(میر انیس بھائی نے میرے ذمے کا کام کر دیا اور میں نے اس کا)
صفحہ 166
جھانکنے لگیں اور لن ترانیاں یہ کہ " ہمچو ما دیگرے نیست۔" پس جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے عقل انسانی کا قصور ہے کہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ اب سے زیادہ نہیں صرف ڈیڑھ سو برس پہلے کسی کی عقل میں یہ بات آ سکتی تھی؟ کہ مہینوں کی مسافت ہم گھنٹوں میں طے کر سکیں گے یا ہزار ہا کوس کا حال چند لمحے میں معلوم کر لیا کریں گے یا آگ سے برف جمائیں گے یا کپڑے کی کل میں کپاس بھر کر اچھے خاصے دھلے دھلائے تہ کیے ہوئے تھان نکال لیا کریں گے اور ابھی کیا معلوم کہ ہم کیا کیا کر سکیں گے مگر پھر بھی رہیں گے آدمی، عاجز، ناچیز، بے حقیقت۔
بھلا آدمی کیا عقل پہ ناز کرے گا جب کہ اس کو پاس کے پاس اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ روح کیا چیز ہے اور اس کو جسم کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہے۔ وقت کے ازلی ابدی ہونے پر خیال کرتے ہیں تو انسان کی ہستی ایسی بے ثبات دکھائی دیتی ہے جیسے دن رات میں ایک "طرفتہ العین" بلکہ اس سے بھی کم اور اس ہستی پر انسان کے یہ ارادے اور یہ حوصلے کہ گویا زمین اور آسمان میں سمانا نہیں چاہتا۔ پھر کیسے کیسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ اس سرے سے اس سرے تک ساری زمین کو ہلا مارا اور مر گئے تو کچھ بھی نہیں، لاکھوں قسم کی مخلوقات کا ایک چکر سا بندھا ہوتا ہے کہ زمین سے پیدا ہوتے اور اسی میں فنا ہوجاتے ہیں۔ کسی کی عقل کام کرتی ہے کہ یہ کیا ہو رہاہے اور کس غرض سے ہو رہا ہے؟
جان تو ایک قسم کے نباتات میں بھی ہے مگر جانوروں کے بہت سے افعال انسان سے ملتے ہوئے ہیں بلکہ حیوانات بعض باتوں میں انسان پر بھی شرف رکھتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے تمام کمالات وہبی اور فطری ہیں، پھر وہ کون سی تکمیل ہے جس کے لیے ان کو یہ ہستی دی گئی ہے۔ انگریزوں نے تحقیقات کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا مگر شروع سے اب تک کسی ایک جگہ یا کسی ایک چیز یا کسی ایک بات کا مسلسل پتہ نہ چل سکا۔ زمانہ حال سے جس قدر پیچھے کو دور ہوتے جاتے ہیں منظر تاریخ دھندلا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اب سے چار پانچ ہزار برس پہلے کا کسی کو کچھ حال ہی معلوم نہیں کہ دنیا کا کیا رنگ تھا۔
صفحہ 167
عقل انسانی کی نارسائی اس سے بھی بڑھ کر کیا ہوگی کہ آج تک کسی پر کسی چیز کی ماہیت ہی منکشف نہیں ہوئی، جانا تو کیا جانا "اغراض" وہ بھی شاید فی صد دو مثلاً پانی کہ ہم اس کا اتنا ہی حال جانتے ہیں کہ سیال ہے سہل الانقیاد ہے یعنی جو شکل چاہو آسانی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے، آمیزش سے پاک ہو تو شفاف ہے، نشیب کی طرف بہتا ہے، وزن مخصوص کے قاعدے سے 33 فٹ سے زیادہ ہوا میں بلند نہیں ہو سکتا، حرارت کے اثر سے ہوا بن جاتا ہے یا اگر علم طبعی کے کسی ماہر سے پوچھو تو شاید دو چار خواص اور بیان کر سکے گا مگر یہ سب آثار ہیں نہ ماہیت، ماہیت کا نام آیا اور عقل گم ہوئی اگرچہ ابن الوقت یا ہمارے زمانے کے بڑے سے بڑے انگریزی خواں ہی کیوں نہ ہوں۔
بات کیا ہے کہ دنیا ہے عالم اسباب، یہاں واقعات کا ایک سلسلہ ہے، ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا واقع ہوتا رہتا ہے۔ ہم واقعہ متقدم کو سبب اور علت کہتے ہیں اور واقعہ متاخر کو مسبب، معلول، نتیجہ۔ اگرچہ سبب کے قرار دینے میں اکثر چند غلطیاں ہوتی ہیں مگر فرض کرو کہ ہم سبب کے قرار دینے میں غلطی نہ بھی کریں تاہم سبب اور مسبب میں جو علاقہ ہے آج تک اس کا راز کسی پر نہیں کھلا مثلاً جلانا آگ کا خاصہ ہے، مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، مگر کوئی نہیں بتا سکتا کیوں؟ ذرا آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھو تو روئے زمین کے سارے ریگستانوں میں اتنے ذرے نہ ہوں گے جتنے ستارے آسمان میں بھرے پڑے ہیں، پھر یہ ستارے دیکھنے میں چھوٹے چھوٹے نقطے نظر آتے ہیں اور درحقیقت ایک ایک بجائے خود ایک جہان ہے کہ ہماری زمین کی اس کے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں۔ غرض سوچنے سمجھنے والے دنیا سر تا سر طلسم حیرت ہے۔
جب دنیاوی امور میں عقل انسانی کی نا رسائی کا یہ حال ہو کہ کسی بات کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتی تو دین میں وہ کیا ہماری راہبری کرے گی۔
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ با آسمان نیز پرداختی
یہ دنیا تو پھر بھی عالم شہود ہے کہ ہم اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی آنکھوں