اب آپ شکیل احمد سے موسم کا حال سنیے:
صبح کے سات بجکر تیس منٹ بھی نہیں ہوئے ہیں اور موسم بہت خوشگوار ہے مگر ایک حبس زدہ دن کے لیے طبیعتیں ابھی سے تیارہیں اور باوجود بارش کی پیشین گوئی کے اس کی گرمی اور حبس زدگی سے نمٹنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی تگ ودو میں ہیں، خدا خیر کرے اور بارش ، جس کی توقع ہی اُٹھ گئی غالب ، ہوجائے تو اچھا تاکہ وہ غزل لحن سے پڑھی جاسکے :
دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے بُرا کیا
یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
اِس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا
ویسے تو تمھی نے مجھے بدنام کیا ہے
الزام کسی اور کے سرجائے تو اچھا
جس طرح سے تھوڑی سی تیرے ساتھ کٹی ہے
باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا
شاعر ساحرلدھیانوی نہ بھی ہوں ، موسیقی روی شنکر کی نہ بھی ہو، فلم کاجل کے لیےرفیع نے نہ بھی گایا ہواور شکیل نے اِسے اوریجنل ترتیب سے نہ بھی لکھا ہو تب بھی غزل کی واقعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہر شعر ہی غزل کی اُس تعریف کا امین ویمین ہے جو بزرگانِ قدیم کرگئے ہیں۔