’’ٹاپک ٹوئیاں‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں‘‘تعزیہ نکالنے والے تعزیے کے پیچھے تاشے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ کَڑکتے ہوئے تاشے۔ ’کڑ کڑ کَیں،کڑا کڑ،کڑ کڑ کَیں‘۔ جن لکڑیوں سے یہ تاشہ پیٹا جاتا ہے یا جن چوبوں سے تاشے پرضرب لگائی جاتی ہے، اُن کی جوڑی کو کہتے ہیں ۔۔
یہ دو چوبیں، جن میں سے ایک ٹاپَک اور دوسری ٹُوئی کہلاتی ہے، تاشے پر پڑتی ہیں تو دو مختلف کڑک دار آوازیں نکالتی ہیں۔ اِنھیں آوازوں سے تاشے کی گَت بنتی ہے اور تاشہ پیٹنے والے کی دُرگت۔ ’’ہاپک، جھاپک، ٹاپک، ٹُوں‘‘۔ ’ٹاپک‘ کا لفظ غالباً ’ٹاپ‘ سے نکلا ہے۔ ’ٹاپ ‘اُس آواز کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے چلتے یا دوڑتے وقت زمین پر اُس کا سُم پڑنے سے نکلتی ہے۔گھوڑا کھڑے کھڑے زمین پر اپنے اگلے پاؤں مارنا شروع کردے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’گھوڑا ٹاپ رہا ہے‘‘۔ اسی عمل سے محاورہ بھی بن گیا ہے ’ٹاپنا‘۔ اگر کسی شخص کو بتانا ہو کہ تمھاری بھاگ دوڑ محض ہماری نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے بے معنی رہ جائے گی یا رائیگاں چلی جائے گی، تو کہا جاتا ہے: ’’ میاں ایسا ایسا کرلو، ورنہ ٹاپتے رہ جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اگرکوئی شخص مارا مارا پھر رہا ہو یا حیران و پریشان ہو ہو کر جابجا بھٹک رہا ہو تو اُس کی اِس کیفیت کو بیان کر نے کے لیے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ ٹاپتا پھر رہا ہے‘‘۔
شیخ قلندر بخش جرأتؔ کا توسنِ فکر بھی (یعنی اُن کے خیال کا گھوڑا) اُن کے ساتھ ساتھ ٹاپا کرتا تھا:
خالی زمینِ شعر نظر آئے ہے تو بس
جرأتؔ لگے ہے توسنِ فکر اپنا ٹاپنے
میر انیسؔ کے فرزندِ اکبر میر خورشید علی نفیسؔ کے ایک مرثیے میں بھی اس باجے کا ذکر ملتا ہے:
آتی تھی صدا صاف، کڑکتے تھے جو تاسے
صدقے ترے اے تین شب و روز کے پیاسے