جیا راؤ
محفلین
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع میریئٹ ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے کو اڑتالیس گھنٹے ہوچکے ہیں لیکن ماضی کے برعکس کسی نے ابھی تک اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی حکومت واضح طور پر کسی کی طرف انگلی اٹھا سکی ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے اسے’ گوریلا وار‘ قرار دے کر محض قبائلی علاقوں میں غیر ملکی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ مشیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے بھی براہ راست کسی پر الزام لگانے سے اجتناب کیا اور کہا کہ اس سے قبل جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ہیں ان کی کڑیاں قبائلی علاقوں سے جاکر ملتی ہیں۔
پاکستان میں ماضی میں ہونے والے کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی ہے لیکن اس دفعہ وہ بھی خاموش ہیں۔ حکومت کی جانب سے براہ راست کسی کو ذمہ دار ٹھرانا اور کسی تنظیم یا گروہ کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول نہ کرنا اپنی جگہ اب ایک سوال بن گیا ہے۔
اس حملے میں امریکیوں سمیت چند غیر ملکی ہلاک ہوئے ہیں اور شاید یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ حکومت اور اس میں مبینہ طور پر ملوث تنظیم یا گروہ اس حوالے سے ماضی کی طرح غیر ذمہ دارانہ بیان دینے سےگریز کررہے ہیں، کیونکہ دونوں اس وقت اس کے منفی نتائجسے خائف معلوم ہو رہے ہیں۔
میریئٹ ہوٹل پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول نہ کیے جانے سے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا بھی پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے اور وہ خود کو دوسروں سے منفرد خبر دینے کی دوڑ میں حملے کی نوعیت، اس میں استعمال ہونے والے مواد، وقت اور ہدف کے انتخاب کو بنیاد بناکر ممکنہ ذمہ داران کی نشاندہی کے حوالے سے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
کوئی یہ خبر دے رہا کہ اس میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد مبینہ طور پر ملوث ہوسکتی ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی کارروائی القاعدہ جیسی تنظیم ہی کرسکتی ہے اور بعض مختلف کڑیاں ملاکر اس سے تحریکِ طالبان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس پورے منظر نامہ میں کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
یہاں پر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب کوئی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو کیا وہ قابل اعتبار ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ کئی برس قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد اور جنوبی و مشرقی افغانستان میں جاری شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے میرا ایسی کئی مضحکہ خیز باتوں سے سامناہوا ہے جن سے میری نظروں میں ذمہ داری قبول کیے جانے کے عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔۔
جب تین ستمبر کو اسلام آباد ہائی وے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی گاڑی پر پُر اسرار فائرنگ ہوئی تو مجھے سکیورٹی فورسز کے ساتھ بر سرِ پیکار مسلح طالبان کے ایک معروف رہنماء نے فون کیا اور پوچھا کہ کیا نئی تازی ہے۔ میں نے وزیراعظم کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ سنایا تو انہوں نے پہلے تو حیران ہوکر پوچھا ’اچھا یہ کب ہوا ہے۔۔۔؟‘ پھر تھوڑی دیر بعد ہنستے ہوئے کہنے لگے ’خبر چلا کر ہمارے ہی کھاتے میں ڈال دو اور کہہ دو کہ یہ باجوڑ اور سوات کے آپریشن کا ردعمل ہے‘۔
دوسری مثال تین جون دو ہزار چار کی ہے جب کراچی میں کور کمانڈر کے موٹر کیڈ پر حملہ ہوا۔ اس دن بی بی سی پشتو کے نامہ نگار نے جنوبی وزیرستان میں ایک معروف طالب کمانڈر کو وانا میں جاری حکومتی کارروائی کے سلسلے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے فون کیا۔ طالب کمانڈر نے حسب معمول حال و احوال کے بعد ملک کی صورتحال پوچھی۔ انہوں نے کور کمانڈر پر حملے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرکے تفصیلات پوچھیں۔ بقول ہمارے نامہ نگار کے کسی اور موضوع پر انٹرویو جونہی شروع ہوا تو طالب کمانڈر نے کہا کہ ’آج کراچی میں کور کمانڈر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں اور یہ وانا میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل ہے‘۔
اس قسم کے اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہو کہ گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے میڈیا اور لوگوں سے جان خلاصی کی خاطر درجنوں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک ایک بھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاسکی ہے۔
جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کیونکہ کسی بھی واقعہ کی بظاہر ذمہ داری تو تحریکِ طالبان قبول کرلیتی ہے جس میں سے کئی حملے انہوں نے کیے بھی ہونگے لیکن بعض اوقات پس پردہ سرگرم کچھ تنظیمیں، گروہ یا افراد کو بچ نکلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
اگرچہ بعض اوقات مشیرِ داخلہ رحمٰن ملک واقعے کے بعد ابتدائی تفتیش کو بنیاد بنا کر کسی تنظیم یا گروہ کو مورد الزام ٹھرا بھی دیتے ہیں مگر ضمنی انتخابات کے التواء کے حوالے سے صوبہ سرحد کی حکومت کو مشورہ دینے کے قضیے، آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے اور پھر اس سے مُکرنے، سوات کے طالبان کے ساتھ امن معاہدے توڑنے کے اعلان اور پھر اس سے انکار کرنے جیسے معاملات کی وجہ سے اب زیادہ تر لوگ انکی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
اب بھی ہدف کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مشیرِ داخلہ کے بیان میں واضح تضاد موجود ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہدف پارلیمنٹ یا وزیر اعظم ہاؤس تھا جبکہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف میریٹ ہوٹل ہی تھا۔
مبصرین کے خیال میں حکومت کو میریئٹ ہوٹل پر ہونے والے خود کش حملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنی چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں ہونے والی تمام تحقیقاتی رپورٹوں کو یکجا کرکے ان کا بغور جائزہ لیکر ٹھوس نتائج اخذ کیے جانے چاہئییں۔ اور بعد میں اس سے پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کردیں تاکہ پوری قوم پر صورتحال واضح ہوجائے ۔
اس طریقے سے حکومت منتخب اراکین پارلیمنٹ اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شریک کرنے کا احساس دلا کر ان سے بہتر طور پر مدد لے سکتی ہے۔
بی بی سی اردو
وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے اسے’ گوریلا وار‘ قرار دے کر محض قبائلی علاقوں میں غیر ملکی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ مشیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے بھی براہ راست کسی پر الزام لگانے سے اجتناب کیا اور کہا کہ اس سے قبل جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ہیں ان کی کڑیاں قبائلی علاقوں سے جاکر ملتی ہیں۔
پاکستان میں ماضی میں ہونے والے کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی ہے لیکن اس دفعہ وہ بھی خاموش ہیں۔ حکومت کی جانب سے براہ راست کسی کو ذمہ دار ٹھرانا اور کسی تنظیم یا گروہ کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول نہ کرنا اپنی جگہ اب ایک سوال بن گیا ہے۔
اس حملے میں امریکیوں سمیت چند غیر ملکی ہلاک ہوئے ہیں اور شاید یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ حکومت اور اس میں مبینہ طور پر ملوث تنظیم یا گروہ اس حوالے سے ماضی کی طرح غیر ذمہ دارانہ بیان دینے سےگریز کررہے ہیں، کیونکہ دونوں اس وقت اس کے منفی نتائجسے خائف معلوم ہو رہے ہیں۔
میریئٹ ہوٹل پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول نہ کیے جانے سے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا بھی پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے اور وہ خود کو دوسروں سے منفرد خبر دینے کی دوڑ میں حملے کی نوعیت، اس میں استعمال ہونے والے مواد، وقت اور ہدف کے انتخاب کو بنیاد بناکر ممکنہ ذمہ داران کی نشاندہی کے حوالے سے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
کوئی یہ خبر دے رہا کہ اس میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد مبینہ طور پر ملوث ہوسکتی ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی کارروائی القاعدہ جیسی تنظیم ہی کرسکتی ہے اور بعض مختلف کڑیاں ملاکر اس سے تحریکِ طالبان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس پورے منظر نامہ میں کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
یہاں پر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب کوئی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو کیا وہ قابل اعتبار ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ کئی برس قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد اور جنوبی و مشرقی افغانستان میں جاری شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے میرا ایسی کئی مضحکہ خیز باتوں سے سامناہوا ہے جن سے میری نظروں میں ذمہ داری قبول کیے جانے کے عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔۔
جب تین ستمبر کو اسلام آباد ہائی وے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی گاڑی پر پُر اسرار فائرنگ ہوئی تو مجھے سکیورٹی فورسز کے ساتھ بر سرِ پیکار مسلح طالبان کے ایک معروف رہنماء نے فون کیا اور پوچھا کہ کیا نئی تازی ہے۔ میں نے وزیراعظم کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ سنایا تو انہوں نے پہلے تو حیران ہوکر پوچھا ’اچھا یہ کب ہوا ہے۔۔۔؟‘ پھر تھوڑی دیر بعد ہنستے ہوئے کہنے لگے ’خبر چلا کر ہمارے ہی کھاتے میں ڈال دو اور کہہ دو کہ یہ باجوڑ اور سوات کے آپریشن کا ردعمل ہے‘۔
دوسری مثال تین جون دو ہزار چار کی ہے جب کراچی میں کور کمانڈر کے موٹر کیڈ پر حملہ ہوا۔ اس دن بی بی سی پشتو کے نامہ نگار نے جنوبی وزیرستان میں ایک معروف طالب کمانڈر کو وانا میں جاری حکومتی کارروائی کے سلسلے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے فون کیا۔ طالب کمانڈر نے حسب معمول حال و احوال کے بعد ملک کی صورتحال پوچھی۔ انہوں نے کور کمانڈر پر حملے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرکے تفصیلات پوچھیں۔ بقول ہمارے نامہ نگار کے کسی اور موضوع پر انٹرویو جونہی شروع ہوا تو طالب کمانڈر نے کہا کہ ’آج کراچی میں کور کمانڈر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں اور یہ وانا میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل ہے‘۔
اس قسم کے اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہو کہ گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے میڈیا اور لوگوں سے جان خلاصی کی خاطر درجنوں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک ایک بھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاسکی ہے۔
جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کیونکہ کسی بھی واقعہ کی بظاہر ذمہ داری تو تحریکِ طالبان قبول کرلیتی ہے جس میں سے کئی حملے انہوں نے کیے بھی ہونگے لیکن بعض اوقات پس پردہ سرگرم کچھ تنظیمیں، گروہ یا افراد کو بچ نکلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
اگرچہ بعض اوقات مشیرِ داخلہ رحمٰن ملک واقعے کے بعد ابتدائی تفتیش کو بنیاد بنا کر کسی تنظیم یا گروہ کو مورد الزام ٹھرا بھی دیتے ہیں مگر ضمنی انتخابات کے التواء کے حوالے سے صوبہ سرحد کی حکومت کو مشورہ دینے کے قضیے، آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے اور پھر اس سے مُکرنے، سوات کے طالبان کے ساتھ امن معاہدے توڑنے کے اعلان اور پھر اس سے انکار کرنے جیسے معاملات کی وجہ سے اب زیادہ تر لوگ انکی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
اب بھی ہدف کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مشیرِ داخلہ کے بیان میں واضح تضاد موجود ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہدف پارلیمنٹ یا وزیر اعظم ہاؤس تھا جبکہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف میریٹ ہوٹل ہی تھا۔
مبصرین کے خیال میں حکومت کو میریئٹ ہوٹل پر ہونے والے خود کش حملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنی چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں ہونے والی تمام تحقیقاتی رپورٹوں کو یکجا کرکے ان کا بغور جائزہ لیکر ٹھوس نتائج اخذ کیے جانے چاہئییں۔ اور بعد میں اس سے پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کردیں تاکہ پوری قوم پر صورتحال واضح ہوجائے ۔
اس طریقے سے حکومت منتخب اراکین پارلیمنٹ اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شریک کرنے کا احساس دلا کر ان سے بہتر طور پر مدد لے سکتی ہے۔
بی بی سی اردو