سیما علی

لائبریرین
پھر لیجیے کچھ باتیں کریں مصطفیٰ زیدی صاحب کے بارے میں ؀
جہاں تک مصطفی زیدی کی شاعری کا معاملہ ہے وہ جذبات اور انسانی احساسات کے نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا غالب عنصر رومانیت ہے۔ زبان اور بیان پر وہ زبردست قدرت رکھتے تھے۔ زیدی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں غضب کی روانی ہے۔ 'ماہیت' کے عنوان سے ان کی یہ مختصر سی نظم زبان و بیان پر ان کی گرفت کا نمونہ ہے۔

میں سوچتا تھا کہ بڑھتے ہوئے اندھیروں میں
افق کی موج پہ ابھرا ہوا ہلال ہو تم

تصورات میں تم نے کنول جلائے ہیں
وفا کا روپ ہو احساس کا جمال ہو تم

کسی کا خواب میں نکھرا ہوا تبسم ہو
کسی کا پیار سے آیا ہوا خیال ہو تم

مگر یہ آج زمانے نے کر دیا ثابت
معاشیات کا سیدھا سا اک سوال ہو تم
 

سیما علی

لائبریرین
بعض اشعار تو مصطفیٰ زئدی صاحب کے
اتنے مقبول ہوئے کہ زباں زد خاص وعام ہو گئے۔

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ لیجیے آپکے بھیا کافی مانگ رہے ہیں

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
یہ لیجیے آپکے بھیا کافی مانگ رہے ہیں

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
لیکن ہمیں ثانیہ مرزا بہت پسند ہیں ۔۔اللہ دونوں کے لئے آسانیاں فرمائے ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان معصوم بچوں کا ہوتا ہے ۔۔۔جنکا بچپن کہیں کھو جاتا ہے ۔۔جب انکی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ علیحدگی کیا ہوتی ہے ۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 
عقل تو یہ کہتی ہے کہ انسان سلامت روی کا چلن اختیار کرے اور سلامتی اعتدال میں ہے اور اعتدال ہرہرمعاملے میں یعنی اپنی ذات سے لے کر متعلقین و متوسلین تک جن جن سے معاملات رہتے ہیں ،اُن میں اعتدال ۔۔۔
 
ظلم کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بااثر جنونی لوگ بے اثر شریف لوگوں سے کھیلتے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں وہ شرفاء سے رسم و راہ پیداکرنے میں انہی طورطریقوں کو بطور ٹُول استعمال کرتے ہیں جن کا چلن عام ہوتا ہے یعنی آتے جاتے خیرسگالی کے اظہار میں سلام دعا ، نامہ و پیام۔اور اِسی میں اُن کا پنجہ ٔ ستم رگِ جاں اورمتاعِ حیات کی طرف بھی رفتہ رفتہ بڑھتا چلاجاتا ہے ، اِس لیے :
ہشیار!۔ یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹُک نگاہ چُوکی اور مال دوستوں کا
 
Top