ٹھہرئیے کچھ اور بھی ہیں جو ہر موقع پر یاد آتے ہیں جیسے گبر سنگھ،جیسے سانبھا، جیسے کالیامیں تو کہتا ہوں شعلے کی کاسٹ میں ایک کریکٹر بھی بھرتی اور زبردستی کا نہیں پایا حتی ٰ ۔ کہ گبر سنگھ کی کلائی پر چلنے والا چیونٹا بھی۔۔۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
 

سیما علی

لائبریرین
بس پھر کبھی کبھی ثمرہ کو بھی بلا لیجے ۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
ٹھہرئیے کچھ اور بھی ہیں جو ہر موقع پر یاد آتے ہیں جیسے گبر سنگھ،جیسے سانبھا، جیسے کالیامیں تو کہتا ہوں شعلے کی کاسٹ میں ایک کریکٹر بھی بھرتی اور زبردستی کا نہیں پایا حتی ٰ ۔ کہ گبر سنگھ کی کلائی پر چلنے والا چیونٹا بھی۔۔۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ارے شکیل بھیا ہمیں تو جیہ بہادری بھی رادھا کے کردار میں یاد ہیں ۔جیہ بہادری جو بعد میں جیہ بچن بنی ۔۔انکی فلم انڈسٹری میں اپنی ایک منفردپہچان ہے۔۔انھوں نے ثابت کیا کہ کچھ بغیر کہے اور بولے بغیر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے جاسکتے ہیں ۔۔۔
 
آخری تدوین:
ہمارے ہاں پاکستان میں تو اِس فلم کے وہ چرچے رہے کہ کیا کہیں ۔ جاوید اختر کا اُردُو زبان و ادب کی تاریخ پر ایک مفصل لیکچر یوٹیوب پر دیکھا۔ میں حیران رہ گیا کہ فلم انڈسٹری کے لوگ اِس قدر لرنیڈ۔۔learned ، ایسے محقق، اتنے نکتہ رس اورحددرجہ پُرفکر، آفرین !۔۔۔۔۔۔۔مگر ہندُستان فلم انڈسٹری کا شروع دن سے نوجوانوں کی اُمنگوں کو مصنوعی اور غیرفطری انداز سے اُبھارنے کا جو چلن رہا ہے اور اب تک ہے وہ بہت معیوب کن اور قابلِ اعتراض ہے ۔ یوٹیوب کی بدولت خاموش فلموں کے زمانے کی ایک فلم بنظرِ تحقیق دیکھنے کا موقع ملا تو میں نے مع احباب یہی عیب نوٹ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مگر ہندُستان فلم انڈسٹری کا شروع دن سے نوجوانوں کی اُمنگوں کو مصنوعی اور غیرفطری انداز سے اُبھارنے کا جو چلن رہا ہے اور اب تک ہے وہ بہت معیوب کن اور قابلِ اعتراض ہے ۔ یوٹیوب کی بدولت خاموش فلموں کے زمانے کی ایک فلم بنظرِ تحقیق دیکھنے کا موقع ملا تو میں نے مع احباب یہی عیب نوٹ کیا ۔۔۔
وجہ شاید یہی ہے ایک مرتبہ لکھنئو سے ہماری چچازاد بہن آئیں ۔۔۔وہ بتا رہیں تھیں کہ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ ایک وقت کھانا نہیں کھائیں گے پر فلم ضرور دیکھیں گے ۔ہمارے بہنوئی وکیل ہیں انکے دفتر میں جو لڑکا ٹائپنگ کیا کرتا تھا وہ ہفتے میں دو فلمیں دیکھتا تھا ۔۔یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کے لئے یہ فلمیں ایک نشہ ہیں ۔۔ایک مرتبہ ہم شاہ رخ خان کا انڑویو دیکھ رہے تھے ۔تو وہ کہہ رہے تھے کہ بچوں کو میں بتاتا ہوں یہ ہم فلم میں ایسا کررہے تھے مگر اصلی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
نوجوان جہاں رسیا ہیں فلموں کے ۔۔۔وہیں پڑھنے لکھنے کے شوقین بھی ہیں ۔۔۔فلم امراؤ جان اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی جس میں ریکھا نے ہیروئن (امراؤ جان) کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کیا تھا۔۔۔فلمی دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی ہدایت کار، فنکار، موسیقار، گلوکار اور شاعر کی کوئی فلم سپرہٹ ہوتی ہے تو پھر شہرت کی دیوی بھی اس کے قدموں میں آ کے بیٹھ جاتی ہے، مگر کبھی کبھی کسی کے ساتھ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔
اس کی ایک مثال بالی ووڈ کی سپرہٹ ترین فلم امراؤ جان کے شاعر شہریار کی ہے جس نے مذکورہ فلم میں جتنے گیت لکھے وہ سب سپرہٹ ہوئے ان گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔ مگر شاعر شہریار پھر بھی شہرت نہ پاسکے اب اسے مقدر کی بات کہہ سکتے ہیں یا پھر کسی شاعر کی بے قدری۔ شہریار ایک سیدھے سادے انسان تھے۔۔وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور علمی شخصیت بھی تھے۔
چند مشہور گیت ۔۔۔۔
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک فلمی تقریب میں اداکارہ ریکھا نے یہ بات کہی تھی کہ فلم امراؤ جان میری زندگی کی وہ یادگار فلم ہے جس نے میری زندگی بدل دی تھی اور ریکھا بالی ووڈ کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور مہنگی ترین ہیروئن بن گیئں ۔۔۔
مگر شہریار کی یہ بدقسمتی کہ اس کو پھر بھی فلمی دنیا میں وہ شہرت نصیب نہ ہو سکی جو ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری اور حسرت جے پوری کو حاصل ہوئی۔۔۔

ہدایت کار مظفر علی اور شاعر شہریار طالب علمی کے زمانے کے دوست تھے۔ مظفر علی کو فلمی دنیا سے دلچسپی پیدا ہوگئی جب کہ شہریار ادبی دنیا کی طرف چلے گئے۔

کتابیں لکھنے لگے، پھر ان کے دوست مظفر علی نے امراؤ جان فلم بنانے کا اعلان کیا تو اپنے دیرینہ دوست شہریار کو بحیثیت گیت نگار منتخب کرلیا۔ ان دنوں شہریار علی گڑھ یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ کے سربراہ تھے اور ایک اردو رسالہ شعر و حکمت کے بھی ایڈیٹر تھے۔ جب ان کے دوست نے اصرار کیا کہ تم میرے ساتھ کام کرو، یہ بہت بڑا اور مہنگا پروجیکٹ ہے۔

مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہے، کچھ اسکرپٹ پر بھی دونوں نے مل کر کام کرنا ہے تو پھر شہریار یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دوست مظفر علی کے ساتھ فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ فلم امراؤ جان ادا ریلیز ہوئی اور سارے ہندوستان میں اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کدھر مصروف ہیں سب ۔۔۔۔
السلام علیکم ۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

عظیم

محفلین
کدھر مصروف ہیں سب ۔۔۔۔
السلام علیکم ۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

قوی امکان ہے کہ کچھ دیر بعد مصروف ہو جاؤں گا، فی الحال تو میں فارغ ہی ہوں! وعلیکم السلام
 
غالباً پندرہ دن پہلے پکے تھے اور بڑے ہی لذیذ تھے ، بونگ کی سنگت نے تو مزاہی دوبالاکردیا تھا اور پھر افغانی نان ۔جب تک سردیاں ہیں کم سے کم پندرہ اور زیادہ سے زیادہ بیس دن کے وقفے سے پائے ضرورپکتے ہیں اور کوئی دوسری یا تیسری بار ہوتی ہے کہ سردیاں ہی چل دیتی ہیں مگراِنہیں الوداع کہتے ہوئے بھی یہی ڈش سامنے ہوتی ہے،شکرالحمدللہ !
 

سیما علی

لائبریرین
غالباً پندرہ دن پہلے پکے تھے اور بڑے ہی لذیذ تھے ، بونگ کی سنگت نے تو مزاہی دوبالاکردیا تھا اور پھر افغانی نان ۔جب تک سردیاں ہیں کم سے کم پندرہ اور زیادہ سے زیادہ بیس دن کے وقفے سے پائے ضرورپکتے ہیں اور کوئی دوسری یا تیسری بار ہوتی ہے کہ سردیاں ہی چل دیتی ہیں مگراِنہیں الوداع کہتے ہوئے بھی یہی ڈش سامنے ہوتی ہے،شکرالحمدللہ !
عین ممکن تھا ہم بھی آج بونگ ڈال کے پائے ہی پکاتے ۔۔مگر آپکے بھائی صاحب نہ پائے کھاتے ہیں نہ ہی نہاری تو جب بناتے ہیں ۔انکے لئے کچھ اور بنانا ہوتا ہے ۔۔بس اٹھا کہ رکھ دیے کیونکہ ہم دونوں ہی تھے تو مٹر پلاؤ اور آلو گوشت پکا لیا۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top