اربش علی

محفلین
فطرت تو ہے مگر سب سیکھا جا سکتا ہے۔
غالباً اقبال کی یہ نظم یہاں نقل کرنا پڑے گی۔

تسلیم و رِضا
ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا
پَودوں کو بھی احساس ہے پہناے فضا کا
ظُلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جُنوں نشوونَما کا
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رِضا کا
جُرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا، مُلکِ خدا تنگ نہیں ہے!
 

سیما علی

لائبریرین
عجب نہیں کہ انسان کوشش کرے اور کامیاب نہ ہو۔
ظاہری کامیابی اصل نہیں اگر انسان کا اندر خوش نہیں کبھی کبھی انسان بظاہر کامیابی ہوکر بھی مطمئن نہیں رہتا ۔۔۔
دلوں کا اطمینان اور قلبی سکون
کی ایک الگ ہی لذت ہے ۔۔/


ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 
Top