سیما علی

لائبریرین
حالی !!!!!!!!مولانا الطاف حسین حالی نے عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کے لیے بہت کچھ لکھا۔ ان میں "مناجاتِ بیوہ” اور "چپ کی داد” مشہور ہیں۔
مناجاتِ بیوہ
یادگارِحالی از صالحہ عابد حسین سے اقتباس
مجھے ‘‘مناجاتِ بیوہ‘‘ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حالی باوجود مرد ہونے کے ایسا درد آشنا، حساس، اتنا نازک دل کہاں سے لائے جس نے کم سِن بدنصیب بیوہ عورتوں کے صحیح جزبات و احساسات کو اسطرح محسوس کیا جیسے یہ سب کچھ خود ان پر بیت چکا ہو۔ لیکن یہی تو اصل شاعر کا کمال ہے کہ ہر ایک کی بیتی خود اس پر گزرتی ہے اور تب ہی وہ ایسی زندہ جاوید چیز لکھ سکتا ہے جیسی ‘‘مناجاتِ بیوہ‘‘۔
اس نظم کا ہندوستان کی دس بارہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور سنسکرت میں بھی تجمہ کی جاچکی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ نظم ہر ایک زبان میں اتنی ہی مقبول ہوئی ہوگی جتنی اردو میں ہوئی۔ اس لیے کہ بیوہ عورت کی جو حالت اس میں دکھائی گئی ہے وہ ہندوستان کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور یہ درد ناک تصویر ہر جگہ کی بیوہ عورت کی حالت کا آئینہ ہے۔
اس نظم کی زبان اور بیان کی سادگی ایک معجزہ ہے اس کو پڑھ کر بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ آج سے ساٹھ برس پہلے حالی ہی نے ‘‘ ہندوستانی‘‘ زبان کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کی سادہ، سہل، دلنشین اور رواں زبان میں ہندی کے سینکڑوں شیریں لفظ بے تکلف لیکن نہایت برمحل استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ مہاتما گاندھی نے مولوی عبدالحق سے پوچھا تھا کہ اردو سیکھنے کے لیے میں کون سی کتاب پڑھوں تو مولوی عبدالحق نے ان سے کہا کہ حالی کی ‘مناجاتِ بیوہ ‘ کیوں کہ اگر بد قسمت ہندوستان کی کبھی کوئی مشترک زبان ہوئی تو وہی ہوگی جو اس نظم کی ہے۔ بے تعصّبی کے ساتھ نظم کو پڑھیں تو اس دعوے میں مبالغہ نہیں معلوم ہوگا۔
حالی نے اس نظم کے لیے انداز۔ بیان بھی وہ اختیار کیا ہے جس سے زیادہ موزوں اور موثر طرزِ بیان اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک سماج کی ٹھکرائی، مصیبت کی ماری، ستم زدہ بیوہ جس کی دنیا میں نہ کہیں داد ہے نہ فریاد سوا اپنے پالن ہار کے اور کس سے شکوہ کرسکتی ہے؟ کس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ سکتی ہے؟ وہ اسی سے اپنی درد ناک حالت بیان کرتی ہے، شکایت کرتی ہے اور دعا کرتی ہے۔ ایک ایک شعر معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا دل چیر کر نکلا ہے اور قاری کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے:
ای مرے زور اور قدرت والے
حِکمت اور حکومت والے
میں لونڈی تری دُکھیاری
دروازے کے تیرے بھکاری
موت کی خواہاں جان کی دشمن
جان پہ اپنی آپ اجیرن
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
دل پر میرے داغ ہیں جتنے
منھ میں بول نہیں ہیں اتنے
تجھ پر ہے روشن سب دکھ دل کا
تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا؟
بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئے دینے
خوشی میں بھی سکھ پاس نہ آیا
غم کے سوا کچھ راس نہ آیا
 

سیما علی

لائبریرین
چند شعروں کو پڑھ کر پتھر دل بھی پگھل سکتا ہے

چین سے رہنے دیا نہ جی کو
کر دیا ملیا میٹ خوشی کو
رُو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور رُوؤں تو رُوؤں کہاں تک
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا
ایک نہ ہنستا، بھلا، نہ روتا
دن ہیں بھیانک رات ڈراؤنی
یوں گزری یہ ساری جوانی
کوئی نہیں دل کا بہلاوہ
آ نہیں چکتا میرا بلاوہ
آٹھ پہر کا ہے یہ جَلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
سیلانی جب باغ میں آئے
پھول نہ تھے کھلنے ابھی پائے
پھول کھِلے جس وقت چمن میں
جا سوئے سیلانی بَن میں
پیت نہ تھی جب پایا پیتم
پیت ہوئی تو گنوایا پیتم
 

سیما علی

لائبریرین
جیسے ہی
خیال آتا ہے !!! اپنی جیسی دوسری بہنوں کے لئے دل تڑپ اُٹھتا ہے ؀
اپنے لیے کچھ کہہ نہیں سکتی
پر یہ کہے بِن رہ نہیں سکتی
میں ہی اکیلی نہیں ہوں دُکھیا
پڑی ہے لاکھوں پر یہی بپتا
بالیاں اک اک ذات کی لاکھوں
بیاہیاں اک اک رات کی لاکھوں
ہوگئیں آخر اسی الم میں
کاٹ گئیں عمریں اسی غم میں
سینکڑوں بے چاری مظلومیں
بھولی، نادانیں، معصومیں
بیاہ سے انجان اور منگنی سے
بنے سے واقف اور نہ بنی سے
دو دو دن رہ رہ کے سہاگن
جنم جنم کو ہوئی بروگن
شرط سے پہلے بازی ہاری
بیاہ ہوا اور رہی کنواری
آئیں بِلکتی، گئیں سِسکتی
رہیں ترستی اور پھڑکتی
کوئی نہیں جو غور کرے اب
نبض پہ ان کی ہاتھ دھرے اب
چوٹ نہ جن کے جی کو لگی ہو
وہ کیا جانیں دل کی لگی کو
 

سیما علی

لائبریرین
ثمرین ذرا چاہے تو بنا لائیں
بہت دل چاہ رہا ہے


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 

سیما علی

لائبریرین
ٹماٹر نہ صرف ڈش میں رس اور تیزابیت میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ وہ پوٹاشیم اور وٹامن جیسے غذائی اجزاء سے بھی بھرے ہوتے ہیں۔ٹماٹر وٹامن سی کا ایک بہترین ذریعہ ہے ، ایک غذائیت جو مدافعتی صحت میں اپنے کردار کے لئے جانا جاتا ہے۔
وٹامن سی بہت سے دوسرے جسمانی عوامل میں بھی کردار ادا کرتا ہے، جیسے زخم بھرنا،پروٹین میٹابولزم اور آئرن جذب کرنے کی صلاحیت۔ وٹامن سی ایک اینٹی آکسائیڈنٹ بھی ہے، جو جسم کو نقصان دہ فری ریڈیکلز سے چھٹکارا دلانے میں مدد کرتا ہے۔
ٹماٹر میں لائکوپین نامی ایک فائدہ مند مرکب بھی ہوتا ہے، جس میں اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات ہوتی ہیں ۔ ایک مطالعہ کے مطابق لائیکوپین کینسر کی روک تھام اور دل کی بیماریوں سے حفاظت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ٹماٹر میں بیج ہوتے ہیں اور اس لئے یہ ایک پھل ہے۔ تکنیکی طور پر، پودے کا وہ حصہ جو افزائش نسل کے لئے بیج رکھتا ہے ایک پھل ہے۔ پودے کے دوسرے حصوں ، جیسے جڑ ، پتے اور تنوں کو سبزیوں کے طور پر درجہ بندی کیا جاتا ہے۔
ٹماٹر کو سبزی کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ وہ ذائقہ دار ہوتے ہیں۔
جسمانی طور پر فعال طرز زندگی کو فروغ دیتا ہے۔ درج ذیل وہ طبی حالتیں تحریر کی جارہی ہیں جن سے ٹماٹر بچنے میں مدد دیتا ہے:
1) دماغی بیماری جیسے الزائمر
2) دل کی بیماریوں سے بچاؤ
3) فالج سے بچاؤ
4) ٹائپ 2 ذیابیطس سے بچاؤ
5) ہائی بلڈ پریشر سے بچاؤ
6) قبض کو روکنا
7) کینسر کے خطرے کو کم کرنا
۔ ورزش کے نتیجے میں پروٹینز کے غیرمتوازن ہوجانے کے بعد انہیں واپس متوازن کرنا
9) قوت مدافعت کو بڑھانے میں مدد کرنا
تاہم ٹماٹر کو اگر غیرمناسب طریقے سے کھایا جائے تو اس کے خطرات بھی ہیں۔ جیسے کہ کچے ٹماٹر میں لیسٹیریا یا سالمونیلا جیسے جراثیم ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں بیماریاں ہوسکتی ہیں۔
یہ ان لوگوں کیلئے خطرے کا باعث ہوسکتا ہے جو ایسی دوائیں لیتے ہیں جو قوت مدافعت کو عارضی طور پر کم کردیتی ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو ذیابیطس، جگر یا گردے کی بیماری، ایڈز یا کینسر میں مبتلا ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
پودے کے پھول سے پیدا ہونے والا نرم گودا جس میں پودے کا بیج ہو، پھل کہلاتا ہے اور تیکنیکی لحاظ سے ٹماٹر اس تعریف پر پورا اترتا ہے، اس کے مقابلے میں سبزیاں کسی پودے کا کھائے جانے والا حصہ ہوتی ہیں۔
علم نباتات کے اصولوں کے مطابق پھل کی تعریف یہ ہے کہ
تاہم ٹماٹر پھل ہے یا سبزی، اس کا فیصلہ 1893 مٰں امریکی سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کیا۔
اس مقدمے میں ایک درآمد کنندہ کو سبزیوں پر درآمدی ٹیکس میں اضافے کے باعث عدالت سے رجوع کرنا پڑا اور اس موقف تھا کہ ٹماٹر پھل ہے
تاہم عدالت نے اس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عام فہم زبان میں ٹماٹر سبزی ہے اور تیکنیکی لحاظ سے پھل ہونے کے باوجود اسے پھل نہیں قرار دیا جاسکتا۔
ماہرین غذائیت بھی ٹماٹر کو پھل قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں نباتاتی شکر کی کمی ہوتی ہے جو کہ اکثر پھلوں میں پائی جاتی ہے جبکہ پھلوں کو میٹھے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر ٹماٹر کو نہیں۔
تو تیکنیکی لحاظ سے تو ٹماٹر پھل ہے مگر غذائی اعتبار سے سبزی ہے۔
مگر کچھ امریکی ریاستوں میں اسے پھل قرار دیا گیا ہے جبکہ کچھ میں اسے سبزی، جبکہ ایک ریاست میں تو اسے ریاستی پھل اور سبزی دونوں قرار دیا گیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بساط
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 

سیما علی

لائبریرین
اعتبار
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
 

سیما علی

لائبریرین
یہاں ایک اور لڑی کا اختتام ہوا

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص

ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 

سیما علی

لائبریرین
ہم کل کراچی جمخانہ کی لائبریری گئے
اور یہ کتاب لائے اسکے زیادہ افسانے پڑھے ہوئے ہیں پھر بھی دوبارہ پڑھنے کا دل چاہ رہا تھا
 

وجی

لائبریرین
نہیں چائے آجکل نہیں پی رہے
وعلیکم السلام الحمداللہ ٹھیک ہے ہم
آپ سنائیں کیا حال احوال ہیں؟؟
 
میری آواز سنو!
نیوکراچی کہنے کو تو ایک پسماندہ ،تباہ حال اورناقابلِ التفات اسٹرکچر پر کھڑی بے یارومددگا بستی ہے ۔ نئی پود اِس ماحول میں یوں رم گئی ہے کہ میں نے تو کسی کو اِس ضمن میں کبیدہ خاطر نہیں دیکھا۔ڈبلیوگیارہ شفیق موڑ سے اِس علاقے میں داخل ہوتی اور گودھراں کیمپ،نالہ اسٹاپ، پیلااسکول اور جانے کون کون سی منازل قطع کرکے جب ٹرمینس پر پہنچتی ہے تو اُس وقت بھی قاعدے کے برخلاف خاصی تعداد میں سواریاں اِس میں ہوتی ہیں مگرمجال ہے جو کسی کے لب پر نورجہاں کا کوئی دکھی نغمہ ، طلعت محمود کی مغموم غزل، لتاکا محرومی اور مایوسی میں لتھڑا گیت، ہیمنت کمار کا آزردہ خاطر گانا یا مکیش کا دل جلا ترانہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے منہ میں ماوے کی پیک کے سبب یہ اِس سےگریزاں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

سیما علی

لائبریرین
کہاں ہیں سب اہلِ چمن


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 
Top