زندگی میں یہ بھی کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ہم سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے
رہبر کامل جناب سرور کونین علیہ الصلوۃ والسلام کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات سے یہ بات نمایاں ہے کہ دل کو ایذا پہنچانے والے کی بھی دل جوئی کرو اور سنگ ریزی کرنے والے کو بھی دعا دو۔
 

سیما علی

لائبریرین
رہبر کامل جناب سرور کونین علیہ الصلوۃ والسلام کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات سے یہ بات نمایاں ہے کہ دل کو ایذا پہنچانے والے کی بھی دل جوئی کرو اور سنگ ریزی کرنے والے کو بھی دعا دو۔
ڈھیروں دعائیں آپکے لئے سلامت رہیے شاد و آباد رہیے آمین۔
 
دیر تک سوچنے کے بعد میں نے یہ مآل اخذ کیا ہےکہ اسے نہ صرف کھیل ہی سمجھا جائے بلکہ کھیل کھیل میں ایسی باتیں کی جائیں جن میں حکمت بھی ہو اور جن سے ہم اور ہمارے پیر بھائی استفادہ حاصل کر سکیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
خیر کے لئیے نرم خوئی مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں؀

نرم مزاجی​

مَنْ تَلِنْ حاشِيَتُہٗ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ۔ (خطبہ 23)
جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

نرم مزاجی اور خوش خلقی انسان کی زندگی کے ایسے سرمائے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ امیرالمؤمنینؑ نے رشتہ داروں سے مالی تعاون کا ذکر کیا اور اس کے بعد قوم و قبیلے سے پیار و محبت کی اہمیت بتائی۔ انسان جب مالدار ہو جائے تو اکثر اس میں تکبر آ جاتا ہے خاندان کے لوگوں اور عام غریبوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ خاندان سے الگ رہنے کو پسند کرتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب خاندان ہو تو خود کو اس خاندان کے حوالے سے متعارف بھی نہیں کرواتا۔ ان کے گھر میں آنے جانے کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے۔امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں زندگی کا یہ درس دے رہے ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمات کے شکرانے کے طور پر مال و دولت کو اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرے اور اگر مال نہ ہو تو کم از کم ان کے ساتھ پیار و محبت اور عزت و احترام اور نرم مزاجی سے پیش آئے۔ خلوص بھرا سلام بھی ان کی محبت خریدنے کا سامان بن سکتا ہے۔ یہ نرم مزاجی قوم و قبیلہ اور عام افراد کے دل جیتنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سخاوت و دردمندی کے ذریعے قبیلے کی محبت کا قلعہ مضبوط کر سکتا ہے۔ نرم مزاجی معاشرے میں سکون و آرام اور محبت و الفت پھیلا سکتی ہے ۔ یوں لوگوں کی زندگیاں بڑھ سکتی ہیں اور مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔ انسان کو اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کبھی خود تو بڑا نیک و متواضع ہوتا ہے مگر اس کے اردگرد والے اور مخصوص افراد اپنی بد خلقی اور سخت مزاجی کی وجہ سے لوگوں کو اس کے فیض سے محروم رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی ایک فریضہ ہے کہ اردگرد والے افراد پر بھی نظر رکھے اور غریب افراد خاص طور پر رشتہ داروں کے ساتھ نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرے۔ یوں نرم خو شخص کی محبت عزیزوں اور غریبوں کے دلوں میں گھر کر جائے گی اور وہ زندگی میں اسے ملنے اور سلام کرنے کی خواہش رکھیں گے اور دنیا سے چلے جانے پر اس کے لئے طلب رحمت و مغفرت کریں گے۔



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 
حسن اخلاق کے بغیر عبادات کسی کام کی نہیں مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے ہوتے سے یہ سنتے آئیں ہیں کہ حقوق اللہ کی تو معافی ہے لیکن حقوق العباد کی بالکل بھی نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
چونکہ انسان کے سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ حادثات و تجربات انسان کو جگاتے، ہوشیار کرتے، اور بہت سے سبق سکھاتے ہیں۔ نیک بخت ہے وہ انسان جو دوسروں کی زندگی کی کتاب کے مطالعہ سے سبق سیکھ لیتا ہے۔ دل کی آنکھوں سے ستمگروں کے طریقہ عمل کو پہچانتا ہے اور ان کے برے انجام سے آگاہ ہوتا ہے تو یہ سبق یاد کر لیتا ہے کہ اس راہ سے نہیں جانا جو تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔ اسی طرح با کمال لوگوں کی طے کی ہوئی منزلوں سے آگاہ ہوتا ہے اور جن راہوں کو طے کر کے وہ منزل تک پہنچے اور کامیاب ہوئے ان راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جنہوں نے محنت کی اور ہمت سے کام لیا وہ کامیاب ہوگئے اور جنھوں نے سستی کی وہ ناکام ہوئے۔ دوسروں سے پند و نصیحت حاصل کرنا اور ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا سعادت مندی ہے ۔
 
خیر کے لئیے نرم خوئی مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں؀

نرم مزاجی​

مَنْ تَلِنْ حاشِيَتُہٗ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ۔ (خطبہ 23)
جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

نرم مزاجی اور خوش خلقی انسان کی زندگی کے ایسے سرمائے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ امیرالمؤمنینؑ نے رشتہ داروں سے مالی تعاون کا ذکر کیا اور اس کے بعد قوم و قبیلے سے پیار و محبت کی اہمیت بتائی۔ انسان جب مالدار ہو جائے تو اکثر اس میں تکبر آ جاتا ہے خاندان کے لوگوں اور عام غریبوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ خاندان سے الگ رہنے کو پسند کرتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب خاندان ہو تو خود کو اس خاندان کے حوالے سے متعارف بھی نہیں کرواتا۔ ان کے گھر میں آنے جانے کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے۔امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں زندگی کا یہ درس دے رہے ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمات کے شکرانے کے طور پر مال و دولت کو اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرے اور اگر مال نہ ہو تو کم از کم ان کے ساتھ پیار و محبت اور عزت و احترام اور نرم مزاجی سے پیش آئے۔ خلوص بھرا سلام بھی ان کی محبت خریدنے کا سامان بن سکتا ہے۔ یہ نرم مزاجی قوم و قبیلہ اور عام افراد کے دل جیتنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سخاوت و دردمندی کے ذریعے قبیلے کی محبت کا قلعہ مضبوط کر سکتا ہے۔ نرم مزاجی معاشرے میں سکون و آرام اور محبت و الفت پھیلا سکتی ہے ۔ یوں لوگوں کی زندگیاں بڑھ سکتی ہیں اور مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔ انسان کو اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کبھی خود تو بڑا نیک و متواضع ہوتا ہے مگر اس کے اردگرد والے اور مخصوص افراد اپنی بد خلقی اور سخت مزاجی کی وجہ سے لوگوں کو اس کے فیض سے محروم رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی ایک فریضہ ہے کہ اردگرد والے افراد پر بھی نظر رکھے اور غریب افراد خاص طور پر رشتہ داروں کے ساتھ نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرے۔ یوں نرم خو شخص کی محبت عزیزوں اور غریبوں کے دلوں میں گھر کر جائے گی اور وہ زندگی میں اسے ملنے اور سلام کرنے کی خواہش رکھیں گے اور دنیا سے چلے جانے پر اس کے لئے طلب رحمت و مغفرت کریں گے۔



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
کیا صرف مسلماں کے پیارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
جوش ملیح آبادی
 
جنہوں نے محنت کی اور ہمت سے کام لیا وہ کامیاب ہوگئے اور جنھوں نے سستی کی وہ ناکام ہوئے۔ دوسروں سے پند و نصیحت حاصل کرنا اور ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا سعادت مندی ہے ۔
ثابت قدم رہنے اور یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھنے والے کے پاس کامیابی خود چل کر آتی ہے۔
 
ان کے انداز کرم ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا

نقش بر آب نہیں وہم نہیں خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا

ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ جانا دل کا
سید نصیر الدین نصیر
 

سیما علی

لائبریرین
یارب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا
جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری
جب تک زباں ہے منہ میں‌جاری ہو نام تیرا

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین
ہے دل میں جلوہ رخِ تابان مصطفیٰﷺ
قندیلِ کعبہ ہے تہ دامانِ مصطفیٰﷺ
باہر حدِ خیال سے ہے شانِ مصطفیٰﷺ
ہر عزت و وقار ہے شایانِ مصطفیٰﷺ
یہ شکیل بدایونی ۔۔ایک خوب صورت نعت سرور کونین ﷺ کی محبت میں لکھی۔۔
شکیل بدایونی کے لافانی نغموں کا وہی معیار ہے جو ان کی غزلوں کا ہے۔ ان کے فلمی گیتوں میں ادبی شاعری کی طرح معنی کی وسعت، گہرائی، لفظیات کی بندش اور وجدان و شعور کی کارفرمائی ہے۔ جو فلمی گیتوں میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ فلمی دنیا کے چکاچوند کر دینے والے ماحول میں بھی انھوں نے فن و ادب سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنا ایک الگ معیار بنایا۔
فلم "بیجو باورا" میں محمد رفیع کی آواز، نوشاد کی دھن اور شکیل کے قلم کا جادو دیکھیے۔

او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے
آس نراس کے دو رنگوں سے دنیا تو نے سجائی

اسی فلم کا ایک دوسرا نغمہ جس میں شکیل نے تشبیہ اور استعاروں کا بہت خوب صورتی سے استمال کیا ہے۔

تو گنگا کی موج میں جمنا کی دھارا
رہے گا ملن یہ ہمارا تمھارا
اگر تو ہے ساگر تو منجدھار میں ہوں
تیرے دل کی کشتی کا پتوار میں ہوں
 
Top