سید عمران

محفلین
خط ببابت بد نظری
(۱)
حال: یونیورسٹی میں ہم سبق لڑکی سے بول چال شروع ہوئی جو آگے بڑھ کر دل کا خلجان بن گئی۔ اب دل میں ہر وقت اس کا خیال رہتا ہے۔ نماز تلاوت کسی میں دل نہیں لگتا۔ سونے لیٹتا ہوں تو دیر تک اسی کو سوچتا رہتا ہوں جس کی وجہ سے نیند میں بھی کمی ہونے لگی ہے۔ سر ہر وقت چکراتا رہتا ہے۔ پڑھائی میں بھی توجہ نہیں رہی۔ لیکچر نہ سمجھ آتا ہے نہ یاد رہتا ہے۔ اے میرے حکیم و طبیب مجھے اس عذاب سے نکالیں ورنہ دنیا آخرت دونوں برباد کر بیٹھوں گا۔
جواب: اسی لیے عرض کرتا ہوں عشقِ مجازی عذابِ دو جہاں ہے۔ حاصل وصول کچھ نہیں، خسرانِ دو جہاں الگ۔ اور حاصل ہوا بھی تو کیا مرنے گلنے سڑنے والی لاش؟ ؎
یہ مانا معصیت میں مجرمانہ تھوڑی لذّت ہے
مگر اس پالنے والے سے یہ کیسی بغاوت ہے

ذرا سی دیر کی لذّت ہمیشہ کی ندامت ہے
جنازہ آبرو کا دفن کرنا کیا حماقت ہے

تیری یہ سرکشی حق سے ارے کیسی جسارت ہے
خدا سے تیری بے خوفی بھی ظالم کیا قیامت ہے

یہ مرنا مرنے والوں پر کھلی کیسی حماقت ہے
اور انکی زندگی دونوں جہاں میں کیسی غارت ہے

عذاب نار سے بچنا ہے تو کر توبہ صادق
ضمانت مغفرت کی دوستو اشک ندامت ہے​
عشقِ مجازی کی اس آگ سے نکلنا ہے تو بجز ہمت کے کوئی چارہ نہیں۔ سب سے پہلے اس لڑکی سے جسمانی طور پر دور ہوجائیں۔ بات چیت بالکل بند کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے صرف نکاح کی اجازت دی ہے، نہ انہیں معشوقہ بنا کر کھلم کھلا بے حیائی کی اجازت دی اور نہ چوری چھپے بات چیت و آشنائی کی۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍ (سورۃ المائدہ، آیت:۵)
(ان عورتوں سے نکاح کرکے انہیں) مِہر دو، نہ کھلی بے حیائی کرو اور نہ آشنا بناتے ہوئے چوری چھپے تعلقات رکھو۔
لہٰذا آئندہ آپ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں بھی نہیں۔ یاد رکھیں بدنظری کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی بڑا گناہ بھی ہے، قلب کی پاکیزگی کو غارت کرنے والا اس جیسا کوئی گناہ نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْؕ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ (النور:۳۰)
(اے نبی) مسلمان مردوں کو حکم دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اس میں ان کے لیے زیادہ پاکیزگی ہے، بیشک اللہ ان کے سب کاموں سے باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بدکاری شروع کرنے والی پہلی منزل یعنی بدنظری پر ہی اپنے بندہ کو نفس کے منہ میں لگام ڈالنے کا حکم دے دیا۔ نہ بدنظری کرے گا نہ بات آگے بڑھے گی نہ کسی خبیث فعل میں مبتلا ہوگا۔ اسی بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
كُتِبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نَصِیبُہُ مِنَ الزِّنَا، مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَۃَ، فَالْعَیْنَانِ زِنَاہُمَا النَّظَرُ، وَ الْاُذُنَانِ زِنَاہُمَا الِاسْتِمَاعُ،وَ اللِّسَانُ زِنَاہُ الْكَلَامُ، وَ الْیَدُ زِنَاہَا الْبَطْشُ، وَ الرِّجْلُ زِنَاہَا الْخُطَا، وَ الْقَلْبُ یَہْوَى وَ یَتَمَنَّى، وَ یُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ اَوْ یُكَذِّبُہُ (صحیح مسلم: 2657، مسند أحمد: 8695، سنن ابی داؤد: 2152)
آدم کے بیٹے پر زنا کا ایک حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ آنکھوں کا زنا نظر (بد) ہے، کانوں کا زنا (بری باتوں کا) سننا ہے، زبان کا زنا (بری باتوں کا) بولنا ہے، ہاتھوں کا زنا (ناجائز چیز کو) پکڑنا ہے، پیروں کا زنا (گناہ کی جگہ تک) چل کر جانا ہے، دل خواہش کرتا اور تمنا کرتا ہے، اور شرمگاہ اس (گناہ) کو سچ کر دکھاتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔
لہٰذا آپ جب تک اس لڑکی سے میل جول ترک نہیں کریں گے، اس کی طرف نظر تک اٹھا کر نہ دیکھیں گے ، بدنظری کرنے سے نہیں بچیں گے اس مرض سے نجات نہیں ملے گی۔ اور جب اس کا خیال آئے فوراً یہ تصور کریں کہ اس کا چہرہ مرنے کے بعد بے رونق اور پیلا ہوگیا ہے، لاش پر ہزاروں کیڑے مکوڑے لپٹے ہوئے کلبلا رہے ہیں، جنہیں دیکھنے سے گھن آرہی ہے۔ ارے ایک دن ایسا تو سب پر آنا ہے۔ ابھی علاج کی غرض سے یہ تصور کریں۔ چند دن اس پر عمل کرنے کے بعد پھر اطلاع دیں۔
دوسرا خط:
حال:
حضرت والا آپ کی ہدایت پر عمل کرکے اس لڑکی سے ہر قسم کا تعلق توڑ دیا۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئی۔ اگرچہ اس دوران بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور مراقبہ بھی جو حضرت نے بتایا تھا اس پر عمل کیا۔ الحمد للہ اب دل میں سرکشی کی وہ کیفیت نہیں رہی، دل میں جو ہر وقت آگ لگی رہتی تھی اس میں بھی کمی آگئی۔ لگتا ہے ایک بوجھ تھا دل پر وہ اتر گیا۔ سکون بے حد محسوس ہوتا ہے۔
جواب: ماشاء اللہ، الحمد للہ۔ حال سن کر خوشی ہوئی۔ جب تک اس کا خیال دل سے بالکل زائل نہیں ہوجاتا ان ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ اس کے بعد پھر اطلاع دیں۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
(۲)
حال: کل بازار میں ایک عورت پر نظر پڑی تو نظر ہٹانی مشکل ہوگئی۔ گھر آکر بہت توبہ استغفار کی مگر دل کی حالت بہتر نہیں ہوئی۔
جواب: آئندہ ایسا نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اگر توبہ کی گئی تو گناہ تو معاف ہوجائے گا مگر دل کی کُدورت اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک بار بار نظر بچانے کا نور دوبارہ دل میں نہیں آئے گا۔ حدیث پاک میں ہے:
اِنَّ النَّظْرَۃَ سَہْمٌ مِنْ سِہَامِ اِبْلِیْسَ مَسْمُومٌ، مَنْ تَرَكَہَا من مَخَافَتِی اَبْدَلْتُہُ اِیمَانًا یَجِدُ حَلاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ (کنز العمال، ج:5، ص:32 )
نظر ابلیس کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔ جس نے میرے خوف سے (بدنظری) کو ترک کیا اس کے بدلے میں اس کو ایسا ایمان دوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔حلاوتِ ایمانی کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وَ قَدْ وَرَدَ اَنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ اِذَا دَخَلَتْ قَلْبًا لَا تَخْرُجُ مِنْہٗ اَبَدًا فَفِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلٰی بَشَارَۃِ حُسْنِ الْخَاتِمَۃِ لَہٗ (مرقاۃ، ج:1، ص: 74)
حلاوت ایمانی جس دل کو اللہ دیتا ہے پھر کبھی واپس نہیں لیتا۔ لہٰذا اس میں اس شخص کے لیے حسنِ خاتمہ کی بشارت بھی ہے۔ (کیونکہ جب اللہ کا عطا کردہ نور دل سے کبھی نہیں نکلے گا تو ان شاء اللہ اس کا خاتمہ بھی ایمان پر ہوگا۔)
لہٰذا بدنظری کرنے سے اس گناہ کا جو زہر دل میں اترا ہے اس کا تریاق یہی ہے کہ آئندہ نظر کی حفاظت کرکے ایمان کی حلاوت کا نور دل میں حاصل کیا جائے۔ بس یہی صورت ہے دل کی حالت دوبارہ بہتر بنانے کی۔
(۳)
حال: طلباء کو پڑھاتے وقت کلاس میں لڑکے پیچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں سامنے بیٹھتی ہیں جن پر بار بار نظر پڑتی ہے اور آیت ’’یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ ‘‘پر چاہتے ہوئے بھی عمل نہیں کرپاتا۔
جواب: اگرنظر کا چشمہ لگاتے ہیں تو طلباء کی طرف رخ کرتے وقت اتار دیا کریں تاکہ چہرے واضح نظر نہ آئیں اور بدنظری کے مرتکب نہ ہوں۔
دوسرا خط:
حال:
حضرت والا کی ہدایت کے بموجب چشمہ اتار دیتا ہوں مگر خاطر خواہ فائدہ اس لیے نہیں ہوا کہ طلباء سے درمیانی فاصلہ بہت کم ہے۔
جواب: ایسی صورت میں لڑکیوں کو دائیں یا بائیں بٹھا دیا کریں تاکہ براہ راست نظر نہ پڑے۔ انہیں متن نہ بنائیں حاشیہ بنادیں جو دِکھتا تو ہے پر بغور دیکھے پڑھا نہیں جاتا۔
(۴)
حال: بازار جاتے ہوئے حسین عورتوں پہ نظر پڑتی ہے تو نظر ہٹانی بہت مشکل محسوس ہوتی ہے۔
جواب: آئندہ ہر بدنظری پر نفس کو جرمانے کے طور پر بیس رکعات نفل پڑھائیں۔
دوسرا خط:
حال:
حضرت کے جواب سے نفس بہت مطمئن تھا کہ گویا بدنظری کی اجازت مل گئی۔ اب ہر بدنظری پر بیس رکعات پڑھ لوں گا۔ لیکن جب بدنظری پر بیس رکعات پڑھیں تو ہوش ٹھکانے آگئے کہ یہ بدنظری کی اجازت نہیں ملی اس کا پتا صاف ہوگیا۔ اب بدنظری کے لیے نظر اٹھنے سے پہلے بیس رکعات یاد آجاتی ہیں۔ سو ابھی تک تو بدنظری سے بچنے کی توفیق ہورہی ہے۔
جواب: کامل حفاظتِ نظر حاصل ہونے تک بیس رکعات کے جرمانے کو یاد رکھیں اور لغزش ہونے پر ادا کریں۔ آئندہ لغزش ہونے کی صورت میں اطلاع بھی دیں۔
تیسرا خط:
حال:
حضرت جب سے والا نامہ موصول ہوا ہے بدنظری کے جرم میں بیس رکعات کی ادائیگی اور حضرت والا کو اس حماقت کی اطلاع دینے کے خوف کے باعث نظر اٹھانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ بازار جانا ہوتا ہے تو نظر خوب نیچے جما کر چلتا ہوں کہ بے ارادہ بھی بدنظری نہ ہوجائے۔ ایسا کرنے سے بدنظری کرنے کا ارادہ بھی بہت کمزور ہوگیا ہے۔
جواب: ماشاء اللہ۔ آج برائی کا ارادہ کمزور ہوا ہے۔ کل قریب قریب جاتا ہی رہے گا۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت ریا کاری
(۱)
حال: کبھی نماز پڑھتا ہوں اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی دیکھ رہا ہے تو اس خیال سے کہ کہیں میری نماز میں ریا نہ پیدا ہوجائے یہ سوچتا ہوں کہ بھلا اس کے دیکھنے سے دین یا دنیا کا کیا فائدہ ہوگا۔ اور یہ نیت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ہی نماز پڑھتا ہوں۔
جواب: درست۔ مگر نماز کے اعمال میں تغیر نہ ہو۔ یعنی کسی کے دیکھنے کی وجہ سے معمول سے ہٹ کر نہ طویل نماز پڑھیں نہ مختصر۔
(۲)
حال: نماز یا ذکر کے دوران یہ احساس ہوجائے کہ کوئی دیکھ رہا ہے تو دل بے چین ہوجاتا ہے کہ کہیں ریا میں ملوث تو نہیں ہورہا۔ بار بار دھیان ہٹاتا ہوں کہ دیکھ رہا ہے تو دیکھنے دو مگر دل کی وہ کیفیت نہیں رہتی جو پہلے تھی۔
جواب: ریا کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت دنیا کی غرض سے کسی کو دِکھانے کے لیے کی جائے کہ یہ ہمیں دیکھ کر دین دار سمجھے گا اور تعریف کرے گا یا کچھ دنیا کی دولت یا عہدہ دے گا۔ اور دین کے لیے دِکھانا ریا نہیں۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ فلاں وقت میں نے تمہاری تلاوت سنی تھی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھی طرح تلاوت کرتا۔تو اپنے استاد یا شیخ یا والدین کو دکھانے کے لیے اچھی طرح عبادت کرنا کہ یہ خوش ہوکر دعا دیں گے ریا نہیں۔
ہر آدمی کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ میں عبادت کس نیت سے کررہا ہوں۔ لہٰذا کسی کے دیکھنے سے ریا نہیں ہوتی، جان بوجھ کر دکھانے سے ریا ہوتی ہے۔ اگر دکھانے کی نیت نہیں تو یہ ریا کا صرف وسوسہ ہے ریا نہیں۔
خط ببابت وسوسے
حال: کبھی کبھی اللہ اور رسول کے متعلق شیطان ایسے وسوسے اور برے خیالات دل میں ڈالتا ہے کہ زبان پر لا نہیں سکتا۔ ہزار خیال اِدھر اُدھر کرتا ہوں مگر لاحاصل۔ دل کو بہت بے چینی اور پریشانی رہتی ہے۔
جواب: ان وسوسوں سے دل کا پریشانی ہونا عین ایمان کی علامت ہے کیونکہ کافر کو ان خیالات سے پریشانی نہیں ہوتی۔ صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ بعض اوقات ہمیں ایسے وسوسے آتے ہیں جنہیں زبان پر لانے سے بہتر ہم جل کر کوئلہ ہوجانے کو پسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’ذاک صریح الایمان‘‘یہ تو عین ایمان کی علامت ہے۔یعنی ان وسوسوں پر دل کی پریشانی عین ایمان کی علامت ہے۔ لہٰذا ایسے وسوسوں پر بالکل توجہ نہ دیں۔ یہ چند دن بعد خود ہی غائب ہوجاتے ہیں۔
خط ببابت حسد
حال: کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھتا ہوں تو بہت برا لگتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس کی نعمت زائل ہوجائے۔ ہر وقت اسے نیچا دکھانے کی تدبیریں کرتا رہتا ہوں۔ دل کو کسی صورت قرار نہیں آتا۔
جواب: محسود یعنی جس سے حسد ہو، دل نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے اچھی طرح ملیں۔ استطاعت ہو تو اس کو کوئی ہدیہ وغیرہ دیں۔ جاننے والوں میں بتکلف اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ اور دل سے اس کے حق میں دعا بھی کریں۔ اور ساتھ ہی اپنے لیے بھی دعا کریں کہ یا اللہ یہ نعمت ہمیں بھی عطا کردیں۔کچھ عرصہ اس پر عمل کرتے رہنے سے ان شاء اللہ اس کے خلاف دل سے حسد کی برائی جاتی رہے گی۔
خط ببابت مکائدِ نفس
حال: عرصہ ایک ماہ ہوا کہ فدوی کی بہو کا انتقال ہوگیا جس کی عمر ۱۶ یا ۱۷ برس کی تھی اور نہایت نیک بخت اور میری فرماں بردار تھی۔ اس کے انتقال کا مجھ کو بہت صدمہ ہوا حالانکہ میرا خیال تھا کہ دنیاوی محبت مجھے کسی قدر نہیں رہی لیکن یہ غلط نکلا ہزار کوشش کرتا تھا کہ نہ روؤں لیکن قلب پر ایسا اثر ہوتا تھا کہ آنسو روکے نہیں رکتے تھے اور ایک ہفتہ تک سخت تکلیف رہی لیکن پھر حضور والا کی خواب میں زیارت ہوئی اور حضور نے تسکین فرمائی اس روز سے واقعی تسکین ہوگئی اور خیال تکلیف دہ جاتا رہا۔
تحقیق: بیوی یا اولاد کی محبت میں یہ حالت ہوتی تو مضائقہ نہ تھا، لاحول و لا قوۃ الا باللہ، بہو سے ایسا علاقہ ایں چہ معنی؟ مجھ کو تو سخت ہی ناگوار ہوا۔ اس کا جو ضرر دین پر پہنچنے والا ہے ذرا اس سے بچو اور فکر کرو، لا الٰہ الا اللہ، کیا واہیات ہے، نفس میں ضرور چھپا چور ہے، نکالو جلد نکالو ورنہ یہ رنگ لائے گا گو دوسرے ہی موقع پر سہی۔ افسوس یہ ثقاہت اور یہ خیانت۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص: ۲۷۹)
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
خط ببابت تکبر
(۱)
حال: قرآن میں تکبر کے بارے میں کہاں آیا ہے؟ اور اپنے اندر کیا علامات دیکھیں کہ معلوم ہو یہ مرض تکبر کا ہے؟ اور اس سے بچنے کا طریقہ بھی عنایت فرما دیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاؕوَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ
(سورۃ القصص،آیت:۸۳)
آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں چاہتے اور اچھا انجام پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے۔​
تکبر کی پہچان کی دو علامات اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ۔ وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا۔ إِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
(سورۃ لقمٰن، آیت: ۱۸)
اپنے کو بڑا سمجھتے ہوئے تکبر کے ساتھ لوگوں سے منہ نہ پھیر۔ خود پسندی کے ساتھ اتراتا ہوا زمین پر نہ چل۔ اللہ کسی خود پسند متکبر کو پسند نہیں کرتا۔​
تکبر کی پہچان کی دو علامات حدیث میں بھی بیان کی گئی ہیں:
بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
( صحیح مسلم: ج 1 ، ص:65)​
یعنی جب کوئی حق بات پیش کرے تو اس کو اپنی ہٹ دھرمی یا انا یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ مانے۔ اور دوسروں کو اپنے سے حقیر و کمتر سمجھے۔ چاہے کسی معاملہ میں ہو، علم میں، دولت میں، وجاہت میں، رتبہ میں، ذہانت میں، دین میں۔ اور علاج اس کا یہ ہے کہ دل میں اپنے کو سب سے حقیر سمجھے اور سب کو اپنے سے بہتر جانے۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے تھے کہ اشرف علی ہر مسلمان سے خود کو حقیر سمجھتا ہے فی الحال کہ نہ جانے کس مسلمان کا کون سا عمل، کون سی ادا خدا کو پسند ہے اور وہ خدا کے نزدیک اشرف علی سے بہتر ہو۔ اور کتے اور سور اور کافر سے خود کو حقیر سمجھتا ہے فی المآل کہ جانور سے قیامت کے دن پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور اگر مجھ سے حساب ہوا اور دوزخ کا فیصلہ ہوگیا تو اس وقت جانور مجھ سے بہتر ہوں گے۔ اور کافر سے اس لیے خود کو کمتر سمجھتا ہوں کہ جانے کون کافر مرنے سے پہلے اسلام قبول کرکے نجات پا جائے اور اللہ کے نزدیک اشرف علی سے آگے بڑھ جائے۔سہروردیہ سلسلہ کے شیخ اوّل حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃاللہ علیہ فرماتے تھے ؎
یکے آں کہ برغیر بد بیں مباش
دویم آں کہ بر خویش خوش بیں مباش
ایک یہ کہ دوسرے کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو ، اور دوسرے یہ کہ خود کو اچھی نظر سے مت دیکھو۔​
بس یہ خیال ذہن میں رکھ کر خود کو سب سے حقیر سمجھیں۔اور دوسرا علاج یہ ہے کہ عموماً تو سب سے اور خصوصاً جس کے لیے دل میں حقارت ہے آگے بڑھ کر اس کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ حدیث میں آتاہے:
اَلْبَادِئُ بِالسَّلَامِ بَرِيءٌ مِنَ الْكِبْرِ
( رواه البيہقی فی شعب الايمان، كتاب الآداب، باب السلام،‌‌ الفصل الثالث، ٣٢٢؍٣)
سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے۔
(جاری ہے)​
 

سید عمران

محفلین
(۲)
حضرت تھانوی کی خانقاہ میں ایک صاحب اپنی اصلاح کروانے آئے۔ چند دن بعد دوسروں کی اصلاح کرنے لگے۔ ہر وقت دوسروں کو ڈانٹ ڈپٹ کہ یہ چیز یہاں کیوں رکھی ہے۔ کبھی دین سِکھانے لگتے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا یا کیوں کیا۔
حضرت تھانوی نے ان کو بلا کر فرمایا کہ کیا آپ کو میری اصلاح پر اعتماد نہیں جو میرے متعلقین کی اصلاح خود کرنے لگے؟ یہ ساری علامات تکبر کی ہیں۔ آپ خود کو ان سے افضل سمجھنے لگے ہیں۔ آج سے علاج اور سزا کے طور پر آپ کے سارے ذکر و شغل پر پابندی۔ میری مجلس میں بیٹھنے پر پابندی۔ بس پانچ وقت کی نماز پڑھیں اور ہر نماز کے بعد نمازیوں کے جوتے سیدھے کرکے رکھیں۔ نمازیوں کے وضو کے لوٹوں میں پانی بھریں۔ مسجد میں جھاڑو دیں۔ اور اگر کوئی منع نہ کرے تو اس کے پاؤں دبایا کریں۔
چند دن اس علاج پر عمل کرنے سے ان کے تکبر کا سارا مرض جاتا رہا اور طبیعت میں انکساری آگئی۔ پھر انہوں نے حضرت تھانوی کو اپنا حال عرض کرنے کے لیے خط لکھا جو درج ذیل ہے:

حال: حالت اپنی یہ ہے کہ اکثر کاموں کے انجام دینے میں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں اس میں تکبر نہ ہو۔ جس شخص پر نظر پڑتی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تو تکبر نہیں ہے اور مجھ میں ہے۔ کفار پر نظر پڑتی ہے تو فوراً سوائے اس کے دل میں نہیں آتا ہے کہ اگرچہ یہ کافر ہیں مگر جو کچھ ان کی حالت ہے انہوں نے ظاہر میں بھی ویسی ہی بنا رکھی ہے غرضکہ اُن کا ظاہر و باطن یکساں ہے اور میرے دل میں کچھ ہے اور ظاہر صورت کچھ اور ہے اس لیے میں اُن سے بدتر ہوں۔ علاوہ ازیں یہ خیال خوب جم گیا ہے کہ کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں ہے جو اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہو اور سب کے خلاف میں ایسا کمینہ ہوں کہ اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہوں۔ لہٰذا میں دنیا میں سب سے بدتر ہوں کوئی مجھ سے بدتر نہیں ہے۔ سب کو سلام کرنے میں سبقت کرتا ہوں۔ سب سے نرمی سے بات چیت کرتا ہوں۔ قلب پر خود بخود ایک ہیبت سی رہتی ہے۔ ہر شخص کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں۔ پہلے یہ خیال ہوا کرتا تھا کہ اہلِ کمال کے پیچھے ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ مگر اب اس کے خلاف کسی کے پیچھے نماز پڑھنے میں عار نہیں ہوتی۔ اگر کبھی سخت مجبوری میں محلہ کی مسجد میں جبکہ کوئی اور نہ ہو نماز پڑھانی پڑتی ہے تو زبان سے آواز بہت آہستہ نکلتی ہے۔ خوف کے مارے آواز بلند نہیں ہوتی۔ اپنا وہی شیوہ ہے کہ جہاں جانا مسجد میں وہاں جوتے سیدھے کر دینا اور پانی لوٹوں میں بھر دینا اور جھاڑو اگر موقع ہوا تو دے دینا۔ بعض موقع پر بعض لوگوں سے میں نے پیر دابنے کے لیے عرض کیا مگر کوئی منظور نہیں کرتا۔ کسی پر حقارت سے نظر نہیں پڑتی۔

تحقیق: مبارک ہو خدا تعالیٰ کا فضل ہو گیا۔ چونکہ معالجہ ضرورت کی چیز ہے اور وہ ضرورت رفع ہوگئی، اب یہ معالجہ چھوڑ دیا جاوے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ صحت مستحکم ہوگئی۔ اب اُسی حالتِ سابقہ کا اعادہ کر لیجیے (یعنی سزا سے پہلے والے معاملات دوبارہ شروع کردیجیے۔) وہی مجلس، خُم وہی ہے۔

حال: ذکرِ جہر کو دل ترستا ہے۔
تحقیق: کیجئے اور مزے لیجیئے۔

حال:یہ تو پکا عہد کر لیا ہے اور اس پر بفضلہٖ تعالیٰ اب تک عمل بھی کیا ہے کہ کسی سے کوئی پابندی دین کے متعلق نہ کہوں گا خواہ کوئی شخص کیسا ہی خلاف کام کرتا ہے۔ اپنی پہلی نالائق حرکتوں سے توبہ کرتا رہتا ہوں۔ آیندہ کے لیے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ ہرگز کبھی کسی سے یہ نہ کہوں گا کہ یہ کام کرو اور یہ نہ کرو۔ مجھے کسی سے کچھ مطلب نہیں۔
تحقیق: ہاں چند روز یعنی جب تک آپ کا مربی اجازت نہ دے ایسا ہی کیجئے۔

حال: اس بات کا خیال آکر بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے ذکر اللہ کی قدر نہ کی۔ اگر ذکر کی قدر کرتا تو کسی سے کچھ واسطہ نہ رکھتا۔ کچھ قدر نہ ہونے کی یہ ہی وجہ ہوئی کہ ذکر کسی دن ناغہ نہ ہوا تھا۔ اس وجہ سے ناغہ کے افسوس سے واقفیت نہ تھی۔ اب قدر نعمت بعد از زوال کا لطف حاصل ہوا ؎
مزه وصال کا کیا گر فراقِ یار نہ ہو
نشہ کی قدر نہیں اس میں گر خمار نہ ہو​
تحقیق: یہ بھی ایک حکمت ہوئی۔ (یعنی ذکر کی قدر معلوم ہوگئی۔) (تربیت السالک، جلد۱، ص:۲۹۱)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت عُجُب
حال: اور ایک بیماری اور سنی ہے عُجُب۔ اس میں اور تکبر میں کیا فرق ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟
جواب: تکبر میں آدمی دوسروں کو خود سے حقیر سمجھتا ہے۔ اور عُجُب میں دوسروں کو تو حقیر نہیں سمجھتا مگر اپنے کو دوسروں سے اچھا سمجھتا ہے۔ اور علاج اس کا بھی وہی ہے کہ یہ خیال کرے کہ جس نعمت کی وجہ سے ہم خود کو اچھا سمجھ رہے ہیں اسے حاصل کرنے میں ہمارا کوئی کمال نہیں، یہ محض اللہ کی عطا ہے، وہ جب چاہے واپس بھی لے سکتا ہے۔ اور دوسروں کا کچھ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی کون سی بات پسند ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک ہم سے بہتر ہیں۔
تحسبونہ ھیناً وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللہِ ِۡعظیمٌ
(سورۃ النور، آیت:۱۵)
(ہمارا کوئی عمل ایسا ہو کہ) ہم نے اس کو معمولی سمجھا ہو اور وہ اللہ کے یہاں عظیم گناہ ہو۔
اس مراقبہ سے آپ اپنے کو کسی سے بہتر نہیں سمجھیں گے اور کسی کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھیں گے اور اللہ کو اپنے بندوں کی یہی ادا پسند ہے کہ میرا بندہ کسی بندے سے اپنے کو بہتر نہ سمجھے اور کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھے، یہی تصوف ہے اور یہی تعلق مع اللہ کی حدود ہیں اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے طریقے ہیں۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی نیک عمل پر اپنی تعریف کی تو اس کا شکر ضائع ہوا اور عمل برباد ہو گیا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، العجب، ۲ ؍ ۲۰۶، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۷۴)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں:
(۱) لالچ جس کی (حرام حلال کی پرواہ نہ کرکے)اطاعت کی جائے۔
(۲) (حرام)خواہش جس کی پیروی کی جائے ۔
(۳) بندے کا اپنے عمل کو پسند کرنا یعنی خود پسندی۔
(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۴ ؍۲۱۲، الحدیث: ۵۷۵۴)
بس ان ہی باتوں کا مراقبہ کرتے رہنے سے اللہ کی نعمتوں کا استحضار بھی ہوگا اور خود کو اچھا سمجھنے کی حماقت بھی جاتی رہے گی۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت مقامِ تفویض

حال: حضرت جی سوال یہ پوچھنا ہے کہ اب تک بندہ یہی سمجھتا آرہا تھا کہ سب سے اونچا مقام توکل کا ہے لیکن حضرت تھانوی کا ایک ملفوظ پڑھا جس میں حضرت نے فرمایا ہے کہ سب سے اونچا مقام تفویض ہے۔حضرت جی مجھے سمجھا دیں کہ تفویض میں اور توکل میں کیا فرق ہے؟

جواب: تفویض کا مطلب ہے اپنی ہر خواہش اللہ کے حکم پر فنا کردینا۔ اور اللہ کی طرف سے خوشی غمی جیسا بھی حال آئے اس پر دل سے راضی رہنا۔ گو طبعاً اس کا اثر ہو۔ جیسے کوئی غم آیا تو طبیعت پر تو اس غم کا اثر ہے، آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے ہیں مگر دل سے اور عقل سے اللہ کے اس فیصلہ پر راضی رہے، کوئی اعتراض، کوئی شکایت نہ کرے۔ البتہ اس غم کو دور کرنے کے لیے دعا ضرور کرے کہ دعا کرنا سنت ہے، اسی لیے عبادت ہے۔تفویض کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَی اللہ
(سورۃ المؤمن، آیت:۴۴)
اور میں اپنا معاملہ اللہ ہی کے سپرد کرتا ہوں۔​
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جو آخری سانسیں لے رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ بھی رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے عوف کے بیٹے، یہ (آنسو بے صبری کے نہیں، اللہ کی مخلوق کے لیے) رحم (کے) ہیں۔ پھر آپ دوبارہ روئے اور فرمایا آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے۔ اور اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔ (صحیح بخاری: کتاب الجنائز، باب قول النبی انا بك لمحزونون)
توکل اور تفویض میں فرق یہ ہے کہ توکل میں بندہ اپنی کوشش کے بعد اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، جبکہ تفویض میں وہ مکمل طور پر اللہ کے فیصلوں پر خود کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’تفویض کا مقام توکل سے اسی لیے بلند ہے کیونکہ اس میں بندہ اپنے نفس کو مکمل طور پر اللہ کی مرضی کے سپرد کر دیتا ہے۔‘‘
اس پر مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب کے بہترین اشعار ہیں؎
ناخنِ تدبیر گھس جانے کے بعد
پردۂ اسباب جل جانے کے بعد

بس تری جانب ہے اب میری نگاہ
ناؤ میری پار ہو میرے الٰہ
(جاری ہے)​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اس پر مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب کے بہترین اشعار ہیں؎
ناخنِ تدبیر گھس جانے کے بعد
پردۂ اسباب جل جانے کے بعد

بس تری جانب ہے اب میری نگاہ
ناؤ میری پار ہو میرے الٰہ​
اختر بسمل کی تم باتیں سنو
جی اٹھو گے تم اگر بسمل ہوئے
مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ علیہ
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت نماز میں دل نہ لگنا

حال: عرض یہ کرنا ہے کہ حتی الامکان نماز میں دل لگانے کی سعی کرتا ہوں۔ مگر کامیاب نہیں ہوپاتا۔ دورانِ نماز ہزار باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے، بسا اوقات تعداد رکعات بھی ذہن میں نہیں رہتیں۔ نماز میں خشوع و خضوع اور توجہ کیسے نصیب ہو۔ اور ایسی نماز کیسے ادا کی جائے کہ اس میں دل لگے۔
جواب: نماز میں دل لگنا فرض نہیں دل لگانا فرض ہے۔ جب دل نماز سے غائب ہو، دوبارہ حاضر کردیں۔ بس اتنی حقیقت ہے نماز میں دل لگانے کی۔اس میں ہر فرد کے لیے مختلف تدابیر مؤثر ہوسکتی ہیں، لیکن جو مجرب و آسان عمل ہے وہ یہ کہ نماز میں بس اتنا دھیان رہے کہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کون سی رکعت ہے۔ حدیث پاک ہے:
جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر زور سے آواز نکالتا ہوا بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سنے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو وہ واپس آتا ہے، پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو دوبارہ بھاگ جاتا ہے، اور جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور کہتا ہےکہ یہ یاد کرو، وہ یاد کرو، جو پہلے اسے یاد نہ تھا، یہاں تک کہ بندہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔(صحیح بخاری: 608، صحیح مسلم: 389)
لہٰذا نماز میں جب شیطان توجہ ہٹائے فوراً متنبہ ہوکر اس امر پر توجہ مرکوز کردیں کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نماز میں خشوع و خضوع سے متعلق چند احادیث نقل کی جارہی ہیں۔ جب تک رسوخ حاصل نہ ہوجائے انہیں دن میں دو چار مرتبہ ایک نظر دیکھ لیا کریں۔اس عمل سے آہستہ آہستہ یہ احادیث ذہن نشین ہوکر نماز میں خشوع و خضوع کا سبب بن جائیں گی، ان شاء اللہ۔
۱۔بے شک وہ مؤمن کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ (سورہ المؤمنون: ۱۔۲)
۲۔ جب بندہ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جب تک وہ اِدھر اُدھر نہ دیکھے۔ پس جب وہ منہ پھیر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ (سنن نسائی: ۱۱۹۴)
۳۔ آدمی کو اس کی نماز میں اتنا ہی ثواب ملتا ہے، جتنا اس نے دھیان اور توجہ کے ساتھ ادا کی ہو۔ (ابو داؤد: ۷۹۶، مسند احمد:۱۸۴۰۳)
۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز ایسے پڑھو جیسے یہ تمہاری آخری نماز ہو۔ (مسند احمد: ۱۲۵۳۳، ابن ماجہ: ۴۱۷۱)
۵۔ جو شخص اچھے طریقے سے وضو کرے، پھر دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اس میں کوئی وسوسہ نہ آئے، تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (بخاری: ۱۵۹، مسلم:۲۲۶)
۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور اس کا دل اور جسم مکمل طور پر متوجہ ہوتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کی نماز قبول کر لیتا ہوں۔ (نسائی، ابن حبان)
۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا اور نماز قبول نہیں کرتا، جس کا دل غیر حاضر ہو، جو لاپرواہی کے ساتھ نماز ادا کرے۔ (ترمذی)

دوسرا خط:
حال(۱):
حضرت اقدس، جناب کی ہدایات پر عمل شروع کردیا ہے۔ خصوصاً دو رکعات نفل نماز اسی نیت سے ادا کرتا ہوں کہ ایسی ادا ہوجائے جس میں کوئی وسوسہ نہ آئے۔ ٹھہر ٹھہر کر سوچ سمجھ کر نماز پڑھتا ہوں کہ کیا پڑھ رہا ہوں۔ اور جو نماز امام کے پیچھے ادا کرتا ہوں اس میں یا تو امام کی تلاوت پر غور کرتا ہوں یا جن رکعات میں امام جہری تلاوت نہیں کرتے ان میں یہ تصور کرتا ہوں کہ عرش کے سامنے اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، اُنہی کو رکوع کررہا ہوں اور سجدہ کی حالت میں اُنہی کے قدموں میں سر رکھ رہا ہوں۔ الحمد للہ اس طرح کرنے سے چند دنوں میں خوب یکسوئی حاصل ہوگئی اور نماز کے دوران اور بعد میں بھی سکون، اطمینان اور خوشی کی ایسی کیفیات حاصل ہوئیں جنہیں بیان کرنے سے بندہ کی زبان قاصر ہے۔
جواب: ماشاء اللہ، فللّٰہِ الحمد۔
حال(۲):لیکن حضرت یہ جو ہم بزرگوں کی نماز کے بارے میں سنتے ہیں وہ کیفیات ہمیں کیسے حاصل ہوں گی جیسے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی خشوع و خضوع کی کیفیت مشہور ہے، جب نماز کا وقت آتا تو ان پر خوفِ خدا طاری ہو جاتا، وضو کرتے وقت چہرہ زرد ہوگیا اور نماز پڑھتے وقت جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ یا حضرت رابعہ بصریہ فرماتی تھیں کہ میں نماز جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے ادا نہیں کرتی بلکہ اللہ کی محبت میں ادا کرتی ہوں۔ اسی طرح حضرت حسن بصری راتوں کو تہجد میں روتے رہتے اور فرماتےاگر اللہ نے نماز کا حکم نہ دیا ہوتا تب بھی میں اس میں راحت محسوس کرتا۔
جواب: مبتدی کو منتہی کے حالات کا لالچ اس طور تو نہیں کرنا چاہیے کہ ہمیں یہ کیوں حاصل نہیں۔ البتہ اس نیت سے ان کے اعمال پر نظر ضرور رکھنی چاہیے کہ ہم بھی محنت اور دعا کے ذریعہ یہ مقام حاصل کرلیں۔ اس نیت سے دین میں اپنے سے آگے نکل جانے والوں کے اعمال پر نظر رکھیں تاکہ ان سے آگے نکلنے کا شوق پیدا ہو۔ جس کی ترغیب قرآن پاک میں بھی متعدد مقامات پر آئی ہے۔
اللہ تعالیٰ عبادات کے انعامات ہر بندہ کو الگ الگ عطا فرماتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وقت آنے پر آپ کو درج بالا کیفیات ہی میسر آئیں۔ہوسکتا ہے کچھ اور مل جائے جو کبھی وہم و گمان میں بھی نہ آیا ہو۔ (جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت بدزبانی
حال: حضرت اقدس مجھ میں بدزبانی کا مرض نہایت شدید ہے۔ بیوی بچے، والدین، سسرال والے، دوست احباب، پاس پڑوسی جب کسی کی کوئی بات برداشت نہیں ہوتی تو زبان زہر اگلنے لگتی ہے۔ پہلے تو میں اس کو اصول پرستی اور حق گوئی کا اظہار سمجھتا تھا چنانچہ بے باک تھا۔ لیکن حضرت اقدس سے تعلق کے بعد جانا کہ سب سے بڑے حق گو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہارِ حق گوئی کا یہ انداز نہیں تھا۔ تب سے گزشتہ حماقتوں پر پشیمانی ہے اور مستقبل میں ایسا ہونے کا اندیشہ۔ حضرت کوئی طریقہ بتادیں کہ زبان قابو میں آجائے۔

جواب: اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ کامل مسلمان وہ ہی ہے جس کی زبان کی ایذا رسانیوں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ بد زبانی کا حق گوئی سے کیا تعلق؟ البتہ شیطان سے ضرور تعلق ہے۔ غصہ کے وقت شیطان انسان سے کھلونے کی طرح کھیلتا ہے۔ شیطان کا آلۂ کار بننے والے کو حق گوئی جیسے الفاظ کا ملمع چڑھانا کسی طور مناسب نہیں۔
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غلط بات پر غصہ نہیں آتا تھا؟ کیا اس حالت میں کبھی آپ کی زبانِ اقدس سے کوئی نامناسب بات نکلی؟ ایک صحابی نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے ایک ہی نصیحت تین بار ارشاد فرمائی لاتغضب، لاتغضب، لاتغضب۔ غصہ نہ کرنا، غصہ نہ کرنا، غصہ نہ کرنا۔ آپ علیہ السلام کا ارشادِ مبارک ہے کہ غصہ ایمان کو ایسے کڑوا کردیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو ۔
ایمان کی مٹھاس حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہے تو اسے کڑوا کرنے والے اعمال سے حتی الامکان گریز کرنا ہوگا۔خصوصاً جن سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے جیسے بیوی بچے، والدین، ساس سسر وغیرہ۔ ان کے ساتھ بدزبانی ہرگز برداشت نہیں کی جاسکتی۔ کسی کی کوئی بات واقعی قابل اصلاح محسوس ہو تو عین غصہ کے موقع پر تو ہرگز نہ سمجھائیں، بالکل خاموش رہیں۔ جب غصہ اتر جائے پھر سوچیں کہ بات سمجھانے والی ہے یا نہیں۔
آئندہ زبان پر قابو نہ رکھا تو اس جرم کی سزا میں پانچ سو روپے جرمانہ کسی ضرورت مند کو صدقہ کریں۔ اور ہر مرتبہ جرم کے اعادہ پر جرمانہ کا اعادہ کریں۔ ایک ماہ اس علاج پر عمل کرنے کے بعد پھر حالات سے آگاہ کریں۔

دوسرا خط:
حال:
حضرت والا دامت برکاتہم کے تجویز کردہ علاج پر عمل جاری ہے۔ عین غصہ کی حالت میں ضبط کرلیتا ہوں۔ پھر بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی کوئی بات اتنی بڑی اور بری نہیں لگتی کہ نئے سرے سے دوبارہ اس جھگڑے میں پڑوں۔ پانچ سو روپے جرمانہ کا خیال کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس طرح تو چند دن میں ساری تنخواہ ختم ہوجائے گی۔ یہ خوف بھی زبان کو قابو میں رکھنے کا سبب بن رہا ہے۔

جواب: علاج جاری رکھیں، جب تک غصہ پر قابو پانا عادت نہ بن جائے۔ جرمانہ کی مالیت کم از کم اتنی تو ہو کہ اسے ادا کرنا طبیعت پر بھاری ہو۔ ورنہ آدمی جرم کرکے جرمانہ ادا کرتا رہے گا۔ پھر اس جرم کی اصلاح کیسے ہوگی۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت والدین سے سلوک
حال: میرے والدین خصوصاً والد مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے روکتے ہیں۔ حضرت کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ جواب میں، میں بھی زور زور سے بولتا ہوں تو تشدد پر اتر آتے ہیں۔ حال ہی میں والدہ اور بھائیوں کے ساتھ مل کر رسی سے میرے ہاتھ پاؤں باندھے اور میری آدھی ڈاڑھی مونڈ دی، آدھی رہنے دی کہ اب مجبوراً اسے یہ خود مونڈے گا۔ مگر میں نے بھی اسے نہیں مونڈا، ایسے ہی چہرہ پر رومال لپیٹ کر باہر آتا جاتا ہوں۔
حضرت والدین کی بددینی کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا روز کا معمول بن گیا ہے۔ مجھے ہدایات عطا فرمائیں کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹوں اور دعا بھی دیں کہ میں اپنے والدین کے ساتھ جہاد کرکے کامیاب ہوں اور اللہ والا بن جاؤں۔
جواب: والدین کی بددعاؤں کے آگے پیر کی دعا کیا کرلے گی؟ والدین کو ناراض کرکے اللہ کو پانے کا خواب خواب ہی رہے گا؎
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں​
جہاد والدین کے خلاف نہیں، اپنی ذات، اپنی بدتمیزی کے خلاف کریں۔ والدین بددین تو کیا کافر بھی ہوں تو بھی ان سے بدتمیزی کرنا، ان کی بے ادبی کرنا حرام ہے۔ اگر ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو اللہ کے رسول نے باپ کو جنت کا دروازہ ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے والد کو ناراض کیا اس نے اپنی جنت کا دروازہ اکھاڑ دیا۔ پھر جنت میں کیسے داخل ہوگے؟ لہٰذا والدین کے بارے میں نہایت محتاط اور باادب رہنے کی ضرورت ہے۔ بدزبانی تو بہت بڑی بات ہے ان کو تیز نگاہوں سے گھورنا، بدتمیزی سے گردن جھٹکنا اور انہیں ہونہہ تک کہنا حرام ہے۔ اپنی انا کے کندھوں کو ساری عمر ان کے سامنے ذلیل کرکے، جھکا کے رکھنا ہے۔ وہ ظلم بھی کریں تو خاموشی سے سہنا ہے۔ ایک صحابی نے حضور سے یہی پوچھا کہ اگر والدین ظلم کریں؟ آپ یہ سوال سن کر اس قدر غضب ناک ہوئے کہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور بار بار فرماتے رہے وَ اِنْ ظَلَمَاہ، وَ اِنْ ظَلَمَاہ، وَ اِنْ ظَلَمَاہ اگرچہ وہ ظلم ہی کریں، ظلم ہی کریں، ظلم ہی کریں۔ اور آپ کے جسم اطہر پر جوش کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ چادر مبارک کندھوں سے پھسل گئی۔
والدین پیر کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو بھی آپ کو یہ اجازت نامہ نہیں مل گیا کہ جواباً آپ بھی ان کی شان میں گستاخی کریں۔ پیر کے اور والدین کے درجات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ حضرت ابو ہریرہ کی والدہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتی تھیں۔ لیکن حضرت ابوہریرہ نے کبھی ان سے بدتمیزی نہیں کی۔ ایک دن دل پر زیادہ اثر ہوا تو اللہ کے رسول سے سارا ماجرا عرض کردیا۔ آپ نے حضرت ابوہریرہ کو والدہ کے خلاف گستاخی کرنے کے لیے نہیں فرمایا بلکہ ان کے ایمان لانے کی دعا کی۔ اور جب وہ گھر پہنچے تو دیکھا کہ والدہ ایمان لانے کے بعد غسل کر رہی ہیِں۔ لہٰذا اسوۂ رسول سے ہٹ کر اللہ والا بننے کی تمنا کرنا نرا شیطانی خیال ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ والدین ناراضگی کی اس انتہاء تک کیوں پہنچے؟ اس میں آپ کے اخلاق و رویہ کا کتنا قصور ہے؟ یہ نہیں بتایا۔ جن والدین نے پال پوس کر اتنا بڑا کیا ان کے رویہ کی یہ تبدیلی اچانک نہیں ہوسکتی۔
آپ کے والدین کے اس رویہ کا سبب یہ خوف ہوسکتا کہ دیندار بن کے کہیں آپ دنیا کے کام کے نہ رہیں، اپنی پڑھائی پر توجہ نہ دیں۔ خیر اب جو ہوا سو ہوا ، آئندہ آپ کے کرنے کے لیے ہدایات آپ کی فرمائش پر عرض کررہا ہوں کہ فوراً سے پیشتر والدین کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگیں۔ اگر سردست اتنی ہمت نہیں تو ان کی اطاعت اور خوشنودی والے کام کریں۔ رات کو سوتے وقت اگر وہ پسند کریں تو ان کے سر میں تیل لگائیں، سر دبائیں، پاؤں دبائیں۔ وہ ایک آواز دیں تو نماز، تلاوت اور سارے کام درمیان میں چھوڑ کر ان کی بات سنیں، پھر واپس آکر اپنا معمول پورا کریں۔ پڑھائی پر پہلے سے زیادہ توجہ دیں۔ وہ برا بھلا کہیں تو ہونٹ سی لیں، منہ سے ایک لفظ بھی غلط یا تیز لہجہ کا نہ نکلے۔ اپنی خدمت سے والدین کو احساس دلائیں کہ ابا کے حقوق کی ادائیگی بھی ربا ہی سکھاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ماں باپ کے حقوق کی بات کون کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بخوشی آپ کو اپنے شیخ کے پاس آنے کی اجازت دے دیں۔
اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو بحالت مجبوری ان کے علم میں لائے بغیر جب سہولت اور آسانی ہو میرے پاس آئیں۔ جہاں والدین کی اطاعت ضروری ہے وہیں دین سیکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوشش کریں کہ جب والد کا دل آپ کے اچھے اخلاق کے باعث نرم ہوجائے تو ان کو ساتھ لاکر مجھ سے ملوائیں۔ یہاں آئیں گے تو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے کہ کتنے بڑے ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین دین کے ساتھ دنیا میں بھی بہت آگے ہیں۔ امید ہے اس ملاقات سے ان کے خدشات دور ہونے میں مدد ملے گی۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت فکرِ درستی و اندیشۂ نادرستی
حال: میرے قلب کی حالت اچھی بھی ہے اور بری بھی ہے۔ لیکن برائی کے مقابلہ میں اچھائی کا مجھ کو بالکل اعتبار نہیں۔گواللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر اس پر کرتا ہوں ؎
بلا بودے اگر ایں ہم نبودے
(اگریہ بھی نہ ہوتا تو اور مصیبت ہوتی۔)​
قلبی گناہوں میں مبتلا رہتا ہوں گو بتوجہاتِ حضور، قلب میں کیفیت حضور مع اللہ کی بھی پاتا ہوں لیکن بوجہ قلب کی معصیتوں کے اس کی طرف التفات نہیں کرتا نہ اس کا اعتبار کرتا ہوں۔ دعائے خاص فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ جملہ قلبی خباثتوں سے نجات عطا فرمائیں۔ سخت پریشان ہوتا ہوں ؎
دل خرابی می کند دلدار را آگاہ کنید
(دل خراب ہورہا ہے، محبوب کو آگاہ کرو۔)​
واقعی قلب بعض اوقات ایسا خبیث ہو جاتا ہے کہ خدا کی پناہ، عقل ناقص و فہم کج پر یہ چاہتا ہوں کہ ہر بات عقل میں آجائے ورنہ سخت خلجانات رہتے ہیں، تا ویل اور حسن ظن کاگو یا مادہ ہی نہیں۔ اس سے سخت گمرا ہیوں کا اندیشہ رہتا ہے۔ للہ دستگیری فرماتے رہیں۔
تحقیق: درستی کی فکر اور نادرستی کا اندیشہ بھی درستی ہی کی علامت ہے۔ شکر کیجئے اور کام میں لگے رہیے۔ اور توکل سے بھی کام لینا چاہیے۔ صرف اپنی تدبیر ہی کو مدارِ کار نہ رکھے۔ مگر تدبیر خوب اہتمام سے کرے۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۵۲۲)
خط ببابت شغل بنا اصلاحِ اخلاق
حال: میرا معمول آج کل ہر وقت سانس کے ساتھ اللہ ھو۔ اور آخر میں کم از کم آدھ گھنٹہ، زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ اللہ اللہ ہے۔ جبس دم کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ کسی طرح چھوٹتی نہیں ۔ تہجد کے بعد اسم ذات کی تعداد معین نہیں ہے۔ جو میرے مناسب حال ہو حضرت والا ترمیم و تنسیخ فرمادیں۔
تحقیق: بدون اصلاح عادات کے میں ذکر شغل کے متعلق کوئی حالت سننا نہیں چاہتا۔ ایسے شغل کو سلام ہے (یعنی بنا اصلاح اخلاق کے، بنا گناہوں کے چھوڑے محض شغل سے راستہ طے نہیں ہوتا، وصول الی اللہ نہیں ہوتا)۔ (تربیت السالک، ج:۲، ص:۸۴۰)
 

سید عمران

محفلین
متوسط سالک کے احوال
سلوک کی ایک اصطلاح ہے تَخْلِیَہ یعنی گناہوں کی نجاستوں سے قلب کو پاک کرلینا۔ جیسا کہ مبتدی کے خطوط سے ملاحظہ کرلیا کہ وہ کس طرح گناہوں سے نجات پانے کے لیے اپنے شیخ سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ شیطان نے قدم قدم پر گناہوں کے جو جال بچھائے ہیں ان سے اپنے مرشد کی رہنمائی میں، اللہ سے دعا کرتے ہوئے بچ بچ کے چلتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎​
گر ہزاراں دام باشد بر قدم
چوں تو با مائی نباشد ہیچ غم
ہمارے ہر قدم پر گناہوں کے ہزاروں جال ہیں، لیکن اے اللہ! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں کوئی غم نہیں، کیونکہ پھر کوئی جال ہمیں نہیں پھنسا سکتا۔​
یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے جب وہ شیخ کی رہنمائی میں تمام گناہوں سے قلب کو پاک کرلیتے ہیں۔ یہیں سے آغاز ہوتا ہے تَحْلِیَہ کا۔ یعنی دل کو مزین کرنے کا۔ جس طرح گھر کی آرائش کرتے وقت پہلے صفائی کرتے ہیں، پرانا خراب رنگ رگڑ رگڑ کر اُکھاڑتے ہیں پھر نیا رنگ چڑھاتے ہیں۔ اسی طرح قلب کی آرائش میں پہلے گناہوں کا خراب رنگ اتارتے ہیں، جب دل گندگی سے پاک ہوجاتا ہے پھر ذکر کے انوار اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ کیونکہ ذکر ذاکر کو مذکور سے ملادیتا ہے یعنی ذکر، ذکر کرنے والے کو اللہ سے ملا دیتا ہے۔ ذکر واقعی عجیب چیز ہے،سب اصلاحات اس کی برکت سے ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بکثرت ذکر سے نور پیدا ہوتا ہے اور جب دل میں نور آتا ہے تو پھر گناہوں کے اندھیروں سے وحشت ہونے لگتی ہے ؎​
می گریزد ضدہا از ضدہا
شب گریزد چو بر افروزد ضیا
ہر شئے اپنی ضد سے بھاگتی ہے، پس جب دن روشن ہوا تو رات کی اندھیری کیسے ٹھہر سکتی ہے۔​
پھر تو سالک کی وہ حالت ہوتی ہے کہ ایک دفعہ اللہ کہنے سے روح سرشار ہوجاتی ہے۔ عجائبات ارض و سماء کا انکشاف ہونے لگتا ہے۔ جن گناہوں سے بچنے کے لیے جد و جہد کی جارہی تھی ان سے بچنا آسان تر ہوجاتا ہے۔ اخلاقِ حمیدہ مثلاً عبدیت، شکر، تواضع، تعلق مع اللہ میں اضافہ طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ لگتا ہے طبیعت کو یہ سب انعام غیب سے عطا ہورہے ہیں۔ کہاں تو مبتدی کبھی گناہوں میں پھنسنے، کبھی اس سے نکلنے کا رونا رویا کرتا تھا اور کہاں یہ حالت ہوگئی کہ گناہوں کا خیال دور کہیں پیچھے رہ گیا، بلکہ گناہ کرنے کے خیال سے ہی دل لرزنے لگا، کہیں اس حماقت کی پاداش میں دل کو تعلق مع اللہ، لذتِ ذکر و لذتِ مناجات کی جو کیفیات ملی ہیں وہ سلب نہ ہو جائیں ؎​
بر دلِ سالک ہزاراں غم بود
گر ز باغ دل خلالے کم بود
اگر سالک کے باغ دل سے روحانی کیفیات کا ایک تنکا بھی کم ہوتا ہے تو اس کے قلب پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں۔​
ترکِ گناہ اور غلبۂ ذکر کی برکت سے متوسط سالک کے قلب پر جوش و سرمستیٔ حق غالب آنے لگی، ذکر میں لذت آگئی، روح میں فرحت آگئی، ہر طرف اللہ ہی اللہ نظر آنے لگا۔ دل مقام تفویض پر فائز ہوگیا، خدا کے ہر حکم پر راضی و مطمئن رہنے لگا۔ اس مقام کو تصوف کی اصطلاح میں تَحْلِیَہ کہتے ہیں۔ تحلیہ کا مطلب ہے زیور سے آراستہ کرنا۔ جیسے قرآن پاک میں جنتیوں کا ذکر آیا ہے:​
وَ حُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّۃٍ (سورۃ الدھر، آیت: ۲۱)
انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا۔​
جب سالک کا دل گناہوں کی گندگی سے صاف اور ذکر و عبادات کے زیور سے آراستہ ہونے لگتا ہے تو ایسے ہی دل میں اللہ آتا ہے۔ جیسے اُس گھر میں جو غلاظتوں سے بھرا ہو کوئی مہمان نہیں آتا۔ ایسے ہی گناہوں سے لتھڑے ہوئے دل میں مولیٰ نہیں آتا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے فرمان قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا کی رو سے تزکیہ نفس ہونے لگتا ہے۔ تو دوسری طرف اُس نعمتِ عظمیٰ کے ملنے کی آس بڑھ جاتی ہے جس کے لیے سالک اتنے مجاہدات کرتا ہے۔ یعنی دل میں اللہ کی آمد کا انتظار۔ اس انتظار کو خواجہ صاحب یوں بیان فرماتے ہیں؎​
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی​
آئندہ کے خطوط ان متوسط سالکین کے ہیں جو گناہوں سے بچنے کا مجاہدہ اٹھاتے اٹھاتے دریائے خونِ رواں پار کرلیتے ہیں۔ اب ان کی نگاہ اس دربار پر لگی ہے جس کا دروازہ جانے کب کھل جائے اور اللہ تعالیٰ کی وہ تجلی دل میں آجائے جو حاصلِ کائنات، حاصلِ حیات ہے۔ متوسط سالک ہمہ وقت اس شعر کی عملی تصویر بنے رہتے ہیں؎​
یک چشم زدن غافل از آں شاہ نباشی
شاید کہ نگاہے کند و آگاہ نباشی
ایک لمحہ بھی اللہ سے غافل نہ رہو۔ جانے کس وقت نگاہِ کرم کردیں اور تم بے خبر رہو۔​
متوسط سالک کی حالت اس آدمی کی طرح ہوتی ہے جو دریا کی طرف، سمندر کی طرف چلتا ہے تو جیسے جیسے منزل قریب ہوتی ہے منزل کا قرب اپنا احساس دِلاتا ہے، مثلاً ٹھنڈی ہوائیں اور پانی کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ اسی طرح متوسط سالک جو اللہ کی طرف سفر کرتا ہے اسے اس کے اثرات محسوس ہونا شروع ہوجاتے ہیں مثلاً اطمینان، خوشی، مسرت اور سکونِ قلب۔ جیسے آدمی اور دریا کے کنارے دیوار حائل ہو اور وہ اس دیوار کی ایک ایک اینٹ گرا رہا ہے تاکہ جلد از جلد منزل مقصود تک پہنچے اور خنک و شیریں آب سے سیراب ہوسکے؎​
پستیٔ دیوار قربے می شود
فصلِ او درمان وصلے می شود
ہر اینٹ گر کر دیوار کو چھوٹا کر کے مجھے منزل سے قریب کررہی ہے۔ اس فاصلہ کا مٹ جانا ہی منزل سے وصل کا سبب بنتا ہے۔
(جاری ہے)​
 

سید عمران

محفلین
خط ببابت انتظارِ مولیٰ
حال:حضرت اب تو یہ حال ہوگیا کہ گھٹ گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے۔ کچھ عرصہ ذکر میں خوب جوش و ولولہ تھا اب سب جاتا رہا۔ حضرت والا نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ سب کیفیات ہیں جو اچھی تو ہیں مگر مقصود نہیں، مقصود صرف اللہ کی ذات ہے۔ وہ ذات کب اپنا کرم فرمائے گی۔ کب بے چین روح کو سکون و قرار عطا ہوگا۔ للہ دعا کیجیے جلد وصالِ مولیٰ کی کوئی صورت ہوجائے۔
جواب: ہم کیا ہماری سعی و مجاہدات کیا۔ پھر بھی ایک دن وہ ان ناقص اعمال کو ہی قبول فرمالیتے ہیں۔ لیکن بندہ کی نظر ہمہ وقت کام پر ہونی چاہیے،تاعمر آدابِِ غلامی بجا لانے پر ہونی چاہیے۔نتیجہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔ اس بات کو خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کیا خوب سمجھا گئے ؎
بیٹھے گا چین سے اگر، کام کے کیا رہیں گے پر
گو نہ نکل سکے مگر، پنجرے میں پھڑپھڑائے جا

کھولیں وہ یا نہ کھولیں در، اس پہ ہو کیوں تیری نظر
تو تو بس اپنا کام کر یعنی صدا لگائے جا​
اور مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
گفت پیغمبر کہ چوں کوبی درے
عاقبت زاں در برون آید سرے
پیغبر کا فرمان ہے کہ دروازہ کھٹکھٹاتے رہو۔ ایک دن دروازہ کھلے گا اور دروازہ کھولنے والے کا سر باہر آجائے گا(یعنی خدا تعالیٰ کی تجلی کا ظہور ہوجائے گا۔)
خط ببابت ازدیادِ تعلق مع اللہ
حال: الحمدللہ نماز تہجد اور ذکر اسم ذات فرمودہ آنجناب اپنے وقت پر ڈیڑھ ماہ سے ہونے لگا ہے۔ کبھی تو حالتِ ذکر میں سرور اور قلب میں فرحت معلوم ہوا کرتی ہے اور کبھی کسی روز ہر چند ضرب لگاتا ہوں مگر قلب پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ حلق کے نیچے ہی نہیں اترتا۔ بس خالی زبان پر (اللہ کا)نام رہتا ہے۔مگر اس طرف میں التفات نہیں کرتا۔ اگر چہ جی چاہتا ہے کہ قلب بھی زبان کا ساتھ دے مگر نہیں معلوم بعض روز ایسا کیوں ہو جاتا ہے مطلع فرما دیں۔
تحقیق: حق تعالیٰ برکت و استقامت عطا فرمادیں۔ ذکر میں مسرت و فرحت دولتِ عظمیٰ ہے۔ اور اس پر مجھ کو بڑی ہنسی آئی کہ قلب پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ آپ اثر کس چیز کو سمجھے ہیں؟ تعلق مع اللہ بڑھ جانا اصل مقصود اثر کا یہ ہے، سو الحمدللہ یہ حاصل ہے۔بوجہ عدم معرفت یہ پریشانی ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ جلدی ہی تسلی بھی نصیب ہوجائے گی۔ اطمینان سے کام میں لگے رہیے۔ اور حالات سے مطلع کرتے رہیے۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۱۵۴)
خط ببابت غلبہ تواضع و شکر
حال : حالت بندہ کی یہ ہے کہ تعلق باری تعالیٰ قائم اور زیادہ معلوم ہوتا ہے خواہ کوئی کام کروں یا نہ کروں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا کچھ احساس ہوتا ہے۔ اگر کھانا کھاتا ہوں یا پانی پیتا ہوں تو قلبی رقت اس قدر ہوتی ہے کہ بیان کیا کروں اور کہتا ہوں کہ یااللہ تیرے ایک لقمہ اور ایک قطرہ پانی کا بھی اس ناکارہ سے شکر یہ ادا نہیں ہو سکتا اور گناہ ہر وقت پیش نظر رہتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے اگر کوئی برا کہے تو زیادہ برا نہیں معلوم ہوتا، اگر کوئی اچھا ہے تو کچھہ زیادہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ بعض وقت تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے میں شرم معلوم ہوتی ہے اور یہ جی چاہتا ہے کہ کسی کو منہ نہ دکھاؤں۔ حضرت کیا عرض کروں کچھ نہیں کہہ سکتا۔دعا فرمائیے استقامتِ دین اور عقلِ سلیم اور حسن خاتمہ نصیب ہو جاوے۔
تحقیق: جو حالات آپ نے لکھے ہیں یہ وہ ہیں کہ جس کے باب میں یہ آیتیں پڑھ دینا کافی ہے :
وَ فِیْ ذٰلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ
(سورۃ المطففین، آیت: ۲۶)
اس چیز پر لالچ کرنے والوں کو ایک دوسرے پر لالچ کرنی چاہیے۔

لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ
(سورۃ الصّٰفّٰت، آیت: ۶۱)
عمل کرنے والوں کو اس طرح کے اعمال پر عمل کرنا چاہیئے۔​
اللہ تعالیٰ استقامت و برکت عطا فرماوے۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۱۶۱)
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
تلوین و تمکین
تصوف کی دو اصطلاحات ہیں تلوین اور تمکین۔ تلوین کا مطلب ہے ایک حال سے دوسرے حال کا طاری ہونا، کبھی کم تر حال سے اعلیٰ حال کی طرف جانا۔ متوسط سالک کو مختلف حالتیں پیش آتی ہیں، مثلاً کبھی ذکر میں بہت لذت محسوس ہوتی ہے کبھی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ یہ حالت تلوین کہلاتی ہے۔ اور تمکین کا مطلب ہے ٹھہراؤ، سکون، استقرار۔ جب سالک منتہی ہوجاتا ہے، نسبت مع اللہ حاصل ہوجاتی ہے تو اس کے حالات میں تغیر ختم ہوکر ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ اسے تمکین کہتے ہیں۔ اور اس کا درجہ تلوین سے افضل و اعلیٰ ہوتا ہے۔
خطوط ببابت تلوِین
(۱)
حال: بعض وقت عین ذکر کے اندر قلب پر کچھ انوار کا ورود ہوتا ہے اور قلب میں ایک نوع کی کشش پیدا ہوتی ہے جس سے ذکر کا شوق زیادہ ہو جاتا ہے کہ جی چھوڑنے کو نہیں چاہتا، اس وقت درس و تدریس اور انسانوں کی صحبت سے گریز کرنے کو جی چاہتا ہے اور تنہائی مرغوب ہوتی ہے حتیٰ کہ کسی شخص کا سامنے آجانا بھی موجب تکدر ہو جاتا ہے۔ اور بعض وقت بر عکس اس کے بالکل کمی ہو جاتی ہے اور ایک نوع کی پریشانی ہوتی ہے اور اپنی شامتِ اعمال سے ایسا خیال پیدا ہونے لگتا ہے کہ شاید اب تیرے اوپر عذاب آیا جاتا ہے۔ اس وقت آدمیوں کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہوں کہ شاید اس مسلمان کی صحبت کی برکت یا حسنِ ظن کی و جہ سے نجات ہو جائے۔ اور جب اس حالت سے نجات ہوتی ہے تو گریہ و زاری اور ر قت پیدا ہوتی ہے کہ میرا رب کیسا رحیم و کریم ہے کہ باوجود اس کے میں بد ترین خلائق اور قابل عذاب ہوں مجھے اپنی رحمت سے بچا لیا کرتا ہے۔ باوجود اپنے کثرت گناہ کے اس کے انعامات کی کثرت کو خیال کرتا ہوں تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسو ہو جاتے ہیں اور عذابِِ الٰہی سے ڈر معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ میں اپنے کو مجرمین میں پاتا ہوں، متقین سے نہیں ہوں، اور مدارج اہلِ تقویٰ کے لیے ہیں۔ مجرموں کا اس میں کہاں حصہ ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ ؎
نگویم بزرگی و جاہم بہ بخشش
فرو ماماندگی و گناہم بہ بخشش
(میں یہ نہیں کہتا کہ عظمت اور رتبہ مجھے عطا فرمائیں لیکن میرے قصور اور گناہ معاف فرمادیں۔)​

تحقیق: ایسے حالات اکثر ذاکرین کو پیش آتے ہیں ۔ اپنی غایات کے اعتبار سے محمود ہیں۔ لیکن مقصود ایک بھی نہیں۔ یہ سب تلوینات ہیں اور مقصود تمکین ہے جو تلوین کے بعد خدا کے فضل سے نصیب ہو جاتی ہے۔مگر شرط اس کی اعمال پر مداومت و استقامت ہے۔لہٰذا احوال پر التفات کرنے سے زیادہ اہم اعمال کا التزام ہے۔ اور اس سے زیادہ اہم ملازمت تقوی ہے(یعنی تقویٰ پر لازمی عمل ہے)۔ ان دو امر پر راسخ رہیے اور کچھ ہی تغیر ہو اس کی پرواہ نہ کیجیے۔ بس ان شاء اللہ تعالیٰ ؎
یوسف گم گشتہ باز آید بہ کنعاں غم مخور
کلبۂ احزان شود روزے گلستاں غم مخور
(یوسفِ گُم گشتہ لوٹ آئے گا کنعاں، غم نہ کر
تیرا ویرانہ بنے گا پھر گلستاں، غم نہ کر)
(تربیت السالک، ج:۱، ص:۴۲۴)

(۲)
حال: جو کچھ حضور نے ارشاد فرمایا پڑھتا ہوں۔ گاہے مزا معلوم ہوتا ہے اور گاہے ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی چیز پاس سے جاتی رہی۔
تحقیق: پہلی حالت بسط ہے اور دوسری حالت قبض ہے۔ کام میں لگے رہیئے، ان شاء اللہ اسی طرح استقلال یعنی تمکین عطا ہوجاوے گا۔ ابتداء میں ایسی تلوینات ہوتی ہیں۔
(تربیت السالک، ج:۱، ص:۵۰۱)​

(۳)
حال: اپنی حالت یہ ہے کہ درمیان میں یکسوئی و نماز میں دل لگنا ترقی کر گیا تھا جس کی اطلاع حضورکو دی گئی تھی۔ اب پھر اس میں تنزل ہے۔ گو ابھی تک بفضلہٖ تعالیٰ پہلے سے حالت اچھی ہے۔ حضرت والا کی توجہ کی سخت احتیاج ہے ؎
آناں کہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
(وہ لوگ جو خاک کو اپنی نظر سے کیمیا (سونا) بنا دیتے ہیں،کیا ممکن ہے کہ وہ اپنے گوشۂ چشم سے ایک نگاہِ کرم ہماری طرف بھی کر دیں)​
باقی معمولات فرمودہ اعلیٰ حضرت پر عمل ہے۔ نیند کا ویسا ہی غلبہ ہے اور اس میں کسی طرح کمی نہیں ہوئی ۔ اِلّا گا ہے گا ہے۔
تحقیق: عزیزم السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ بفضلہٖ تعالیٰ خیریت سے ہوں۔ احوال میں ابتداً اسی طرح تغیر و تبدل و کمی بیشی ہوا کرتی ہے، کچھ فکر نہ کیجیے۔مدت کے بعد اگر برابر کوشش رہی تو تمکُّن و استقامت میسر ہو جاتی ہے ؎
صوفی نشودصافی تا در نکشد جامے
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے
(صوفی اُس وقت تک صاف نہیں ہوتا جب تک وہ معرفت کا جام نہ پی لے۔
خام شخص کو کامل بننے کے لیے بہت زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے۔)​
نیند امرطبعی ہے مضر نہیں۔ (تربیت السالک، ج:۱، ص:۵۴۲)
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
قبض و بسط

تصوف میں قبض و بسط دو اہم اصطلاحات ہیں۔بسط فرحت، سکون اور دل کے اطمینان کی کیفیت کو کہتے ہیں۔ بسط میں سالک کو اللہ کی قربت، رحمت اور محبت کا شدید احساس ہوتا ہے۔ ذکر و عبادات میں لذت و سرور رہتا، عبادات میں زیادہ دل لگتا ہے۔
قبض سے مراد جسمانی بیماری نہیں بلکہ قلبی مرض ہے۔ یہ بسط کے خلاف ایک قلبی حالت ہے۔ اس میں دل پر ایک قسم کی گھبراہٹ، تنگی اور حزن (غم) کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت عام طور پر گناہ، غفلت یا اللہ سے دوری کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔قبض میں سالک کو اللہ کی رحمت سے دوری کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ عبادات میں بھی کوئی لطف نہیں آتا۔ دل پر بے کیفی سی طاری رہتی ہے۔ اور وہ بزبان حال کہتا ہے ؎
دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار
دل بیاباں ہوگیا عالَم بیاباں ہوگیا
اور جب دوبارہ بسط کی کیفیت عطا ہوتی ہے تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے؎
باز آمد آبِ من در جوئے من
باز آمد شاہِ من در کوئے من
میرے دریا میں پھر میرا پانی آگیا، یعنی میں پھر کیف و مستی سے سرشار ہوگیا۔ اور میری گلی میں پھر میرا شاہ آگیا یعنی پھر مجھے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوگیا۔

کبھی قبض گناہ کی سزا نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ دیکھیں ہمارا بندہ عبد اللطف ہے یا عبد اللطیف ہے یعنی اس لطف کا بندہ ہے جو اسے ذکر و عبادات سے حاصل ہوتا ہے یا ہمارا بندہ ہے جو لذت نہ ملنے پر بھی، عالمِ بے کیفی میں بھی ہمارا ہوا جارہا ہے، ہماری عبادت کیے جارہا ہے، اس شعر کا مصداق بن رہا ہے؎
بے کیفی میں بھی ہم نے تو اک کیفِ مسلسل دیکھا ہے
جس حال میں بھی وہ رکھتے ہیں اُس حال کو اکمل دیکھا ہے​
قبض کی ایک حکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ قبض کے بعد جب بسط ہوتا ہے تو سالک کو اس کی قدر اور زیادہ ہوتی ہے۔ قبض ہو تو سالک کو استغفار کی کثرت کرنی چاہیے، اللہ سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیے۔ اور بسط ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ بہرحال سالک کو ان دونوں حالتوں میں استقامت اور اللہ کی طرف رجوع کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ راہِ خدا میں ترقی کا سفر طے کرتا رہے۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:
Top