ۂماری صبح ہوئی
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہر عالم تاب کا منظر کھلا
خسرو انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو راز مہ و اختر کھلا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
سطح گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ سر کھلا
تھی نظر بندی کیا جب رد سحر
بادۂ گلرنگ کا ساغر کھلا
لا کے ساقی نے صبوحی کے لیے
رکھ دیا ایک جام زر کھلا
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20