سید عمران
محفلین
خط ببابت بد نظری
(۱)
حال: یونیورسٹی میں ہم سبق لڑکی سے بول چال شروع ہوئی جو آگے بڑھ کر دل کا خلجان بن گئی۔ اب دل میں ہر وقت اس کا خیال رہتا ہے۔ نماز تلاوت کسی میں دل نہیں لگتا۔ سونے لیٹتا ہوں تو دیر تک اسی کو سوچتا رہتا ہوں جس کی وجہ سے نیند میں بھی کمی ہونے لگی ہے۔ سر ہر وقت چکراتا رہتا ہے۔ پڑھائی میں بھی توجہ نہیں رہی۔ لیکچر نہ سمجھ آتا ہے نہ یاد رہتا ہے۔ اے میرے حکیم و طبیب مجھے اس عذاب سے نکالیں ورنہ دنیا آخرت دونوں برباد کر بیٹھوں گا۔(۱)
جواب: اسی لیے عرض کرتا ہوں عشقِ مجازی عذابِ دو جہاں ہے۔ حاصل وصول کچھ نہیں، خسرانِ دو جہاں الگ۔ اور حاصل ہوا بھی تو کیا مرنے گلنے سڑنے والی لاش؟ ؎
یہ مانا معصیت میں مجرمانہ تھوڑی لذّت ہے
مگر اس پالنے والے سے یہ کیسی بغاوت ہے
ذرا سی دیر کی لذّت ہمیشہ کی ندامت ہے
جنازہ آبرو کا دفن کرنا کیا حماقت ہے
تیری یہ سرکشی حق سے ارے کیسی جسارت ہے
خدا سے تیری بے خوفی بھی ظالم کیا قیامت ہے
یہ مرنا مرنے والوں پر کھلی کیسی حماقت ہے
اور انکی زندگی دونوں جہاں میں کیسی غارت ہے
عذاب نار سے بچنا ہے تو کر توبہ صادق
ضمانت مغفرت کی دوستو اشک ندامت ہے
عشقِ مجازی کی اس آگ سے نکلنا ہے تو بجز ہمت کے کوئی چارہ نہیں۔ سب سے پہلے اس لڑکی سے جسمانی طور پر دور ہوجائیں۔ بات چیت بالکل بند کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے صرف نکاح کی اجازت دی ہے، نہ انہیں معشوقہ بنا کر کھلم کھلا بے حیائی کی اجازت دی اور نہ چوری چھپے بات چیت و آشنائی کی۔ کما قال اللہ تعالیٰ:مگر اس پالنے والے سے یہ کیسی بغاوت ہے
ذرا سی دیر کی لذّت ہمیشہ کی ندامت ہے
جنازہ آبرو کا دفن کرنا کیا حماقت ہے
تیری یہ سرکشی حق سے ارے کیسی جسارت ہے
خدا سے تیری بے خوفی بھی ظالم کیا قیامت ہے
یہ مرنا مرنے والوں پر کھلی کیسی حماقت ہے
اور انکی زندگی دونوں جہاں میں کیسی غارت ہے
عذاب نار سے بچنا ہے تو کر توبہ صادق
ضمانت مغفرت کی دوستو اشک ندامت ہے
اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍ (سورۃ المائدہ، آیت:۵)
(ان عورتوں سے نکاح کرکے انہیں) مِہر دو، نہ کھلی بے حیائی کرو اور نہ آشنا بناتے ہوئے چوری چھپے تعلقات رکھو۔
لہٰذا آئندہ آپ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں بھی نہیں۔ یاد رکھیں بدنظری کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی بڑا گناہ بھی ہے، قلب کی پاکیزگی کو غارت کرنے والا اس جیسا کوئی گناہ نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْؕ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ (النور:۳۰)
(اے نبی) مسلمان مردوں کو حکم دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اس میں ان کے لیے زیادہ پاکیزگی ہے، بیشک اللہ ان کے سب کاموں سے باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بدکاری شروع کرنے والی پہلی منزل یعنی بدنظری پر ہی اپنے بندہ کو نفس کے منہ میں لگام ڈالنے کا حکم دے دیا۔ نہ بدنظری کرے گا نہ بات آگے بڑھے گی نہ کسی خبیث فعل میں مبتلا ہوگا۔ اسی بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
كُتِبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نَصِیبُہُ مِنَ الزِّنَا، مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَۃَ، فَالْعَیْنَانِ زِنَاہُمَا النَّظَرُ، وَ الْاُذُنَانِ زِنَاہُمَا الِاسْتِمَاعُ،وَ اللِّسَانُ زِنَاہُ الْكَلَامُ، وَ الْیَدُ زِنَاہَا الْبَطْشُ، وَ الرِّجْلُ زِنَاہَا الْخُطَا، وَ الْقَلْبُ یَہْوَى وَ یَتَمَنَّى، وَ یُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ اَوْ یُكَذِّبُہُ (صحیح مسلم: 2657، مسند أحمد: 8695، سنن ابی داؤد: 2152)
آدم کے بیٹے پر زنا کا ایک حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ آنکھوں کا زنا نظر (بد) ہے، کانوں کا زنا (بری باتوں کا) سننا ہے، زبان کا زنا (بری باتوں کا) بولنا ہے، ہاتھوں کا زنا (ناجائز چیز کو) پکڑنا ہے، پیروں کا زنا (گناہ کی جگہ تک) چل کر جانا ہے، دل خواہش کرتا اور تمنا کرتا ہے، اور شرمگاہ اس (گناہ) کو سچ کر دکھاتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔
لہٰذا آپ جب تک اس لڑکی سے میل جول ترک نہیں کریں گے، اس کی طرف نظر تک اٹھا کر نہ دیکھیں گے ، بدنظری کرنے سے نہیں بچیں گے اس مرض سے نجات نہیں ملے گی۔ اور جب اس کا خیال آئے فوراً یہ تصور کریں کہ اس کا چہرہ مرنے کے بعد بے رونق اور پیلا ہوگیا ہے، لاش پر ہزاروں کیڑے مکوڑے لپٹے ہوئے کلبلا رہے ہیں، جنہیں دیکھنے سے گھن آرہی ہے۔ ارے ایک دن ایسا تو سب پر آنا ہے۔ ابھی علاج کی غرض سے یہ تصور کریں۔ چند دن اس پر عمل کرنے کے بعد پھر اطلاع دیں۔
دوسرا خط:
حال: حضرت والا آپ کی ہدایت پر عمل کرکے اس لڑکی سے ہر قسم کا تعلق توڑ دیا۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئی۔ اگرچہ اس دوران بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور مراقبہ بھی جو حضرت نے بتایا تھا اس پر عمل کیا۔ الحمد للہ اب دل میں سرکشی کی وہ کیفیت نہیں رہی، دل میں جو ہر وقت آگ لگی رہتی تھی اس میں بھی کمی آگئی۔ لگتا ہے ایک بوجھ تھا دل پر وہ اتر گیا۔ سکون بے حد محسوس ہوتا ہے۔
جواب: ماشاء اللہ، الحمد للہ۔ حال سن کر خوشی ہوئی۔ جب تک اس کا خیال دل سے بالکل زائل نہیں ہوجاتا ان ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ اس کے بعد پھر اطلاع دیں۔
(جاری ہے)