عامر گولڑوی
محفلین
حالات سے لڑنے کے لیے خود اعتمادی کا ہونا بہت ضروری ہے۔
ہمارے یہاں بھی ایک سبز بھتنی ہے ذرا سنبھل کے کیمرا کہیں بھی کھل جاتا ہے۔۔۔جنات سے ملاقات کرنے کا سوچ رہا تھا کہ اچانک موبائیل کا کیمرہ کھل گیا اور پھر ایک خوف سا طاری ہو گیا۔
وہ رہتی ہے اخروٹ کے درخت پر ۔۔۔ہمارے یہاں بھی ایک سبز بھتنی ہے ذرا سنبھل کے کیمرا کہیں بھی کھل جاتا ہے۔۔۔
نہ ڈرائیں مجھے تو ویسے بھی نیند کم آتی ہے۔وہ رہتی ہے اخروٹ کے درخت پر ۔۔۔
ناک میں دم کردیتی ہے ۔۔۔۔ہماری سبز بھتنی ! نہیں یقین آتا تو گل بٹیا سے پوچھ لیجیے۔جنات سے ملاقات کرنے کا سوچ رہا تھا کہ اچانک موبائیل کا کیمرہ کھل گیا اور پھر ایک خوف سا طاری ہو گیا۔
مرگھلی سی ہے کیا ڈرنا ہم سب ڈرائیں گے اسے ۔۔نہ ڈرائیں مجھے تو ویسے بھی نیند کم آتی ہے۔
گو تعمیل ِ ارشادِ گرامی میں تاخیر ہوئی مگر حق یہ ہے کہ میں تو ہمیشہ ایسی حسین و رنگین اور دل نشیں فرمائشوں کا منتظر رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ خود بھی فرصت ملے تو یہاں اہلِ علم وہنر اور صاحب ِ فکر ونظر کی اُن تحریروں سے استفادہ کروں ، جو مختلف زُمروں میں مختلف موضوعات پر متفرق عنوانات سے جمگمگا رہی ہیں ،اُنھیں جستہ جستہ جگہوں سے پڑھ کر اور چیدہ چیدہ مقامات سےدیکھ کر روح کو جس انداز میں مسرور پاتا ہوں اُس کا حال اِس وقت زبانِ قلم سے بیان کرنا ممکن نہیں:روزانہ تو سلام کرتے ہی رہتے ہیں سب لوگ، آج اگلے حرف سے @شکیل احمد خان23 کوئی پرانا گانا سنا دیں
کیا کہنے واہ بہت عمدہ تحریر بھی اور انتخاب بھی خاص طور پر معلومات میں اضافہ کے لیے بے حد شکریہ۔گو تعمیل ِ ارشادِ گرامی میں تاخیر ہوئی مگر حق یہ ہے کہ میں تو ہمیشہ ایسی حسین و رنگین اور دل نشیں فرمائشوں کا منتظر رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ خود بھی فرصت ملے تو یہاں اہلِ علم وہنر اور صاحب ِ فکر ونظر کی اُن تحریروں سے استفادہ کروں ، جو مختلف زُمروں میں مختلف موضوعات پر متفرق عنوانات سے جمگمگا رہی ہیں ،اُنھیں جستہ جستہ جگہوں سے پڑھ کر اور چیدہ چیدہ مقامات سےدیکھ کر روح کو جس انداز میں مسرور پاتا ہوں اُس کا حال اِس وقت زبانِ قلم سے بیان کرنا ممکن نہیں:
سرگشتہ ٔ جمال کی۔ حیرانیاں نہ پوچھاب سنیے اپنی فرمائش پر پنڈت بھوشن کا یہ گیت جو کندن لعل سہگل نے پنکھج ملک کی موسیقی میں دی نیوتھیٹر کمپنی کے تحت بننے والی فلم ’’ مائی سسٹر ‘‘ کے لیے گایا تھا۔یہ وہ دور تھا جب کندن لعل سہگل بطورِ فلم ایکٹر ہمارے شاہ رُخ خان، سلمان خان، عامر خان اور اِن سے پہلے امیتابھ بچن، دھرمیندر، راجیش کھنہ اور اُن سے پہلے دلیپ کمار ، دیوآنند ،گرودت کی طرح ہر فلم کی مانگ اور ہر سوانگ کی جان(ہر طرح کا رول نبھانے کے ماہر) مانےجاتے تھے اورساتھ ہی گلو کا ری اور صدابندی میں بھی شیام سندر ، سی ایچ آتما ، درانی ، پنکھج ملک وغیرہ کو خاطر میں نہ لاتے تھے بلکہ ان کے سرخیل و سرتاج گردانے جاتے تھے ۔
ہر ذرے کے حجاب میں اِک آئینہ ملا
بہت زمانوں کے بعد پاکستان میں ایم کلیم ، افغانستان میں ناشناش اور ہندُستان میں مکیش نے اُن ہی کے طرز و انداز میں گلوکاری کاآغاز کیا ۔ اول الذکر دو کو تو واجبی سی شہرت ملی مگر آخر الذکر یعنی مکیش کو بے پناہ شہرت، قبولِ عام اورپذیرائی نے فلمی دنیا ،جہانِ فن اور اُردُو داں طبقے میں ہر دلعزیز بنا دیاکیونکہ مکیش نے سہگل کے نقشِ قدم پر چلتے چلتے اپنی سی ایک راہ نکالی اور پھر اپنے آخر دنوں کے گیتوں (فلم ’’میرا نام جوکر‘‘ اور دیگر ) تک اُسی ڈگر پر رہتےہوئے دنیا سے کوچ کرگئے۔ لیجیے سہگل کا وہ گیت پیش ہے جو اپنی لائبریری میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے اور آڈیوویڈیو ز کی ہر فارمیٹ میں میرے پاس محفوظ ہے :
1
اے۔ کاتبِ۔ تقدیر ۔ مجھے ۔ اِتنا ۔ بتا۔ دے
کیوں مجھ سے خفا ہے تُو۔ کیا ۔ میں نے کیا ہے
اوروں کو خوشی مجھ کو فقط درد ورنج وغم ،دنیا کو ہنسی اورمجھے رونا دیا ہے
کیا میں نے کیا ہے ، کیا میں نے کیا ہے
2
حصے۔ میں سب کے آئی ہیں رنگین بہاریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بدبختیاں لیکن مجھے شیشے میں اُتاریں
پیتے ہیں۔۔۔۔۔ پیتے ہیں ۔۔۔روز و شب مسرتوں کی مے، میں ہوں کہ فقط خونِ جگر میں نے پیا ہے
کیامیں نے کیا ہے ، کیا میں نے کیا ہے
3
تھا جن کے دم قدم سے یہ آباد آشیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چہچہاتی بلبلیں جانے گئیں کہاں
جگنو کی چمک ہے نہ ستاروں کی روشنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِس گھپ اندھیرے میں ہے مری جان پر بنی
کیا تھی خطا کہ جس کی سزا تو نے مجھ کو دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تھا گناہ کہ جس کا بدلہ مجھ سے لیا ہے
کیا میں نے کیا ہے ، کیا میں نے کیا ہے