قامت پر راست آتا ہے
بابائے اُردو کا خطاب جناب
مولوی عبد الحق
۔ ’’قومی زبان‘‘ کے بابائے اردو نمبر جلد 2، شمارہ 8، 1964 میں جوش ملیح آبادی اداریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مولوی صاحب کو اردو سے انس نہیں، محبت تھی۔ محبت نہیں، ان کو اردو سے عشق اور دیوانہ وار عشق تھا، جس کو والہیت کہا جاسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے اردو پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا تھا۔ لیکن ایک راست باز برہنہ گفتار انسان کی حیثیت سے میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ اپنی سی تمام کوششیں کرنے کے باوصف اپنے کو کبھی اس قابل نہ بناسکا کہ عقیدت کے دوش بدوش میں مولوی صاحب کی ذات سے بھی محبت کرسکوں۔
مجھے ان سے اپنے نزدیک بہت سی بجا شکایتیں تھیں اور ان کی بہت سی باتوں سے مجھ کو شدید اختلاف تھا، مولوی صاحب کو بھی میری قلبی کیفیت کا علم تھا اور اسی بنا پر وہ مجھ سے اکثر کھنچے کھنچے رہتے تھے، لیکن اس کے باوجود یہ میری ذہنی بددیانتی ہوگی کہ میں مولوی صاحب کے بے شمار محاسن اور ان کی اردو پرستی کے اظہار میں پس پیش سے کام لوں اور یہ نہ کہوں کہ مولوی صاحب کی موت نے اردو کا سہاگ لوٹ لیا۔
مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ، اردو کی بہترین تمنائیں اور فروغ اردو کے بہترین عزائم دفن ہوکر رہ گئے‘‘۔