سیما علی
لائبریرین
نیک بخت ہیں وہ لوگ جو اطاعت رسول صل اللہ علیہ وسلم کی کوشش میں اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں ۔۔اس کوشش میں اگر حاصل صد فی صد تو بہت مشکل ہے پر اگر کچھ بھی سچے دل سے حاصل ہے تو وہی حاصل زندگی ہے ۔۔باقی سب لاحاصل۔۔۔۔صلوة و سلام جناب سید الانبیاء، خاتم النبیین محمد الرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی پر اور آپ کی آل اولاد پر، ازواج پر اصحاب پراور شہدا اور صالحین پر
السلام علیکم ورحمته اللہ وبرکاته
اللہ رب العزت اپنی رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کا نزول فرمائے۔ ہمیں گمراہی سے بچائے، شر سے محفوظ رکھے اور ہدایت عطا فرمائے، صبر و شکر عطا فرمائے اور اپنی اور اپنے رسول علیہ الصلوة والسلام کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یارب کرم بہ حال نصیر حزیں کہ او
ادنی گدائے کوچہ آل محمد است
آج سے تقریباً سوا سو سال قبل واعظِ اسلام حسن علی صاحب ایک رسالہ ’’نوراسلام‘‘ پٹنہ، بہار سے نکالتے تھے۔
اس میں انہوں نے اپنے ایک ہندو اسکالر دوست کی رائے لکھی ہے۔
اس نے ایک دن حسن صاحب سے کہا کہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا سب سے بڑا اورکامل ومکمل انسان تسلیم کرتاہوں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کس وجہ سے؟ اس نے جواب دیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بیک وقت اس قدر متضاد اورمتنوع اوصاف نظر آتے ہیں جو کسی ایک انسان میں تاریخ نے کبھی یکجا کرکے نہیں دکھایا۔ وہ بادشاہ ایسا کہ پورا خطہ اورپورا ملک اس کی مٹھی میں اوردولتمند ایسا کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے دارالحکومت آرہے ہوںاورمحتاج ونادار ایسا کہ مہینوں اسکے گھر میں چولہا نہ جلتا ہو اوروہ فاقے پر فاقہ کرتے ہوں، سپہ سالار ایسا کہ چند نہتے آدمیوں کو لیکر ہزاروں کی غرق آہن فوجوں پر فتح حاصل کرتاہو اورصلح پسند ایسا کہ ہزارہا پرجوش جاں نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح نامہ پر جھک کر دستخط کردیتاہو، بہادر ایساکہ ہزاروں کے مقابلہ پر تنہا کھڑا ہو اورنرم دل ایسا کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے انسانی خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہایاہو، باتعلق ایسا کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی، بیوی بچوں کی، غریب ومفلس کی اورخدا کو بھولی ہوئی دنیا کے ہرہر فرد کی بلکہ سارے سنسار کی اس کو فکر ہو اوربے تعلق ایسا کہ خدا کے سوا کسی سے کوئی تعلق خاطر ہی نہ ہو اورہرچیز کو فراموش کئے ہوا ہو۔ اس نے کبھی کسی کا برُا نہ چاہا ہو بلکہ برُا چاہنے والوں کے ساتھ بھی بھلا برتائو کرتاہو، عین اس وقت جب اس پر ایک تیغ زن سپاہی کا دھوکا ہوتاہو وہ ایک شب زندہ دارزاہد کی صورت میں جلوہ نما ہوجاتاہے، عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح کا شبہ ہو، وہ پیغمبر انہ معصومیت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے، عین اس وقت جب ہم اس کو شاہ ِعرب کہہ کر پکارنا چاہتے ہیں وہ کھجور کا تکیہ لگائے خالی چٹائی پر محو خواب نظر آتاہے، عین اس وقت جبکہ اس کے صحنِ مسجد میں مال واسباب کا انبار لگاہوتاہے، اس کے اہل بیت میں فاقہ مستی ہوتی ہے، یہ متضاد صفات وکمالات اسی کی ذات کا حصہ ہے کسی اورکو آج تک نہیں مل سکا اورنہ مل سکتاہے۔۔۔۔۔
آج مسلمان بلاشبہ راستے سے ہٹے اوربھٹکے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ کو چھوڑے ہوئے ہیں مگر پھر بھی انہیں اس کی حقانیت وآفاقیت کا یقین ہے۔۔۔
آخری تدوین: