گئودان ناول (1936) کو سب سے بہترین کام کا درجہ حاصل ہے۔
پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔
پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔گئودان ایک ایسا ناول ہے کہ جس نےہندوستان میں بالائی طبقات کی زیریں طبقات کے خلاف جبر و ذیادتی کی بہت بھرپور انداز میں تصویرکشی کی ہے۔اس ناول کے کردار واضح طور پر طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہوری اور دھنیاکسانوں کی،داتا دین جھنگری سنگھ اور منگرو ساہ مذہبی پیش واؤں اور ساہو کاروں کی ، رائے اگر پال سنگھ زمینداروں کی، کھنہ سرمایہ داروں کی، مہتا اور مرزا خورشید نیزاونکار ناتھ متوسط طبقہ کے دانشوروں اور قومی راہنماؤں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ناول کا محور ہوری ہے جو کہ کسان ہے ،اس کی موت پر ناول کا اختتام کر کے پریم چند نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں سمجھوتے پر اعتقاد نہیں رہا تھا۔پریم چند نے کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ، مہاجنوں اور ا عمال حکومت کی خباثتوں کے علاوہ مذہب اور ذات پات کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔برہمنوں نے مذہب کو ہمیشہ اپنے خودغرضانہ مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کا دین دھرم خریدا بھی جا سکتا ہے۔ اگر کوئی برہمن کسی عورت کو بغیر بیاہ کے رکھ لے تو بے دھرم نہیں ہوتا جبکہ یہی کام چمار کرے تو بے دھرم اور اس کو کفارہ دینا پڑے گا۔پریم چندنے اس ناول میں ہندوستان کے کسان کو اپنے حقوق سے آشنا بتایا ہے لیکن اس کے دکھ درد اور مسائل کم نہیں ہوئے۔ رائے اگر پال کی خباثتیں زمیندارطبقہ کی خباثتیں ہیں۔ایک طرف جاگیردارانہ سماج میں تسکین کے سامان ہیں، نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے ،کوئی بن بیاہےکہارن کو لیے بیٹھا ہے ،کسی نے اہیرن کو گھر میں ڈال رکھا ہے