اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فرحت کیانی

IbW-0066.gif
 

زلفی شاہ

لائبریرین
صفحہ170
فصل پانزدہم
ابن الوقت سے لوگوں کی عام نا رضا مندی
پھر ہم یہی کہیں گے کہ اگرچہ لوگوں نے ابتداء کی تھی مگر ابن الوقت کو مذہبی چھیڑ چھاڑ کرنی مناسب نہ تھی۔ اس چھیڑ چھاڑ نے اس کی رفارم میں بڑی ہی کھنڈت کی۔ اختلافِ معتقدات کی وجہ سے یوما فیوما مسلمان اس سے متنفر ہوتے گئے اور سچ پوچھو ابن الوقت نہ رفارمر رہا نہ مجدد بلکہ مسلمانوں میں ایک نئے عقیدے کا موجد سمجھا جانے لگا اور ظاہر ہے ایسی حالت میں وہ مسلمانوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا تھا،کیونکہ وہ کہتا تھا صبح، تو مسلمان کہتے تھے شام اور اس کی طرف سے مسلمانوں کے دل میں کچھ ایسی بدگمانی بیٹھ گئی تھی کہ اس کی ساری تدبیریں خود غرضی پر محمول کی جاتیں تھیں۔ کچھ رفارم پر پر موقوف نہیں، ہر نئی بات کا قاعدہ ہے کہ اگر شروع شروع میں چل نکلی تو چل نکلی، ورنہ اکھڑے پیچھے ہوا کا بندھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ابن الوقت کو شروع سے آخر تک موافق و ناموافق دونوں طرح اتفاقات پیش آتے رہے بلکہ نا موافق زیادہ۔ تاہم اس کے شروع کے دو برس بڑی کامیابی کے برس تھے۔ کیونکہ نوبل صاحب اس کے حامی و سرپرست اس کے پاس موجود تھے۔ ان کی مہربانی اس کے حال پر یوما فیوما زیادہ ہوتی جاتی تھی اور اس کی مربیانہ مدارات دیکھ کر کیا انگریز، کیا ہندوستانی، کسی کو ابن الوقت کے ساتھ پرخاش کرنے کی جرات نہ ہوتی
صفحہ 171
تھی۔ غدر کے بارے میں ابن الوقت اور نوبل صاحب دونوں کے خیالات پہلے ہی سے منصفانہ تھے اور اس وقت انصاف ہی کو لوگ بڑا رحم سمجھتے تھے۔غرض بغاوت کی تحقیقات میں بھی ابن الوقت کی اچھی نیک نامی ہوئی اور چونکہ نوبل صاحب کو پرداخت منظور تھی، ابن الوقت کی لیاقت اور کارگزاری نے خاصی نمود پکڑ لی اور حکام بالا دست اس کو صاحب الرائے، کثیر المعلومات، بے تعصب، منصف مزاج سمجھنے لگے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب سے کسی بارے میں رائے طلب ہوتی تو اس میں ایما کیا جاتا کہ اپنے اسسٹنٹ ابن الوقت سے بھی پوچھوکہ وہ کیا کہتے ہیں۔یہاں نوبل صاحب کا یہ حال تھا کہ بات بات میں ابن الوقت کی رائے سے استشہاد کرتے تھے۔ان کی ہر چٹھی میں یہ فقرہ ضرور ہوتا تھا کہ میرے اسسٹنٹ ابن الوقت بھی اس رائے سے متفق ہیں یا ان کو اختلاف ہے اور ان کی تحریک کو لحاظ مناسب کے لئے منسلک کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن حسد کی آگ بھی دلوں میں بھڑک رہی تھی اور لوگ وقت کے منتظر تھے۔یوں اپنی جگہ تو ہر شخص جو جس کے منہ میں آیا بک جھک لیتا تھا ، ابن الوقت نے کبھی کسی کے کہنے کی پرواہ نہیں کی مگر حاکموں کے رو برو جو لوگ جا کر الٹی سیدھی باتیں بنا آتے تھے اس سے ابن الوقت کو اور اس کے منصوبوں کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔
غدر کے مدتوں بعد تک سرکاری کچہریوں میں کام کی یہ کثرت رہی کہ باوجودیکہ تحقیقاتِ بغاوت کا محکمہ علیحدہ تھا ،اس پر بھی مسلمانوں کا تو اس وقت کہاں پتہ، کیونکہ یہ تھے معتوب، ہندو بنگالی بابو اور یورپین ملا کر ایک دم سے پانچ ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ اول تو ان دنوں کی قہر مانی حکومت ، بغاوت کی تحقیقات درپیش، ہتیاروں کی تنگ طلبی، مخبری کا بازار گرم، دوسرے جتنے ہندوستانی حکام پہلے کے تھے کوئی روپوش، کوئی ماخوذ۔ غرض سب کے سب یک ظلم موقوف، نہ لیاقت دیکھی نہ وجاہت، سفارشی ٹٹوں کو آنکھیں بند کر کے بھرتی کر لیا گیاتھا،ان میں ہمت کہاں، جرات کا کیا مذکور۔ ابن الوقت بہتیرا ٹھیل ٹھیل کر ان کو اپنی راہ پر لے چلنا چاہتا تھامگر یہ پیندی کے بل بیٹھے چلے جاتے تھے۔ ان کو اگر کوئی مجبور کرتا کہ جیتے ہوئے سانپ کو پکڑ لو تو شاید کر بھی گزرتے مگر کسی طرح ممکن نہیں تھاکہ انگریزوں کے ساتھ ہاتھ ملا سکیں۔ابن الوقت کے بہت سمجھانے پر ایک بابو ڈپٹی صاحب نے یہ جواب دیا تھاہم شب شمجھتا پر شاب لوگ کا شامنا ہم باش میں رہنا
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 165

فصل چہاردھم

مذہب اور عقل

ہم کو تو اس کتاب میں ان لوگوں کے ساتھ مناظرہ کرنا منظود نہیں مگر اتنا تو خواہ نہ خواہی کہنا پڑتا ہے کہ بلاشبہ مبدا فیاض نے انسان کو ظاہری باطنی جتنی قوتیں دی ہیں سب میں عقل بڑی زبردست ہے اور وہی مدار تکلیف شرع بھی ہے لیکن بیش بریں نیست کہ عقل بھی ایک قوت ہے اور جس طرح انسان کی دوسری قوتیں محدود اور ناقص ہیں مثلاََ آنکھ کے ایک خاص فاصلے پر دیکھ سکتی ہے اس سے باہر نہیں۔پھر بے روشنی کے کام نہیں دیتی'اجسام کثیف میں نفوذ نہیں کرتی 'اگر دیکھنے والا خود متحرک دیکھتا ہے اور اپنے تئیں ٹھرا ہوا' تیز حرکت مشکل معلوم ہوتی ہے جیسے لڑکے لکئی سے کھیلتے ہیں' پیالے میں تھوا سا پانی بھر کر لکڑی کھڑی کریں تو لچکی ہوئی دکھائی دے گی'شفاف پانی کی تہ کی چیزیں اوپر کو ابھری ہوئی نظر آ تی ہیں اور اسطرح کی اور بہت سی غلطیاں نظر سے ہوتی ہیں جن کی تفصیل علم مناظر میں موجود ہے'غرض جس طرح مثلاََ ہماری قوت باصرہ محدود اور ناقص ہے اس طرح عقل کی رسائی کی بھی ایک حد ہے 'وہ بھی نقصان سے بری نہیں اور اس سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں ۔غلطی کے لیے تو اختلاف رائے کی دلیل کافی ہے۔ ہند سے کے علاوہ جس کے اصول بدیہیات پر
صفحہ ۱۶۵

مبنی ہیں اور اسی وجہ اس میں اختلاف ہو نہیں سکتا ڈاکٹر 'فلسفی 'حج 'ایسٹرانومرز(ہیت دان) پالیٹیشنز(مدبران ملک)اہل مذاہب وغیرہ وغیرہ سبھی کو دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں۔منطق کے قاعدےمنقبظ ہوئے'مناظرے کے اصول ٹھرائے گئے مگر اختلاف نہ کم ہوا اور نہ تاقیامت کم ہو۔"ولا یزالان مختلفین الا من رحم ربک ولنالک خلفہم۔"
جب ہست و نیست کا اختلاف ہو تو ضرور ایک بر سر غلط ہے۔اگرچہ عقل انسانی کا اختلاف رائے سے بھی مستنبط ہوسکتا ہے مگر ہم ذرااس کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ دو ڈھائی سو برس کے عرصے میں اہل یورپ کو سینکڑوں باتیں ایسی دریافت ہوئیں کہ کسی کو کیمیا کا حکمی نسخہ مل گیا ہوتا اور وہ اس کو عام بھی کردیتا تو اتنا فائدہ نہ پہنچتا جتنا کہ ان ماڈرن ڈسکوریز یعنی زمانہ حال کی دریافتوں سے ہوا اور جن اقبال مندوں کو خدا نے واقعات اور موجودات نفس الامری میں غوروغوض کرنے کی دھن لگادی ہے خدا ان کی کوششوں کو مشکور و کامیاب کرتا ہے'بحر بے پایاں موجودات میں غوطے لگارہے ہیں اور معلومات جدید کے بے بہا موتی ہیں کہ برابر نکلے چلے آتے ہیں'
"وان من شئی الاعنلناخزائنہ و مننزلہ الابقدر معلوم۔" ان ماڈرن ڈسکوریز میں سے زیادہ نہیں صرف ایک چیز عام فہم لو جس سے انگریزوں کے طفیل میں ہم بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں'ریل۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ دنیا میں گھر گھر آگ تھی'گھر گھر ہنڈیاں پکتی تھیں'ہر ہر متنفس بھاپ سے بخوبی واقف تھا۔ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے سٹیم (بھاپ)کی طاقت کیوں معلوم نہیں ہوئی اور یہی سوال ہر ڈسکوری کی بابت ہوسکتا ہےجو اب تک ہوئی یا آئیندہ کسی وقت میں ہو۔سر اسحاق نیوٹن جس کو سب سے پہلے مسئلہ کشش کا الہام ہوا' کہتا تھا کہ خدا کی بے انتہا قدرت کے سمندر بے شمار موتی بھرے پڑتے ہیں اور میں تو ابھی کنارے پر بیٹھا ہوا بچوں کی طرح سیپیاں اور گھونگے جمع کر رہا ہوں۔ یہ مقولہ تھا اس شخص کا جس نے زمین اور آسمان کے قلابے ملا کر نظام بطلیموس کی جگہ اپنا نظام قائم کیا آج سارا یورپ اس کے نام پر فخر کرتا ہے۔
جن کو خدا نے عقل دی ہے وہ تو یوں اپنی نارسائی کا اعتراف کرتے ہیں اور ایک ہمارے زمانے کے انگریزی خواں ہیں کہ سیدھی سی اوقلیدس کی نئی شکل پوچھو تو بغلیں
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(میر انیس بھائی نے میرے ذمے کا کام کر دیا اور میں نے اس کا)


صفحہ 166​
جھانکنے لگیں اور لن ترانیاں یہ کہ " ہمچو ما دیگرے نیست۔" پس جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے عقل انسانی کا قصور ہے کہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ اب سے زیادہ نہیں صرف ڈیڑھ سو برس پہلے کسی کی عقل میں یہ بات آ سکتی تھی؟ کہ مہینوں کی مسافت ہم گھنٹوں میں طے کر سکیں گے یا ہزار ہا کوس کا حال چند لمحے میں معلوم کر لیا کریں گے یا آگ سے برف جمائیں گے یا کپڑے کی کل میں کپاس بھر کر اچھے خاصے دھلے دھلائے تہ کیے ہوئے تھان نکال لیا کریں گے اور ابھی کیا معلوم کہ ہم کیا کیا کر سکیں گے مگر پھر بھی رہیں گے آدمی، عاجز، ناچیز، بے حقیقت۔​
بھلا آدمی کیا عقل پہ ناز کرے گا جب کہ اس کو پاس کے پاس اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ روح کیا چیز ہے اور اس کو جسم کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہے۔ وقت کے ازلی ابدی ہونے پر خیال کرتے ہیں تو انسان کی ہستی ایسی بے ثبات دکھائی دیتی ہے جیسے دن رات میں ایک "طرفتہ العین" بلکہ اس سے بھی کم اور اس ہستی پر انسان کے یہ ارادے اور یہ حوصلے کہ گویا زمین اور آسمان میں سمانا نہیں چاہتا۔ پھر کیسے کیسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ اس سرے سے اس سرے تک ساری زمین کو ہلا مارا اور مر گئے تو کچھ بھی نہیں، لاکھوں قسم کی مخلوقات کا ایک چکر سا بندھا ہوتا ہے کہ زمین سے پیدا ہوتے اور اسی میں فنا ہوجاتے ہیں۔ کسی کی عقل کام کرتی ہے کہ یہ کیا ہو رہاہے اور کس غرض سے ہو رہا ہے؟​
جان تو ایک قسم کے نباتات میں بھی ہے مگر جانوروں کے بہت سے افعال انسان سے ملتے ہوئے ہیں بلکہ حیوانات بعض باتوں میں انسان پر بھی شرف رکھتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے تمام کمالات وہبی اور فطری ہیں، پھر وہ کون سی تکمیل ہے جس کے لیے ان کو یہ ہستی دی گئی ہے۔ انگریزوں نے تحقیقات کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا مگر شروع سے اب تک کسی ایک جگہ یا کسی ایک چیز یا کسی ایک بات کا مسلسل پتہ نہ چل سکا۔ زمانہ حال سے جس قدر پیچھے کو دور ہوتے جاتے ہیں منظر تاریخ دھندلا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اب سے چار پانچ ہزار برس پہلے کا کسی کو کچھ حال ہی معلوم نہیں کہ دنیا کا کیا رنگ تھا۔​
صفحہ 167​
عقل انسانی کی نارسائی اس سے بھی بڑھ کر کیا ہوگی کہ آج تک کسی پر کسی چیز کی ماہیت ہی منکشف نہیں ہوئی، جانا تو کیا جانا "اغراض" وہ بھی شاید فی صد دو مثلاً پانی کہ ہم اس کا اتنا ہی حال جانتے ہیں کہ سیال ہے سہل الانقیاد ہے یعنی جو شکل چاہو آسانی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے، آمیزش سے پاک ہو تو شفاف ہے، نشیب کی طرف بہتا ہے، وزن مخصوص کے قاعدے سے 33 فٹ سے زیادہ ہوا میں بلند نہیں ہو سکتا، حرارت کے اثر سے ہوا بن جاتا ہے یا اگر علم طبعی کے کسی ماہر سے پوچھو تو شاید دو چار خواص اور بیان کر سکے گا مگر یہ سب آثار ہیں نہ ماہیت، ماہیت کا نام آیا اور عقل گم ہوئی اگرچہ ابن الوقت یا ہمارے زمانے کے بڑے سے بڑے انگریزی خواں ہی کیوں نہ ہوں۔​
بات کیا ہے کہ دنیا ہے عالم اسباب، یہاں واقعات کا ایک سلسلہ ہے، ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا واقع ہوتا رہتا ہے۔ ہم واقعہ متقدم کو سبب اور علت کہتے ہیں اور واقعہ متاخر کو مسبب، معلول، نتیجہ۔ اگرچہ سبب کے قرار دینے میں اکثر چند غلطیاں ہوتی ہیں مگر فرض کرو کہ ہم سبب کے قرار دینے میں غلطی نہ بھی کریں تاہم سبب اور مسبب میں جو علاقہ ہے آج تک اس کا راز کسی پر نہیں کھلا مثلاً جلانا آگ کا خاصہ ہے، مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، مگر کوئی نہیں بتا سکتا کیوں؟ ذرا آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھو تو روئے زمین کے سارے ریگستانوں میں اتنے ذرے نہ ہوں گے جتنے ستارے آسمان میں بھرے پڑے ہیں، پھر یہ ستارے دیکھنے میں چھوٹے چھوٹے نقطے نظر آتے ہیں اور درحقیقت ایک ایک بجائے خود ایک جہان ہے کہ ہماری زمین کی اس کے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں۔ غرض سوچنے سمجھنے والے دنیا سر تا سر طلسم حیرت ہے۔​
جب دنیاوی امور میں عقل انسانی کی نا رسائی کا یہ حال ہو کہ کسی بات کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتی تو دین میں وہ کیا ہماری راہبری کرے گی۔​
تو کار زمیں را نکو ساختی​
کہ با آسمان نیز پرداختی​
یہ دنیا تو پھر بھی عالم شہود ہے کہ ہم اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی آنکھوں​
 

فرحت کیانی

لائبریرین


ص 168
سے دیکھتے اور تھوڑا یا بہت اس میں تصرف بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں اور دین خبر دیتا ہے کہ اس دنیا کے سوائے ایک جہان اور ہے ، یہ ظاہر ہے وہ غائب، یہ فانی ہے وہ باقی، یہ مجاز ہے وہ حقیقت، یہ تمہید ہے وہ نفس مطلب، یہ امتحان ہے وہ نتیجہ، یہ سفر ہے وہ منزلِ مقصود، یہ خواب ہے وہ تعبیر، یہ افسانہ ہے وہ حق الامر۔ ظاہر ہے کہ عقلِ انسانی اس کو جہان کے متعلق کطھ بھی نہیں جاننا چاہئیے کیونکہ وہ اس کو منتہائے رسائی سے بھی بہت دور پرے ہے لیکن خدا کی بے انتہا مہربانی سے بعید تھا کہ انسان جو اس کی مخلوقات میں سب سے افضل ہے اس جہاں سے بالکل بے خبر رہے اور جس طرح اس نے اور چیزوں کو دوسرے خواص بخشے ہیں عقل انسانی کو نیک و بد کی تمیز عطا فرمائی کہ جاہل سے جاہل اور وحشی سے وحشی بھی بھلائی کی طرف راغب ہے نہ کسی دنیاوی مفاد کی طمع سے اور برائی سے ہارب ہے اور نہ کسی دنیاوی نقصان کے خوف سے بلکہ گویا انسان کا دل مقناطیسی سوئی اور نیکی شمال کی سمت ۔ بس اس جہان کے متعلق رسائی، معلومات، واقفیت جو کچھ سمجھو یہ انسانی فطرت ہے کہ آدمی بالطبع نیکی کو پسند اور بدی کو نا پسند کرتا ہے۔ پھر انسان کی عقل اپنی طرف سے کچھ کمی نہیں کرتی، بہتیرا زور مارتی ہے کہ وہاں کی حقیقت دریافت کروں مگر کچھ پتہ نہیں چلتا۔
حال عدم نہ کچھ کھلا گزرے ہے رفتگاں پہ کیا
کوئی حقیقت ان کی کہتا نہیں بری بھلی
نیکی بدی کی امتیاز کے ساتھ اس کو اتنی بات اور بھی سوجھتی ہے کہ انسان کے ہر ایک فعل کو ایک نتیجہ لازم ہے، اگرچہ بسا اوقات بعض افعال کے نتائج اسی دنیا میں واقع ہو جاتے ہیں مگر بعض کے نہیں بھی ہوتے اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاوی نتائج کے علاوہ طبیعتیں کسی اور نتیجے کی بھی منتظڑ رہتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جہان اور ہونا چاہیے اور اس کی ضرورت ہے۔ نہیں معلوم کیا سبب ہے کہ دل خودبخود اندر سے گواہی دیتا ہے کہ مرنے سے تو ہمارا پیچھا چھوٹتا ہوا نظر نہیں آتا، مرے پیچھے ہم کسی حالت میں رہیں مگر رہیں گے ضرور۔ بس یہاں تک عقل کی پرواز تمام ہوئی۔
اگر یک سر موئے برتر پرم فروغِ تجلی بسوزو پرم


ص 169

مگر اس سے تو کچھ بھی کشود کار نہ ہوا۔ دل جو اس جہان کے تفصیلی حالات کے مشتاق تھے بدستور جویا کے جویا رہے۔ اب دین کی سرحد سے آگے بڑھنا چاہتے ہو تو چراغ عقل گل کرو اور آفتاب جہاں تاب وحی کو اپنا ہادی اور راہنما قرار دو۔
اس بیان سے اگرچہ مختصر ہے، معلوم ہو جائے گا کہ امور دین میں عقل انسانی کو کہاں تک مدخل ہو سکتا ہے۔
ابن الوقت نے کچھ یہ تھوڑی غلطی نہیں کی کہ مذہب کو محکوم عقل بنانا چاہا پس اس کے مذہبی رفارم کی بسم اللہ ہی غلط تھی اور اس کو نہ صرف اسلام سے اختلاف تھا بلکہ تمام دنیا کے مذاہب سے۔ یہ سچ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں کے استعمال میں مجبور ہے اور نہیں ہو سکتا کہ وہ عقل رکھتا ہو اور اس سے کام نہ لے مگر ہمارا مطلب یہ ہے کہ جسمانی یا عقلی جتنی قوتیں ہیں سب کے استعمال میں اعتدال شرط ہے اور علم اخلاق کا ماحصل بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص عقل کو مذہب کی کسوٹی بنانا چاہے تو اس کو ارادے میں ویسی ہی کامیابی کی توقع رکھنی چاہئیے جیسے کہ وہ شخص رکھ سکتا ہے جو باصرہ سے سامعہ کا یا شامہ سے ذائقہ کا کام لینے کا قصد کرے۔ دین کی دولت طبیعت کی چالاکی، عقل کی تیزی اور ذہن کی رسائی سے ہاتھ آنے والی چیز نہیں، اس کے مستحق ہیں بھولے بھالے سیدھے سادے (اہل الجنتہ بلہ) ، منکسر ، منقاد، افسردہ، متواضع، خاکسار۔ ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ جو شخص دین کی باتوں میں عقل کو بہت دخل دیا کرتا ہے، شروع کرتا ہے جزئیات سے، فروغ سے، متشابہات سے اور آخر کو جا پہنچتا ہے کلیات میں، اصول میں، محکمات میں جیسا کہ ابن الوقت کو پیش آیا۔ پس جس شخص کی افتاد مزاج اس طرح ہو اس کو شروع سے احتیاط کرنی ضرور ہے، چاہیے کہ ایسے خدشات کو دور کر کے خدائے تعالیٰ جل شانہ کی عظمت، اس کی قدرت، اس کے جلال، دنیا کے انتظام، اس کے انقلابات اور کون و فساد میں فکر کیا کرے، امید ہے کہ اس کی طبیعت سنبھل جائے گی۔
 
Top