رحمت علی آزادؔ وہی وہ شخص تھے ۔ جنھوں نے ہماری تاریخ میں چودھری رحمت علی کے نام سے ممتاز مقام حاصل کیا۔
یہ انکشاف یقیناً ہمارے اہل علم اور اہل سیاست دونوں ہی کے لیے چونکانے والا ہے کہ ان اشعار کا خالق چودھری رحمت علی ہیں
نہیں منازل ِہستی کی ظلمتوں کا خطر
تِری ضیاء سے ہے روشن مِرا حریمِ وجود…..
ہوگا آخر بارگاہ حق میں اک دن باریاب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
آزاد ؔ تخلص کے کسی گم نام شاعر نے یہ اشعار کہے، جس نے اپنی خستہ حالی کے سبب، تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے صحافت کا پیشہ اختیار کیا، پھر دو چھوٹی سی ریاستوں (جاگیروں) کے شہزادوں کا اتالیق رہا، مگر انھیں بطور شاعر، صحافی، وکیل یا مصنف شہرت نہیں ملی، بلکہ وہ دنیا بھر میں ایک الگ، آزاد اور خودمختار مسلم ریاست کے واضح تصور کا پہلا پرچارک تھا ….حیات ہی انقلابی سیاسی رہنما کی حیثیت سے جانے پہچانے گئے۔
پاکستان، خصوصاً تحریک پاکستان کے باب میں یہ بددیانتی (کہ Heroکو یا توZero بنادیا یا اُس کا کردار اس قدر مختصر اور غیراہم کردیا کہ قارئین کو پتا ہی نہ چلے کہ اُس نے کیا کارنامے انجام دیے اور کیا قربانی دی) کسی بادشاہ کے حکم پر نہیں ہوئی، یہ سیاہ کارنامہ بعض مخصوص، متعصب اور ابن الوقت افراد یا اُن کے گروہ نے انجام دیا۔
چودھری رحمت علی ہماری تاریخ کی ایسی ہی شخصیت ہیں جنھیں اُن کی بے لوث قربانیوں کا صلہ یہ ملا کہ مطالعہ پاکستان کی سرکاری درسی کتب میں فقط ایک سطر (’’پاکستان کا نام چودھری رحمت علی نے تجویز کیا‘‘) تک محدود کردیا گیا۔ جس شخص نے اپنا تن من دھن سب کچھ اس وطن کے خواب سے تعبیر تک عمل میں لگادیا، کالج کے دورِتعلیم سے تادمِ مرگ، (برصغیرپاک وہند کے تقریباً تمام سیاسی رہنماؤں کے برعکس)، فقط ایک ہی مقصد اور سیاسی منزل کے حصول کے لیے کوشاں رہا، اپنی نجی زندگی کو اس قدر غیراہم جانا کہ شادی کی نہ مال جائیداد بنانے پر توجہ دی۔۔۔۔
مرحوم چودھری صاحب، تحریک پاکستان کے اولین خادموں میں شامل تھے، بلکہ فی الحقیقت پاکستان کے بانیوں میں سے تھے۔ ہمارے محبوب وطن کو پاکستان کا نام سب سے پہلے مرحوم چودھری صاحب نے دیا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریک، پاکستان نیشنل موومنٹ کو کیمرج (انگلینڈ) میں بیٹھ کر اس طرح چلایا کہ بالآخر پاکستان ایک واضح حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ مگر یہ عمل قابل صدافسوس ہے کہ نہ پاکستانی قوم نے نہ اس وقت کی حکومت نے اُن کی قدر کی ہے۔ مرحوم چودھری صاحب، فی الواقع، ایک عظیم پاکستانی ہیں اور مؤرخ جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو چودھری رحمت علی کی عظمت سے انکار نہیں کرسکے گا۔‘‘ (اداریہ، مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت، لاہور۔ مؤرخہ سولہ فروری سن انیس سو اکیاون)۔
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20