میرے مطابق (تبدیلی)ازڈاکٹر شاہد مسعود
گزشتہ سے پیوستہ
گزرے برس اکتوبر کا جلسہ دیکھ کر کئی پرندوں نے اڑان بھری اور عمران کے آشیانے پر جا پہنچے!!! عمران خان سے آپ لاکھ سیاسی اختلاف کریں لیکن اس کے کرپشن سے محفوظ ہونے اور انتہائی محنت سے کام کرنے پر کوئی دو آراء نہیں۔ میں ذاتی طور پر کئی دیگر قائدین کو بھی قریب سےجاننے کے باعث اس الزام کو بھی مکمل طور پر رد کرتا ہوں کہ عمران کی مقبولیت کے پیچھے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا یا کسی اور خفیہ ادارے کا ہاتھ تھا۔ لیکن بہرحال عمران کے لیے پے در پے الزامات کی بوچھاڑ کا سامنا دشوار ہوا اور کئی ایسے بازی گر ۔۔۔ جو بیک وقت تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے رابطے میں تھے، ان ابن الوقت شخصیات نے بھاؤ بڑھا کر عمران کا ساتھ چھوڑا اور جا کر مسلم لیگ نواز کی گود میں جا بیٹھے کیا میاں نواز شریف نے یہ سب کچھ خوشی سے کیا؟ ہر گز نہیں !!! جن لوگوں نے شریف خاندان کو جلا وطنی میں دیکھا ہے اور جو جنرل مشرف کے حواریوں کے ہاتھوں اس خاندان کو پہنچنے والی تکلیفوں سے واقف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کے لیے یہ کس قدر مشکل ہے کہ وہ دشوار دنوں میں اپنا ساتھ دیتے جانثاروں کے سروں پر مشرف کے حواریوں کو بٹھا دیں۔ !!
لیکن موجودہ پارلیمانی نظام اور انتخابی سیاست ہی شاید ایسی ہے کہ یہاں بد قسمتی سے میاں صاحب کو بھی تبدیلی کے لیے انہی منافقوں کو بادل نخواستہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو کل تک آمریت کے گن گاتے، انہیں تکلیف پہنچانے کے نئے طریقے و راستے اپنے آقا جنرل مشرف کو تجویز کیا کرتے تھے۔
میاں صاحب کو بھی اقتدار تک پہنچنے کے لیے انہی کھوٹے سکوں کی ضرورت ہے جو ان کی سیٹی پر تحریک انصاف چھوڑ کر ان کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں اور کل کسی اور کے بوٹ پالش کر رہے ہوں گے۔
خوبی کیا ہے؟ صرف یہ کہ ان سب کے پا س لوٹی ہوئی بے تحاشا دولت موجود ہے اور یہ سب اس مویشی منڈی میں winables ہیں ۔ خرچ ہوتی دولت کے مقابلے میں چوں کہ زرداری صاحب سب سے آگے ہیں، اس لیے وہ اطمینان سے بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ سب کو بولی لگا لینے دو۔
مقرر وقت پر میں اپنے خزانوں کا منہ کھول کر اگلے انتخابات کو لڑوں گا۔ نہیں بلکہ خریدوں گا۔ اشتہارات کی بھرمار ، ذرائع ابلاغ پر قوم کی دولت کا استعمال!! عدالتی فیصلوں کی توہین ! سرکاری ملازمین کو نواز کر اپنے ذاتی غلاموں کی طرح انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا۔ کیا یہ سب کچھ اس ملک میں کسی بھی مثبت تبدیلی کا طریقہ بن سکتا ہے ۔ ہرگز نہیں جو اربوں خرچ کر کے آئیں گے وہ کھربوں لوٹ کر واپس جائینگے۔ یہ سلسلہ برسہا برس سے چل رہا ہے ۔
شاید اس کے ختم ہونے کا وقت آرہا ہے۔
یہی تمام سیاسی قائدین کے لیے بھی مناسب ہے کہ وہ تبدیلی کے اب کچھ اور سوچیں
طاہرالقادری صاحب کہتے ہیں
کہ نہ امریکی ماڈل، نہ بنگلہ دیشی اور نہ ہی کوئی اور غیر ملکی ماڈل، اب وہ کونساپاکستانی ماڈل پیش کرنے جا رہے ہیں ؟
یقینا یہ ریاست کے موجودہ گھٹن زدہ ماحول میں ایک بڑی خوشگوار تبدیلی نہ سہی، ایک ارتعاش ضرور پیدا کرنے جا رہا ہے۔