سَیر اور سیر۔ پہلا لفظ ’سیر‘ فارسی کا ہے اور بروزن دیر (بتکدہ) ہے۔ اردو میں ’سیر حاصل‘ کا استعمال عام ہے، گوکہ ’حاصل‘ عربی کا ہے مثلاً سیر حاصل گفتگو، سیر حاصل تبصرہ، طبیعت سیر ہوگئی۔ یعنی طبیعت بھر گئی۔ ایک شعر
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
فارسی کے ’سیر‘ کا مطلب ہے آسودہ، چَھکا ہوا، گرسنہ کی ضد، پیٹ بھرا۔ سیر چشم کا مطلب ہے بے پروا، قانع، صابر، سخی، حوصلے والا۔ فیاض بھی ہے۔ اور عربی کا سیر بھی بروزن ’دیر‘ ہے لیکن یہ دیر تاخیر کے معنوں میں ہے۔ اس طرح ’سیر‘ کی طرح دو ’دیر‘ بھی ایک جیسے املا کے ساتھ ہیں۔
عربی کا سیر گھومنے پھرنے، تفریح کرنے کے معنوں میں آتا ہے جیسا کہ یہ مصرع ہے ’سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں‘۔ قرآن کریم میں زمین کی سیر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ عربی کے سیر کا مطلب چلنا پھرنا، روانگی، ہوا خوری، گشت، جیسے شام کو باغ میں سیر کرنے چلے جایا کرو۔ مومن خان مومنؔ کا شعر ہے
مومنؔ آئو تمہیں بھی دکھلا دوں
سیر بت خانہ میں خدائی کی