23 دسمبر، مینار پاکستان ،سیاست نہیں ریاست بچاؤ اور علامہ طاہرالقادری

arifkarim

معطل
ان حالات میں ڈاکٹر صاحب نے نعرہ لگایا کہ ملک کا انتخابی نظام ڈھونگ اور ڈرامہ ہے اس بات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے زیادہ تردد نہیں ہونا چاہیے صرف اتنا کہوں گا کہ جن ممالک میں اسمبلیوں میں عوامی نمائندگان ہوتے ہیں وہاں مارشل لاء نہیں لگتا۔ کیونکہ ملک کی اکثریتی تائید حاصل کرنے والی جماعت کے لیڈر کو جب کوئی جنرل کرنل دھکا دے کے اقتدار کی کرسی سے گراتا ہے تو اس وقت ان کے ساتھ ساری کی ساری عوامی حمایت غبارے کی ہوا کی طرح نکل چکی ہوتی ہے۔
لہذا یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے لوگ حقیقی عوامی نمائندے نہیں ہوتے!
پاکستان میں کوئی خلائی مخلوقی جمہوری نظام نافذ نہیں ہے۔ وہی پارلیمانی نظام ہے جو کہ دیگر مغربی اور مشرقی ممالک میں ایک لمبا دراز سے کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر اسمبلیوں میں عوامی نمائندے لانے ہیں تو گلی کوچوں کی سطح پر نمائندے کھڑے کریں۔ انکو ووٹ لینے کا حق دیں۔ اور پھر دیکھیں کہ کیسے یہ سیاسی نمائندے آگے چل کر ملکی سیاست کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ جس بچے کو کھڑا ہونا نہیں آتا، اسکو آپ بھاگنے کیلئے کہیں تو وہ بار بار گرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا۔ اور یہی حال ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور لیڈران کا ہے۔ مسئلہ نظامی نہیں عوامی ہے۔

ایسی صورتحال میں ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ ملک میں ایسا انتخابی نظام ہو جس میں عام آدمی آسانی سے حصہ لے سکے اور کامیابی بھی حاصل کر سکے، سیاسی جماعتیں وننگ ہارسز کی محتاج نہ رہیں بلکہ قابل اور باکردار شخص کو انتخاب کے لیے کھڑا کیا جا سکے وغیرہ وغیرہ
وہی پرانی لٹی پٹی کتابی باتیں کہ یہ ہو وہ ہو۔ جب عملی زندگی کی بات آتی ہے تو سب کچھ ٹھس ہو جاتا ہے!

اب یہاں تک اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ لکھے پھر آگے کی سوچتے ہیں۔
جی بالکل مجھے اعتراض ہے۔ پچھلے 67 سال سے ہمسے ایک پارلیمانی نظام تو کامیابی سے چلایا نہیں جا رہا۔ اب کیا ہر سال نئے نئے سیاسی نظام بنائیں 18 کروڑ عوام کیلئے؟

نوٹ: سیاست کے سیکشن میں مذہبی تعصب کی بھڑاس مت نکالیے:sleep:
جتبک پاکستان میں ریاست، سیاست اور دین جدا جدا نہیں ہوجاتے، آپ انکو الگ الگ کر ہی نہیں سکتے!
 

الف نظامی

لائبریرین
چینل: اے آر وائی نیوز
پروگرام: سوال یہ ہے
خصوصی گفتگو: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
میزبان: ڈاکٹر دانش
تاریخ: 16 دسمبر 2012ء
 

اسد عباسی

محفلین
پاکستان میں کوئی خلائی مخلوقی جمہوری نظام نافذ نہیں ہے۔ وہی پارلیمانی نظام ہے جو کہ دیگر مغربی اور مشرقی ممالک میں ایک لمبا دراز سے کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر اسمبلیوں میں عوامی نمائندے لانے ہیں تو گلی کوچوں کی سطح پر نمائندے کھڑے کریں۔ انکو ووٹ لینے کا حق دیں۔ اور پھر دیکھیں کہ کیسے یہ سیاسی نمائندے آگے چل کر ملکی سیاست کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ جس بچے کو کھڑا ہونا نہیں آتا، اسکو آپ بھاگنے کیلئے کہیں تو وہ بار بار گرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا۔ اور یہی حال ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور لیڈران کا ہے۔ مسئلہ نظامی نہیں عوامی ہے۔


وہی پرانی لٹی پٹی کتابی باتیں کہ یہ ہو وہ ہو۔ جب عملی زندگی کی بات آتی ہے تو سب کچھ ٹھس ہو جاتا ہے!


جی بالکل مجھے اعتراض ہے۔ پچھلے 67 سال سے ہمسے ایک پارلیمانی نظام تو کامیابی سے چلایا نہیں جا رہا۔ اب کیا ہر سال نئے نئے سیاسی نظام بنائیں 18 کروڑ عوام کیلئے؟


جتبک پاکستان میں ریاست، سیاست اور دین جدا جدا نہیں ہوجاتے، آپ انکو الگ الگ کر ہی نہیں سکتے!
بھائی مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی جمہوریت ہے دوسری جگہ فرما رہے ہیں کہ یہاں بھی وہی جمہوریت ہے جو باقی ملکوں میں لمبادراز (آپ شاید عرصہ دراز لکھنا چاہ رہے ہیں) سے کامیابی سے چل رہی ہے۔اور جو آپ نے کہا کہ گلی کوچوں میں نمائندے کھڑے کریں تو ان کے پیسے کون لگائے گا کہ ہر ایک کو تو "وہاں" سے امداد نہیں ملتی۔
اور یہی تو ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں کہ نظام میں اصلاح کی جا ئےتاکہ عام آدمی بھی الیکشن میں حصہ لے سکے۔
اور نے کہا کہ جب تک ملک میں دین اور ریاست الگ نہیں ہوتے تو پتا نہیں کیا لکھا تھا۔تو میرے بھائی کسی کا بھی یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کا مطلب لا الہ اللہ تھا ،ہے ،اور رہے گا۔
 
اگر اسمبلیوں میں عوامی نمائندے لانے ہیں تو گلی کوچوں کی سطح پر نمائندے کھڑے کریں۔ انکو ووٹ لینے کا حق دیں۔ اور پھر دیکھیں کہ کیسے یہ سیاسی نمائندے آگے چل کر ملکی سیاست کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ جس بچے کو کھڑا ہونا نہیں آتا، اسکو آپ بھاگنے کیلئے کہیں تو وہ بار بار گرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا۔ اور یہی حال ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور لیڈران کا ہے۔ مسئلہ نظامی نہیں عوامی ہے۔
عارف بھیا جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ بھی کسی طریقے سے ہو گا، کوئی کوشش کرنا پڑے گی، یا رات کو سوئیں گے اور صبح صبح اچھے، چنے ہوئے اور باکردار لوگ پھولوں کی طرح کھل کر آپ کے دامن میں ہوں گے۔ ویسے پھول بھی خود بخود۔۔۔۔۔۔

ٹھوس اعتراضات ضرور ہونے چاہییں کیوں حسن نظامی بھیا!
 

arifkarim

معطل
بھائی مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی جمہوریت ہے دوسری جگہ فرما رہے ہیں کہ یہاں بھی وہی جمہوریت ہے جو باقی ملکوں میں لمبادراز (آپ شاید عرصہ دراز لکھنا چاہ رہے ہیں) سے کامیابی سے چل رہی ہے۔
پاکستان میں اسلامی جمہوریت ہے، مغربی طرز کی اسیکولر جمہوریت نہیں ہے۔ اسبارہ میں مزید تفصیل اوپر میں اپنی پوسٹس میں بیان کر چکا ہوں۔ باقی ممالک سے میری مراد کامیاب اسلامی جمہوریت نہیں بلکہ کافی حد تک کامیاب اسیکولر جمہوریت ہے جو کہ پیشتر مغرب ممالک میں ایک عرصہ دراز سے رائج ہے۔

اور جو آپ نے کہا کہ گلی کوچوں میں نمائندے کھڑے کریں تو ان کے پیسے کون لگائے گا کہ ہر ایک کو تو "وہاں" سے امداد نہیں ملتی۔
اور یہی تو ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں کہ نظام میں اصلاح کی جا ئےتاکہ عام آدمی بھی الیکشن میں حصہ لے سکے۔
پیسے کون لگائے گا؟ کونسے پیسے؟ یہ الیکشن کا سوال ہے نہ کہ غلاموں کی خریدوفراخت کا۔ جب تک ملک میں عام آدمی الیکشن میں کھڑا نہیں ہو سکتا، تب تک جمہوریت غیر مکمل ہی رہے گی!


اور نے کہا کہ جب تک ملک میں دین اور ریاست الگ نہیں ہوتے تو پتا نہیں کیا لکھا تھا۔تو میرے بھائی کسی کا بھی یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کا مطلب لا الہ اللہ تھا ،ہے ،اور رہے گا۔
پاکستان کی پیدائش ہی اسیکولر ہوئی تھی۔ قائد اعظم کے ہوتے ہوئے ایک بھی اسلامی قانون ملک میں نافذ نہیں کیا گیا۔ قائد اعظم کی پہلی کابینہ میں ہر مذہب کے لوگ موجود تھے۔ بعد کے مولیانہ اسلامی نعرے آپ اپنے پاس ہی رکھئے!
 

زبیر حسین

محفلین
اکبر کے دور میں بھارتی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین قریبی تعلقات پیدا ہوئے۔ اتنے قریبی کہ اس دور کے واقعات کو کئی بھارتی ہدایت کاروں نے بلاک بسٹر فلموں کا درجہ دے دیا۔ اسکے برعکس پاکستان کے قیام کے بعد وہاں پر موجود ہندوؤں سے کیا اسلوک رواں رکھا گیا۔ اسکی تفصیل درج ذیل:
There are a number of instances of persecution of Hindus in Pakistan. Minority members of the Pakistan National Assembly have alleged that Hindus were being hounded and humiliated to force them to leave Pakistan.[86] In 1951, Hindus constituted 22 percentage of the Pakistani population (that includes the modern day Bangladesh);[87][88] Today, the share of Hindus are down to 1.7 percent in Pakistan,[89] and 9.2 percent in Bangladesh[90] (In 1951, Bangladesh alone had 22% Hindu population[91
http://en.wikipedia.org/wiki/Persecution_of_Hindus#Pakistan

یثرب میں آنحضور صللہعلیہسلم کی آمد سے قبل یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ آج سعودی عرب میں سوائے اسلام کے اور کسی مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہیں۔ نجران جہاں کسی زمانہ میں بڑی تعداد میں عرب عیسائی آباد تھے، آج ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔
ایک دفعہ نہیں کئی دھاگوں میں میں نے یہ بات دیکھی۔۔۔کہ موضوع کچھ اور ہوتا ہے آپ کے جواب دینے کے بعد کہیں اور چل پڑتا ہے میں صرف پڑھ رہا تھا کوئی تبصرہ کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔۔لیکن تھکے ہوئے انداز میں آپ سے مخاطب ہوں کہ کسی دن آپ کسی دھاگے کو تو آزاد چھوڑ دیں۔
 

arifkarim

معطل
ایک دفعہ نہیں کئی دھاگوں میں میں نے یہ بات دیکھی۔۔۔ کہ موضوع کچھ اور ہوتا ہے آپ کے جواب دینے کے بعد کہیں اور چل پڑتا ہے میں صرف پڑھ رہا تھا کوئی تبصرہ کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔۔لیکن تھکے ہوئے انداز میں آپ سے مخاطب ہوں کہ کسی دن آپ کسی دھاگے کو تو آزاد چھوڑ دیں۔
بہتر۔ آپکی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس دھاگے کو ایسا ہی چھوڑ دیتاہوں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، میں تو علامہ صاحب کے بارے میں خوش گمانی کا ہی معاملہ رکھتا ہوں ۔۔۔ وہ صاحبِ علم ہیں اور اُن کے سامنے ہم طفلِ مکتب ہیں ۔۔۔ اُن کے لیکچرز سننے کا بھی اتفاق ہوا ۔۔۔ اور اس حوالے سے اُن کا ہمیشہ معترف رہا ہوں ۔۔۔ وہ تئیس دسمبر کو تشریف لا رہے ہیں ۔۔۔ امید ہے کہ اُن کا جلسہ بھی کامیاب ہو گا ۔۔۔ بنیادی اختلاف وہی ہے جس کا اظہار اس تھریڈ میں ہونے والے ابتدائی مکالمے میں کیا تھا ۔۔۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ ہماری دانست میں علامہ صاحب نے پاکستان آنے کے لیے جس وقت کا چناؤ کیا ہے، وہ مناسب معلوم نہیں ہو رہا ہے ۔۔۔ اگر وہ دو سال قبل اپنے لائحہ عمل کا اعلان فرماتے، اور عوام کو اس روایتی نظام سے باہر لے جانے کے لیے تحریک برپا کرتے تو شاید ہمیں اُن سے کوئی گلہ نہ ہوتا ۔۔۔ اب تو یہی ممکن ہے کہ نگران سیٹ اپ کو مزید لٹکایا جائے ۔۔۔ آئین کو پھر سے معطل کیا جائے ۔۔۔ فوج کی مدد حاصل کی جائے ۔۔۔ موجودہ عدلیہ کو فارغ کیا جائے جس نے یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ آئندہ کسی طالع آزما کا ساتھ نہ دیں گے ۔۔۔ معاف کیجیے گا ہم تو اس طرح ملک کو مزید انارکی کی طرف جاتا دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ اگر فوج کو مائنس کیے بغیر کوئی فارمولا ہے ڈاکٹر صاحب کے پاس ۔۔۔ تو ۔۔۔ پھر ہم بھی اُن کی ذہانت کی داد دیے بنا نہ رہیں گے ۔۔۔ عوام کی طاقت سے ڈاکٹر صاحب شاید تبدیلی نہ لا سکیں ۔۔۔ اس کی وجوہات میں نہیں جاؤں گا ۔۔۔ دراصل ہمارا معاشرہ لسانی، جغرافیائی اور خاص طور پر مذہبی حوالے سے تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے اور ایسے میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا عبث معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ لیکن ہم انتظار کریں گے تئیس دسمبر کا ۔۔۔ اور غور سے سنیں گے ۔۔۔ کہ ڈاکٹر صاحب کیا اصلاحات رکھیں گے عوام کے سامنے؟
 

عثمان

محفلین
دس برس پہلے بھی اس نے خوب سیاسی ڈرامہ لگایا تھا۔
اب پھر ایک نئے روپ میں آیا ہے۔
لگے رہو علامہ بھائی!
 
دس برس پہلے بھی اس نے خوب سیاسی ڈرامہ لگایا تھا۔
اب پھر ایک نئے روپ میں آیا ہے۔
لگے رہو علامہ بھائی!
علامہ عثمان صاحب کم از کم بندہ بات تو اچھے انداز میں کرتا ہے ہر وقت ہینڈ گرنیڈ ہاتھ میں نہیں تھامنا چاہیے:p
 
Top