غول کے غول
دولت کے دیوانوں
کے پیدا ہو رہے ہیں
وہ دیوانے دولت لوٹنے میں اس قدر مست ہیں کہ وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ انسانی تاریخ میں یہ بات بار بار ثابت ہوتی آئی ہے کہ انسان دولت کو نہیں کھاتا بلکہ دولت انسان کو کھا جاتی ہے۔
شوریدہ
سے ہمیں فیض صاحب کا یہ شعر یاد آیا چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں”
. اس لئے فیض صاحب ہمیں اس دور کے حال کی عکاسی بیان کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ سچ کو صرف لب باہم نہ رکھو پر اس گناہ کا اقرار سرعام کرو اس لیے وہ کہتے ہیں.
کہ صرف انکھوں کو نم رکھنا اور جسم و جان کو مضطرب رکھنا کافی نہیں