سیما علی
لائبریرین
کشمیری النّسل تھے مشفق خواجہ اصل نام عبدالحٔی خواجہ ہے اور قلمی نام مشفق خواجہ ہے۔ ۱۹دسمبر۱۹۳۵ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
کے آباؤاجداد نے کشمیر سے لاہور کی جانب ہجرت کی اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے خاندان کا علم و ادب سے گہرا تعلق تھا اور اس خاندان نے بڑی علمی و ادبی شخصیات پیدا کیں۔ ان کے دادا خواجہ کریم بخش اور ان کے بھائی لاہور کی ادبی سرگرمیوں کو نا صرف منعقد کروایا کرتے تھے بلکہ اس کے فروغ کے لئے فعال کردار بھی ادا کرتے رہے۔ ان کا خاندان اپنے وقت کا مشہور خاندان تھا لاہور میں ہر شخص جو علمی ذوق و شوق رکھتا تھا ان کے خاندان سے بخوبی واقف تھا۔ حکیم احمد شجاع نے اپنی آپ بیتی‘‘خون بہا’’ میں مشفق خواجہ کے آباؤاجداد اور ان کے معاصرین کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔
خواجہ صاحب کا پہلا کالم ۲۵مئی ۱۹۷۰ء کو جسارت میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ ۱۲/اپریل ۱۹۷۱ء تک یعنی دس ماہ جاری رہا۔
مشفق خواجہ کے کالموں میں طنز و مزاح ایک ساتھ ملتا ہے اور یہ طنز کہیں سخت اور کہیں ہلکا پھلکا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے کالم ‘‘شاعری یا عذاب الٰہی’’ ۵فروری ۱۹۸۷ء کو شائع ہوا کو کتاب ‘‘خامہ بگوش کے قلم سے’’سے نقل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔‘‘ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ منیرنیازی شاعری اچھی کرتے ہیں یا باتیں۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے چاروں طرف قوس قزح کے رنگ برس رہے ہوں اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جیسے وہ خود برس رہے ہوں۔ وہ غصے میں آجاتے ہیں تو اچھے اچھوں کی، یہاں تک کہ خود اپنی بھی پروا نہی کرتے۔ اشخاص ہوں یا ادارے، ان پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ مصلحت اندیشی سے کام نہیں لیتے، جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں۔
کے آباؤاجداد نے کشمیر سے لاہور کی جانب ہجرت کی اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے خاندان کا علم و ادب سے گہرا تعلق تھا اور اس خاندان نے بڑی علمی و ادبی شخصیات پیدا کیں۔ ان کے دادا خواجہ کریم بخش اور ان کے بھائی لاہور کی ادبی سرگرمیوں کو نا صرف منعقد کروایا کرتے تھے بلکہ اس کے فروغ کے لئے فعال کردار بھی ادا کرتے رہے۔ ان کا خاندان اپنے وقت کا مشہور خاندان تھا لاہور میں ہر شخص جو علمی ذوق و شوق رکھتا تھا ان کے خاندان سے بخوبی واقف تھا۔ حکیم احمد شجاع نے اپنی آپ بیتی‘‘خون بہا’’ میں مشفق خواجہ کے آباؤاجداد اور ان کے معاصرین کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔
خواجہ صاحب کا پہلا کالم ۲۵مئی ۱۹۷۰ء کو جسارت میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ ۱۲/اپریل ۱۹۷۱ء تک یعنی دس ماہ جاری رہا۔
مشفق خواجہ کے کالموں میں طنز و مزاح ایک ساتھ ملتا ہے اور یہ طنز کہیں سخت اور کہیں ہلکا پھلکا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے کالم ‘‘شاعری یا عذاب الٰہی’’ ۵فروری ۱۹۸۷ء کو شائع ہوا کو کتاب ‘‘خامہ بگوش کے قلم سے’’سے نقل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔‘‘ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ منیرنیازی شاعری اچھی کرتے ہیں یا باتیں۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے چاروں طرف قوس قزح کے رنگ برس رہے ہوں اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جیسے وہ خود برس رہے ہوں۔ وہ غصے میں آجاتے ہیں تو اچھے اچھوں کی، یہاں تک کہ خود اپنی بھی پروا نہی کرتے۔ اشخاص ہوں یا ادارے، ان پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ مصلحت اندیشی سے کام نہیں لیتے، جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں۔