۔ بعد مرید ہونے کے معلوم ہوا کہ وہ شخص عقائد فاسق رکھتے ہیں ۔ اور مذہب ان کا ہمہ اوست ہے۔ لہٰذا ایک عجیب پریشانی میں پڑا ہوں۔ اب فرما ئیے کہ کیا کروں وہ بیعت توڑ سکتا ہوں یا نہیں۔
تحقیق : توڑ دینا واجب ہے۔
حال: اس بیعت توڑنے کی خبر پیر صاحب کو کر سکتا ہوں یا نہیں۔
تحقیق: اگر کسی جھگڑے کا اندیشہ ہو تو کر دینا بہتر ہے ورنہ خود اپنا ارادہ ہی کافی ہے ۔
حال: بیعت توڑنے کا طریقہ کیا ہے؟
تحقیق: پکا ارادہ کرلے کہ اس سے تعلق نہ رکھوں گا۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۱۲۵)‘‘
تو معلوم ہوا کہ کسی اللہ والے سے بیعت ہونا بس ایک برکت والا عمل ہے۔ اس سے مرید کو یہ احساس رہتا ہے کہ اب میرا ایک اللہ والے سے تعلق قائم ہوگیا ہے۔ اس احساس کے تحت مرید کو پیر کی باتیں ماننے میں یکسوئی رہتی ہے اور وہ ایسا کام کرنے سے بچتا ہے جس کی وجہ سے اہل اللہ کی ناراضگی یا ان کی بدنامی کا باعث بنے۔
اللہ والوں سے تعلق بغیر بیعت کے بھی قائم ہوسکتا ہے۔ بیعت کرنا صرف سنت ہے، فرض واجب نہیں۔ جبکہ نفس کی اصلاح کرنا فرضِ عین ہے۔ لہٰذا بیعت ہوئے بغیر بھی جس اللہ والے سے تعلق قائم کیا جائے اسے اپنے احوال و اعمال کی اطلاع دیتا رہے اور اس کی ہدایات پر عمل کرتا رہے۔
ان نیک اعمال، تقویٰ اور صحبتِ شیخ کی برکت سے ایک دن یہ بھی بیعت ہونے والے مریدوں کی طرح منزل تک پہنچ جائے گا۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اصلاحی مُکاتبت
تصوف سے متعلق تقریباً تمام مباحث پر کافی حد تک بیان کرلیا گیا ہے، جیسے پیر ومریدکی تعریف و خصوصیات، ذکر و شغل کا طریقہ و اہمیت اور صحبتِ شیخ کی ضرورت و فضائل۔ اب آخری جزو رہ گیا ہے ’’تخلیہ‘‘ یعنی گناہوں سے تخلیہ، نجات پانا۔ اور اس کا ایک ذریعہ ہے شیخ سے اصلاحی مکاتبت کرنا۔
چونکہ سالک اللہ کو حاصل کرنے کی ٹھان چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ذکر و شغل کا نور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ظاہری و باطنی نجاستوں سے چھٹکارہ پانا بھی ضروری ہے جو شیخ کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
وَ ذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ
(سورۃ الانعام، آیت:۱۲۰)
ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہوں سے بچو۔
معلوم ہوا کہ احکام الٰہی دو طرح کے ہیں:
  • ۱) ۔۔۔ظاہری یا جسمانی
  • ۲)۔۔۔باطنی یا قلبی
ظاہری اعمال جن کا تعلق جسم سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد، نامحرم سے نظر کی حفاظت کرنا وغیرہ۔باطنی اعمال جن کا تعلق قلب سے ہے، باطنی اعمال میں نہ کرنے کے کام زیادہ ہیں مثلاً حسد نہ کرنا، غیبت نہ کرنا، دل میں نامحرم کا خیال نہ لانا وغیرہ۔ظاہری جسم کے اعمال منفی بھی ہوسکتے ہیں جیسے زنا کرنا، چوری کرنا، شراب پینا وغیرہ۔ اسی طرح باطنی اعمال مثبت بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسے ایمان لانا، تصدیق کرنا، والدین سے محبت کرنا ، اچھی نیت کرنا وغیرہ۔
گویا سمجھنے کے لیے یہ دو طرح کے اعمال ہوگئے۔ مثبت یعنی نیک کام کرنا اور منفی یعنی برے کاموں سے بچنا۔ جس طرح بلب مثبت اور منفی تاریں لگانے سے روشن ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ دو اعمال کرنے سے قلب روشن ہوجاتا ہے۔
منفی اعمال سے چھٹکارا پانے اور مثبت اعمال پر عمل کرنے کے لیے مرید کے ذمہ ہے کہ کسی اللہ والے شیخ سے مسلسل رابطہ میں رہے اور اس کو اپنے حالات سے آگاہ کرتا رہے۔ اس کی چند صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً فون پر بات کرنا، بالمشافہ ملاقات کے ذریعہ بات کرنا یا کسی کے ذریعہ اپنی بات شیخ تک پہنچانا اور ان کا جواب سننا۔ یہ ساری صورتیں مشورہ کہلاتی ہیں۔
اور تحریری طور پر جو بات کی جائے چاہے موبائل پر میسج کے ذریعہ یا خط لکھ کر اس کو اصلاحی مکاتبت کہتے ہیں۔ مکاتبت کتابت سے نکلا ہے۔ یعنی اصلاحِ نفس کے لیے کی جانے والی خط و کتابت۔ اس میں سالک اپنے سب حالات شیخ کو لکھتا ہے کہ کن کن گناہوں میں مبتلا ہے، نماز روزہ رکھتا ہے یا نہیں، ذکر و شغل کرتا ہے یا نہیں، اگر کرتا ہے اور کچھ کیفیات محسوس ہوتی ہیں تو شیخ سے ان کا بھی ذکر کرتا ہے۔
جواب میں شیخ بتاتا ہے کہ گناہوں سے کیسے بچا جائے، نماز روزہ پر کیسے مدامت کی جائے، ذکر و شغل میں کمی کوتاہیوں پر کیسے قابو پایا جائے اور دورانِ ذکر جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
سالکین کی اقسام:
سالکین کو تین درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مبتدی یعنی ابتداء کرنے والا، متوسط یعنی درمیان والا اور منتہی یعنی انتہاء کو پہنچنے والا، کامل ہونے والا۔
مبتدی سالک کے احوال:
مبتدی کبھی چلتا ہے، کبھی گرتا ہے، کبھی بڑھتا ہے، کبھی ہٹتا ہے، کبھی بچتا ہے، کبھی پھنستا ہے،کبھی نیکیاں کرتا ہے تو کبھی گناہ کرتا ہے۔ نیکیاں کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، گناہ کرتا ہے تو غمگین ہوتا ہے؎
کبھی طاعتوں کا سرور ہے،کبھی اعترافِ قصور ہے
ہے مَلک کو جس کی نہیں خبر، وہ حضور میرا حضور ہے
مَلک کا مطلب ہے فرشتے۔بہرحال جو مبتدی سالک گرتے پڑتے، رُکتے سنبھلتے چلتا رہتا ہے وہ آخر کار منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے ؎
ہم نے طے کیں اس طرح سے منزلیں
گر پڑے، گر کر اُٹھے، اُٹھ کر چلے
شروع کا یہ وقت سالک کے لیے بڑا صبر آزما ہوتا ہے کیونکہ ابھی اس کو تقویٰ اور ذکر و شغل کے ثمرات ملنا شروع نہیں ہوتے۔ جیسے کنواں کھودا جاتا ہے تو شروع میں خشک مٹی نکلتی ہے لیکن اگر ہمت نہ ہارے اور کنوئیں کو کھودتا چلا جائے تو رفتہ رفتہ ایک دن آتا ہے کہ خشک مٹی میں نمی کی آمیزش ہوتی ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ کیچڑ ملا پانی نکلتا ہے یہاں تک کہ جب کنوئیں کی مطلوبہ گہرائی میں پہنچ جاتا ہے تو صاف شفاف ٹھنڈا میٹھا پانی نکل آتا ہے۔
اسی طرح جب تقویٰ کے ذریعہ سالک کا قلب صاف ہونا شروع ہوتا ہے اور نیک اعمال کا نور اس کے دل میں جمع ہوتا ہے تب ایک دن آتا ہے جب اسے نسب مع اللہ کی وہ عظیم الشان نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوجاتی ہے جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔
سالکین کی اصلاحی مکاتبت کو سمجھنے کے لیے نمونے کے طور پر چند خطوط اور ان کے جواب لکھے جارہے ہیں تاکہ انہیں پڑھ کر اندازہ ہو کہ سالک کس طرح اپنے اخلاقِ رذیلہ یعنی گناہوں سے اور اخلاقِ حمیدہ یعنی ذکر و عبادات سے متعلق اُمور سے اپنے شیخ کو آگاہ کرتے ہیں، اور مشائخ کس طرح ان کا جواب دیتے ہیں۔ ان خطوط سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ خود ہمارے باطن میں کتنے امراض پوشیدہ ہیں جن کی ہمیں خبر تک نہیں۔ جو اندر ہی اندر ہمیں گھن کی طرح کھا رہے ہیں، ہماری آخرت کی راہ مار رہے ہیں اور تزکیۂ نفس میں رکاوٹ بنے کھڑے ہیں۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
خط ببات ضرورتِ شیخ
(۱)
حال: حضرت اقدس یہ بات سمجھنی ہے کہ جب ہمارے سامنے دین کے سارے اعمال ہیں پھر شیخ کی ضرورت کیوں ہے؟ ہم خود نیک اعمال کرلیں گے اور گناہوں سے بچ جائیں گے۔
جواب: عام آدمی ایک حد تک ہی یہ کام کرسکتا ہے۔ لیکن ان اعمال کا علی وجہ الکمال حاصل کرنا کسی استاد، بزرگ، شیخ کامل کی رہنمائی کے بغیر محال ہے۔ کیونکہ شیخ نے بھی اپنے بڑوں سے سیکھا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ اور رسول اللہ کے مربی اللہ تعالیٰ ہیں۔
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ڈاکٹر بیمار ہوجائے اور بیماری سمجھ میں نہ آئے تو اسے بھی کسی دوسرے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بہت سے روحانی امراض ہیں جن پر خود نظر نہیں جاتی، محقق شیخ ہی بتاتا ہے۔ تربیت السالک میں لکھا ہے کہ حضرت تھانوی نے کسی کو بتایا کہ آپ کے اندر تکبر کا مرض ہے، مگر انہوں نے تسلیم نہ کیا، پانچ برس بعد حضرت سے عرض کیا کہ آپ نے بالکل صحیح فرمایا تھا، اب مجھے بھی احساس ہوتا ہے کہ مجھ میں تکبر کا مرض ہے۔ حضرت تھانوی نے فرمایا اس بات کو سمجھنے میں آپ نے پانچ برس ضائع کردئیے، پہلے مان جاتے تو یہ مرض کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔
حضرت تھانوی کے اجل اور محبوب خلیفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے حضرت سے عرض کیا کہ ذکر اللہ تو ہم خود بھی کرسکتے ہیں اس کے لیے شیخ کی کیا ضرورت؟ تو حضرت نے فرمایا کہ کاٹتی تو تلوار ہی ہے مگر جب کسی کے ہاتھ میں ہو۔
اللہ کا راستہ طے کرنے کے لیے صرف ذکر ہی کافی نہیں ہوتا، رزائل کا امالہ یا ازالہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ امالہ کا مطلب ہے کہ نیک اعمال کرنے میں اور گناہوں سے بچنے میں سستی کا تقاضہ کمزور ہوجانا اور ازالہ کا مطلب ہے کہ اس تقاضہ کا بالکل ہی خاتمہ ہوجانا۔ اب اس کو بھی سمجھیے۔ حدیث پاک میں ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے مگر انسان کی جو فطرت اللہ نے بنادی وہ نہیں بدل سکتی، مثلاً کسی میں فطری طور غصہ کا مادہ بہت زیادہ ہے، کسی میں کنجوسی کا، کسی میں بدنظری کرنے کا۔ شیخ کی صحبتوں سے اور اس کی ہدایات پر عمل کرتے رہنے سے ان مادوں کا خاتمہ تو نہیں ہوتا مگر ان پر قابو پانا آجاتا ہے۔ جو آدمی بات بات پہ آگ بگولہ ہوجاتا تھا، رفتہ رفتہ غصہ پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے، غصہ تو اس کو فطرت کے مطابق آئے گا مگر اب اس پر قابو پانا آجائے گا، غصہ کا اظہار نہیں کرے گا، اپنے اندر ہی رکھے گا۔ اس قابو پانے کو امالہ کہتے ہیں۔ امالہ کا مطلب ہے کسی مادے کو دوسری طرف پھیر دینا یعنی غصہ کی زیادتی کے مادے کو اسے ضبط کرنے والے مادے کی طرف پھیر دینا۔ البتہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کا کسی پر خاص فضل ہوجائے تو کسی مرض کا بالکل ازالہ بھی ہوجاتا ہے۔ یعنی اس گناہ کا تقاضہ جڑ سے ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن عموم یہی ہے کہ گناہوں کے تقاضوں پر قابو پانے کا مجاہدہ تمام عمر کرناہے، گناہوں سے بچنے میں تکلیف نہیں اٹھائیں گے تو اجر کیسے ملے گا؟ اس بات کو اللہ تعالیٰ یوں سمجھا رہے ہیں:
وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
(سورۃ اٰل عمران، آیت:۱۳۴)
اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ۔اور اللہ (ایسے) نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرمارہے کہ ان لوگوں کو غصہ آتا ہی نہیں۔ بلکہ ناگوار باتوں پر ان کو بھی غصہ آتا ہے مگر یہ اسے پی جاتے ہیں اور جن لوگوں کی وجہ سے غصہ آیا ان کو نہ صرف معاف کرتے ہیں بلکہ حسن سلوک بھی کرتے ہیں۔
حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی کنیز وضو کروا رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے برتن چھوٹ کر گرا اور حضرت کے چہرے پر لگا۔ آپ نے سر اُٹھا کر غضب ناک نگاہوں سے گھورا تو کنیز نے فوراً کہا:
وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ
اور وہ غصہ پی جاتے ہیں۔
ایک دم آپ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا، اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں کردیا اور فرمایا میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اب کنیز کو کچھ حوصلہ ہوا تو بولی:
وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ
لوگوں کو معاف بھی کردیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا میں نے رضائے الٰہی کی خاطر تجھے معاف کیا۔ پھر کنیز نے کہا:
وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔
تو فرمایا جا میں نے تجھے آزاد بھی کیا۔
حق بجانب ہوتے ہوئے بھی غصہ کو ضبط کرنا آنا چاہیے، مگر جائز و مناسب جگہ پر غصہ کا اظہار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہی باتیں ہوتی ہیں اہل اللہ سے سیکھنے والی، ان کی صحبتوں سے حاصل کرنے والی۔ ابھی مثال کے لیے صرف غصہ کے مرض کے بارے میں عرض کردیا۔ باقی امراض اسی سے سمجھ لیں۔ پھر کچھ پوچھنا ہو تو دریافت کرلیں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
(۲)
حال: احقر کو عرصہ سے حضرت والا سے عقیدت و محبت ہے۔اور مجھے یہ شوق ہے کہ بزرگوں سے جو چیز حاصل کی جاتی ہے وہ حاصل کروں۔ اور میں ایک اناڑی آدمی ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم کہ بزرگوں سے کیا چیز حاصل کی جاتی ہے۔ لہٰذا حضرت والا ارشاد فرما دیں کہ بزرگوں سے کیا چیز حاصل کی جاتی ہے ۔ اور اس کے مطابق مجھ کو طریقۂ تعلیم استاد فرما دیں جس پر کاربند ہوں ۔
تحقیق: نفس میں کچھ امراض ہوتے ہیں ان کا علاج کتابوں میں لکھا ہے۔ مگر جیسے جسمانی امراض کا علاج کتابوں میں لکھا ہے لیکن پھر بھی طبیب کی ضرورت ہوتی ہے اسی درجہ نفسانی امراض کے معالجہ میں شیخ یعنی معلم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی ہو تو پھر آگے امراض بتاؤں گا، پھر اس کے سمجھ جانےکے بعد علاج بتاؤں گا۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۱۳۲)
(۳)
حال: جس وقت بندہ دورہ (حدیث) پڑھتا تھا اک رات حضور پرنور صل اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تھا۔ اس وقت بہت عمدہ حالت تھی اور اب کم ہوگئی ۔ اب جی چاہتا ہے کہ پھر زیارت سے مشرف ہوں ۔ اور اس وقت ذوق و شوق الٰہی پیدا ہو جائے۔ لہٰذا دل بہت متفکر ہے۔
تحقیق:آپ ثمرات اور ان ثمرات کے طرق (یعنی طریقوں) کو خود تجویز کرتے ہیں۔ تو پھر آپ خود ہی شیخ ہیں، پھر ہم ناکاروں کی طرف گیوں رجوع کرتے ہیں۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۸۶)
(۴)
ایک صاحب نے حضرت تھانوی سے در منضود (شرح ابی داؤد) کے ترجمہ کی عبارت، بابِ تواضع سے نقل کر کے اس پر عمل کرنے کے لیے استفسار کیا تو ان کو حسب ذیل جواب دیا گیا ۔
تحقیق: طب کی کتابیں اطباء کے لیے ہیں نہ کہ مریضوں کے لیے ۔ مریضوں کے لیے تو طبیب کا قول ہی کتاب ہے۔ آپ جیسے بزرگوں کے ذمہ یہ ہے کہ محض کتابوں پر عمل نہ کیا جاوے بلکہ اپنے حالات کسی مصلح کے سامنے پیش کر کے علاج پوچھنا چاہیے۔ البتہ اگر مصلح کوئی کتاب دیکھنا تجویز کردے اس وقت وہ کتاب بھی بمنزلہ مصلح کے خطاب کے ہے۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۱۳۲)
(۵)
حال: حضرت کوئی تدبیر ایسی بھی نکل آئے تو کیا اچھا ہو کہ میرا بھی کام بن جائے۔
تحقیق: کام کرتے رہیں اور خبر دیتے رہیں، یہی راستہ ہے (اللہ تک) پہنچنے کا، اسی سے سب پہنچے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پہنچائے گا۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۹۴)
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
(۶)
حال: قرآن پاک میں ہے:
اَللہُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ (سورۃ النسآء، آیت:۴۹)
اللہ جس کا چاہے تزکیہ کرتا ہے۔
حضرت جب سے بندہ نے یہ آیت پڑھی ہے دل پر عجیب مایوسی چھا گئی ہے۔ اب اعمال میں بھی دل نہیں لگ رہا۔ نفس مستقل پریشان کررہا ہے کہ اتنی محنت کرنے کے بعد بھی اگر خدا نے تیرے لیے تزکیہ نہیں چاہا تو ساری محنت اکارت گئی۔ یہ سوچ سوچ کر ہمت ہار بیٹھا ہوں۔ آپ ہی بتائیے نجانے بندہ کا حال و مستقبل کیا ہوگا۔
جواب: حال بھی الحمد للہ اچھا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اچھا ہوگا۔ یہی مقامات ہوتے ہیں جب مربّی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے متعلقین کا ہاتھ تھام کر انہیں اندھیروں میں ڈوبنے سے بچالے۔ اچھا کیا جو اپنے مربّی سے رجوع کیا، ورنہ سالکین کو شیطان مایوس کرکے اللہ تعالیٰ پر اعتراض و شکایات کی نوبت تک لے آتا ہے۔
آپ جو بات اپنی سمجھ کے مطابق سمجھے ہیں وہ اب قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھ لیں۔اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ جس کو چاہے گا اس کا تزکیہ کرے گا، جس کو چاہے گا نہیں کرے گا۔ یعنی کوئی عبادت کرے کوئی گناہ کرے معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں وہ تو بس اپنی مرضی چلائیں گے۔ اللہ سے ایسا گمان رکھنا ان کی بے پایاں رحمت سے بعید ہے۔ بلکہ یہاں اللہ کی مرضی بیان کرنے کا مطلب ان کی قدرت بیان کرنا ہے کہ تزکیہ تو وہ اپنی قدرت سے کریں گے اور معاذ اللہ اندھا دھند نہیں کریں گے بلکہ جو تزکیہ کرنے والے اعمال اختیار کرے گا اس کا ضرور بالضرور تزکیہ کریں گے۔ جیسا کہ ایک اور جگہ اسی قدرت کو دوسرے انداز سے بیان فرما رہے ہیں:
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُہٗ مَا زَكٰی مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙوَّ لٰكِنَّ اللہَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕوَ اللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (سورۃ النور، آیت:۲۱)
اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرمادیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ ان صحابہ سے مخاطب ہیں جن کا اللہ نے تزکیہ فرما دیا ہے۔ اور یہاں اپنی قدرت نہایت مفصل انداز سے بیان فرمائی کہ اگر ہماری رحمت اور ہمارا فضل نہ ہوتا تو تم میں سے کسی کا تزکیہ نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا چاہے تزکیہ فرمائیں۔ چوں کہ صحابہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر وہ اعمال ادا کیے جن کے سبب اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت ان پر متوجہ ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کا تزکیہ اپنی مرضی یعنی اپنی قدرت سے فرمادیا۔ اس بات کو اگلی آیت مزید واضح کررہی ہے:
اَللہُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْۤ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ
(سورۃ الشوریٰ، آیت:۱۳)
اللہ جسے چاہتا ہے اپنا بنا لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے۔
اس آیت نے سارا معاملہ بے غبار کردیا ہے کہ جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، تزکیۂ نفس کرنے والے اعمال اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنی مرضی اور قدرت سے اس کا تزکیہ فرما ہی دیتے ہیں۔
بس اب مطمئن ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں اور دوبارہ کام میں لگ جائیں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت مرضِ غیبت

حال (۱): محبی و محبوبی، سندی و مرشدی عرض یہ کرنا ہے کہ مجھ سے غیبت نہیں چھوٹ رہی۔ دفتر میں آفس کے ساتھیوں سے ایک دوسرے کی اور باس کی برائی ہوہی جاتی ہے۔ اسی طرح رشتہ داروں میں، پڑوسیوں میں حتیٰ کہ ہم نمازی بھی نماز پڑھ کے جب ملتے ہیں تو کسی نہ کسی کی برائی ہو ہی جاتی ہے۔
جواب: غیبت کرنا کوئی زمینی آفت ہے کہ خودبخود ’’ہو ہی جاتی ہے‘‘ یا جان بوجھ کر اپنے اردہ اور اختیار سے کی جاتی ہے؟ اور اگر غیبت کرنا نہ چاہیں تو کیا نہ چاہنے کے باوجود بھی غیبت خود بخود ہوہی جاتی ہے؟ پہلے سوچ سمجھ کے ان باتوں کا جواب دیں۔ پھر آگے کی بات بتلائی جائے گی۔

دوسرا خط:
حال:
حضرت والا کا والا نامہ موصول ہوا۔ حضرت کے فرمان کے مطابق بہت اچھی طرح سوچا اور یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ اگر ہم غیبت نہ کرنا چاہیں تو خودبخود نہیں ہوسکتی۔ غیبت کرنے کے لیے بھی ارادہ کرنا پڑتا ہے اور غیبت نہ کرنے کے لیے بھی جب ارادہ کرلیں تو غیبت نہیں کرسکتے۔
جواب: بالکل صحیح سمجھے۔ جب معلوم ہوگیا کہ غیبت کرنا اختیاری عمل ہے تو اسے چھوڑنے کے لیے بھی اختیار سے کام لینا ہوگا۔ لہٰذا جب غیبت کرنے کا موقع آئے اس وقت قرآن پاک اور حدیث پاک کی ان باتوں کو ذہن میں مستحضر کرلیا کریں۔ اس سے غیبت نہ کرنے کے اختیار کو استعمال کرنا آسان ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں غیبت کرنے والے کو مرے ہوئے انسان کا گوشت کھانا قرار دیا ہے۔ بتائیے اس غلاظت بھرے کھانے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا بہتر ہے یا اس پر منہ مارتے رہنا بہتر ہے؟
حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن غیبت کرنے والے کی نیکیاں اُسے دے دی جائیں گی جس کی غیبت کی گئی ہے۔ آپ نے کتنی مشقتیں اٹھا کر روزے رکھے، تلاوت، کی، حج عمرہ کے سفر پر پیسہ لگایا پسینہ بہایا لیکن حاصل کیا ہوا؟ اگر غیبت کی وجہ سے آپ کی ان ساری محنتوں اور عبادتوں کا ثواب کسی اور کو دے دیا گیا تو آپ کے ہاتھ کیا آئے گا؟ صرف خسارہ! گویا قرآن کی آیت عاملۃ ناصبۃ کی عملی تفسیر بن گئے کہ محنت کرکے اکارت کردی۔

تیسرا خط:
حال:
حضرت والا نے جو قرآن و حدیث کی باتیں ذکر کرکے ایمان تازہ کیا اس کی وجہ سے غیبت کی برائی دل میں اور جم گئی اور اس سے بچنا آسان تر ہورہا ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی محفل میں بیٹھے ہیں اور خود تو غیبت نہیں کی مگر دوسرے کرنے لگے۔ کسی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر کوئی نہیں مانتا۔ ایسے میں کیا عمل کرنا چاہیے؟
جواب: ایسی مجلس سے اٹھ جانا چاہئے۔ غیبت کرنا جتنا برا ہے سننا بھی اسی درجہ میں برا ہے۔

چوتھا خط:
حال(۱):
حضرت محبی و محبوبی آپ کی ہدایت پر عمل کرنے سے اب یہ حال ہوگیا ہے کہ الحمد للہ زبان غیبت کرنے سے رک گئی ہے۔ کئی بار دل چاہا کہ کسی کی برائی کروں مگر عین وقت پر تنبہ ہوا اور زبان کو روک لیا۔
جواب: ماشاء اللہ۔
حال(۲): حضرت اب ایک بات اور پوچھنی ہے کہ پچھلی بار ایک عزیز کے گھر دعوت تھی۔ وہاں سیاسی لوگوں کی غیبت ہونے لگی۔ موقع ایسا تھا کہ کسی کو روک سکتا تھا نہ خود اٹھ کر جاسکتا تھا۔ مجبوراً ذہن ہٹانے کے لیے کبھی ہلکی آواز میں ذکر کرتا، کبھی مسنون دعائیں پڑھتا، کبھی تلاوت میں مصروف رہتا۔ کیا ایسا کرنا صحیح تھا؟
جواب: بالکل صحیح تھا۔ ایسی صورتِ حال میں غیبت والی باتوں پر توجہ نہ دی جائے۔ چاہے اس کے لیے کسی جائز و مباح کام میں مشغولی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔
(جاری ہے)
 
Top