سیما علی

لائبریرین
پاپوش نگر میں سارے پاپوش پہنے رہتے ہیں کیا ۔۔۔اس سے ہمیشہ ہمیں یہ یاد آجاتا ہے ؀
اونٹ برابر ڈیل بڑھایا، پاپوش برابر عقل نہ آئی!
؀
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
 

سیما علی

لائبریرین
بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی...
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر ...
بندر روڈ کے حوالے سے احمد رُشدی کا یہ گیت بہت مقبول ہے ۔آج بھی پرانے کراچی کے حوالے سے اگر کوئی یادیں تازہ کرنی ہو تو اس گیت سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ تقسیم سے قبل یا اس کے فوراََ بعد بندر روڈ کی شناخت میری ویدر ٹاور، ڈینسو ہال، حاجی مولا ڈینا مسلم دھرم شالا ( مولوی مسافر خانہ) کراچی مونسپلٹی، سوامی نارائن مندر، بینک آف انڈیا تھی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایم اے جناح روڈ تک پہنچ گئے۔۔۔
1949 میں بندر روڈ کا نام تبدیل کر کے محمد علی جناح روڈ رکھا گیا۔۔۔لیکن اب بھی لوگ بندر رو ڈ کہتے ہیں۔۔
یہاں مولا ڈینا مسلم دھرم شالہ۔۔کی تختی۔دھرم شالا تو ہندوؤں کا ہوتا ہے اس سے مسلمانوں کا کیا تعلق۔ شاید یہ مشترکہ ہندوستان میں پہلا اور آخری مسلم دھرم شالا ہے تقسیم کے بعد پاکستان آنے والے مہاجرین نے جب عارضی طور پر یہاں پڑاؤ ڈالا تو غالباً اُن کے لیے مولوڈینا کا تعمیر کیا گیا مسلم دھرم شالا ایک نئی بات تھی۔۔۔اسی لئے اسے مولوی مسافر خانہ بنا دیا گیا۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہاکس بے کا ذکر نہ ہو تو کراچی کا ذکر کیسے مکمل ہو ۔۔کراچی سے کئی کلومیٹر دور ساحلی مقام ہے ۔۔یہ کئی حصوں پر مشتمل ہے ۔۔
نیلم پوائنٹ پیراڈائز پوائنٹ زیادہ مشہور ہیں ۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہاکس بے کا ذکر نہ ہو تو کراچی کا ذکر کیسے مکمل ہو ۔۔کراچی سے کئی کلومیٹر دور ساحلی مقام ہے ۔۔یہ کئی حصوں پر مشتمل ہے ۔۔
نیلم پوائنٹ پیراڈائز پوائنٹ زیادہ مشہور ہیں ۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

وہاں سینٹس پٹ کا نام بھی تو سننے میں آتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
وہاں سینٹس پٹ کا نام بھی تو سننے میں آتا ہے۔
وزیر میسنشن کے ذکر کے بغیر کراچی کا ذکر مکمل نہیں ہوتا ۔۔۔یہ جگہ جہاں قائداعظم کی ولادت ہوئی اور قائد آعظم نے اپنے بچپن اور جوانی کے 16 سال اسی عمارت میں گزارے، ایک قابل قدر قومی یادگار ہے۔ جو اس وقت کراچی شہر کے کھارادر میں "برکاتی اسٹریٹ" کے نام سے جانی جاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ناظم آباد کے ذکر کے بغیرکراچی مکمل نہیں ۔۔۔صادقین۔ابن انشا۔مشفق خواجہ ۔محمد برادران ،مشتاق محمد ، حنیف محمد ،سب کا تعلق ناظم آباد سے ۔
 
میری سوئی ابھی نیوکراچی پر ہی اٹکی ہے۔ تو نیوکراچی کے بعد ایک اور بستی جو دیکھنے میں نیوکراچی ہی لگتی ہے ، سرجانی ٹاؤن ہے۔70ء کے عشرے میں اِسے اور گلستان ِ جوہر کو اور شاہ لطیف ٹاؤن کو اور میٹرو ول ایک دو اور تین کو رہائشی منصوبوں کے طور پر کے ڈی اے نے پیش کیا ۔ اُس وقت کے ڈی اے ہرنئی رہائشی اسکیم اقبال کے اِس فرمودے کے ساتھ لاؤنچ کرتی تھی:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لیجیے ملیر کا ذکر بھی سنیے۔
ملیر سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں۔۔۔
ملیر ٹاؤن دیہی و شہری زندگی کا امتزاج رکھتا ہے اس کے مشرقی علاقوں میں باغات واقع ہیں جہاں سبزیوں ترکاریوں کے علاوہ پھل بھی اگائے جاتے ہیں۔ملیر ٹاؤن کی یہ زرخیزیملیر ندی کی وجہ سے ہے۔۔
 

سیما علی

لائبریرین

کلاک ٹاورز کراچی کے بڑے مشہور ہیں ۔ٹاور کا ہو یا لی مارکیٹ کا ۔۔یا ایمپریس مارکیٹ کا۔۔خراب گھڑیاں بھی دن میں دو مرتبہ درست وقت بتاتیں ہیں ۔۔یہ ٹاورز گوروں کے زمانے میں بنائے گئے۔۔

 
سرجانی ٹاؤن ہے۔ 70ء کے عشرے میں اِسے اور گلستان ِ جوہر کو اور شاہ لطیف ٹاؤن کو اور میٹرو ول ایک دو اور تین کو رہائشی منصوبوں کے طور پر کے ڈی اے نے پیش کیا ۔
قابلیت اور لیاقت کے ساتھ تخلیقی اپج ، ایمانداری اور اپنے کام سے وفا کا جنازہ تو اب اُٹھا ہے وگر نہ جب یہ بستیاں لاؤنچ ہوئی تھیں تو کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پورے ملک سے اہلِ وطن کے یہاں آبسنے کی خواہش اور رجحان کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھ کر اِن منصوبوں میں چوڑی چوڑی سڑکوں اور فراخ گلیوں کے ساتھ ساتھ وسیع پارکوں ، کشادہ مسجدوں ، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی ہالز کے لیے بڑے بڑے پلاٹس بھی مختص کیے گئے تھے۔ چنانچہ گلستانِ جوہر کو گلشن ِ اقبال کا پارٹ ٹو جب کہ سُرجانی ٹاؤن کو نیوکراچی کا اپ گریڈ ورژن ، شاہ لطیف ٹاؤن کو اندرونِ سندھ سے آنیوالے ہم وطنوں کا میزبان اور میٹروِل ون ، ٹو اور تھری کو پہلے سے آباد بستیوں کے درمیان چند خوش وضع بفرزونز اورکچھ خوش قطع راہ داریوں کے قائم مقام سمجھنا چاہیے گو بفرزون کے نام سے ایک بستی کے ڈی اے کا ہی ایک اور ناقابلِ فراموش اور یاد گار شہکار ہے:
تجھے کچھ عشق و اُلفت کے سِوا بھی یاد ہے اے دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنائے جارہا ہے ایک ہی افسانہ گھنٹوں سے​
 
آخری تدوین:
فالتو بیٹھا ہوں میں تو، اب کراچی کے علاقوں کی بات ہو رہی ہو تو میرا بولنا چہ معنی؟
غالب نے یہ شعر شاید کراچی کےلیے کہاتھا:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
۔۔۔۔۔۔۔ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے​

آپ بھی ہمیں حیدرآباد کی سیر کرائیں کیونکہ :
جنت جسے کہتے ہیں اُدھر بھی ہے اِدھر بھی ہے​
 

سیما علی

لائبریرین
فالتو بیٹھا ہوں میں تو، اب کراچی کے علاقوں کی بات ہو رہی ہو تو میرا بولنا چہ معنی؟

عینی آپا آپکی اور ہماری محترمہ قرۃ العین حیدر
بھی پاکستان قیام کے دوران کراچی بھی تشریف لائیں تھیں ۔
آپ سے ہمارا ایک رشتہ ! علی گڑھ یونیورسٹی کے حوالے سے بھی ہے ،جو ہمیں بہت عزیز ہے۔۔
سلامت رہیے ۔آمین
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین
ظاہر کیا جاتا ہے کہ پہلی پاکستان دشمن ادیبہ قرۃالعین حیدر تھیں۔ انھیں پاکستان دشمنی کا اس قدر جنون تھا کہ تقسیم ہوتے ہی اپنا بڑا سا گھر اور اشرافی حلقہِ احباب ترک کر کے دلی سے کراچی یہ جا وہ جا۔۔۔۔
ہم تو یہ سب چھوڑ کہ صرف یہ جانتے ہیں کہ اردو میں اب تک آٹھ بڑے ناول لکھے گئے۔ آگ کا دریا، چاندنی بیگم، گردشِ رنگِ چمن، آخرِ شب کے ہمسفر، اداس نسلیں، خدا کی بستی، چاکیواڑہ میں وصال اور غلام باغ۔ پہلے چار
قرۃ العین حیدر کے ہیں ۔۔۔باقی ایک ایک علی الترتیب عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، محمد خالد اختر اور مرزا اطہر بیگ کا ہے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ظاہر کیا جاتا ہے کہ پہلی پاکستان دشمن ادیبہ قرۃالعین حیدر تھیں۔ انھیں پاکستان دشمنی کا اس قدر جنون تھا کہ تقسیم ہوتے ہی اپنا بڑا سا گھر اور اشرافی حلقہِ احباب ترک کر کے دلی سے کراچی یہ جا وہ جا۔۔۔۔
ہم تو یہ سب چھوڑ کہ صرف یہ جانتے ہیں کہ اردو میں اب تک آٹھ بڑے ناول لکھے گئے۔ آگ کا دریا، چاندنی بیگم، گردشِ رنگِ چمن، آخرِ شب کے ہمسفر، اداس نسلیں، خدا کی بستی، چاکیواڑہ میں وصال اور غلام باغ۔ پہلے چار
قرۃ العین حیدر کے ہیں ۔۔۔باقی ایک ایک علی الترتیب عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، محمد خالد اختر اور مرزا اطہر بیگ کا ہے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
طاری ہوتی ہے ہم پر اداسی جب ہم عینی آپا کے پاکستان سے واپسی کا حال پڑھتے ہیں ۔۔۔
زاہدہ حنا لکھتی ہیں ۔
؀پرانی داستانوں کے بعض نسائی کردار پلکوں سے موتی چُنتے تھے‘ میں نے پلکوں سے قرۃ العین حیدر کے لکھے ہوئے لفظ چُنے۔ زندگی کی پہلی اور آخری چوری ان کی خاطر کی۔ ’’ستاروں سے آگے‘‘ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ کسی کے گھر نظر آیا تو میں اسے پڑھنے کے لیے بے قرار ہو گئی۔ خاتون خانہ سے درخواست گزاری کی کہ اسے پڑھنا چاہتی ہوں، چند دنوں کے لیے عنایت کر دیجئے۔ انہوں نے نہایت رعونت سے انکار کر دیا۔ میرے خیال میں ’’ستاروں سے آگے‘‘ پڑھنا میرا حق تھا۔ سو اس گھر سے رخصت ہوتے ہوئے میں اسے چپکے سے اپنے ساتھ لے آئی۔ بعد میں ان خاتون نے مچھ پر چوری کا الزام لگایا تو میں نے اپنے ’’جرم‘‘ کا اقرار کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ کتاب اب انہیں واپس نہیں ملے گی۔ اس ’’اعلان‘‘ پر وہ میرا منہ دیکھتی رہ گئیں تھیں۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے اعلیٰ مثال اور کیا ہو گی۔ذاتی زندگی میں وہ بات بے بات ناراض ہو جاتی تھیں لیکن جب معاملہ تاریخ اور تہذیب کا ہو تو ان سے بڑا دریا دل نہ تھا۔ وہ انسانوں کو زمین‘ زبان اور عقیدے سے بالاتر ہو کر دیکھتی‘ سمجھتی اور برتتی تھیں۔
وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں جب اردو کے سب سے بڑے اخبار میں ان کے خلاف سراج رضوی کی زہریلی تحریریں چھپ رہی تھیں، ایک کالم حفیظ جالندھری نے بھی ان کے خلاف لکھا تھا۔ ان ہی دنوں کالج میگزین میں ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں میرا ایک مضمون چھپا۔ جنرل ایوب کا زمانہ‘ ہندوستان دشمنی اپنے عروج پر تھی۔ میں کالج میں ’ہندو‘ اور ’غدار‘ ٹہرائی گئی‘ چند لڑکیوں نے میری ٹھکائی کی تو پیشانی سے لہو کی بوند چھلک گئی۔ نفیس رضا یاعلیؑ‘ یا علیؑ کرتی ہوئی بیچ بچاؤ کرنے آئیں تو دو ہاتھ انہوں نے بھی کھائے۔ یا پھر ان دنوں کی بات کروں جب میں ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ کی ایڈیٹر تھی۔ بمبئی گئی تو پالی ہلز پر انڈین فلم انڈسٹری کے’’دی گریٹ مغل‘‘ کے یہاں ٹھہری۔ کھانے کی میز پر ذکر نکلا کہ وہ ’’کالے خاں گولہ انداز‘‘ پر فلم بنانا چاہتے تھے‘ اسکرپٹ عینی آپا لکھنے والی تھیں لیکن دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ منصوبہ یاد فراموشی کی مچان پر دھر دیا گیا۔ میں نے اختلاف کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے
“جاہل عورت ہے” مجھے جیسے کسی نے فلیتہ دکھا دیا۔
’’جو انہیں جاہل کہے وہ خود جاہل’’ کہتے ہوئے میں کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ یا نوردجی گماڈیا روڑ پر ’’آشا محل‘‘ میں گزرنے والے ان تین دنوں کو دہراؤں جو ان کے ساتھ بسر ہوئے یا اس اعزاز کا ذکر کروں کہ
’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ جلد اول کے پہلے ہندوستانی ایڈیشن میں یہ چھپا ہوا ہے کہ “پاکستان میں اس کے حق اشاعت زاہدہ حنا کے نام محفوظ ہیں” یا پھر ان خطوط کے بارے میں لکھوں جن میں سے کچھ ایک پاکستانی شاعرہ کی شکایتوں سے پُر تھے۔ یا لندن میں ’’مندر‘‘ ریستوران اور اردو مرکز‘ میں ان سے ملاقاتوں کا تذکرہ جن میں فیروز آپا (مسز فیروز مُکر جی) بھی شریک تھیں۔ یہ وہی فیروز جبیں ہیں جن کے بارے میں عینی آپا نے ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں کئی جگہ لکھا ہے اور جنہوں نے عینی آپا سے پہلے رختِ سفر باندھا۔ ذاکر باغ کا وہ فلیٹ جہاں ہم دونوں نے گھنٹوں ادھر اُدھر کی تازہ ترین گوسپ کا تبادلہ کیا اور ساتھ ہی جھڑپیں، بھی چلتی رہیں۔ ہندوستان کی معروف شاعرہ مسعودہ حیات کے نصف بہتر شریف بھارتی اس ملاقات میں موجود تھے۔ ان کے گھر سے ہم نکلے تو شریف بھارتی نے مجھے دیکھا پھر کہنے لگے
’’جب میں سرکس دیکھنے جاتا تھا تو سب سے زیادہ مرعوب اس Ring Master سے ہوتا تھا جو شیر کے کھلے منہ میں اپنا سر دے کر اسے صحیح سلامت واپس نکال لیتا تھا۔ آج وہ منظر پھر سے دیکھ لیا‘‘
’’تو گویا میں سرکس کا رنگ ماسٹر ہوں‘‘، میں خفا ہونے لگی۔ “میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ۔ عینی آپا جیسی جلالی خاتون سے شاید ہی کوئی اس طرح الجھتا ہو‘‘ ان کے اس جملے پر میں ہنس دی تھی؀
 
Top