سیما علی

لائبریرین
ضرر پہنچانا بھی انکا ہی کام ہے ہر ٹی وی چینل ، پرنٹ
پرنٹ میڈیا ،انٹر نیٹ ’سوشل میڈیا
لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں گھس گیا ہے ۔۔۔کچھ خود لوگوں نے اپنی ذاتی زندگی کو اشتہار بنا لیا ہے ۔۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
صحافت کی بنیاد سترہویں صدی میں پڑی جب جرمنی اور دیگر ممالک میں حالات و واقعات پر مبنی رپورٹس کی اشاعت باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوئی گو رپورٹس لکھنے کا رجحان سترہویں صدی سے بھی قبل تھا لیکن وہ بہت رازدارانہ انداز میں ہوتا تھا۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
شدید طلب تھی چائے کی گلا بھی خراب ہے ادرک کی چائے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے سادہ چائے حاضر ۔۔
IMG-1798.jpg
 
رپورٹس لکھنے کا رجحان سترہویں صدی سے بھی قبل تھا لیکن وہ بہت رازدارانہ انداز میں ہوتا تھا۔۔۔۔
سرِ عام کہنے اور کھل کر رپورٹ کرنے کی فضاء اِس لیے بھی نہ تھی کہ شاہی اور شہنشاہی کا دوردورہ تھا۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
زرد صحافت اور ہم
اٹھارہویں صدی میں اخبارات اور رسائل کی اشاعت عام ہوئی اور اسی دور میں صحافت نے باقاعدہ شعبہ کی شکل اختیار کی۔ 1920 ء میں جب ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا تو اخبارات و رسائل کے مقابلے میں حالات و واقعات سے آگاہی بہت تیز اور وسیع تر علاقوں تک ممکن ہوئی اور پھر ریڈیو نشریات سے ہی الیکڑانک میڈیا کی بنیاد پڑی۔ 1940 ء تا 1960 ء کے بعد صحافتی میدان میں ٹیلی ویژن کی ایجاد نے تبدیلی و ترقی کے عمل کو تقویت دی۔ 2000 ء میں انٹرنیٹ کے آغاز سے حالات و واقعات تک رسائی میں مزید تیزی آ گئی 2002 ء میں جب نیوز چینلز کے آن ایئر ہونے کا دور شروع ہوا تو جہاں خبریت کے مقابلے کی فضا کو تقویت ملی وہیں سنسنی خیزی نے بھی جگہ بنا لی اور پھر یہیں سے زرد صحافت کی بنیاد پڑی۔
 

سیما علی

لائبریرین
راحت و فرحت کا باعث ہیں ادیب و اہل علم ! اس لئے اہل قلم ’ادیب اور دانشور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔۔جو قوموں کی درست سمتوں کے تعین میں معاون ہوتے ہیں اردو صحافت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے اس کا ناقابل فراموش جاندار کردار آج بھی تاریخ کے صفحوں پر قابل ستائش سنہری حروف میں درج ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان ارود صحافت کے وارث ہیں ایک وقت تھا جب اردو صحافت کے بے باک و نڈر علم کے خزینوں سے مخمور‘ عمل کے شیدائی ’فکر و فن کے سر تاج صحافیوں نے اپنے قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی اور اس قلم سے وہ کام لیا جو کسی زمانے میں شمشیر و سناں اور تیر و تفنگ سے لیا جاتا تھا۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
ذرا نظر ڈالئے ۔ 1857کی جنگ آزادی کے دوران ہندوستانیوں کے دل و دماغ میں قلم سے نکلے الفاظ نے آزادی کی ایسی روح پھونکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ا اسیری بغاوت پر اتر آئی اور اہل قلم کی قلمی جدوجہد نے غلامی سے آزادی تک کے سفر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی جنگ آزادی کے دوران پس پردہ فوج میں کارتوسوں کی تقسیم کے جس واقعہ کا ذکر تاریخ کے جھروکوں میں آج بھی سر ابھارتا ہے اس واقعے کو پر لگا کر ہوا کے دوش پر اڑاتے ہوئے قلمکاروں نے پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہندوستان میں بسنے والی عوام کے دل و دماغ کو جس انداز میں جھنجھوڑا یہ روح پھونکنے کا ؑظیم کارنامہ صرف اردو اخبارات کے حصے میں آیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
دعائیں۔۔۔معنی ۔۔عبادت، آیتیں، اِلتجا، عرض، پکار

زخم کھا کر بھی جو دعائیں دے
کون اس کا مقابلہ کرے گا
 

سیما علی

لائبریرین
چہ خوش صحرا کہ شامش صبح خند است
شبش کوتاہ و روز او بلند است
ارمغان حجاز
علامہ اقبالؒ

تر جمہ: صحرا کتنا اچھا ہے کیونکہ اس کی شام صبح کی طرح مسکراتی ہے اس کی رات چھوٹی اور اس کا دن بڑا ہے ۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 
جادو ہے بہو کے ہاتھوں میں۔۔۔۔یہ کوئی محاورہ ، ضرب المثل یا کہاوت نہیں قول ہے جو بہو کے حق میں ساس کے منہ سے اُس کے کھانے کی تعریف میں نکلے تومعجزہ ، سسر کہیں تو تعریف اور ددیا ساس کہیں تو واقعی جادو ہے بہو کے ہاتھوں میں۔۔۔۔۔۔یعنی ماننا پڑے گا بہو جی بہت اچھاپکاتی ہیں۔۔۔
 
ٹال بھی کبھی کبھی جاتی ہیں ثمرین بی بی کہ اور بھی غم ہیں اُسے چائے بنانے کے سِوا۔۔۔۔۔۔۔میں تو کہتا ہوں کبھی جاسمن صاحبہ کی طرف سے اعلان ہوجائے :’’ثمرین کے محفل میں 19سال بہترین خدمت کی بہترین مثال ‘‘اور پھرمحفل کے لیے ثمرین کی علمی خدمات،ادبی معلومات، تحقیقی معرکوں،تنقیدی آراء اور تقابلی جائزوں کا حال جو اُس بی بی کی طرح نادیدہ اور غیرمرئی رہیں گے پیش کیا جائے اور جواب میں ثمرین پر مبارک سلامت کی بارش ٹوٹ کربرسے اور اِس برسات میں سب محفلین کو چائے کی طلب ستا کرہلکان سا کردے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے۔۔۔۔۔واقعی اللہ تعالیٰ رب العز ت کی نعمتوں ،رحمتوں اور برکتوں کو یاد کرکر کے اُس کا شکریہ ادا کرنا طمانیتِ قلب کا باعث ہوجاتا ہے۔۔اللہ تعالیٰ رب العزت آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اُول جُلول لکھنے کی بجائے حق بات تحریرکرنے کی توفیق عطافرمائی ،الحمدللہ رب العالمین،الحمدللہ رب العالمین۔
 

سیما علی

لائبریرین
پروردگار کی دین ہے علم ؀
خداوند عالم نے انسانوں کو فضول اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس وقت وہ کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں جانتا ہے لیکن خداوند عالم نے اسے آنکھ ،کان ،عقل اور دل وغیرہ دیے تاکہ ان اعضائے بدن سے اچھی طرح استفادہ کرتے ہوئے علم و دانش حاصل کرے۔۔۔
 
Top