ڈھول کسی زمانے میں ڈھنڈورا یا متوجہ کرنے کے لئے ہی پیٹا جاتا تھا
پھر یوں بھی ہوا کہ عام زندگی میں تانگوں اور دیگر سواریوں پر توجہ کے لئے بڑے بڑے
پوسٹر دن بھر گھمائے جاتے تھے ، شاید ڈھول کی آواز سے تھک گئے
جب نیا نیا انٹرٹیٹ شروع ہوا تھا تو کئی محفلوں میں شرکا اپنے اپنی پسند کے
شاعر کی شاعری اور کچھ زیادہ ہی شدت سے چاہنے والے ان کی تصویر
اپنے ہر لکھے کے نیچے سلائڈ کی صورت میں لگائے رکھتے تھے
یعنی جہاں جہاں وہ جاتے تھے اپنے ساتھ تانگہ بھی لے جاتے تھے
( وہی پوسٹر یا سگنیچر جی ) ، اب بھی شاید کہیں ہوں
مگر یہاں تو دیکھنے میں نہیں آتے