فصل شانزدھم
ابن الوقت کا انگریزی طرز سے متاذّی ہونا
الغرض ابن الوقت کی نسبت لوگوں کے پاس اس قسم کے خیالات تھے۔ہندوستانی سوسائٹی میں نہ استثناء محدودے چند جنہوں نے اس کی وضع کی تقلید کر لی تھی ، کوئی اس کو پسند نہیں کرتا تھا۔ انگریزوں میں اعلٰی درجے کی انگریز وہ بھی سب نہیں ، البتہ اس کے خیالات کی قدو وقعت کرتے تھے۔ بہرکیف اس کے مخالف بہت تھے اور یہ بات خود ابن الوقت کو بھی معلوم تھی اور یہ خیال اس کو اکثر رنجیدہ رکھتا تھا۔ اس کے اپنے بی بی بچے تو سب غدر سے پہلے کےمرکھپ چکے تھے اور یہ بے تعلقی اگر باعث نہیں ہوئی تو اس کی آزادی میں موید تو ضرور ہوئی۔ تاہم وہ بھائی ، بھتیجوں اور دوسرے رشتہ داروں کی مفارقت کے خیال سے بھی متاذی ہوتا تھا۔ رشتہ دار تو رشتہ دار اس کو ہندوستانی سوسائٹی کے چھوٹ جانے کا بھی افسوس تھا اور ہم نے بتحقیق سنا ہے کہ اس نے بارہا اپنے رازداروں سے کہا کہ میرے یہاں کے کھانے کی ساری چھاؤنی میں تعریف ہے مگر میرا یہ حال ہے کہ انگریزی کھانا کھاتے ہوئے اتنی مدت ہوئی ، سچ تو یہ ہے کہ ایک دن مجھے سیری نہیں ہوئی میں اکثر خواب میں اپنے تئیں ہندوستانی کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔
ابن الوقت کے خاص خدمت گار کی زبانی معتبر روایت ہے کہ ایک بار اس کو سخت تپ لاحق ہوئی اور عادت کے موافق لگا بہکنے تو وہ ہندوستانی کھانوں کے نام لے لے کر روتا تھا اور کھانے بھی پلاؤ ، زردہ ، متنجن ، بریانی نہیں بلکہ مونگ کی دال کا بھرتا ، دھوئی ماش کی پھر ہری دال ، قلمی بڑے کباب ، امرودوں کےکچالو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چٹپٹی چیزوں کو ترس گیا۔
معلوم ہے کہ ابن الوقت ابتدائے تبدیل وضع سے گھر بار چھوڑ کر باہر چھاؤنی میں جارہا تھا۔ اس کے پاس اتنے نوکر چاکر تھے کہ اس کی کوٹھی کا احاطہ بجائے خود ایک چھوٹا سا محلّہ تھا لیکن اس کی زندگی ویسی ہی اداس زندگی تھی جیسی ایک بیچلر کی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ وہ نوکروں کے حق میں بڑا سیر چشم آقا تھا۔ اس کے یہاں نوکروں کی ایسی بھاری تنخواہیں تھیں کہ دلی کی اتنی بڑی چھاؤنی میں بس دو چار ہی جگہ اور ہوں گی ، اس لیے کہ اس کے تمام نوکر سلیقہ مند اور مستعد تھے اور حقیقت بات ہے کہ انہیں نوکروں نے انگریزی سوسائٹی میں اس کی اتنی بات بھی بنا رکھی تھی۔ مگر نوکر کیسے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں پھر بھی مالک کی تائید کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ انگریزی زندگی ایسے بکھیڑے کی زندگی تھی کہ ابن الوقت کی جتنا وقت کچہری اور ملاقات سے بچتا تھا ، صفائی کی نگرانی اور ہر چیز کی خبر گیری کے لیے بمشکل وفا کرتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس کے نوکر انگریزی مذاق سے خوب واقف تھے مگر ابن الوقت سے خود صبر نہیں ہوسکتا تھا اور وہ اپنی طرف سے ایسی خراش تراش ایجاد کرنے لگا تھا کہ خواہی نہ خواہی اس کو دیکھنا پڑتا تھا۔
دعوت ایسے مزے کی چیز ہے کہ کھلانے والا اور کھانے والا دونوں ہی خوش ہوتے ہیں مگر ابن الوقت کے یہاں کی دعوت اس کے حق میں ایک مصیبت ہوتی تھی۔ کھانا تو کہیں جاکر رات کو نو دس بجے نصیب ہوتا اور اہتمام کی آندھی صبح سویرے سے چلنی شروع ہوجاتی تھی۔ ہم کو تو کوئی دعوت ایسی یاد نہیں کہ ابن الوقت تکان کی وجہ سے اس کے بعد علیل نہ ہوا ہو۔ پھر چھٹے چھ ماہے دعوت ہو تو خیر ، یہاں ہر مہینے کچھ نہ ہوتو بڑے کھانے دو تین۔ بلکہ بعض اوقات تو ابن الوقت گھبرا کر بول بھی اٹھا تھا کہ یہ میں نے کہاں کا کھڑاگ اپنے پیچھے لگا لیا ہے۔
یہ تو میزبانی کی لذتیں تھیں ، مہمانی کے ذائقے ان سے بھی زیادہ تلخ۔ اگر اسٹیشن