عائشہ عزیز
لائبریرین
( صفحہ نمبر 68 اور 69)
اور انگریز تو چلے گئے ، نوبل صاحب وہیں ٹھہرے رہے اور سوار جو بیگار پکڑ رہے تھے ، انھی میں سے ایک کو کوتوال کے پاس دوڑایا کہ جلد ، گاڑی بہلی ، رتھ جو کچھ ملے لے آؤ۔سواریوں کے آنے اور لوگوں کے سوار کرنے اور گھر تک پہنچانے میں کامل تین ساڑھے تین گھنٹے لگے مگر واہ رے نوبل صاحب ٹلنے کا ہی نام نہیں لیا۔ابن الوقت نے مکان پر پہنچ کر دیکھا کہ جنگی سپاہی باہر دروازے پر کھڑا پہرہ دے رہا ہے اور بڑے بڑے موٹے حرفوں کا اشتہار لگا ہوا کہ یہ مکان خیر خواہ سرکار کا ہے ، کوئی اس کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھے۔
ہوا یوں کہ جس وقت نوبل صاحب نے جان نثار کی زبانی ابن الوقت کو شہر سے باہر نکل جانے کے لئے کہلا بھیجا تھا اسی وقت سے تاک میں تھے ، قابو پاتے ہی پہرہ بیٹھا دیا۔ باغیوں اور شہر والوں میں سے تو بھاگنے میں سے کسی کو لوٹ گھسوٹ کی سوجھتی نہ تھی لوگوں کی اپنی ہی جان دوبھر تھی۔ رہ گئے سرکاری سپاہی اور فوج کے سقے ، دھوبی ، گراس کٹ وغیرہ ، انہوں نے سارے شہر کو دھڑی دھڑی کرکے لوٹا۔ اوپر کا رکھا دھرا اسباب تو کسی کا ایک تنکا نہ بچا ، گڑا دبا مال کھود کھود کر نکال کر لے گئے۔ ابن الوقت کے مکان پر بھی سارا دن اور پہر رات گئے تک یہی تانتا لگا رہتا تھا کہ ایک گیا ایک آیا مگر پہرہ اور اشتہار دیکھا اور کان دبا کر چلتے بنے۔ غرض خدا کے فضل سے ابن الوقت کے گھر میں سے ایک سائی تک نہیں گئی جیسا چھوڑ کر گئے تھے ویسا ہی آدیکھا۔
اب نوبل صاحب ابن الوقت کو گھر میں بسا کر چلنے لگے تو اس کو سمجھا گئے کہ ہر چند شہر کامل طور پر فتح ہوگیا ہے مگر مفصلات میں بدستور بدانتظامی ہے ، اکثر جگہ سرکاری تھانے تک نہیں بیٹھے۔ صاحب لوگوں میں سے کسی کو دم مارنے کی فرصت نہیں اور شاید آج رات کو جھجر پر دوڑ جانے والی ہے ، عجب نہیں مجھ کو بھی جانا پڑے۔ آپ اطمینان سے گھر بیٹھے رہیے ، جب موقع ہوگا میں خود آپ کو بلوا بھیجوں گا۔ شاموں شام جان نثار ہزار روپے کا توڑا لے کر دے گیا کہ صاحب نے مدد خرچ کے لیے دیا ہے اور پھر نوبل صاحب ایسے غائب ہوئے کہ ابن الوقت کو مدت تک ان کا کچھ حال ہی معلوم نہ ہوا کہ کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں۔
اس اثناء میں شہر کے بسنے کی بندی بھی کسی قدر کھل گئی تھی۔ لوگ یوں ڈر کے مارے اپنی اپنی جگہ ٹھٹکے ہوئے تھے ، تاہم شہر میں اکثر محلّے اور محلوں میں اکثر آدمی آباد ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ امنِ عام کی منادی گلی گلی کوچےکوچے پھرنے لگی اور معلوم ہوا کہ ملکہ معّظمہ نے کمپنی سے ملک نکل کر اپنے اہتمام میں لیا اور بڑی دھوم کا جشن ہونے والا ہے۔ کل جشن ہوگا اور نوبل صاحب کی کچھ خبر نہیں ۔ کوئی چار
اور انگریز تو چلے گئے ، نوبل صاحب وہیں ٹھہرے رہے اور سوار جو بیگار پکڑ رہے تھے ، انھی میں سے ایک کو کوتوال کے پاس دوڑایا کہ جلد ، گاڑی بہلی ، رتھ جو کچھ ملے لے آؤ۔سواریوں کے آنے اور لوگوں کے سوار کرنے اور گھر تک پہنچانے میں کامل تین ساڑھے تین گھنٹے لگے مگر واہ رے نوبل صاحب ٹلنے کا ہی نام نہیں لیا۔ابن الوقت نے مکان پر پہنچ کر دیکھا کہ جنگی سپاہی باہر دروازے پر کھڑا پہرہ دے رہا ہے اور بڑے بڑے موٹے حرفوں کا اشتہار لگا ہوا کہ یہ مکان خیر خواہ سرکار کا ہے ، کوئی اس کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھے۔
ہوا یوں کہ جس وقت نوبل صاحب نے جان نثار کی زبانی ابن الوقت کو شہر سے باہر نکل جانے کے لئے کہلا بھیجا تھا اسی وقت سے تاک میں تھے ، قابو پاتے ہی پہرہ بیٹھا دیا۔ باغیوں اور شہر والوں میں سے تو بھاگنے میں سے کسی کو لوٹ گھسوٹ کی سوجھتی نہ تھی لوگوں کی اپنی ہی جان دوبھر تھی۔ رہ گئے سرکاری سپاہی اور فوج کے سقے ، دھوبی ، گراس کٹ وغیرہ ، انہوں نے سارے شہر کو دھڑی دھڑی کرکے لوٹا۔ اوپر کا رکھا دھرا اسباب تو کسی کا ایک تنکا نہ بچا ، گڑا دبا مال کھود کھود کر نکال کر لے گئے۔ ابن الوقت کے مکان پر بھی سارا دن اور پہر رات گئے تک یہی تانتا لگا رہتا تھا کہ ایک گیا ایک آیا مگر پہرہ اور اشتہار دیکھا اور کان دبا کر چلتے بنے۔ غرض خدا کے فضل سے ابن الوقت کے گھر میں سے ایک سائی تک نہیں گئی جیسا چھوڑ کر گئے تھے ویسا ہی آدیکھا۔
فصل پنجم
کوئین وکٹوریہ نے زمام سلطنت ھند اپنے ہاتھ میں لی۔
دربار ۔۔ ابن الوقت کو صلہ خیر خواہی ملا
اب نوبل صاحب ابن الوقت کو گھر میں بسا کر چلنے لگے تو اس کو سمجھا گئے کہ ہر چند شہر کامل طور پر فتح ہوگیا ہے مگر مفصلات میں بدستور بدانتظامی ہے ، اکثر جگہ سرکاری تھانے تک نہیں بیٹھے۔ صاحب لوگوں میں سے کسی کو دم مارنے کی فرصت نہیں اور شاید آج رات کو جھجر پر دوڑ جانے والی ہے ، عجب نہیں مجھ کو بھی جانا پڑے۔ آپ اطمینان سے گھر بیٹھے رہیے ، جب موقع ہوگا میں خود آپ کو بلوا بھیجوں گا۔ شاموں شام جان نثار ہزار روپے کا توڑا لے کر دے گیا کہ صاحب نے مدد خرچ کے لیے دیا ہے اور پھر نوبل صاحب ایسے غائب ہوئے کہ ابن الوقت کو مدت تک ان کا کچھ حال ہی معلوم نہ ہوا کہ کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں۔
اس اثناء میں شہر کے بسنے کی بندی بھی کسی قدر کھل گئی تھی۔ لوگ یوں ڈر کے مارے اپنی اپنی جگہ ٹھٹکے ہوئے تھے ، تاہم شہر میں اکثر محلّے اور محلوں میں اکثر آدمی آباد ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ امنِ عام کی منادی گلی گلی کوچےکوچے پھرنے لگی اور معلوم ہوا کہ ملکہ معّظمہ نے کمپنی سے ملک نکل کر اپنے اہتمام میں لیا اور بڑی دھوم کا جشن ہونے والا ہے۔ کل جشن ہوگا اور نوبل صاحب کی کچھ خبر نہیں ۔ کوئی چار