ندامت اور خفّت کے حوالے سے علامہ اقبال اپنے ایک واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں
کہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا‘ بلکہ آغازِ عہدِشباب تھا۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور اُونچی اُونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا۔ میں نے چاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا۔ مجھے غصہ آگیا۔ جوشِ جذبات میں مجھے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی‘ اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری۔اس نے اِدھر اُدھر سے بھیک مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا‘ وہ سب کچھ اس کی جھولی سے زمین پر گرگیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگرسوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میں تڑپ اُٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گرگیا۔
یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت اور خفّت ہوئی کہ میں نے والد کو سخت تکلیف پہنچائی۔ اپنی اس حرکت پر بے قرار بھی ہوا (کہ اب تلافی کیسے ہو؟)
اسی کیفیت میں والدماجد کہنے لگے: اُمت مسلمہ کل اپنے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع ہوگی۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہوں گے: غازی‘ حفاظِ حدیث‘ شہدا‘ اکابراُمت‘ زاہد‘ عالم اور گنہگار بھی‘ اس موقع پر اس دردمند گدا کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے) چنانچہ نبی کریمؐ مجھ سے مخاطب ہوں گے:
حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد
از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد
حق تعالیٰ نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ (حضوؐرفرمائیں گے کہ) تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی تجھ سے ایک تودۂ مٹی آدمی نہ بن سکا۔
والد نے فرمایا کہ اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہوں مگر میں تو سخت خفیف اور شرمندہ ہوں گا اور اُمیدوبیم میں گرفتار ہوں گا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر کہا: بیٹا! ذرا سوچو اور رسولؐ اللہ کی اُمت کے جمع ہونے کامنظر تصور میں لائو‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھو اور میرے اُمیدوبیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھو۔ اس کے بعد بڑے دردمندانہ لہجے میں کہنے لگے:
بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن
غنچہ ای از شاخسارِ مصطفی
از بہارش رنگ و بو باید گرفت
گل شو از بادِ بہار مصطفی
بہرۂ از خلقِ اُو باید گرفت
(دیکھو‘ بیٹا) اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کرو ۔(کل) آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا۔ تو شاخسارِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے‘ حضوؐر ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہوکر پھول بن جا۔ تجھے آپؐ کی بہار سے رنگ وبو حاصل کرنی چاہیے اور تجھے آپؐ کے خلقِ عظیم کی اتباع کرنی چاہیے۔