سیما علی

لائبریرین
دور تک آواز جانی چاہیئے ۔ ورنہ ظفری بھائی کہاں سن سکیں گے !!!!
جہاں بھی ہیں ظفری
ہماری آواز سن لیں بس بہت گھوم لیے ناردھن ایرا





ٍاب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
’’توتا کہانی‘‘ایک تو حیدر بخش حیدری کی مرتب کردہ بلکہ ترجمہ کی ہوئی داستان ہے اور ایک ہے ہمارے صوفی نثرنگار اشفاق احمدمرحوم کے ڈراموں کا مجموعہ۔غالباً ٹی وی پر اِسے پیش بھی کیا گیا اور چرچے بھی اِس کے خوب رہے، سیریز ’’توتا کہانی ‘‘کے عرصہ ٔ نشرکے دوران میں مگر۔۔۔
ہمیں تونہ حیدری کی داستان ’’توتا کہانی‘‘ سے مطلب ہے اور نہ اشفاق احمد معروف بہ تلقین شاہ کے ڈرامے ’’توتاکہانی‘‘ سے ۔ہم تو یہ چاہتے ہیں لوگ اپنی اصلاح کرلیں۔اُردُو پر جو ستم ڈھائے جارہے ہیں اِسے گھر کی مرغی سمجھ کر ۔باز آجائیں ، توبہ کریں اور پکا عہد کہ قدرت نے کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور مواصلات کے جدیدذرائع کی صورت میں اُردُو کی خدمت کا جو موقع ہمیں دیا ہے اُسے ضائع نہو نے دیں، ہرگز نہ ایسا کریں کہ باباے اُردُو کی روح ہماری اُردُو کے حق میں یہ کارستانیاں دیکھ کر شرما شرماجائے۔۔۔۔
طوطے کو ت سے لکھیں کہ اِس کی اصل سنسکرت ہے نہ کہ عربی ۔۔۔۔عربی میں اِسے انگریزی کی طرح کچھ اور کہتے ہوں گے مگر اُردُو میں اِسے توتا ہی کہیں گے ، توتا ہی لکھیں گے اور توتا ہی املا کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔​
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو شکیل خان کہے،،۔۔ مان جائیے​
 
آخری تدوین:
پر یہ بھی ممکن ہے بابا نے بھی اپنے محققانہ مقدمات ،توضیحی حاشیوں اور باہمی مراسلوں میں اِسے طوطاہی لکھا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِس ضمن میں بھی معاملہ تحقیق طلب ہے۔۔
 
یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ یہ غلط العام یا عوام کے طور پر کب قبول کیا گیا ۔۔۔۔۔۔بابا کے سامنے ، کچھ بعد یا بہت بعد کو ہمارے زمانے میں ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اِس کے لیے محنت تو کرنا پڑے گی(جو ہم کریں گے نہیں)، وقت تو دینا ہوگا۔۔(جوہمارے پاس ہے نہیں)
ویسے یہ
میر امن کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اردو نثر
کو آسان، سادہ اور عام فہم بناکر پیش کیا اور اردو زبان کو سادگی کا نیا راستہ دکھایا۔ اس راستے کی تقلید غالبؔ اور سرسیدؔ وغیرہ نے بھی کی۔ یوں باقاعدہ سادگی کی روایت قائم ہوئی۔ میر امن نے عطا حسین تحسین کی کتاب "نو طرز مرصع" کو آسان، سادہ اور عام فہم زبان میں تبدیل کرکے اردو نثر کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔ اس کتاب کا ترجمہ میر امن نے "باغ و بہار" کے نام سے کیا۔ یہ کتاب سادگی کا بہترین نمونہ ہے۔اردو زبان و ادب کی تاریخ میں اس کتاب کی اہمیت ہمیشہ قائم رہے گی۔ میر امن بھی اسی کتاب کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ان کی دوسری کتاب "گنج خوبی" ہے۔ یہ کتاب "اخلاق محسنی" کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب کو اتنی شہرت نہیں ملی جتنی "باغ و بہار" کو ملی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہزار باتیں ہیں کہ خیال بن کر کبھی ذہن میں چکراتی پھرے ہیں یا ۔۔۔۔۔۔یاد بن کر کانٹے کی طرح اِسے چھیدے ڈالتی ہی ۔۔۔۔۔

نہیں نہیں دماغ کو چکرانے نہ دیں ہمیں پتہ ہے ہمارا
 B12
کم ہوجاتا ہے تو دماغ کیسے چکراتا ہے ۔۔۔


ٍاب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 
لیکن ہمیں تو آپ کے پہلے مراسلے میں اشارتاً فورٹ ولیم کالج کی اُردُو زبان و ادب کی خدمات کے بالواسطہ تذکرے پر بابائے اُردُو مولوی عبدالحق کایہ قول پیش کرنا ہے :’’جب میں اُردُو بھولنے لگتا ہوں تو باغ و بہار پڑھ لیتا ہوں۔‘‘میرے خیال میں یہ ’’باغ وبہار‘‘جیسی عظیم تصنیف اور اِس کے بے مثل مصنف میرامؔن دلی والےکی تہذیب و ثقافت نگاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر گلکرسٹ کی جوہر شناسی اور فورٹ ولیم کالج کی علم دوستی کو بھی تعریف و تحسین کا خراج پیش کرنا ہے ، جو بابانے کیا اور خوب کیا۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
گلکرسٹ اور فورٹ ولیم کالج کو بھی تعریف وتحسین کا خراج پیش کرنا ہے ، جو بابانے کیا اور خوب کیا۔
گلکرسٹ
فورٹ ولیم کالج سرزمینِ پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی گورنرجنرل کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔ اس کالج میں‌ شعبۂ ہندوستانی کا سربراہ جان گلکرسٹ کو مقرر کیا گیا تھا۔
سیّد سبطِ حسن اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں،”فورٹ ولیم کالج عام طالبِ علموں کے لیے نہیں کھولا گیا تھا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو، بالخصوص ان ناتجربہ کا رسول ملازمین کو جو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہندوستان آتے تھے، باقاعدہ تعلیم دے کر کمپنی کے مقبوضات کا نظم ونسق سنبھالنے کے لائق بنایا جائے۔

ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا تذکرہ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس کالج کے شعبۂ ہندوستانی کے سربراہ کی حیثیت سے خاصے متحرک رہے اور ان کے زیرِ نگرانی مقامی ماہرینِ لسانیات اور مصنّفین نے خوب علمی اور ادبی کام انجام دیا اور قواعد و انشا سے لے کر کئی کتابوں‌ کے اردو تراجم انجام پائے۔
جان گلکرسٹ 1759ء کو ایڈنبرا (اسکاٹ لینڈ) میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں‌ نے آج ہی کے دن 1841ء میں‌ پیرس میں‌ وفات پائی۔ وہ بطور ڈاکٹر ہندوستان آئے تھے اور یہاں‌ اردو زبان سیکھی کیوں کہ اس کے بغیر وہ یہاں بخوبی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ بعد میں وہ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ وہئے اور چار سال تک کام کرنے کے بعد 1804ء میں انگلستان چلے گئے جہاں اورینٹل اِنسٹی ٹیوٹ میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔
 
کبر و نخوت نہیں بصدعجز و انکسار کہتے ہیں اُردُ وہماری مادری زبان ہے اور ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے اُس کا روزمرہ اور محاورہ ہمارے ادبی ذوق کی رہنمائی اور آبیاری کرتا رہا ہے مگر بولنے میں اکثر اور لکھتے وقت ہمیشہ یہ خوف دامنگیررہتا ہے کہ غلط سلط نہ لکھ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔اب جبکہ انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب اور ہر علمی مکتبہ رسائی میں ہے تو دستگیری کے لیے بار بار اُن سے رجوع کرتے ہیں اور ہرباروہ ہمیں بھر بھر کر لوٹاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔خدایا تیرالاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے ہمیں کمپیوٹر کے عہد میں بھی زندہ رکھا ہے اور اِس سے پہلے کا زمانہ بھی دکھایا،الحمدللہ رب العالمین۔​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
قامت پر راست آتا ہے
بابائے اُردو کا خطاب جناب
مولوی عبد الحق
۔ ’’قومی زبان‘‘ کے بابائے اردو نمبر جلد 2، شمارہ 8، 1964 میں جوش ملیح آبادی اداریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مولوی صاحب کو اردو سے انس نہیں، محبت تھی۔ محبت نہیں، ان کو اردو سے عشق اور دیوانہ وار عشق تھا، جس کو والہیت کہا جاسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے اردو پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا تھا۔ لیکن ایک راست باز برہنہ گفتار انسان کی حیثیت سے میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ اپنی سی تمام کوششیں کرنے کے باوصف اپنے کو کبھی اس قابل نہ بناسکا کہ عقیدت کے دوش بدوش میں مولوی صاحب کی ذات سے بھی محبت کرسکوں۔
مجھے ان سے اپنے نزدیک بہت سی بجا شکایتیں تھیں اور ان کی بہت سی باتوں سے مجھ کو شدید اختلاف تھا، مولوی صاحب کو بھی میری قلبی کیفیت کا علم تھا اور اسی بنا پر وہ مجھ سے اکثر کھنچے کھنچے رہتے تھے، لیکن اس کے باوجود یہ میری ذہنی بددیانتی ہوگی کہ میں مولوی صاحب کے بے شمار محاسن اور ان کی اردو پرستی کے اظہار میں پس پیش سے کام لوں اور یہ نہ کہوں کہ مولوی صاحب کی موت نے اردو کا سہاگ لوٹ لیا۔
مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ، اردو کی بہترین تمنائیں اور فروغ اردو کے بہترین عزائم دفن ہوکر رہ گئے‘‘۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
فیر اسی وی دس دیندے آں پئی پنجابی ساڈی ماں بولی اے نانکیاں تے دادکیاں ولوں ، جدوں اسی پنجابی بھلݨ لگدے آں تدوں ہیر وارث شاہ تے سیف الملوک پڑھ لیندے آں۔ نالے ایہ اوہ زبان اے جیس نال انگریزاں نول دشمݨی سی ایس واسطے اونہاں پنجاب اوتے اوبھڑ بولی لاگو کر دتی۔
پھر ہم بھی بتا دیتے ہیں کہ پنجابی ہماری مادری زبان ہے ، ننھیال اور دھیال کی طرف سے ، جب ہم پنجابی بھولنے لگتے ہیں تب ہیر وارث شاہ اور سیف الملوک پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ وہ زبان ہے جس کے ساتھ انگریزوں کو دشمنی تھی اس لیے انہوں نے پنجاب پر اجنبی زبان لاگو کر دی۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پھر ہم بھی بتا دیتے ہیں کہ پنجابی ہماری مادری زبان ہے ، ننھیال اور دھیال کی طرف سے ، جب ہم پنجابی بھولنے لگتے ہیں تب ہیر وارث شاہ اور سیف الملوک پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ وہ زبان ہے جس کے ساتھ انگریزوں کو دشمنی تھی اس لیے انہوں نے پنجاب پر اجنبی زبان لاگو کر دی۔
عمدہ عمدہ خیال آتے ہیں ہمیں جب بھی ہم گلابی پنجابی بولنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ نہ ہماری مادری زبان ہے نہ
ددھیال یا ننھیال کی مگر بے حد لطف آتا ہے ہمیں سننے اور کچی پکی بولنے میں ہمیں بہت پسند ہے ہر زبان کا اپنا مزا ہے ۔۔۔بس سمجھ میں آنی چاہیے ۔۔۔اب تو ترجمہ کی بھی آسانی ہے کمپوئٹر کی بدولت ۔۔۔
 
Top