ضرورت ہے ، ضرورت ہے ، ضرورت ہے
اک شریمتی کی ، کلاوتی کی ،سیوا کرے جو پتی کی

شری متی کا مطلب بھاگوان ، خوش بخت اور گھر کو خوشیوں کا گہوارہ بنادینے والی ، نیک نہاد، نیک نفس، نیک خُو
کلاوتی کا مطلب۔۔۔۔یہ دوالفاظ سے مرکب ایک لفظ ہے ۔کلا اور وت۔کلا کا مطلب فن اور وت کا مطلب وہی جو کار کا ہمارے ہاں ہے جیسے فن میں کار جوڑیں تو فنکار ہوجاتا ہے ایسے ہی کلا میں وت لگادیں کلاکار ہوجاتا ہے ، وتی اِس کی تانیث ہے لہٰذا کلاوتی کا مطلب فنکارہ یا (گھرکو جنت بنانے کا )فن جاننے والی۔۔۔۔۔۔
اور پتی شوہر کو یا پتی دیو مجازی خدا کو کہیں گے، واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(شری مان جی اور شری متی جی ہندوؤں کے ہاں شاید جناب اور محترمہ کا قائم مقام ہے)
 
آخری تدوین:
صفحہ تختی سے محروم تھا، سوچا پہلے تو تختی چسپاں کیجیے اور پھر کہیے جو دل کی بات ہے کیونکہ قوالی کی رات ہے ،قوالی کی رات۔۔۔۔۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی کی سب سے حیرت ناک چیزوں کا ذکر کیا جائے ‘تو ان میں خواب سر فہرست ہوں گے ۔
انسان آنکھیں بند کر کے نیند میں ڈوبا ہوتا ہے ۔ اچانک اسے ایسی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں ‘ جو کہ حقیقت نہیں ہوتیں ۔ اس کے باوجود جتنی دیر آپ خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘ آپ کو وہ سب حقیقت لگتا ہے ۔ آپ خواب میں زخم کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ آپ کھانے کا ذائقہ تک محسوس کرتے ہیں ۔ آپ کے ساتھ ہرقسم کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ اس وقت آپ اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ آپ فرضی چیزیں دیکھ رہے ہیں ‘ جن کی کوئی بھی حقیقت نہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ انسان کو تخلیق کرنے والی ہستی نے بہت اہتمام سے انسان کو خوابوں کی فلم دکھانے کا بندوبست کرر کھا ہے ‘لیکن کیوں؟
سائنس کہتی ہے کہ نیند کے دوران بھی دماغ کام کرتا رہتاہے۔ اس دوران ہمارا لا شعور کچھ مناظر تخلیق کرتاہے‘ جنہیں خواب کہتے ہیں۔ 1920ء کی دہائی میں پہلی بار یہ انکشاف ہو ا تھا کہ سوئے ہوئے افراد کے دماغ میں رات کے مختلف حصوں میں مختلف شدّت کی سرگرمیاں (Brain Activities)جنم لیتی رہتی ہیں۔ تیس برس بعد نیند پر تحقیق کرنے والے نیتھا نیل کلیٹ مین کی دریافت نے سائنسی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ ای او جی (EOG)نامی ایک ٹیسٹ تھا‘ جس کی مدد سے سوئے ہوئے افراد کی بند پلکوں کے نیچے آنکھوں کی حرکات کا جائزہ لیا گیا۔
کلیٹ مین کی دریافت یہ تھی کہ نیند کے دوران ایک خاص وقت میں آنکھیں اس طرح حرکت کرنا شروع کر دیتی ہیں‘ جیسے وہ سرکس کے کرتب دیکھ رہی ہوں۔ کلیٹ مین نے دیکھا کہ آنکھوں کی ان حرکات کے دوران دماغی سرگرمیاں بھی اپنی انتہا پر ہوتی ہیں؛البتہ جسم حرکت کرنا چھوڑ دیتاہے۔ اس خاص وقت کو Rapid Eye Movement Stageکا نام دیا گیا‘ یعنی وہ وقت؛ جب آنکھیں تیزی سے حرکت کر رہی ہوں۔ آنکھوں کے حرکت کرنے سے ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے مختلف اعضا بھی خواب کو حقیقت ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں‘ جو لوگ کہتے ہیں کہ دماغ نے از خود خوابوں کوتخلیق کیا‘ وہ اس بات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتے کہ اگر دماغ نے از خود خواب تخلیق کیے تو پھر اسے خواب دیکھنے کے دوران یہ بات کیوں معلوم نہیں ہوتی کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے ‘ جس طرح کہ آپ ایک گیمنگ زون میں تھری ڈی گلاسز لگا کر ایک فرضی دنیا میں کچھ دیراپنا وقت گزارتے ہیں ‘ پرندے شکار کرتے ہیں ‘ ڈائنا سار کے آگے بھاگتے ہیں‘ تو اس وقت تو دماغ کو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ وہ فرضی چیزیں دیکھ رہا ہے۔عینک اترے گی تو سب مناظر ختم ہو جائیں گے ۔
دوسری طرف خدا کی طرف سے خواب میں ایسے اشارے ملتے ہیں‘ جن کی ایک تعبیر ہوتی ہے‘ لیکن یہ علم خدا کی طرف سے کچھ ہی لوگوں کو ملتاہے۔ زیادہ تر خواب جو ہم دیکھتے ہیں‘ وہ نفسیات پہ منحصر ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ڑ کو چھوڑا آج ہم
ر کی طرف بڑھے


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20

 

سیما علی

لائبریرین
راولپنڈی شہر جس مقام پر واقع ہے یہ خطہ قدیم تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔
قدیم دور سے ہی شہر دریاؤں یا سمندروں کے کنارے آباد ہوتے چلے آرہے ہیں۔ آج کا راولپنڈی اتنا پھیل چکا ہے کہ دریائے سواں، کورنگ اور نالہ لئی سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ دریائے سواں کی تاریخ لاکھوں سال قدیم بیان کی جاتی ہے۔ ایک جرمن محقق ڈاکٹر ڈی ٹیرہ جنہوں نے دس سال تک دریائے سواں پر تحقیق کی، ان کا خیال ہے کہ یہاں 25لاکھ سال سے انسان آباد ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بابل، نینوا، موہنجو داڑو، ہڑپا، مصر اور یونان کی تہذیبوں سے دریائے سواں کی تہذیب کہیں زیادہ قدیم ہے۔
دریائے سواں 55 ہزار سال پہلے بھی یہاں بہہ رہا تھا جس میں آئس برگ کے ٹکڑے تیرا کرتے تھے۔ 40 ہزار سال پہلے آنے والے زلزلے میں دریائے جہلم تخلیق ہوا ۔اس سے پہلے دریائے جہلم نہیں تھا بلکہ ہمالیہ کا پانی دریائے سواں میں ہی گرتا تھا۔
 
آخری تدوین:
خدا کی مار۔ جو۔اب ۔دِل پہ اختیار رہے
بہت قرار کے پردے میں بیقرار رہے
یہ شعر فانی بدایونی کے اُن اشعار سے ہے جس میں مرنے ، موت ،میت وغیرہ کابراہِ راست تذکرہ نہیں مگر بالواسطہ بہرحال موجود ہے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ٹوکیو چلی جاتیں ہیں کبھی ٹمبکٹو کبھی ڈنمارک کبھی کہیں
یہ لور لور پھرنے کی عادت کہاں سے آگئی ہے انکو

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20

 
پریہ تُک بندی بھی سماعت فرمائیے۔۔۔۔

ترکی نہیں ہوتا نہ۔۔۔۔ فلسطین ہی ہوتا
گلگشت کو ان کے لیے بس چین ہی ہوتا
ہے ڈھونڈنا آسان جہاں کھوئے ہوؤں کو
اور جاگنا بھی شاق نہیں سوئے ہوؤں کو
کھانے میں جو میٹھا نہیں نمکین ہی ہوتا
پینے کو بہرحال سکن جین ہی ہوتا

(شکنجوی یعنی لیموں کا شربت)
 
آخری تدوین:
Top