وقت میری دوا کے لیے شفا خانےگیا ہوا تھا۔ انہی لٹیروں میں سے پانچ چار خنگے مجھ کو کشاں کشاں کشمیری دروازے باغیوں کے گارد میں لے گئے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ اور چند انگریز مرد اور عورتیں اور بچے قیدیوں کی طرح زمین پر بیٹھے ہیں۔ مجھ کو بھی انہی میں بٹھا دیا مگر ہم اک دوسرے سے بات نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ درد سر جو ایک لمحے کے لیے مفارقت نہیں کرتا تھا اور جس نے مجھ کو ولایت جانے پر مجبور کیا تھا ، اس وقت بالکل زائل ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنے آدمی کو دیکھا کہ تماشائیوں میں ملا ہوا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کا چہرہ اداس تھا اس کی صورت پریشاں ، مگر وہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا اور دیکھ بھی سکتا تو وہ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتا تھا۔ لیکن جب جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا کسی نہ کسی طرف اس کھڑا ہوا پایا۔ اس سے میں سمجھا کہ وہ میری مصیبت پر متاسف ہے۔ حوالات کی مصیبت کا بیان کرنا دیر طلب بات ہے اور میں اس کے تذکرے سے سکوت کرتا ہوں کیوں کہ مجھ کو کچھ اور بھی کہنا ہے۔ تیسرے دن ہم سب کو گھیر کر میگزین کے میدان میں لے گئے اور جب تک قلعے کے حوالاتی آئے ہم کو کھڑا رکھا ، پھر سب کو بٹھا کر باڑ مار دی۔ اس وقت تک بھی میں نے اپنے آدمی کو کالج کے دروازے کے پاس دیکھا۔ شاید میرا دماغ مدتوں کے درد سے سے ضعیف ہو رہا تھا کہ باڑ کے صدمے سے یا زخموں کی وجہ سے مجھ کو غش آ گیا۔ اس وقت تک جو کچھ میں نے بیان کیا وہ میری ذاتی معلومات ہے ، اس کے بعد جو میں نے آدھی رات کے بعد آنکھ کھولی اور مجھ کو ہوش آیا تو میں نے اپنے تئیں ( ابن الوقت کی طرف اشارہ کرکے ) ان کے مکان میں پایا ، جن سے ملنے کو میں نے آپ صاحبوں کو بلایا ( چیرز)۔
میں یہ بات کچھ اس نظر سے نہیں کہتا کہ اپنے وفادار نوکر کی خیر خواہی کو میں اعلی درجے پر نہیں خیال کرتا ، مگر اس پر میرے احسانات اور نمک کے حقوق ثابت تھے۔ مگر ان صاحب کو بلکہ ان کے معزز خاندان میں سے کسی کو کبھی کسی انگریز سے کسی طرح کا تعلق نہیں رہا۔ انہوں نے چند سال تک دہلی کالج میں مشرقی علوم کی تعلیم پائی اور کالج چھوڑنے کے بعد اپنی موروثی خدمت پر شاہی ملازموں میں جا ملے۔
پس عام ہمدردی اور نیک دلی کے سوائے اور کوئی خیال ان کو میری پناہ وہی کا محرک نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ میری شکل و صورت کو دیکھتے ہیں کہ اگر میں بھیس بدل کر ہندوستانیوں میں ملنا چاہتا تو رنگ اور بال اور آنکھیں ، ہر چیز میرا پردہ فاش کرنے کو موجود تھی۔ اس کے علاوہ ان کا گھر خانقاہ سے جس کو مجاہدین کا اکھاڑا کہنا چاہیے ، بہت ہی قریب ہے۔ پس میرا پناہ دینا بڑی خطرناک بات تھی ، خصوصا ملازم شاہی کے حق میں۔ پھر مدارات جو انہوں نے کی ، شروع سے آخر تک یکساں تھی اور یہ بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ میری پناہ دہی میں کسی غرض دنیاوی کو دخل نہ تھا۔
میں ان باتوں کو چنداں اپنی احسان مندی ظاہر کرنے کے ارادے سے ذکر نہیں کرتا بلکہ آپ صاحبوں کے زہن سے اس غلط اور بے اصل خیال کو نکالنا چاہتا ہوں کہ حکومت انگریزی کا سب سے بڑا دشمن مذہب اسلام ہے۔ بانی اسلام نے بالتخصیص عیسائیوں کی نسبت قرآن میں اپنی رضامندی اور خوشنودی صاف صاف طور پر ظاہر کی ہے۔ انہوں نے اپنے معتقدید کے لیے ہمارے ساتھ کھانا اور رشتہ و پیوند کرنا جائز قرار دیا ہے اور میں نے قسطنطنیہ اور دوسری اسلامی سلطنتوں میں مسلمانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انگریزوں کے ساتھ بے تامل کھاتے پیتے ہیں اور ان کا لباس بالکل ہم لوگوں کا سا ہے ، صرف فز (لفظ پورا نہیں ہے ) ، ان کا شعار قومی مابہ الامتیاز ہے جس وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ساتھ کھانا اور رشتہ و پیوند کرنا دو بڑے ذریعے اتحاد پیدا کرنے کے ہیں اور ان دونوں باتؤں کی اجازت سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبر صاحب کو منظور تھا کہ ان کے گروہ کے آدمی ہم لوگوں کےساتھ دوستانہ برتاؤ رکھیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کے سوائے اور ملکوں کے مسلمان اس حکم کی پوری پوری تعمیل کرتے ہیں۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوؤں کی صحبت نے بڑے نقصان پہنچائے ہیں اور من جملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کے مسلمان انہی کی طرح شکی اور وہمی ہو گئے ہیں ، پس جو نفرت ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں سے ہے ، ہرگز مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک رسم ہے جو انہوں نے ہندوؤں سے اخذ کی ہے اور جتنے مسلمان اپنے مذہب سے بخوبی آگاہ ہیں ، ہرگز اس نفرت میں شریک نہیں۔ مجھ کو معلوم ہے کہ دہلی کے مسلمانوں میں مستند عالم تھے ، باغیوں نے ہر چند ان پر سختی کی مگر انہوں نے جہاد کا فتوی دینے سے انکار کیا اور انہی انکار کرنے والوں میں میرے دوست بھی تھے۔
اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ باغیوں میں بہت سے مسلمان بھی ہیں مگر کون مسلمان ؟ اکثر عوام الناس ، پاجی ، کمینے ، رذیل جن کے پاس رسم و رواج کے سوائے مذہب کوئی چیز نہیں یا اگر کسی روادار مسلمان نے بغاوت کی ہے تو مذہب کو اس نے صرف آڑ بنایا ہے اور اصل میں غصہ یا لالچ یا کوئی اور سبب محرک ہوا ہے۔
جس طرح ہماری قوم ہمیشہ سے بہادری میں نامور رہی ہے اسی طرح ہمارا سچا مذہب بردباری اور درگزری میں اور خدا کی مقدس مرضی نے ہم کو ان دو صفتوں میں آزمانا چاہا۔ ہم بہادری کی آزمائش میں خدا کے فضل سے پورے اترے ، اب ہم کو دوسری آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک ہم مغلوب تھے ہم نے بہادری سے کام لیا، اب ہم کو خدا نے غلبہ دیا ہے تو چاہیے کہ بردباری اور درگزر میں اور خدا کی مقدس مرضی نے ہم کو ان دو صفتوں میں آزمانا چاہا۔ ہم بہادری کی آزمائش میں خدا کے فضل سے پورے اترے ، اب ہم کو دوسری آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک ہم مغلوب تھے ہم نے بہادری سے کام لیا ، اب ہم کو خدا نے غلبہ دیا ہے تو چاہیے کہ بردباری اور درگزر سے کام لیں۔ قدرت پا کر معاف کر دینے سے ایشیائی قومیں ہم کو ضعیف سمجھنے کے عوض بہت زیادہ طاقتور خیال کریں گی۔ سلطنت کی عمارت میں بہادری نے اگر گارے کا کام دیا ہے تو بردباری چونے گچ کا کام دے گی۔ (ابنالوقتکیطرفاشارہکرکے) انہوںنےمجھپراپنایہارادہبھی ظاہر کیا ہے کہ آیندہ ہندوستانیوں یعنی کم سے کم اپنی ہم قوم مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا اور مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ ضرور کریں گے تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ میری پناہ دہی سے بڑھ کر ان کی اس کوشش کی قدر کرے۔ میری پناہ دہی کے صلے میں گورنمنٹ نے ان کو ڈھائی سو روپے ماہوار منافع کی زمیں داری عطا فرمائی ہے اور اکسٹرا اسٹنٹی کی خدمت جو ہندوستانی کے لیے اعلی درجے کی نوکری ہے۔ تمام زمانہ غدر میں ان کے پاس رہنے سے مجھ کو ان کے تفصیلی حالات معلوم ہیں، علوم مشرقی کے یہ بڑے عمدہ سکالر ہیں ، انہوں نے دیلی کالج میں جغرافیہ اور تاریخ اور پولیٹیکلاکانومی اور ریاضی وغیرہ علوم بہ خوبی پڑھے ہیں۔ ان کی عام معلومات اونچے درجے کی اور قابل قدر ہیں ، ان کو اخبار بینی کا بڑا شوق ہے ، ان کے خیالات وسیع اور شگفتہ ہیں۔ غرخ آپ لوگ اگر ان کے ساتھ ارتباط پیدا کرنا چاہیں گے تو مجھ کو امید ہے کہ آپ ان کی ملاقات سے ہمیشہ محظوظ ہوں گے۔ اب شاید آپ صاحبوں کو زیادہ دیر تک باتوں میں لگائے رکھنا موجب تصدیع ہوگا۔ اس واسطے شکر قدوم پر تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ ۔
فصل یاز دہم
انگریزی دستور کے مطابق ابن الوقت نے نوبل صاحب کی دعوت میں کھانے کے بعد تقریر کی
نوبل صاحب بیٹھنے کو تھے کہ ابن الوقت اٹھے۔ مہمانوں میں سے کسی کو بلکہ خود نوبل صاحب کو بھی توقع نہ تھی کہ یہ بھی کچھ کہیں گے مگر کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہنا شروع کیا کہ صاحبو! مجھ کو اس طرح کے معزز جلسے میں پہلے پہل حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے اور مجھ کو آپ صاحبوں کے روپرو بات کرنے کی عادت اور صلاحیت دونوں نہیں مگر نوبل صاحب نے ایسی مہربانی کے ساتھ میری تقریب آپ صاحبوں سے کی ہے کہ ان کی شکر گزاری کو میں اپنا فرض موقت خیال کرتا ہوں۔ میں نے اپنے پندار میں کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ جس کے واسطے نوبل صاحب یا گورنمنٹ میری احسان مند ہے۔ میں نے نوبل صاحب کو مردوں کے انبار سے اٹھایا اور اپنے گھر لے جا کر رکھا لیکن اگر ایسا نہ کرتا تو میں مسلمان بلکہ انسان نہ تھا۔ پس میں نے اپنا فرض مذہبی بلکہ فرخ انسانیت ادا کیا اور میں نہیں سمجھتا کہ مجھ کو کسی طرح کی خاص مدح کا استحقاق حاصل ہے۔ یہ نوبل صاحب کی ذاتی شرافت اور گورنمنٹ کی فیاضی ہے کہ نوبل صاحب میرا احسان مانتے ہیں اور گورنمنٹ نے کثیر المنفعت زمیں داری اور باوقعت بیش قرار ماہانے کی نوکری مجھ کو عطا فرمائی ۔