سیما علی

لائبریرین
داغ دہلوی اردو کے مشہور شاعر، نواب مرزا خان 1831 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔۔۔ 1905 میں بمقام حیدر آباد دکن میں انتقال ہوا ۔
ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔
بقو ل جناب اسد اللہ خان غالب
” داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی!ذوق نے اردو کواپنی گو دمیں پالا تھا۔ داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے۔“
بقول نفیس سندیلوی، ” داغ فطر ی شاعر تھے وہ غزل کے لیے پیدا ہوئے اور غز ل اُن کے لیے ان کی زبان غزل کی جان ہے۔“
بقول رام بابو سکسینہ :

” ان کی زبان کے ساتھ اس خدمت کی ضرور قدر کرنی چاہیے کہ انہوں نے سخت اور معلق الفاظ ترک کیے اور سیدھے الفاظ استعمال کیے۔ جس سے کلام میں بے ساختگی اور فصاحت مزید بڑھ گئی ہے۔“
خلیل الرحمن عظمی
”داغ کے طرز بیان میں جو صفائی اور فصاحت، جو چستی، جو نکھار، جو البیلا پن اور جو فنی رچائو ملتا ہے وہ بہت کم غزل گویوں کے حصے میں آیا ہے۔ داغ کا فن اُن کی شخصیت کی ایک تصویر ہے اس لیے اس میں بڑی جان ہے۔“
داغ کی شاعر ی کے متعلق فراق فرماتے ہیں” اردو شاعری نے داغ کے برابر کا فقرہ باز آج تک پیدا کیا ہے اور نہ آئندہ پیدا کر سکے گی۔“
؀
بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا
نہ جوش دیکھا ، نہ شور دیکھا ، نہ موج دیکھی ، نہ آب دیکھا



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
خوب ہیں یہ طویل mUSTAFA video of yoga, معلوماتی مراسلے بلاشبہ۔۔۔ لیکن اس کھیل کے ساتھ کھلواڑ بھی ہیں۔
حال احوال بھی پوچھے جاتے ہیں ! البتہ کوشش ہماری اس کھیل میں یہ بھی ہے کہ دلچسپی قائم رہے ہوسکتا ۔۔ ایسےمعلوماتی مراسلوں سے ہمارے جیسے پیدل لوگوں کی یاداشت
REVIVE ہوجاتی ہو ۔۔۔بہت پہلے جو چیزیں پڑھیں وہ ایک عرصے نہ پڑھنے کی وجہ سے بھول بھال گئیں ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
چین کی خبریں بھی سن لیں ۔۔۔چینی صدر شی جن پنگ نے مالدیپ کے صدر محمد معیزو ’پرانا دوست‘ قرار دیا جہاں چین نے جامع اسٹریٹیجک تعاون پر مبنی شراکت داری پر اتفاق کرتے ہوئے مالدیپ میں مزید سرمایہ کاری کے عزم کا عملی طور پر اظہار کیا۔
ملکوں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کرتے ہوئے نئے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق نومنتخب صدر محمد معیزو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کے علاقائی حریف بھارت کو مالدیپ کی خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
جانے کہاں گئے وہ دن
کہتے تھے تیری راہ میں
نظروں کو ہم بچھائیں گے
چاہے کہیں بھی تم رہو
ہمیں تو یہ یاد آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔
نغمہ : جانے کہاں گئے وہ دن
فلم : میرا نام جوکر (1970)
نغمہ نگار : حسرت جےپوری
گلوکار : مکیش
موسیقار : شنکر جےکشن
اداکار : راج کپور، سیمی گریوال، منوج کمار
اپنی نظر میں آج کل دن بھی اندھیری رات ہے
سایہ ہی اپنے ساتھ تھا، سایہ ہی اپنے ساتھ ہے

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
ثَوْبٌ کپڑے کو کہتے ہیں، لہٰذا ثوبیہ کے معنی کپڑے والی کے ہوں گے۔ اور ثُوَیبَة ابولہب کی باندی کا نام تھا جن کا دودھ بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا نام اردو ادب میں ان کی تخلیقات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ ادیب، شاعر اور نقّاد تھے جن کی زندگی کا سفر 7 فروری 1978ء کو ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ انھوں نے اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں‌ میں شاعری کی اور بچّوں کے لیے خوب صورت نظمیں لکھیں جو ان کی وجہِ‌ شہرت ہیں۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے۔
وہ ادیب اور شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے اور ان اصناف میں ان کی علمی و ادبی کاوشوں نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ ان کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ بچّوں کا ادب ہے جسے انھوں نے اپنی تخلیقات کے علاوہ ایسے مضامین و غیر ملکی ادب سے وہ تراجم دیے جو بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کی گئی ان کی نظمیں کھیل کھیل اور دل چسپ و پُر لطف انداز میں قوم کے معماروں‌ کو علم اور عمل کی طرف راغب کرنے کا سبب بنیں۔ آج بھی ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں اور گھروں اور اسکولوں میں بچّوں‌ کو یاد کروائی جاتی ہیں۔
 
تو میں یہی کہوں گا کہ ایسے مختصر ،غیرواضح اورسیاق وسباق کے حوالے کے بغیر محض حرف کو بھگتانے کے لیے جملے لکھ دینا بھی انصاف نہیں جبکہ ایک طرف شعرو سخن سے وابستگی نے زبان وبیان کے قرینے پہلے سے سجھا بھی دئیے ہوں/رکھے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اِس بات کی اہمیت کا احساس بھی مفقود کہ ہمارے لکھے ہوئے جملے ہمارے بچوں کی تربیت و تدریس کےلیے ہیں نہ کہ ہماری وقت گزاری کے لیے،تو میں تو یہی کہوں گا کہ ایسے مبہم ، لایعنی ، بے سود جملوں سے اچھی اچھی معلوماتی تحریریں بھلی۔۔۔۔۔۔۔۔شرح و بسط جن کی خوبی ہو عیب نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
تختی کے ساتھ ہم حاضر ہوئے۔۔ہمارا سلام قبول کیجیے ۔۔اس دعا کے ساتھ
اے ہمارے رب بخش مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن قائم حساب ہو۔آمین


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
اور پھر اِس بات کی اہمیت کا احساس بھی مفقود کہ ہمارے لکھے ہوئے جملے ہمارے بچوں کی تربیت و تدریس کےلیے ہیں نہ کہ ہماری وقت گزاری کے لیے،تو میں تو یہی کہوں گا کہ ایسے مبہم ، لایعنی ، بے سود جملوں سے اچھی اچھی معلوماتی تحریریں بھلی۔۔۔۔۔۔۔۔شرح و بسط جن کی خوبی ہو عیب نہیں۔
پھر اتنی اچھی اچھی باتیں ہم نے اپنے شکیل بھائی سے سیکھیں ۔۔سب سے پہلے ہمیں یہ بتائیے آپ کراچی میں ہیں ۔۔
 

La Alma

لائبریرین
حال احوال بھی پوچھے جاتے ہیں ! البتہ کوشش ہماری اس کھیل میں یہ بھی ہے کہ دلچسپی قائم رہے ہوسکتا ۔۔ ایسےمعلوماتی مراسلوں سے ہمارے جیسے پیدل لوگوں کی یاداشت
REVIVE ہوجاتی ہو ۔۔۔بہت پہلے جو چیزیں پڑھیں وہ ایک عرصے نہ پڑھنے کی وجہ سے بھول بھال گئیں ۔۔۔۔
بھلی بات ہے۔ کھیل ہی تو ہے جیسے مرضی کھیلیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہاں یہ اطلاع بھی دینا چاہتا ہوں کہ پرسوں صبح کے بعد ابھی محفل دیکھ سکا ہوں۔ اس عرصے میں عمرہ مکمل ہو گیا الحمد للہ ۔ اللہ قبول فرمائے
 

سیما علی

لائبریرین
یہاں یہ اطلاع بھی دینا چاہتا ہوں کہ پرسوں صبح کے بعد ابھی محفل دیکھ سکا ہوں۔ اس عرصے میں عمرہ مکمل ہو گیا الحمد للہ ۔ اللہ قبول فرمائے
ہماری جانب سے دلی مبارکباد قبول فرمائیے!ہمارے بہت
پیارے استاد محترم ۔حرمین کی حاضری مبارک ہو۔۔
اللّٰہ تعالٰی آپ کی حاضری قبول فرمائے۔آقا صل اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری پہ ہمارا سلام پیش کردیجیے۔
پروردگار کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ صحت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائےآمین
 

سیما علی

لائبریرین
وفا کی دلیل اس سے بڑھ کے کیا ہوگی ؀
دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہو گی
نہ ہو حضور سے الفت، تو یہ ستم نہ سہیں

مہر و وفا: محبت اور ساتھ نبھانا ۔ حضور: مراد حاکم ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ ایک خوشامدی شخص نے انگریز افسر سے کہا ہ میں حضور سے جس قدر محبت ہے اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ ہمارے اپنے بھائی آپ سے محبت وفاداری کی بنا پر ہ میں طعن و تشنیع اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہی بات حضور سے ہماری وفاداری کی دلیل ہے ۔
مُصِر ہے حلقہ کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی
مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

مطلب:
جس حلقے سے ہم کمیٹی کا انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں کے لوگ جو ہمارے رائے دہندگان بھی ہیں یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی بات بھی کریں جب کہ ہم اس امر کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ ضلع کے حاکم اعلیٰ یعنی کلکٹر کا ان معاملات میں کیا نقطہ نظر ہے اور اس کی مرضی کیا ہے ۔

سند تو لیجیے، لڑکوں کے کام آئے گی
وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں ، رہیں نہ رہیں
مطلب:
اس شعر میں ایک ایسے مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو انگریزی دور میں عام روایت بن گیا تاکہ متعدد لوگ انگریز افسروں کی خوشامدوں کی بدولت خوشنودی کی سند حاصل کر لیتے اور بعد میں اسی سند کو دکھا کر اس افسر یا اس کے بعد آنے والے افسروں سے اپنے کام نکلواتے ۔ چنانچہ ایسا ہی ایک خوشامدی شخص کہتا ہے کہ میں اس افسر سے سند تو حاصل کر لوں تا کہ اپنے کام نکلوا سکوں بعد میں کیا پتہ یہ لوگ اسی طرح مہربان رہیں یا نہ رہیں ۔ ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج سالہا سال گزرنے کے باوجود انگریز کی یہ بدعت آج بھی بدستور قائم ہے ۔ انتخابات ہوں ، رائے دہندگان کے ووٹ خریدنے اور ملازمتوں کے حصول میں ایسی ہی قباحتیں موجود ہیں ۔
مثالِ کشتیِ بے حس مطیع فرماں ہیں
کہو تو بستہَ ساحل رہیں ، کہو تو بہیں

مطلب:
ہم ہندوستانی تو اس دور غلامی میں ایک ایسی کشتی کی مانند ہیں جو ساحل پر بندھی ہوئی ہے جب ملاح چاہتا ہے اسے کھول دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق جس طرف چاہے کھیتا چلا جاتا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کے احکام کے اس طرح مطیع ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ۔
بانگ درا علامہ اقبال

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
وفا کی دلیل اس سے بڑھ کے کیا ہوگی ؀
دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہو گی
نہ ہو حضور سے الفت، تو یہ ستم نہ سہیں

مہر و وفا: محبت اور ساتھ نبھانا ۔ حضور: مراد حاکم ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ ایک خوشامدی شخص نے انگریز افسر سے کہا ہ میں حضور سے جس قدر محبت ہے اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ ہمارے اپنے بھائی آپ سے محبت وفاداری کی بنا پر ہ میں طعن و تشنیع اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہی بات حضور سے ہماری وفاداری کی دلیل ہے ۔
مُصِر ہے حلقہ کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی
مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

مطلب:
جس حلقے سے ہم کمیٹی کا انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں کے لوگ جو ہمارے رائے دہندگان بھی ہیں یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی بات بھی کریں جب کہ ہم اس امر کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ ضلع کے حاکم اعلیٰ یعنی کلکٹر کا ان معاملات میں کیا نقطہ نظر ہے اور اس کی مرضی کیا ہے ۔

سند تو لیجیے، لڑکوں کے کام آئے گی
وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں ، رہیں نہ رہیں
مطلب:
اس شعر میں ایک ایسے مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو انگریزی دور میں عام روایت بن گیا تاکہ متعدد لوگ انگریز افسروں کی خوشامدوں کی بدولت خوشنودی کی سند حاصل کر لیتے اور بعد میں اسی سند کو دکھا کر اس افسر یا اس کے بعد آنے والے افسروں سے اپنے کام نکلواتے ۔ چنانچہ ایسا ہی ایک خوشامدی شخص کہتا ہے کہ میں اس افسر سے سند تو حاصل کر لوں تا کہ اپنے کام نکلوا سکوں بعد میں کیا پتہ یہ لوگ اسی طرح مہربان رہیں یا نہ رہیں ۔ ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج سالہا سال گزرنے کے باوجود انگریز کی یہ بدعت آج بھی بدستور قائم ہے ۔ انتخابات ہوں ، رائے دہندگان کے ووٹ خریدنے اور ملازمتوں کے حصول میں ایسی ہی قباحتیں موجود ہیں ۔
مثالِ کشتیِ بے حس مطیع فرماں ہیں
کہو تو بستہَ ساحل رہیں ، کہو تو بہیں

مطلب:
ہم ہندوستانی تو اس دور غلامی میں ایک ایسی کشتی کی مانند ہیں جو ساحل پر بندھی ہوئی ہے جب ملاح چاہتا ہے اسے کھول دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق جس طرف چاہے کھیتا چلا جاتا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کے احکام کے اس طرح مطیع ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ۔
بانگ درا علامہ اقبال

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
ندامت اور خفّت کے حوالے سے علامہ اقبال اپنے ایک واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں ؀
کہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا‘ بلکہ آغازِ عہدِشباب تھا۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور اُونچی اُونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا۔ میں نے چاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا۔ مجھے غصہ آگیا۔ جوشِ جذبات میں مجھے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی‘ اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری۔اس نے اِدھر اُدھر سے بھیک مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا‘ وہ سب کچھ اس کی جھولی سے زمین پر گرگیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگرسوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میں تڑپ اُٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گرگیا۔

یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت اور خفّت ہوئی کہ میں نے والد کو سخت تکلیف پہنچائی۔ اپنی اس حرکت پر بے قرار بھی ہوا (کہ اب تلافی کیسے ہو؟)

اسی کیفیت میں والدماجد کہنے لگے: اُمت مسلمہ کل اپنے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع ہوگی۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہوں گے: غازی‘ حفاظِ حدیث‘ شہدا‘ اکابراُمت‘ زاہد‘ عالم اور گنہگار بھی‘ اس موقع پر اس دردمند گدا کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے) چنانچہ نبی کریمؐ مجھ سے مخاطب ہوں گے:

حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد

از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد

حق تعالیٰ نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ (حضوؐرفرمائیں گے کہ) تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی تجھ سے ایک تودۂ مٹی آدمی نہ بن سکا۔

والد نے فرمایا کہ اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہوں مگر میں تو سخت خفیف اور شرمندہ ہوں گا اور اُمیدوبیم میں گرفتار ہوں گا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر کہا: بیٹا! ذرا سوچو اور رسولؐ اللہ کی اُمت کے جمع ہونے کامنظر تصور میں لائو‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھو اور میرے اُمیدوبیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھو۔ اس کے بعد بڑے دردمندانہ لہجے میں کہنے لگے:

بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن

غنچہ ای از شاخسارِ مصطفی
از بہارش رنگ و بو باید گرفت

گل شو از بادِ بہار مصطفی
بہرۂ از خلقِ اُو باید گرفت

(دیکھو‘ بیٹا) اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کرو ۔(کل) آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا۔ تو شاخسارِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے‘ حضوؐر ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہوکر پھول بن جا۔ تجھے آپؐ کی بہار سے رنگ وبو حاصل کرنی چاہیے اور تجھے آپؐ کے خلقِ عظیم کی اتباع کرنی چاہیے۔
 
Top