اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

عائشہ عزیز

لائبریرین
( صفحہ نمبر 68 اور 69)

اور انگریز تو چلے گئے ، نوبل صاحب وہیں ٹھہرے رہے اور سوار جو بیگار پکڑ رہے تھے ، انھی میں سے ایک کو کوتوال کے پاس دوڑایا کہ جلد ، گاڑی بہلی ، رتھ جو کچھ ملے لے آؤ۔سواریوں کے آنے اور لوگوں کے سوار کرنے اور گھر تک پہنچانے میں کامل تین ساڑھے تین گھنٹے لگے مگر واہ رے نوبل صاحب ٹلنے کا ہی نام نہیں لیا۔ابن الوقت نے مکان پر پہنچ کر دیکھا کہ جنگی سپاہی باہر دروازے پر کھڑا پہرہ دے رہا ہے اور بڑے بڑے موٹے حرفوں کا اشتہار لگا ہوا کہ یہ مکان خیر خواہ سرکار کا ہے ، کوئی اس کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھے۔

ہوا یوں کہ جس وقت نوبل صاحب نے جان نثار کی زبانی ابن الوقت کو شہر سے باہر نکل جانے کے لئے کہلا بھیجا تھا اسی وقت سے تاک میں تھے ، قابو پاتے ہی پہرہ بیٹھا دیا۔ باغیوں اور شہر والوں میں سے تو بھاگنے میں سے کسی کو لوٹ گھسوٹ کی سوجھتی نہ تھی لوگوں کی اپنی ہی جان دوبھر تھی۔ رہ گئے سرکاری سپاہی اور فوج کے سقے ، دھوبی ، گراس کٹ وغیرہ ، انہوں نے سارے شہر کو دھڑی دھڑی کرکے لوٹا۔ اوپر کا رکھا دھرا اسباب تو کسی کا ایک تنکا نہ بچا ، گڑا دبا مال کھود کھود کر نکال کر لے گئے۔ ابن الوقت کے مکان پر بھی سارا دن اور پہر رات گئے تک یہی تانتا لگا رہتا تھا کہ ایک گیا ایک آیا مگر پہرہ اور اشتہار دیکھا اور کان دبا کر چلتے بنے۔ غرض خدا کے فضل سے ابن الوقت کے گھر میں سے ایک سائی تک نہیں گئی جیسا چھوڑ کر گئے تھے ویسا ہی آدیکھا۔

فصل پنجم
کوئین وکٹوریہ نے زمام سلطنت ھند اپنے ہاتھ میں لی۔
دربار ۔۔ ابن الوقت کو صلہ خیر خواہی ملا

اب نوبل صاحب ابن الوقت کو گھر میں بسا کر چلنے لگے تو اس کو سمجھا گئے کہ ہر چند شہر کامل طور پر فتح ہوگیا ہے مگر مفصلات میں بدستور بدانتظامی ہے ، اکثر جگہ سرکاری تھانے تک نہیں بیٹھے۔ صاحب لوگوں میں سے کسی کو دم مارنے کی فرصت نہیں اور شاید آج رات کو جھجر پر دوڑ جانے والی ہے ، عجب نہیں مجھ کو بھی جانا پڑے۔ آپ اطمینان سے گھر بیٹھے رہیے ، جب موقع ہوگا میں خود آپ کو بلوا بھیجوں گا۔ شاموں شام جان نثار ہزار روپے کا توڑا لے کر دے گیا کہ صاحب نے مدد خرچ کے لیے دیا ہے اور پھر نوبل صاحب ایسے غائب ہوئے کہ ابن الوقت کو مدت تک ان کا کچھ حال ہی معلوم نہ ہوا کہ کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں۔

اس اثناء میں شہر کے بسنے کی بندی بھی کسی قدر کھل گئی تھی۔ لوگ یوں ڈر کے مارے اپنی اپنی جگہ ٹھٹکے ہوئے تھے ، تاہم شہر میں اکثر محلّے اور محلوں میں اکثر آدمی آباد ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ امنِ عام کی منادی گلی گلی کوچےکوچے پھرنے لگی اور معلوم ہوا کہ ملکہ معّظمہ نے کمپنی سے ملک نکل کر اپنے اہتمام میں لیا اور بڑی دھوم کا جشن ہونے والا ہے۔ کل جشن ہوگا اور نوبل صاحب کی کچھ خبر نہیں ۔ کوئی چار
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
سیدہ شگفتہ

IbW-0025.gif
عائشہ عزیز
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ص 86 اور 87

روپلی کی ان کے خدمتگاروں کو بھی پرواہ نہ تھی مگر مفتی صاحب جب سنا تو دہائی دیتے ہوئے حضور تک پہنچے اور آخر اپنی تنخواہ بحال کرکے ٹلے۔

غرض قلعے کی سرکاروں کا برتاؤ نوکروں کےساتھ ایسا تھا جیسا ماں باپ کا اپنے بال بچوں کے ساتھ۔ تو صاحب میں تو ایسی سرکاروں میں رہا ہوں اور میں خود اپنے تئیں انگریزی نوکری کے قابل نہیں سمجھتا۔ میرے نسبتی بھائی ڈپٹی ہیں۔ برس دن ہوا رخصت لے کر انہی دنوں حج کو گئے اب آج کل میں آنے والے ہیں۔ مزاج کے ہیں تیز ، کسی حاکم سے ان کی نہیں بنتی اور برس میں دو دو بار نہیں تو بے چارے ہر برس ضرور بدلتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی آ نکلتے ہیں اور اپنے حالات بیان کیا کرتے ہیں ، ان سے میں قیاس کرتا ہوں کہ واقع میں ایک دن بھی مجھ جیسے آدمی کا انگریز دربار میں گزر ہونا مشکل ہے۔

فصل ہفتم
ایک ڈپٹی کلکٹر انگریزوں کی مدارات کا شاکی

میں نے اپنے ان بھائی صاحب سے ایک دن پوچھا تھا کہ کہیے کچھ آپ نے سرمایہ بھی جمع کیا تو کہنے لگے "اجی اللہ اللہ کرو" کیسا سرمایہ ، خدا جان کیسے کیسے کتر بیونت کرتا ہوں کہ قرض نہ لینا پڑے۔ مجھ کو تو آئے دن کی بدلی ادھیڑے ڈالتی ہے ، ورنہ خدا کا فضل ہے میری تنخواہ خرچ کو کافی ہے بلکہ کچھ پس انداز ہورہتا ہے۔"

میں : حقیقت میں آپ کو برس دن بھی کہیں جم کر رہنا نصیب نہیں ہوتا ، آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اور بھی تو ڈپٹی ہیں "قطب از جانہ جنبد" برسوں سے ایک جگہ جمے بیٹھے ہیں۔

بھائی صاحب : خدا جانے صاحب لوگ کیا کمال کرتے ہیں۔ میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ حکام کو راضی رکھوں مگر کچھ ایسی تقدیر کی گردش ہے کہ خواہی نخواہی ناچاقی ہو ہی جاتی ہے اور بار بار کی بدلی نے مجھے اور بھی بدنام کر رکھا ہے۔ لوگ میرا نام سن کر پکار اٹھتے ہیں : "اجی وہ لڑاکو ڈپٹی کلکٹر۔"

میں : آپ نے اصلی سبب اب بھی نہ بتایا کہ حکام آپ سے کیوں ناراض رہتے ہیں۔ اگر آپ کو میں سرمایہ دار دیکھتا تو شبہ کرسکتا کہ شاید آپ رشوت لیتے ہوں گے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی ، صفحہ 88 آپ نے ٹائپ کر کے پوسٹ کر دیا تھا یہاں اور یہاں دونوں جگہوں پر صفحہ 88 دو بار پوسٹ ہوا ہے تاہم صفحہ 89 ابھی ٹائپ ہو کے پوسٹ نہیں ہوا ۔ کیا آپ یہ صفحہ (89) ٹائپ کر چکے ہیں ؟ اس بارے میں اپڈیٹ کر دیں ۔
غلطی سے صفحہ نمبر 89ٹائپ نہیں ہوا میں ابھی ٹائپ کردیتا ہوں۔ صفحہ نمبر 88میں ٹائپ کر چکا ہوں اگر دوبارہ ضرورت ہے تو بہنا جی حکم کریں دوبارہ ٹائپ کر دیتا ہوں۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی ، صفحہ 88 آپ نے ٹائپ کر کے پوسٹ کر دیا تھا یہاں اور یہاں دونوں جگہوں پر صفحہ 88 دو بار پوسٹ ہوا ہے تاہم صفحہ 89 ابھی ٹائپ ہو کے پوسٹ نہیں ہوا ۔ کیا آپ یہ صفحہ (89) ٹائپ کر چکے ہیں ؟ اس بارے میں اپڈیٹ کر دیں ۔
صفحہ نمبر89 د
شاگرد پیشوں کے انعام میں مجھ سے ایک روپیہ خرچ نہیں کیا جاتا۔
اتنی مدت مجھے نوکری کرتے ہوئے ہوئی اور چھوٹے بڑے صدہا انگریزوں سے میری معرفت ہے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی خوشی سے کسی انگریز کو ملنے گیا ہوںیا کسی انگریز سے مل کر میری طبیعت خوش ہوئی ہو۔ میں انگریزوں سے ملتا ضرور ہوں مگر بہ امر مجبوری۔ دفع حضرت کے لئے کہ ایسا نہ ہو مغرور سمجھا جاوں۔ یا عملوں اور اردلیوں کو جو ہمیشہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں، چغلی کھانے کا موقع ملے۔ مجھ کو بعض ایسے کریم النفس انگریزوں سے بھی واسطہ پڑا ہے جنہوں نے صرف بہ تفاضا انصاف کارگزاری دیکھ کر مجھ کو فائدے پہنچائے ہیں،اور میں ان کا دل سے ممنون ہوںمگر انگریزوں کے عام برتاو سے میرا دل کچھ ایسا کھٹا ہو گیا ہے کہ جنہوں نے مجھ پر احسان کئے ہیں ان کے ساتھ بھی میں نے اس سے زیادہ راہ و رسم نہیں رکھی کہ جب تک افسری ماتحتی کا تعلق رہا، رہا جب وہ بدل گئے یا میں بدل گیا تو بھول کر بھی میں کسی کو عرضی نہیں بھیجتا۔
میں انگریزوں کی ملاقات کا ایسا چور ہوں کہ جب دیکھتا ہوں کہ اب بہت دن ہوگئے ہیں تو ہفتوں پہلے ارادہ کرتا ہوں اور آخر زبردستی ٹھیل کر، دھکیل کر اپنے تئیں لے جاتا ہوں تو کوٹھی پر جا کر ہمیشہ وہی بے لطفی، وہی بے عزتی، جاڑاہو، پانی برستا ہو، کڑاکے کی دھوپ ہو، لوئیں چلتی ہوں، ہندوستانی ڈپٹی نہیں، ڈپٹی کا باوا ہی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ اپنے گھر سے چار گھوڑے کی بگھی سوار ہو کر ہی کیوں نہ آیا ہو کلکٹر، ایجنٹ،اسسٹنٹ کی تو بڑی بارگاہیں ہیں اگر یوریشین ڈپٹی کلکٹر سے بھی ملنے گیا ہے (اور نہ ملے تو رہے کہاں) تو احاطے کے باہر اترنا ضرور اور احاطے بھی شیطان کی انتڑی کہ ہم جیسے پرانی فیشن کے لوگ کوٹھی تک پہنچتے پہنچتے ہانپنے لگتے ہیں اور اگر صاحب کہیں اس حالت میں دیکھ پائیں تو سمجھو ملاقات کو گئے ، نوکری نذر کر آئے،اسی دن رپورٹ دھری ہے کہ یہ ثخص دس قدم پیدل نہیں چل سکتا،گویا ڈپٹی کلکٹری کو ضرور ہے کہ کم از کم ڈاکے کے ہرکارے کی چوکی تک، پوئی نہیں تو دلکی ، پیشی کا بستہ لے کر بھاگ سکے ۔ پس اس ڈر کے مارے کسی درخت کی آڑ میں یا کوئی ایسا ہی گانٹھ کا پودا ہے اور اس نے شاگرد پیشوں کو پہلے سےچکھوتیاں کرا دی ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 120
فصل دہم​
ابن الوقت نے انگریزی وضع اختیار کی۔​
نوبل صاحب نے اس کی دعوت کی​

نوبل صاحب کے پاس سے اٹھا تو جاں نثار ابن الوقت کو سیدھا اس کے بنگلے پر لے گیا اور جاتے کے ساتھ حجامت کروا، اصطباغ دے، یعنی نہلا دھلا، موسم اور وقت اور موقع کے لحاظ سے فیشن کے مطابق انگریزی سوٹ پہنا، نکتہ، دمچی، پوزی، یعنی بریسنر، ٹائی، کالر سب کس کسا کر اس کو اچھا خاصا عین مین یورپین جنٹلمین بنا دیا۔ ابن الوقت نے آئینے میں دیکھا تو اپنے تئیں انگریزوں کے ساتھ اشبہ پایا۔ بے اختیار تن کر لگا کپڑے بدلنے کے کمرے میں پینترے بدلنے۔ کھانے کے بعد اس کے کئی گھنٹے کوٹھی کی دیکھ بھال میں گزرے۔ گرمی کے دن، چاروں طرف خس کی ٹٹیاں لگی ہوئی، تھرمین ٹے ڈوٹ سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھکولے آ رہے ہیں۔ کوچ پر دراز ہونا تھا کہ آنکھ لگ گئی۔ جاگا تو ہوا خوری کے کپڑے بدل، باہر نکل گیا۔ کوئی دو گھڑی رات جاتے جاتے لوٹ کر آیا تو نوبل صاحب کے یہاں جانے کا وقت قریب تھا۔
ڈنر کے لیے تیاری شروع ہوئی۔ کچہری نہیں، دربار نہیں، کوئی پارٹی نہیں، اس پر بھی دن کے گیارہ بجے سے لے کر اب یہ تیسری دفعہ ہے کہ انگریزی تہذیب کپڑے بدلنے کی متقاضی ہے۔ سڑک بیچ تو نوبل صاحب کی کوٹھی تھی۔ جب معلوم ہوا کہ اور

صفحہ 121

مہمان آنے شروع ہوئے، یہ بھی اپنے بنگلے سے اٹھ جا موجود ہوا۔ کھانے سے پہلے اور کھانے میں صاحب لوگ اس کو اجنبی سمجھ کر بار بار دیکھتے تھے، لیکن چونکہ کسی نے اس کو انٹروڈیوس نہیں کیا تھا، کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا تھا کہ تم کون ہو اور نہ یہ کسی سے بات کر سکتا تھا۔ نوبل صاحب مہمانوں کی آؤبھگت میں لگے تھے، ان سے لمحے دو لمحے کا چھٹکارا پاتے تو ابن الوقت سے ایک دو بات کر جاتے۔ ڈنر تھا کہ اچھا خاصا پہر ڈیڑھ پہر کا جھمیلا تھا۔ جہان کے قصے اور دنیا بھر کی بکواس۔ خیر خدا خدا کرکے ڈنر سے چھٹی پائی۔ ابھی سب لوگ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہیں کہ نوبل صاحب نے کھڑے ہو کر یہ تقریر کی:
"صاحبو! یوں تو آپ صاحبوں سے اکیلے دکیلے یا مجمع میں ملنا ہمیشہ خوشی کا موجب ہوتا ہے مگر آج رات کی ملاقات ایک خاص وجہ سے بڑی، بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔ آپ کو دعوت کے رقعوں سے معلوم ہوا ہوگا کہ آج کی دعوت سے ایک نئے دوست کو آپ کی سوسائٹی میں انٹروڈیوس کرنا منظور تھا۔ (چیئرز)۔ اگرچہ میرے اکثر حالات غدر بھی آپ سب صاحبوں نے بار بار میری زبان سے سنے ہیں مگر میرے حق میں وہ ایسے دلچسپ ہیں کہ ہر بار کے بیان کرنے میں مجھ کو ایک نیا مزہ ملتا ہے اور اس سے میں قیاس اور امید بھی کرتا ہوں کہ اس محل پر ان کا بالتفصیل اعادہ کرنا نہیں گزرے گا۔ (ہرگز نہیں، ہرگز نہیں)۔ یہ ہرگز میرے خیال میں نہیں آیا کہ غدر میں مجھی پر سب سے زیادہ مصیبت پڑی مگر اتنا تو میں ضرور سمجھتا ہوں کہ میرے حصے کی مصیبت بھی کچھ کم نہ تھی۔ مجھ کو غدر نے اچانک آ دبایا جب کہ میں بہ عزم ولایت، بمبئی جاتے ہوئے علالت مزاج کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے مسافرانہ دہلی کے ڈاک بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میرا جان پہچان یا دوست یا دردمند جو کچھ سمجھو، میرا ایک ذاتی ملازم تھا جو اب بھی میرے پاس ہے اور وہ بمبئی تک میرے ساتھ جانے والا تھا۔ مجھ کو اس شدت کا درد سر تھا کہ تکیے پر سے سر نہیں اٹھا سکتا تھا۔"
دفعتاً دین دین، اور علی علی، کا غل سن پڑا اور ایک منٹ بھی نہیں گزرنے پایا تھا کہ شہر کی بازاری خلقت بنگلے میں ٹوٹ پڑی۔ میرا آدمی، مجھ کو پیچھے معلوم ہوا، اس
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 148 اور 149)

گورنمنٹ غدر سے پہلے تک ممدوح خلائق نہیں رہی۔ مجھ کو میرے ایمان نے اور گورنمنٹ اور رعایا دونوں کی سچی خیر خواہی نے اس کے ظاہر کرنے پر مجبور کیا۔ غدر سے پہلے تک مجھ کو انگریزی گورنمنٹ سے کسی طرح کا تعلق نہیں رہا اور سوائے اس کے کہ میں شہر میں رہتا تھا ، گورنمنٹ کا کوئی حق مجھ پھر نہ تھا مگر خدا کو یوں منظور تھا کہ مجھ سے اور نوبل صاحب سے ایک عجیب اور غیر متوقع طور پر معرفت ہو۔ میں نے صاحب کو اس افسوس ناک بے ہوشی کی حالت میں اگر لے جاکر اپنے گھر رکھا تو سوائے فرض انسانیت کے اور کوئی خیال باعث نہیں ہوا۔ اس وقت کوئی دور اندیش سے دور اندیش بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ غدر کا انجام کیا ہوگا۔ اور یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھے گا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جس وقت میں نے صاحب کو مردوں میں پڑا دیکھا ، میرا دل بالکل بے قابو ہوگیا تھا۔ میں نے اس وقت اتنا بھی تو نہیں سوچا کہ ان کو لے جا کر کہاں چھپاؤں گا اور کیا انتظام کروں گا کہ کسی پر ان کا میرے گھر میں ہونا ظاہر نہ ہو مگر نوبل صاحب کے بارے میں شروع سے آخر تک خدا کی قدرت کاملہ کے ایسے ایسے کرشمے دیکھے کہ بالکل عقل کام نہیں کرتی۔ پس اگر آپ سچ پوچھتے ہیں تو ان کو صرف خدا نے بچایا ہے اور میری یا کسی کی تدبیر کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ان کا بچنا خدا کی اور خدا کی قدرت کی دلیل نہیں ہے تو میرے نزدیک پھر دنیا میں کوئی چیز کسی چیز کی دلیل نہیں۔ مجھ کو جہاں تک بوبل صاحب کے بچانے سے تعلق ہے وہ میری نظر میں اس قدر بے حقیقت ہے کہ مجھ کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔یہ صرف نوبل صاحب کریم النفسی تھی کہ انہوں نے ایک ذرا سی بات کو اس قدر رونق دی اور اگر نوبل صاحب کی خاطر سے میں اس قابل قدر ہونا تسلیم بھی کرو تو نوبل صاحب اپنی ذات سے اس کا دو چند ، چار چند اور اس سے بھی زیادہ معاوضہ کرچکے ہیں۔ پس گورنمنٹ نے جو مجھ کو جاگیر دی ، نوکری دی ، صرف احسان ہے بلا سابقہ استحقاق اور اگر اتنے بڑے احسان کو خالی شکر گزاری کے ساتھ قبول کرلوں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ بے استحقاقی کے علاوہ نااہلی کا الزام بھی اپنے اوپر لوں۔

جوں ہی مجھ کو نوبل صاحب سے معلوم ہوا کہ گورنمنٹ میرے ساتھ سلوک کرنے والی ہے ، مجھ کو سوچ پیدا ہوا کہ میں اس کے معاوضے میں گورنمنٹ کی کون سی خدمت کرسکوں گا۔ نہ تو میرے پاس مال ہے کہ گورنمنٹ کی نذر کروں ، نہ میرا پیشہ سپہ گری ہے کہ میں اپنا سر گورنمنٹ کے لیے کٹوا دوں۔ تب میں نے خیال کیا کہ میرے پاس دل ہے۔ پس میں آپ سب صاحبوں کے روبرو اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں اپنا دل گورنمنٹ کا نذر کرچکا۔ خدا نے چاہا تو میری تمام عمر اسی میں بسر ہوگی کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے گا گورنمنٹ کی فلاح میں ، گورنمنٹ کے قیام و ثبات میں ، گورنمنٹ کے عام پسند ہونے میں کوشش کرتا رہوں گا۔ اے خدا ! تو میرا مدد گار رہ ، میں نے اپنی کاروائی کا منصوبہ ذہن میں ٹھہرا لیا ہے اور میں آپ صاحبوں کی اجازت سے مجملاََ اس کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ کو ابتدائے شعور سے تاریخ اور اخبار کا بہت شوق رہا ہے اگرچہ اس سے تھوڑی دیر پہلے میں نے گورنمنٹ کے انتظام پر سختی کے ساتھ نکتہ چینی کی ہے ، با ایں ہمہ میں اقرار کرتا ہوں کہ انصاف میں ، انسانی ہمدردی میں ، رعایا کی آزادی میں ، رعایا کے مہذب بنانے میں ، ملک کی فلاح و بہبود میں ، ملک کی ترقی میں ، دنیا کی کوئی گورنمنٹ انگریزی گورنمنٹ کو نہیں پاتی۔ انگریزی گورنمنٹ میں جو نقصان ہیں عملی قسم کے ہیں ورنہ اس گورنمنٹ کے اصول ایسے عمدہ ہیں کہ ان سے بہتر نہ کبھی ہوئے اور نہ اب روئے زمین کے کسی حصے میں ہیں ، پس میں انگریزی گورنمنٹ کو ہندوستان کے حق میں خدا کی بڑی رحمت اور برکت سمجھتا ہوں۔ پس میری تمام ہمت اس میں مصروف ہوگی کہ رعایائے ہندوستان اس رحمت اور برکت سے پورا پورا فائدہ اٹھائے۔

انگریزی گورنمنٹ میں جتنے نقصان ہیں آخر کو سب کا یہی ایک سبب جاکر ٹھہرتا ہے کہ حاکم و محکوم میں اختلاط نہیں اور ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف نہیں۔ میں نے اس پیرائے میں گورنمنٹ کی خیر خواہی کا بیڑا اٹھایا ہے کہ حاکم و محکوم میں سے اجنبیت کو دور کردوں۔رعایائے ہندوستان میں سے صرف مسلمانوں کو میں اس قابل سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو ان کی تالیف و استمالت کی سرِ دست بہت ضرورت ہے۔ کچھ تو اس سبب سے اور کچھ اس وجہ سے کہ میں خود مسلمان ہوں میری کوشش مسلمانوں میں محصور رہے گی۔ میں مسلمانوں کے رگ و ریشے سے واقف ہوں اور
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 172اور 173)

نہیں سکتا"۔ کچھ ضعفِ طبیعت ، کچھ خوشامد اور کچھ ابن الوقت کے ۔۔۔۔۔ساتھ خدا واسطے کا حسد ، بعض تو اس طرح کے موذی تھے کہ حکام کو ابن الوقت کی طرف سے بد ظن کرنے کے لیے معمول اور ضرورت دونوں سے زیادہ حاکموں کے آگے جھکنے لگے تھے۔ ناچار ابن الوقت کو اپنے تئیں اپنے ہی گروہ سے الگ رکھنا پڑتا تھا مگر کہاں تک ، انگریزوں کے ساتھ اختلاط پیدا کرنے کے لیے تو یہ ساری مصیبت مول لی تھی ، ان سے ملنا اور کثرت سے ملنا تو ابن الوقت کو سب کاموں پر مقدم تھا۔ پس یہ تدبیر کیا کرتا تھا کہ انگریزوں سے ملتا تھا مگر ہندوستانیوں کا خاص کر اپنے اقران و امثال کا وقت بچا کر۔ اس کو انگریزوں سے ملنے کے بہیترے مواقع تھے ، بعض کو یہ کھانے پر بلاتا تھا اور سارے سٹیشن میں ملکی فوجی ملا کر گنتی کے چار پانچ ایسے بھی تھے جو اس کو کبھی کبھی کھانے پر بلا بھیجتے تھے۔ نوبل صاحب نے بڑی سینہ زوری سے اس کو کلب داخل کرادیا تھا ، بہتوں کے ساتھ وہیں ملاقات ہوجاتی تھی۔ پھر ہوا خوری ، کرکٹ ، انٹا شکار ، کون سے پارٹی تھی جس میں ابن الوقت کسی نہ کسی طرح اپنے تئیں لے نہیں گھستا تھا۔ بات یہ ہے کہ سارے کھیل روپے کے ہیں اور ابن الوقت کے انگریزوں کے مقابلے میں خرچ کی پروا مطلق کرتا نہ تھا۔

سب سے بڑے دشمن ہندو مسلمان سب کے اور خاص کر ابن الوقت کے یوریشین تھے اور یہی لوگ شراب اور سوڈا اور لمنڈ اور چرٹ وغیرہ کی چاٹ کے مارے اس کو ہر وقت گھیرے بھی رہتے تھے۔ تبدیل وضع کی نسبت تو خیر جو چاہو سو کہہ لو ، یوں ابن الوقت بڑا متین آدمی تھا۔ وہ کہیں مدتوں میں جاکر کھلتا تھا ، سو بھی ہر ایک سے نہیں۔ اس کے سینکڑوں ملاقاتیوں میں گنتی کے چند آدمی تھے جن کے ساتھ ہمہ وقت نہیں بلکہ خاص خاص اوقات میں وہ کسی قدر بے تکلفی کرتا تھا۔ ایسے مزاج کے آدمی کا قاعدہ ہوتا ہے کہ کوئی چاہے کہ چاہے مگر وہ مخالف اور موافق سب سے اپنا ادب کرا ہی لیتا ہے۔ پس ابن الوقت کے منہ پر تو کوئی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی رکھ سکتا تھا مگر لوگوں کے بطون اس کی طرف سے صاف نہ تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر سبھی نے تو اپنا اپنا زہر اگلا۔

امریکا کے مشن کی طرف سے ایک سکول جاری تھا۔ اس میں پڑھنے لکھنے کے علاوہ لڑکوں کو دستکاری بھی سکھائی جاتی تھی اور چونکہ ایسے مدرسے کی بہت ضرورت تھی ، لڑکے ایسے گرتے تھے کہ جیسے شہد پر مکھیاں۔ پادری صاحب بڑے ہی ملنسار آدمی تھے ، سکول میں برس کے برس جلسہ کرتے اور اس میں شہر کے سارے رودار آدمیوں کو بلاتے اور ان کی خوش کرنے کے لیے بجلی اور مقناطیس کے عجیب عجیب کرتب دکھاتے۔ جلسے کے دن قریب تھے تو انہوں نے پہلے سے ابن الوقت سے کہہ رکھا تھا کہ آپ کو ضرور آنا ہوگا اور مہربانی فرما کر لکچر بھی دیناہوگا۔انہیں دنوں ابن الوقت کے چند دوست (انگریز) متقاضی ہوئے کہ ہم کو اپنے علاقے کھیر کاپور میں لے جاکر شکار کھلاؤ۔ ابن الوقت کے پادری صاحب کا جلسہ یاد تھا مگر ان دوستوں کو بھی ٹال نہیں سکتا تھا ، ناچار گیا مگر ایسے انتظام کے ساتھ کہ جلسہ ناغہ نہ ہو۔ وہاں شکار میں اتفاق سے کوئی انگریز گھوڑے پر سے گرا اور اس کی تیمارداری نے ابن الوقت کی فرصت نہ دی۔ ناچار اس نے پادری صاحب کو عین وقت پر معذرت لکھ بھیجی۔ پادری صاحب نے بڑا ہی افسوس کیا اور ہر چند چاہا کہ کوئی اور ہندوستانی لکچر دے ، کسی نے حامی نہ بھری۔ غرض اور سب ہوا مگر پادری صاحب کا لکچر کی بڑی خوشی تھی ، وہ نہ ہوسکا۔ خیر جب تماشے وغیرہ ہوچکے تو سب لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ پادری صاحب بولے افسوس ہے کہ مسٹر ابن الوقت کے نہ ہونے سے آج ہماری خوشی ادھوری رہ گئی۔ وہ ہوتے تو مجھ کو یقین ہے بڑا عمدہ لکچر دیتے اور اس سے سامعین خوش اور طالب العلم مستفید ہوتے۔

ایک انگریز جج : بے شک مسٹر ابن الوقت بڑے گویا اور روشن خیال آدمی ہیں اور میں نے ایسا نے تکان بولنے والا ہندوستانی نہی دیکھا۔ مسٹر نوبل کے ڈنر میں جو انہوں نے پہلی سپیچ دی تھی آج تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور ہر چند آپ کے کرتب بڑے دلچسپ ہیں اور ان کے دیکھنے سے علمی مفاد بھی بہت کچھ حاصل ہوتا ہے مگر مسٹر ابن الوقت اپنی سپیچ سے ان کرتبوں کو زیادہ شاندار اور بارونق کرسکتے تھے۔"

ایک یوریشین ڈپٹی کلکٹر : (ایک کایتھ ڈپٹی کلکٹر سے ذرا پیچھے کو جھک کر) آپ کو معلوم ابن الوقت صاحب کیوں غیر حاضر ہے؟

کایتھ ڈپٹی کلکٹر : مین نے ابھی تھوڑی دیر ہوئی یہیں آکر سنا کہ ایک ہفتہ ہوا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 174 اور 175)

صاحب لوگوں کے ساتھ شکار کو گئے ہیں۔
یوریشین : ابن الوقت صاحب کو شکار کا بہت شوق ہے۔ ہم اکثر اس کو شکار میں گیا ہوا سنتا ہے۔

کایتھ : ہاں صاحب ان کو سب شوق زیبا ہیں۔ ع مربّی بیار و مربی بہ خور۔ ایک قسمت کے ہیٹے ، اسی تنخواہ اور انہی اقتدارات کے ڈپٹی ہم ہیں ؛ لالہ جی بیکنٹھ باشی ہوئے ، موسی مری ، خاوندوں کا رخ نہ پایا ، رخصت کو منہ سے نہ نکال سکے۔ بندگی و بے چارگی۔

یوریشین : کلکٹر صاحب کبھی چھٹی دینا نہیں مانگتا۔ میم صاحب اور مسی بابا پہاڑ جانے لگا ، ہم صاحب سے بولا ، صاحب صاف کہا نو ہم سنتا نوبل صاحب بہت جلد ولایت جانا چاہتا۔
جنٹ مجسٹریٹ : نہیں نہیں ، انہوں نے درخواست کی تھی ، صاحب کمشنر نے روک دیا کہ تا اختتام تحقیقات بغاوت درخواست کوئی مناسب نہیں۔

یوریشین : اگر نوبل صاحب گیا تو ابن الوقت کیا کرے گا۔ شاید وہ بھی صاحب کے ساتھ ولایت جائے گا۔
جنٹ : عجب نہیں ! دیکھیں اس وقت کلکٹری کا چارج کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

کایتھ : بھگوان کی دیا سے حضور والا کے دست مبارک میں ہوگا۔ مدت سے ہم سب نمک خوار دعائیں مانگ رہے ہیں۔
یوریشین : میں آپ کو کلکٹر دیکھ کر بہت خوش ہوں گا۔

جنٹ : کیا ابن الوقت صاحب میری کوٹھی میں بھی جوتی پہن کر ، ٹوپی اوڑھے ہوئے جانے کا ارادہ کریں گے؟ وہ ہندوستانی ہیں اور میں ان کو سکھاؤں گا کہ ہندوستانی کو اپنے افسروں کا ادب کس طرح سے کرنا چاہیے۔ مجھ کو نوبل صاحب کے ساتھ ابن الوقت کے بارے میں ہرگز اتفاق نہیں۔ میں ابن الوقت صاحب کو نوکری اور جاگیر دونوں کا مستحق سمجھتا ہوں لیکن صاحب لوگوں کو بے عزت کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں۔

یوریشین : میں آپ کی دانشمندانہ پالیسی کو نہایت پسند کرتا ہوں۔ آخر یہ (کایتھ کی طرف اشارہ کرکے) بھی تو ڈپٹی ہیں ، ایسے گستاخانہ خیالات ان کے دماغ میں کیوں نہیں آتے؟
کایتھ : ہم جتنے ہندو ہیں ہمارا دھرم یہی ہے کہ حاکم اور بھگوان برابر۔

جنٹ : ہم نہیں سمجھتا کہ اس خیال اور مزاج کا آدمی غدر میں باغی کیوں نہ ہوا؟
یوریشین : اس کا دل باغی ہے اور میں کبھی یقین نہیں کرتا کہ اس نے نوبل صاحب کو سچے دل سے بچایا ہوگا۔

جنٹ : مجھ کو مسٹر ۔۔۔۔ تمہاری اس رائے سے اتفاق نہیں ، اس کے بہتر جج نوبل صاحب ہیں جو غدر میں اس کے ساتھ رہے ہیں۔ صاحب کو پورا بھروسا ہے کہ وہ دل سے سرکار کا خیر خواہ ہے۔

یوریشین : میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ حقیقت میں یہ بات سمجھ آنی مشکل ہے کہ ایسے خیالات اور خیر خواہی دو چیزیں ایک سر میں کیوں کر جمع ہوسکتی ہیں؟ ان میں ایک اصلی ہوگی اور دوسری بناوٹ۔

ایک مسلمان رئیس : جس طرح آپ لوگوں کو ابن الوقت صاحب کی خیر خواہی میں حیرت ہے اس سے زیادہ سارے مسلمانوں کو ان کے اسلام میں ہے۔"
پادری صاحب : آخر مسلمان ابن الوقت کے مذہب کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
مسلمان : عموما ََ عیسائی سمجھتے ہیں۔

پادری صاحب : (قہقہہ لگا کر) رہ ہرگز عیسائی نہیں اور انہوں نے ہر موقع پر اس بات کو ظاہر کیا ہے اور مجھ سے ان کی اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ مجھ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خداوند عیسیٰ مسیحؑ کو خدا اور خدا کا بیٹا نہیں مانتے بلکہ عام مسلمانوں کی طرح ایک پیغمبر لیکن ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ابن الوقت دل سے عیسائی ہوتے بلاشبہ علانیہ اقرار کرتے۔ وہ اپنی رائے کو چھپانے والے آدمی نہیں مگر ہمارا سارا کانگر یگیشن خاص کر ان کے حق میں ہمیشہ دعا کرتا ہے خداوند عیسیٰ مسیحؑ قبول کرے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 176 اور 177)

مسلمان : اگر ابن الوقت عیسائی نہیں ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں تو آپ ان کو اپنے ساتھ کھانا کیوں کھلاتے ہیں؟ (اس پر جنٹ یوریشین ڈپٹی کلکٹر اور دوسرے انگریز ہنس پڑے)

پادری صاحب : ہمارے مذہب میں جسمانی پاکی اور ناپاکی محض بے حقیقت چیز ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے تئیں صاف ستھرا رکھتا ہے ، وہ اپنی سوسائٹی کی تندرستی کے لیے مناسب تدبیر کرتا ہے۔ لیکن اس سے اس کی روح (ہندوؤں کی طرف مخاطب ہوکر ، آتما) مقدس خدا کی نظر میں پاک نہیں ہوسکتی۔ آدمی کا جسم چند روزہ اور ناپائدار ہے۔ وہ ایک قاعدے کے مطابق پرورش پاتا اور آخر کو فنا ہوجائے گا۔ غرض روح اور جسم کا تعلق عارضی تعلق ہے۔ جس طرح جسم نجاست اور غلاظت سے ناپاک ہوتا ہے اسی طرح روح غصے اور لالچ اور حسد اور جھوٹ اور تکبر اور ظلم اور کتنی اور خراب باتوں سے ناپاک ہوتی ہے۔ جسمانی ناپاکی بہت آسانی سے دور ہوسکتی ہے مگر روحی ناپاکی ، بدون اس کے کہ آدمی خداوند عیسیٰ مسیح کے نام سے اصطباغ لے ، زائل نہیں ہوسکتی۔ سب آدمی خدا کے نزدیک یکساں اور ناپاک ہیں اور جو شخص اپنے تئیں پاکیزہ گردانتا ہے وہ دل کی ناپاکی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم نے ابن الوقت صاحب کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا کیونکہ وہ ہماری طرح کے آدمی ہیں اور ہم ہر شخص کو اپنے ساتھ کھلانے کو تیار ہیں اور سب سے پہلے آپ کو اگر آپ پسند کریں (اس جملے پر سب ہنسے)۔

مسلمان : اگر ہم کو یقین ہو کہ آپ ان چیزوں سے جو مذہب اسلام میں بہ تقاضائے مصالح چند در چند حرام کی گئی ہیں ، محترز ہیں تو ہم کو آپ کے ساتھ کھانے میں ہرگز انکار نہیں۔ ہاں اگر ابن الوقت صاحب عیسائی نہیں اور مسلمان تو یقیناََ نہیں ، پھر کیا ہیں؟

پادری صاحب : وہ اپنے تئیں صاف صاف مسلمان کہتے ہیں اور بےشک مسلمان ہیں۔

مسلمان : اگر ابن الوقت صاحب مسلمان ہیں تو پھر دنیا میں کوئی کافر نہیں۔ اس طرح ہمارے ان ڈپٹی صاحب (کایتھ کے طرف اشارہ کرکے) کو بھی اختیار ہے کہ بت پرستی کرتے جائیں اور عیسائی یا مسلمان ہونے کا دعوی کریں۔

کایتھ : بھگوان نہ کرے میں عیسائی کیوں ہونے لگا۔ سب میں اتم اور پراچین ہمارا ہی دھرم ہے جو ہزارہا برس سے چلا آتا ہے اور ہر چند مسلمانوں نے بڑے بڑے جتن کیے کہ ہندو دھرم مٹ جائے ، بھگوان کا ایسا کرنا ہوا کہ آپ ہی مٹ گئے۔

جنٹ : اچھا اگر کوئی ابن الوقت صاحب کو اپنے مذہب میں لینا نہیں چاہتا تو ان کو بھی کسی مذہب کی پروا نہیں۔ وہ صرف ایک بلند نظر آدمی ہے اور دنیا میں اس قسم کے اور بہت آدمی ہوئے ہیں۔ وہ فقط اپنی نمود چاہتا ہے۔ اس کی مسلمان اور کایتھ اور یوریشین سب نے تصدیق کی۔

پادری صاحب : میں سمجھتا ہوں کہ ان کو مسلمانوں کی رفارم کا بھی بہت خیال ہے۔

مسلمان : پس جناب یہ ان کے دکھانے کے دانت ہیں۔

پادری صاحب : انہوں نے ہمیشہ انگلش سوسائٹی میں مسلمانوں کی حالت پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ وہ دل سے مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور اس کے دل میں اپنی قوم کی بڑی محبت ہے اور جب جب اس کو موقع ملتا ہے مسلمانوں کے فائدے میں کوشش کرتا ہے۔

مسلمان : خدا جانے اس میں کیا مصلحت ہوگی ورنہ میرے دیکھنے میں تو اس شخص نے اسلام کی تفضیح میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ مسلمانوں کے ساتھ مدارات کا حال یہ ہے کہ آپ لوگ غیر مذہب حاکم وقت ہوکر تو سیدھی طرح بات بھی کرلیتے ہیں اور ان کو مسلمانوں کی شکل سے نفرت ہے۔ غیر تو درکنار وہ شخص اپنے رشتہ داروں سے ملنے تک کا روادار نہیں۔ سبحان اللہ ، کیا حب قومی ہے!

جنٹ صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے! "مائی فرنڈز ! مسٹر ابن الوقت کی تھاہ میرے سوائے کسی نے نہیں پائی جلسہ برخاست۔"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غلطی سے صفحہ نمبر 89ٹائپ نہیں ہوا میں ابھی ٹائپ کردیتا ہوں۔ صفحہ نمبر 88میں ٹائپ کر چکا ہوں اگر دوبارہ ضرورت ہے تو بہنا جی حکم کریں دوبارہ ٹائپ کر دیتا ہوں۔

شکریہ شیرازی بھائی ، نہیں جو آپ پہلے ٹائپ کر چکے ہیں اسے دوبارہ ٹائپ نہیں کرنا ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
یہ والا اپیا ۔جس کے لیے فہیم بھیا کو ٹیگ کیا گیا تھا ۔انہوں نے دوپیجز کیے ہیں ایک کےلیے ان کو ہی ٹیگ کیا گیا تھا اور دوسرا فہیم بھیا والا ہے جو کہ فہیم بھیا نے بھی کردیا تھا۔
 

میر انیس

لائبریرین
میر انیس بھائی ، ص 82 اور 83 ٹائپ ہو گئے ہیں ۔ آپ صفحات (106 - 107) ٹائپ کر لیں ۔ یہ اس ربط پر موجود ہیں ۔

صفحہ نمبر ۱۰۶
انگریزی کو اختیار کرنا پڑے گا اور ان کے تلفظ میں ضرور غلطیاں ہوں گی۔ میں نے اس طرح کی بعض طبی اور بعض کیمیاء اور بوٹنی وغیرہ کی کتابیں دیکھی ہیں' کوئی سطر انگریزی الفاظ سے خالی نہیں۔ یہ ترجمے اردو و انگریزی مخلوط ' آدھا تیتر آدھا بٹیر' مجھ کو تو سخت بد مزہ معلوم ہوتے ہیں اور پھر کسی زبان کے ایک لفظ کی دوسری زبان میں کیسی ہی ہندی کی چندی کیوں نہ کرو اس کا ٹھیک مفہوم کسی دوسری زبان میں ادا ہونا مشکل ہے۔
اس کے علاوہ انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو جدید علوم کا پھیلانا ہےاور دوسری غرض اور بھی ہے یعنی عموماََ انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علومِ جدیدہ سے کام چلنے والا نہیں جب تک خیالات میں آزادی 'ارادے میں استقلال' حوصلے میں وسعت'ہمت میں علو'دل میں فیاضی اور ہمدردی 'بات میں سچائی معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہو اور وہ بدون انگریزی جاننے کے ہو نہیں سکتا۔ انگریزی داں آدمی کو اخباروں اور کتابوں کے ذریعے انگریزی خیالات پر آگہی کو بہم پہنچانے کی بڑی آسانی ہوسکتی ہے۔رفارم جس کی ضرورت ہندوستان کو ترقی کیلئے ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن و ہندوستانیوں کو انگریز بنایا جائے خوراک میں'پوشاک میں'زبان میں'عادات میں'طرزِ تمدن میں'خیالات میں'ہر ایک چیز میں اور وقت اسکے لیے چپکے چپکے کوشش کر رہا ہے مگر اس کی کوشش دھیمی ہے اور اس پر نتیجے کا مترتب ہونا دیر طلب۔لوگاں کے دلوں میں خود بخود اس طرح کے خیالات بہ تقاضائے وقت پیدا ہوچکے ہیں' کوئی رفارمر کھڑا ہوکہ اس کی سلگتی ہوئی آگ کو جلدی سے بھڑکادے۔
ابن الوقت: آپ کے سمجھانے سے دل میں آتا ہے کہ اس کام کو کرنا چاہئے۔ اس کے ضروری اور مفید ہونے میں تو کچھ شک نہیں مگر یہ تو فرمائیے کہ اس کی ابتدا کس طرح پر کی جائے۔
نوبل صاحب: رفارمر بننے کی بسمہ اللہ یہ ہے کہ رفارمر جو کیفیت لوگوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے پہلے خواہ اس سے متکیف ہولے اور اپنا نمونہ دکھا کر لوگوں کو تقلید کی دے
صفحہ۱۰۷

ابن الوقت: اگر عرض کرنا سوء ادب نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ آپ ہی رفارمر کیوں نہیں بنتے۔ یورپ ٹہرا آپ کا وطن۔ وہاں کے حالات سے تو آپ بالتفصیل واققف ہیں' رہا ہندوستان ' آپ نےذاتی شوق سے ہر طرف کی سیر و سیاحت کی ہے' ہر قوم و ملت کے ہندوستانیوں کے ساتھ آپ کا اختلاط بھی رہا ہے اور بلاء تخصیص قوم و مذہب و ملک عام انسانی ہمدردی بھی آپ کے دل میں کچھ کم نہیں تو اس صورت میں منصب رفارمر کے لیے آپ سے بہتر کون ہوگا؟"
نوبل صاحب:" میں آپ کے ان خیالات کا شکر گزار ہوں مگر میرا یورپین ہونا منصب رفارمر کے منافی ہے۔ ہم ملکی انگریزوں میں شاذ نادر کوئی ایسا ہوگاجس کے دل میں اس طرح کے خیالات نہ گزرتے ہوں۔ ہم ہی کا ایک گروہ مشنری لوگوں کا ہےجن کی تمام ہمت اسی کام میں مصروف ہے مگر چونکہ ان کے اغراض میں مذہب کا شمول ہے' ان کی تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔شروع شروع میں تو پادریوں نےاکژر ہنود کے نوجوان لڑکوں کو اور بعض مسلمانوں کو بھی عیسائیت کی طرف راغب کرلیا تھا اور کبھی کبھی سننے میں آتا تھا کہ فلاں ہندو یا مسلمان نے اصطباغ لیا مگر مذہب کا عجیب معاملہ ہے' دل کی تسلی کا نام مذہب ہے۔ پھر تو لوگ چوکنا ہوگئے۔ پادریوں کی بڑی چوٹ ہنود پر تھی' سو انہوں نے بھی کانٹ چھانٹ کر' اپنے مذہب کو ایسا کرلیا کہ کوئی ہندو انگریزی لکھ پڑھ کر بگڑنا چاہتا ہے تو کوئی نہ کوئی سماج اس کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔غرض مدتوں سے غیر مذہب کے لوگ عیسائی ہوتے ہواتے نہیں'الاشاذ ۔ اب پادریوں کی بڑی کامیابی اس پر آکر ٹھہری ہے کہ قحط کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ کال پڑے اور صاحب ضلع سے لاوارث بچوں کو پرورش کے لئے لیں'ان کو اپنے طور پر لکھائیں پڑھائیں''تربیت کریں 'یہ بچے بڑے ہوکر عیسائی ہوں اللہ اللہ خیر صلاح ! پس یہ فرض یہ کیجئے کہ مشنری نہیں کوئی انگریز رفارمر بنا چاہے تو مذہبی بدگمانی کا کیا انسداد انگریز کی تو صورت دیکھ کر لوگ ہتے سے اکھڑ جائیں'سنتے بھی تو نہ سنیں' مانتے بھی تو نہ مانیں؛ رفارمر چاہئے اپنی قوم کا کہ وہ تردید کے عوض تائید کا اور اعتراض کی جگہ سند کا کام دے۔"
ابن الوقت: بہت خوب' خدا نے چاہا تو میں اس کام کو شروع کروں گا۔ع ہرچہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص182 اور 183)

دھن میں اتنی بھی خبر نہ تھی کہ سر پر کتنا قرضہ لدتا چلا جارہا ہے۔ یہ تو اپنے ان خیالات میں مست کہ صاحب کمشنر مجھ کو مائی ڈیر (ًMy dear) ابن الوقت اور اپنے تئیں یور سِنسیرلی (Your sincerely) لکھتے ہیں۔ چیف کمشنر نے سالانہ رپورٹ میں میری کارگزاری کا شکریہ ادا کیا ہے۔ جوڈیشنل کمشنر نے ایک فیصلے میں میری نسبت یہ لکھا ہے کہ اس کے طبیعت کو قانون سے فطری مناسبت ہے۔ فنانشل کمشنر نے فلاح سرکار کا مسودہ مجھ سے طلب کیا تھا۔ ان کی چٹھی موجود ہے ، اب جو چھپ کر آیا تو میں دیکھتا ہوں ایک لفظ کا ردوبدل نہیں کیا۔ قانون شہادت کی فلانی دفعہ میرے اصرار سے بڑھائی گئی۔ لیجس لیٹیو کونسل کے لیگل ممبر نے مجھ کو چٹھی میں اطلاع دی مگر نہیں معلوم اپنی اسپیچ میں میرا تذکرہ کیوں نہیں کیا۔یا تو رپورٹر کی فروگذاشت ہے یا ممبر صاحب کو اس وقت خیال نہ رہا ہوگا۔ فلاں صاحب نے ولایت سے میرا فوٹو گراف منگوایا ہے اور لکھتے ہیں کہ میم صاحب متقاضی ہیں۔ اوہو ! مس جوزفا جو ہمارے ڈائننگ روم کی تصویروں کو بہت پسند کرتی تھی اور گھنٹوں ہمارے کتوں سے کھیلا کرتی تھی۔ ابھی ابھی ولایت کی ڈاک میں اس کی ماں کی چِٹّھی آئی ہے ، ایک بڑے سوداگر کے ساتھ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ میجر صاحب نے آئیس کریم (ملائی کی برف) جمانے کے لیے ہمارے آدمی کو بلا بھیجا ہے ، یہاں سے برف ہی جموا کر نہ بھیج دی جائے۔ کرنیل صاحب کا اسباب نیلام ہوگا تو دو گھوڑے ہم ضرور لیں گے کیونکہ ہم نے خوب خیال کرکے دیکھا تو ہمارے دو گھوڑے ہمیشہ صاحب لوگوں کی سواری میں رہتے ہیں اور چڑیوں اور پھولوں کے گملوں کو تو ہم ان سے زبانی کہہ چکے ہیں۔ پرسوں کیا اتفاق ہوا کہ میں ٹھنڈی سڑک پر جارہا تھا ، کپتان صاحب اور ان کی میم آتے ہوئے ملے ، بڑے تپاک سے صاحب سلامتی ہوئی۔ میم صاحب کے ہاتھ میں ایک پھول تھا ، انہوں نے میری طرف پھینک دیا۔ کپتان صاحب بولے ، "مسٹر ابن الوقت میرے پاس کوئی پھول نہیں کہ میں تم کو دیتا" تو میں نے کہا : "آپ کے پاس تو نہایت خوب صورت گلدستہ ہے۔" میم صاحب نے اس کا بڑا شکریہ ادا کیا اور دونوں میاں بی بی ہنستے ہوئے برابر سے نکل گئے۔ فرنڈ آف انڈیا نے ایک آرٹیکل میں مجھ کو مسلمانوں کا مشہور رفارمر لکھا ہے۔

غرض جس طرح آدمی کو کسی بات کی زڑ نہیں لگ جاتی ، بس ابن الوقت کو انگریز بننے کی زڑ تھی۔ شروع شروع میں تو اس کو مسلمانوں کے حال پر بھی ایک طرح کی نظر تھی لیکن چند روز بعد اس کی ساری رفارم اسی میں منحصر ہوگئی تھی کہ انگریزی اوضاع و اطوار میں سے کوئی وضع اور کوئی طور چھوٹنے نہ پائے۔ کم بخت آپ بھی برباد ہورہا تھا اور اس کی دیکھا دیکھی کچھ ایسی ہوا چلی کہ مسلمانوں کے نوجوان لڑکے خصوصاََ جنہوں نے ذری سی انگریزی پڑھ لی تھی یا جو گھر سے کسی قدر آسودہ تھے تباہی کے لچھن سیکھتے چلے جاتے تھے۔ اس کے اندرونی حالات کی تو کسی کی خبر نہ تھی ، ظاہر میں دیکھتے تھے کہ انگریزوں میں ملتا جلتا ہے ، جو بات کسی ہندوستانی عہدہ دار کو نصیب نہیں اس کو حاصل ہے اور لوگوں کی نظر میں انگریزی وضع کی ہیبت بھی ہے۔ پس احمقوں کو اتنے موجباتِ ترغیب کافی تھے۔ مگر ہے یہ کہ انگریزی وضع خدا کے فضل سے جوکسی ایک کو بھلی ہو۔ سبھی نے تو اپنی اپنی جگہ تھوڑا بہت نقصان اٹھایا اور شاید نقصان نہ بھی اٹھایا ہو تو کسی کو کسی قسم کا فائدہ تو نہیں ہوا۔

کسی جگہ شروع کتاب میں لکھا جاچکا ہے کہ نوبل صاحب کو ایک طرح کا ہلکا ہلکا دردِ سر ہر وقت رہتا تھا اور اسی کے علاج کے لیے رخصت لے کر ولایت جارہے تھے کہ غدر کی وجہ سے دلی میں گھر گئے۔ کیا خدا کی شان ہے کہ دوا نہ درمن ، سارے غدر اور غدر کے بعد بھی مدتوں تک آپ ہی آپ اُس درد کا کہیں پتا نہ تھا۔ ہر چند اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے ان کا جی ولایت جانے کا چاہتا تھا مگر دیکھتے تھے کہ سلطنت متزلزل ہورہی ہے ، کام کی ہر جگہ کثرت ہے ، ایسے وقت میں تو اگر صاحب ولایت بھی ہوتے تو ان سے ایک دن وہاں نہ ٹھہرا جاتا۔ کیسے ہوسکتا تھا کہ اس حالت میں چلے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گھر لکھ بھیجا تھا کہ جب تک تمام ملک میں انتظام سابق دستور نہ ہوجائے میں قصد نہیں کرسکتا۔ جوں جوں بغاوت فرو ہوتی گئی اس درد کی کسک ابھرتی چلی۔ ایک بار انہوں نے ولایت جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو چیف کمشنر صاحب نے فرمایا کہ تم جا تو سکتے ہو مگر میں چاہتا تھا کہ تحقیقاتِ بغاوت کا کام تمہارے ہاتھ سے اختتام پاتا۔ خیر ، یہ پھر چپ ہورہے۔
 
Top