اصلاحی مُکاتبت
تصوف سے متعلق تقریباً تمام مباحث پر کافی حد تک بیان کرلیا گیا ہے، جیسے پیر ومریدکی تعریف و خصوصیات، ذکر و شغل کا طریقہ و اہمیت اور صحبتِ شیخ کی ضرورت و فضائل۔ اب آخری جزو رہ گیا ہے ’’تخلیہ‘‘ یعنی گناہوں سے تخلیہ، نجات پانا۔ اور اس کا ایک ذریعہ ہے شیخ سے اصلاحی مکاتبت کرنا۔
چونکہ سالک اللہ کو حاصل کرنے کی ٹھان چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ذکر و شغل کا نور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ظاہری و باطنی نجاستوں سے چھٹکارہ پانا بھی ضروری ہے جو شیخ کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
وَ ذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ
(سورۃ الانعام، آیت:۱۲۰)
ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہوں سے بچو۔
معلوم ہوا کہ احکام الٰہی دو طرح کے ہیں:
- ۱) ۔۔۔ظاہری یا جسمانی
- ۲)۔۔۔باطنی یا قلبی
ظاہری اعمال جن کا تعلق جسم سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد، نامحرم سے نظر کی حفاظت کرنا وغیرہ۔باطنی اعمال جن کا تعلق قلب سے ہے، باطنی اعمال میں نہ کرنے کے کام زیادہ ہیں مثلاً حسد نہ کرنا، غیبت نہ کرنا، دل میں نامحرم کا خیال نہ لانا وغیرہ۔ظاہری جسم کے اعمال منفی بھی ہوسکتے ہیں جیسے زنا کرنا، چوری کرنا، شراب پینا وغیرہ۔ اسی طرح باطنی اعمال مثبت بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسے ایمان لانا، تصدیق کرنا، والدین سے محبت کرنا ، اچھی نیت کرنا وغیرہ۔
گویا سمجھنے کے لیے یہ دو طرح کے اعمال ہوگئے۔ مثبت یعنی نیک کام کرنا اور منفی یعنی برے کاموں سے بچنا۔ جس طرح بلب مثبت اور منفی تاریں لگانے سے روشن ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ دو اعمال کرنے سے قلب روشن ہوجاتا ہے۔
منفی اعمال سے چھٹکارا پانے اور مثبت اعمال پر عمل کرنے کے لیے مرید کے ذمہ ہے کہ کسی اللہ والے شیخ سے مسلسل رابطہ میں رہے اور اس کو اپنے حالات سے آگاہ کرتا رہے۔ اس کی چند صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً فون پر بات کرنا، بالمشافہ ملاقات کے ذریعہ بات کرنا یا کسی کے ذریعہ اپنی بات شیخ تک پہنچانا اور ان کا جواب سننا۔ یہ ساری صورتیں مشورہ کہلاتی ہیں۔
اور تحریری طور پر جو بات کی جائے چاہے موبائل پر میسج کے ذریعہ یا خط لکھ کر اس کو اصلاحی مکاتبت کہتے ہیں۔ مکاتبت کتابت سے نکلا ہے۔ یعنی اصلاحِ نفس کے لیے کی جانے والی خط و کتابت۔ اس میں سالک اپنے سب حالات شیخ کو لکھتا ہے کہ کن کن گناہوں میں مبتلا ہے، نماز روزہ رکھتا ہے یا نہیں، ذکر و شغل کرتا ہے یا نہیں، اگر کرتا ہے اور کچھ کیفیات محسوس ہوتی ہیں تو شیخ سے ان کا بھی ذکر کرتا ہے۔
جواب میں شیخ بتاتا ہے کہ گناہوں سے کیسے بچا جائے، نماز روزہ پر کیسے مدامت کی جائے، ذکر و شغل میں کمی کوتاہیوں پر کیسے قابو پایا جائے اور دورانِ ذکر جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
سالکین کی اقسام:
سالکین کو تین درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مبتدی یعنی ابتداء کرنے والا، متوسط یعنی درمیان والا اور منتہی یعنی انتہاء کو پہنچنے والا، کامل ہونے والا۔
مبتدی سالک کے احوال:
مبتدی کبھی چلتا ہے، کبھی گرتا ہے، کبھی بڑھتا ہے، کبھی ہٹتا ہے، کبھی بچتا ہے، کبھی پھنستا ہے،کبھی نیکیاں کرتا ہے تو کبھی گناہ کرتا ہے۔ نیکیاں کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، گناہ کرتا ہے تو غمگین ہوتا ہے؎
کبھی طاعتوں کا سرور ہے،کبھی اعترافِ قصور ہے
ہے مَلک کو جس کی نہیں خبر، وہ حضور میرا حضور ہے
مَلک کا مطلب ہے فرشتے۔بہرحال جو مبتدی سالک گرتے پڑتے، رُکتے سنبھلتے چلتا رہتا ہے وہ آخر کار منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے ؎
ہم نے طے کیں اس طرح سے منزلیں
گر پڑے، گر کر اُٹھے، اُٹھ کر چلے
شروع کا یہ وقت سالک کے لیے بڑا صبر آزما ہوتا ہے کیونکہ ابھی اس کو تقویٰ اور ذکر و شغل کے ثمرات ملنا شروع نہیں ہوتے۔ جیسے کنواں کھودا جاتا ہے تو شروع میں خشک مٹی نکلتی ہے لیکن اگر ہمت نہ ہارے اور کنوئیں کو کھودتا چلا جائے تو رفتہ رفتہ ایک دن آتا ہے کہ خشک مٹی میں نمی کی آمیزش ہوتی ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ کیچڑ ملا پانی نکلتا ہے یہاں تک کہ جب کنوئیں کی مطلوبہ گہرائی میں پہنچ جاتا ہے تو صاف شفاف ٹھنڈا میٹھا پانی نکل آتا ہے۔
اسی طرح جب تقویٰ کے ذریعہ سالک کا قلب صاف ہونا شروع ہوتا ہے اور نیک اعمال کا نور اس کے دل میں جمع ہوتا ہے تب ایک دن آتا ہے جب اسے نسب مع اللہ کی وہ عظیم الشان نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوجاتی ہے جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔
سالکین کی اصلاحی مکاتبت کو سمجھنے کے لیے نمونے کے طور پر چند خطوط اور ان کے جواب لکھے جارہے ہیں تاکہ انہیں پڑھ کر اندازہ ہو کہ سالک کس طرح اپنے اخلاقِ رذیلہ یعنی گناہوں سے اور اخلاقِ حمیدہ یعنی ذکر و عبادات سے متعلق اُمور سے اپنے شیخ کو آگاہ کرتے ہیں، اور مشائخ کس طرح ان کا جواب دیتے ہیں۔ ان خطوط سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ خود ہمارے باطن میں کتنے امراض پوشیدہ ہیں جن کی ہمیں خبر تک نہیں۔ جو اندر ہی اندر ہمیں گھن کی طرح کھا رہے ہیں، ہماری آخرت کی راہ مار رہے ہیں اور تزکیۂ نفس میں رکاوٹ بنے کھڑے ہیں۔
(جاری ہے)