اکمل زیدی

محفلین
قیامت ہے قیامت کہ کراچیان نے ڈنمارکیان سے دشمنی لگا لی۔
لیکن یاد رہے کہ
پھونکوں سے یہ چراغ بجھائے نہ جائیں گے
چراغ بجھے نہ بجھے مگر ہم غبارے تو قطعی نہ پھلائیں گے ورنہ لوگ غبارے پھاڑ کر کہیں گے کہ ۔۔۔۔
ہم نے اکمل صاحب کی ہوا نکال دی ۔۔۔

:nailbiting:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
چراغ بجھے نہ بجھے مگر ہم غبارے تو قطعی نہ پھلائیں گے ورنہ لوگ غبارے پھاڑ کر کہیں گے کہ ۔۔۔۔
ہم نے اکمل صاحب کی ہوا نکال دی ۔۔۔

:nailbiting:
غبارے کا ذکر پہلے کر دیتے تو لڑی کے اصول برقرار رہتے۔
رہی ہوا کی بات۔۔۔ اسے نکالنے کے لیے سوئی کی ایک چبھن کافی رہے گی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ظاہر ی لڑی حالت دیکھ کے ہم گڑبڑا گئے
کیا ہورہیا ہے


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر۔۔۔۔20
 

سیما علی

لائبریرین
رک جائیں گر لہریں ،تو ان سے کہنا ۔
اے ساگر کی لہرو!!!! ہم بھی آتے ہیں ٹھہرو۔۔۔۔
یہ صرف کہنا ہے ان کے ساتھ جانا نہیں ۔۔۔۔خیال سے۔۔۔۔
ڈر لگتا ہے وہ
لطیفہ سنانے سے
لیجیے سننیے
ایک بادشاہ کا قریبی رشتہ دار رشوت لینے کے حوالے سے بہت بدنام تھا۔ اُسے جو عہدہ دیا گیا تھا‘ اُس کا تعلق عوام سے تھا اور اُس کی مرضی کے بغیر چونکہ کام نہیں ہوتا تھا ‘اس لیے عوام کو کچھ نہ کچھ اُس کی نذر کرنا ہی پڑتا تھا۔ جب لوگ اُس سے بہت تنگ آگئے ‘تو مجبور ہوکر ہجوم کی شکل میں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت بیان کی۔ بادشاہ نے جب دیکھا کہ دو چار یا دس بارہ نہیں‘ بلکہ سیکڑوں افراد فریاد لے کر حاضر ہوئے ہیں‘ تو اُس نے اپنے رشتہ دار کو بلا بھیجا۔ وہ آیا اور رشوت ستانی کا الزام سُن کر گردن جھکائے‘ خاموش بیٹھا رہا۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ عوام کی شکایت بے جا نہیں۔ پہلے تو بادشاہ کے دل میں آئی کہ اُسے دھکّے مار کر شاہی محل سے نکال دے‘ پھر کچھ سوچ کر اُس نے رشتہ کو ایک ایسا عہدہ سونپا‘ جس پر کام کرتے ہوئے ''بالائی آمدن‘‘ حاصل کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ موصوف کو سمندر کے کنارے بیٹھ کر لہریں گننے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ لوگ پھر تنگ آگئے اور شکایات موصول ہونے لگیں۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ وہ اللہ کا بندہ سمندر کے کنارے بھی مال بنانے میں لگ گیا ہے! بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی کہ آخر سمندر کی لہریں گننے کے کام میں رشوت کہاں سے گُھس آئی۔ استفسار کرنے پر بادشاہ کو بتایا گیا کہ موصوف بندر گاہ کے نزدیک بیٹھے بیٹھے لہریں گنتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والے جہازوں کے عملے کو اپنے ایک معاون کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں کہ سمندر کی لہریں گننے کا عمل جاری ہے۔ یہ ذمہ داری چونکہ بادشاہ سلامت نے سونپی ہے ‘اس لیے کام کسی بھی صورت روکا نہیں جاسکتا۔ جہازوں کے گزرنے سے لہروں کی ترتیب بگڑ جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں اُنہیں گننا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے‘ پورا حساب بگڑ جاتا ہے ‘اس لیے ہر جہاز کا عملہ ''جرمانہ‘‘ ادا کرکے گزرے!
اُتر پردیش کے لوگوں میں ایک کہاوت عام ہے کہ جے کی عادت جائے ‘نہ جی سے‘ نیم نہ میٹھا ہوئے چاہے کھاؤ گُڑ گھی سے!
 
Top