سیما علی

لائبریرین
حروف ِ ہجا فارس (ایران) میں
عربوں کے ایران پر دھاوے اور اقتدار کے بعد ایرانی زبان میں بھی تغیرات آئے۔۔۔
فوررٹ ولیم کالج کے اساتذہ اردو حروف ہجا میں اک غیر معمولی جست لگائی ۔ قبل ازیں ڑ ، ٹ ، ڈ پر چار نقطے ہوتے تھے ۔ انہوں نے نقطے ہٹا کر چھوٹی طوئے کا استعمال کرکے یہ الجھن مٹا دی ۔ یاد رہے کہ سندھی زبان میں آج بھی کچھ حروف پر چار نقطے مستعمل ہیں ۔ دنیا کی تمام زبانوں کے حروف کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے ۔ انگریزی کے 26،عربی 29فارسی کے 33 اورہندی کے 42حروف ہیں ۔ لیکن اردو شاید واحد زبان ہے جس کی پیدائش سے لے کر آج تک حروف کی تعداد کا تعین نہ ہو سکا ۔ جوں جوں وقت گزرا ، حروف کی تعداد میں تفاوت و اختلاف شدید تر ہوتا گیا ۔ 35,36 37 . 38 . 50 .51. 52 . 53 . اور54 حروف کی بحث کے سلسلے ،سندھ کے ساحل سے لے کر تابخاکِ جمنا گنگ ،زبان سمیت دراز رہے ۔ مستزاد یہ کہ ہماری آبادی کی طرح اردو میں بھی حروف اور آوازوں کی تعداد ضرورت سے کچھ زیادہ ہے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
چار حروف ( پ ، چ ، ژ ، گ )شامل ہونے سے جدید فارسی کے حروف تہجی کی تعداد 32 ہوگئی ۔ فارسی کا مقامی تلفظ پارسی تھا ۔ چونکہ عرب ’’پ ‘‘کی آواز نہیں نکال سکتے لہٰذا وہ پارس کو فارس ، پارسی زبان کو فارسی اور آغا ( سردار ) کو آقا کہتے تھے ۔ ایران کا قدیم نام ’’ پارس ‘‘ تھا اور پارسی نام کا صوبہ آج بھی ایران میں موجود ہے ۔ محققین کے مطابق ایران کا لفظ آریہ سے مشتق ہے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
جیسے
حروف تہجی ہندوستان میں
عربی اور فارسی بولنے والے ہندوستان پر قابض ہوئے تو حسبِ عادت یہاں کی مقامی زبانوں کو شدید متاثر کیا ۔ حتیٰ کہ دفتری و عدالتی زبان فارسی ٹھہری ۔ تاہم فارسی میں بھی ہندی کے کچھ حروف مثلاََ ڑ ، ڈ ، ٹ اور ے شامل ہو گئے اوراس نئی زبان کے حروف ِ تہجی کی تعداد 36 ہوئی ۔ علاوہ ازیں اردو میں الف کے بعد ( آ ) کا اضافہ بھی ہوگیا جو عربی کے کھڑی زبر کے برابر کی آواز بنی ۔ گویا حروف تہجی کی تعداد میں تغیرات کو زمانے میں ثبات حاصل رہا ہے ۔ جو سکالر آیا اک نیا حرف دے گیا ۔ ان حروف کے اعداد کا تعین ان کے ہم شکل حروف کے اعداد کے مطابق کر دیا گیا ۔ یعنی ب کا عدد ۲ ہے تو ٹ ، پ کے عدد بھی ۲،۲ تصور ہوں گے ۔
’’ ڑ ‘‘ ا ک عجیب اور غریب حرف
عربی اور فارسی کے راستے حروف ہندوستان پہنچے تو یہاں کے مقامی باشندوں کی طرح مقامی حروف بھی حملہ آوروں میں گھُل مِل گئے ۔ چراغ بجھے یا نہ بجھے ،خیمہ بدلنے کا رواج پختہ تھا ۔ مقامی حروف نے اپنی جگہ بنا کر حروف تہجی کی تعداد بھی بڑھا دی ۔ مگر ڑ بیچارہ تھا اور رہا ۔ کسی با معنی لفظ نے ڑ کو اپنے شروع میں لگانا قبول ہی نہ کیا ۔ ستم یہ کہ جہاں بھی استعمال ہوا ،ناخوشگوار ہی ہوا ۔ اس کے صوتی اثرات اور شکل اکثریت کو بھاتے ہی نہیں ۔ یہ ہندوستان میں قدیم دراوڑی زبانوں بشمول تلگو،ملیالم اور تامل وغیرہ میں شامل ہے ۔ سرکاری قاعدے کے مطابق یہ اردو حروف تہجی کا پچیسواں اور اس کے فوراََ بعد ’’ ڑھ ‘‘ چھبیسواں حرف ہے ۔ کچی جماعت سے ہی بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ڑ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا ۔ یقینا طلباء سوچتے ہیں کہ پھر ڑ سے پہاڑ کیسے بن جاتا ہے ۔ غالباََ رائی کے پہاڑ ایسے ہی بناکرتے تھے ۔ تا ہم یہ عقدہ عیاں ہوچکا ہے کہ ’’ ڑوڑہ ‘‘ اور ’’ ڑوڑی ‘‘ کے الفاظ بھی لغات میں موجود ہےں ۔ یہ روڑہ ہی کی پُر تشدد شکلیں ہیں ۔ ا ب فدایانِ اردو کا مطالبہ ہے کہ کسی نہ کسی زبان سے ڑ سے شروع ہونے والے الفاظ کو باقاعدہ لکھت میں شامل کیا جائے تاکہ اردو کی کم مائیگی کا تاثر رفع ہو سکے ۔ مثلاََ پشتو لفظ ’’ ڑوند ‘‘ ( اندھا ) یا پھر گوجری لفظ ’’ ڑوت پیو‘‘ بمعنی سوتیلا باپ وغیرہ ۔ اسی طرح پوٹھوہاری میں پھلوں کی گٹھلی کو ’’ ڑک ‘‘ کہتے ہیں لہٰذا اس کو ڑ کے حامل لفظ کے طور پر ذخیرہ الفاظ میں شامل کرنے کی تجاویز ہیں ۔ اس حوالے سے تاریخِ ادب میں ناصر کاظمی نے ایک شعر لکھ
کر ’’ ڑ ‘‘ کا بھرم یوں رکھا ہے ،
’’ ڑ ‘‘ حرف بد نصیب ہے ناصر میری طرح
اب تک کسی بھی لفظ کے آگے نہ لگ سکا ِ
 

سیما علی

لائبریرین
ثمر ہے یہ چند اور کریہہ الصوت حروف
عربی و فارسی سے اردو میں آتے آتے حروف تہجی ڑ ،ڈ ، ٹ جیسے کرخت آوازوں کے حروف لے کر شامل ہوئی ۔ فارسی و عربی میں یہ آوازیں نہ ہیں ۔ مگر ہندوستان میں یہ راءج ہیں ۔ 1857 تک ان حروف پر چار نقطے لگائے جاتے تھے ۔ پھر انھیں نامناسب سمجھ کر ترک کر دیا گیا اور اس کی جگہ ان پر ’’ ط ‘‘ کی علامت لگائی جانے لگی ۔ جس سے ط کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوا اور اس کی تعریف یوں ہونے لگی ،، یہ عربی کا سو لہواں ، فارسی کا انتیسواں اور اردو کا بائیسواں حرف ہے ۔ اسے طائے حُطّی مہملہ یا غیر منقوط بھی کہتے ہیں ۔ ِِ
ہمزہ (ء )کا بیان
ہمزہ حرف نہیں بلکہ علامت ہے جس کا استعمال مُصوتی تسلسل کےلئے کیا جاتا ہے ۔ ہمزہ کو کبھی الف کا قائم مقام بھی ماناجاتا ہے ۔ جب دو حروف علت اپنی آواز الگ الگ دیں تو ان کے بیچ ہمزہ آئے گا ورنہ غیر ضروری ہے ۔ مثلاََ آءو ، جاءو ، آءوں ، لاءوں وغیرہ ۔ کچھ الفاظ لکھتے وقت الجھن رہتی ہے اس پر ء لکھیں یا پھر یائے لکھ دیں ۔ جیسے کے لئے ، گئے وغیرہ ۔ اصول ہے کہ آخری حرف سے پہلا حرف اگر بالکسر ہو تو (یے)استعمال ہوگی ۔ اگر مذکورہ حرف پر زبر ہے تو(ء )کی علامت لکھی جائے گی ۔ گویا ’’کے لِیے ‘‘ اور ’’ گَئے ‘‘ درست املا ہیں ۔
منقول۔اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ٹروما میں چلی گئیں۔۔۔خاتون جب شادی چند ماہ بعد اپنے گھروالوں کے ساتھ فیملی ٹرپ پر گئی، واپسی پر شوہر کو سرپرائیز دینے کا سوچا اور جب سرپرائز دینے گھر پہنچیں، دروازہ کھولا تو شوہر کو اسکی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ دیکھ
خو د ٹر وما میں چلی گئیں ۔اب ہے کوئی علاج عامر گولڑوی بھیا۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
تو betrayal trauma سے گزرنے والا کبھی دوبارہ کسی پر بھروسہ نہیں کرپاتا، کبھی ریلیشن شپ نہیں بنا پاتا، وہ کافی عرصہ خود کو انسانیت اور اس دنیا کا حصہ ہی نہیں سمجھتا۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
پوشیدہ جذبۂ محبت؀
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 
ٹروما میں چلی گئیں۔۔۔خاتون جب شادی چند ماہ بعد اپنے گھروالوں کے ساتھ فیملی ٹرپ پر گئی، واپسی پر شوہر کو سرپرائیز دینے کا سوچا اور جب سرپرائز دینے گھر پہنچیں، دروازہ کھولا تو شوہر کو اسکی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ دیکھ
خو د ٹر وما میں چلی گئیں ۔اب ہے کوئی علاج عامر گولڑوی بھیا۔۔۔
پروین شاکر صاحبہ کا ایک مصرعہ ہے کہ
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اصل میں اس سے زیادہ کچھ لکھنے یا کہنے کی کم از کم مجھ میں تو ہمت نہیں کیوں کہ یقین ہر رشتے کی بنیاد ہے اور چاہے تعلق اللہ رب العزت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔یقین ایک بار ٹوٹ جائے تو فنا کر دیتا ہر چیز کو
 

سیما علی

لائبریرین
اپنی ذات سے بھی پیار کرنا چاہئیے –عالمگیر محبت میں ایک عنصر جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ۔۔۔۔اگر ہمیں اپنی ذات سے سچی محبت ہے تو ہم اپنے لئیے دائمی مسرت کو تلاش کریں گے، نہ کہ عارضی خوشی۔ جب ہم خود سے سچا پیار کرتے ہیں تبھی ہم دوسروں سے بھی سچا پیار کر سکتے ہیں۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین
پروین شاکر صاحبہ کا ایک مصرعہ ہے کہ
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اصل میں اس سے زیادہ کچھ لکھنے یا کہنے کی کم از کم مجھ میں تو ہمت نہیں کیوں کہ یقین ہر رشتے کی بنیاد ہے اور چاہے تعلق اللہ رب العزت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔یقین ایک بار ٹوٹ جائے تو فنا کر دیتا ہر چیز کو
یہی سچ ہے ۔۔۔۔
 
اپنی ذات سے بھی پیار کرنا چاہئیے –عالمگیر محبت میں ایک عنصر جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ۔۔۔۔اگر ہمیں اپنی ذات سے سچی محبت ہے تو ہم اپنے لئیے دائمی مسرت کو تلاش کریں گے، نہ کہ عارضی خوشی۔ جب ہم خود سے سچا پیار کرتے ہیں تبھی ہم دوسروں سے بھی سچا پیار کر سکتے ہیں۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

یہ تو درست کہا آپ نے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب اپنی ذات سے پیار اہو جائے تو پھر کچھ اور رہتا ہی نہیں کیونکہ ہماری ذات اصل میں وہ ذات ہے جس نے ہم میں اپنی روح پھونکی ہے
 
تو betrayal trauma سے گزرنے والا کبھی دوبارہ کسی پر بھروسہ نہیں کرپاتا، کبھی ریلیشن شپ نہیں بنا پاتا، وہ کافی عرصہ خود کو انسانیت اور اس دنیا کا حصہ ہی نہیں سمجھتا۔۔۔
ہاں اس پر یہ کہوں گا کہ شکستہ شیشہ جوڑ بھی دیا جائے تو شگافیں بھری نہیں جا سکتیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
یہ تو درست کہا آپ نے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب اپنی ذات سے پیار اہو جائے تو پھر کچھ اور رہتا ہی نہیں کیونکہ ہماری ذات اصل میں وہ ذات ہے جس نے ہم میں اپنی روح پھونکی ہے
ہر ذی ہوش جب اپنے آپ سے محبت کرتا ہے تو دراصل وہ اپنے خالق سے محبت ہے ۔
 
نورالدین عبدالرحمن مولانا جامی نے ایک شعر کہا تھا کہ
گر عشق حقیقت و گر عشق مجاز است
مقصود ازیں ہر دو مرا سوز و گداز است
یعنی کہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی دونوں صورتوں میں پیمانہ محبت شراب سوز و گداز سے لبریز ہونا چاہیے۔
 

سیما علی

لائبریرین
محبت جو اپنی فضیلت، عظمت اور مراتب میں سب سے افضل، اعلیٰ، بلند اور حقیقی و دائمی ہے وہ اللہ رب العزت کی محبت ہے اور جسے یہ نصیب ہو جائے پھر نہ اسے کوئی خوف رہتا ہے نہ غم دوراں اس کے خیالات کو منتشر کرتا ہے۔۔۔۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 
محبت جو اپنی فضیلت، عظمت اور مراتب میں سب سے افضل، اعلیٰ، بلند اور حقیقی و دائمی ہے وہ اللہ رب العزت کی محبت ہے اور جسے یہ نصیب ہو جائے پھر نہ اسے کوئی خوف رہتا ہے نہ غم دوراں اس کے خیالات کو منتشر کرتا ہے۔۔۔۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

لم یزل ذات کی محبت میں انسان فنا ہو کر مقام بقا حاصل کر لیتا ہے جس کے لیے یہ دنیا فقط غالب کے اس شعر کی مانند ہوتی ہے کہ
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
 

سیما علی

لائبریرین
لطف بندگی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔۔۔ سیدنا با یزید بسطامی کا اک قول ہے کہ ’’جس دل میں عشق الہٰی کی آگ جل جائے تو وہ محبوب حقیقی کی یاد کے سوا ہر چیز کو جلا کر رکھ کر دیتی ہے‘‘۔۔اللہ کریم ہمیں اپنی اور اپنے حبیب نبی کریمؐ کی محبت عطا فرمائے۔آمین
 
Top