خرم شہزاد خرم
لائبریرین
میں نے زین بھائی کا کام کر دیا ہے ان کی طرف نیٹ کا مسئلہ ہے
درخت بالخاصہ افراطِ بارش کے سبب ہوتے ہیں اور جنگلی علاقوں میں بارش کا بہ کثرت ہونا اس کا شاہد ہے۔ پھر زمینداروں کو تشخیص جمع میں ایسا دھر کر کسا ہے کہ گاؤں کا سارا رقبہ ہر سال جوتا بویا نہ جائے تو سرکاری جمع گھر سے بھرنی پڑے۔ پس زمیندار بہ مجبوری زمین کو مطلق دم نہیں لینے دیتے۔ ان کا بس چلے تو یک فصلی زمین سے دو اور دو فصلی سے چار فصلیں پیدا کریں۔ یوں زمین نے دم اور کمزور اور اس کی قوت پیداوار گھٹتی چلی جاتی ہے جس کو عوام بے برکتی سے تعبیر کرتے ہیں۔
لوگ انگریز عملداری کی نسبت ایسا بھی خیال کرتے ہیں کہ اس عملداری میں بے ایمانی بہت پھیلتی جاتی ہے۔ لوگوں اگلی سی راست معاملگی نہیں رہی۔ نیتوں میں فساد، دلوں میں دغا، باتوں میں جھوٹ، جس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ بات بات میں لوگ ایک دوسرے سے لڑپڑتے ہیں۔ جس عدالت میں جا کر دیکھو مقدمات کی یہ کثرت ہے کہ حاکم کو سر کھجانے تک کی فرصت نہیں اور جہاں ایک دفعہ عدالت جھانکی اور جھگڑا سریش کی طرح چمٹا۔ اول تو ایک کے اوپر ایک عدالتیں ہی اتنی ساری ہیں کہ ان شیرے کے کھیتوں میں سے نکلنا مشکل ۔ دوسرے، وکیل مختار ایسے جھانسے دیتے ہیں کہ کیسا ہی سیانا آدمی کیوں نہ ہو، ان کے دھوکے میں آہی جاتا ہے۔ پھر عدالت کے انصاف کی نسبت لوگوں کی عام رائے ہے کہ جو جیتا، وہ ہارا اور جو ہارا، سو مرا۔ اور فی الواقع عدالتوں کی کاروائیاں اس قدر الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ سٹامپ اور طلبانوں اور مختانوں اور شکرانوں کے خرچوں کے مارے فریقین ادھڑ جاتے ہیں یعنی عدالت میں مقدمہ جیتنے کے معنے یہ ہیں کہ جائداد متنازعہ فیہ نذر خرچ، عدالت۔ حقیقت میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب قاعدے قانون نسداد فساد کی غرض سے جاری کیے جاتے ہیں اور نتائج کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے گویا قانون باعثِ فساد ہے۔
میرے ایک دوست ایک ہندوستانی ریاست میں نوکر ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیوں صاحب آپ کے یہاں عدالتوں کا چنداں اہتمام معلوم نہیں ہوتا اور قانون بھی آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں منضبط نہیں، پھر لوگ کیا کرتے ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اول تو ہماری رعایا اس قدر جھگڑالو نہیں۔ کسی بات میں اختلاف ہوا بھی تو اکثر آپس میں رفع دفع کر لیتے ہیں اور جو شاذنادر ہم تک فریاد لائے تو ذرا سی کوشش میں ایک دوسرے کے حلف پر حصر کر دیتے ہیں یا پنچایت پر راضی ہوجاتے ہیں۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ وہاں کے لوگ جھوٹ کم بولتے ہیں اوربڑے شدومد کے ساتھ کہتے تھے کہ میں پندرہ برس سے ایک بڑے علاقے کا عامل ہوں اور صدہا مقدمے میےر ہاتھ تلے آئے، آج تک میرے کان میں یہ بھنک نہیں پڑی کہ کسی نے جھوٹا حلف اٹھایا۔
اگر عدالت کو لوگوں کے اخلاف کی کسوٹ نہ سمجھا جائے تو میں ایک دوسری دلیل پیش کرتا ہوں شراب خودی کی کثرت۔ جوشخص اس چیز کو مذہباَ ممنوع سمجھے اور وہ اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال کرے تو مجھ کو اس پر طعن کرنے کا کوئی ھق نہیں اور مجھ کو اس پر طعن کرنا منظور بھی نہیں۔ میں اس موقع پر اتنا ہی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ آیا تمول کے اعتبار سے ہندوستانیوں کے ایسی حالت ہے کہ ان کو شراب خوار بننے دیا جائے، جس سےآخر کار جواری، فضول خرچ، کاہل، عیاش چور، ڈاکو، اور انواع و اقسام کے امراض حبیث میں مبتلا ہو کر ایسی مصیبت مندانہ زندگی بسر کریں کہ عذاب ہوں اپنے ھق میں اور سوسائٹی کے حق میں۔ یہ ہرگز اصول نہیں ہونا چاہئے کسی عاقل گورنمنٹ کا جو عقل کے علاوہ ایک پاکیزہ مذہب کا فخر بھی رکھتی ہے۔ اگرگورنمنٹ ایسی بری چیز کی جس کو ہمارے سچے پیغمبر ؑ نے اور آپ کے نزدیک عرب کے بڑے رفار مرنے بواجب ام الخبائث کہا ہے اور ہر ایک زمانے کے عقلاء نے اس کی برائی اور ڈاکٹروں نے اس کے نقصانات پر اجماع کیا ہے، بندی نہیں بلکہ روک کر سکتی ہے تو گورنمنٹ بہ تقاضائے مصلحت ملکی کیوں اپنا سارا زور سختی کے ساتھ اس کے روکنے میں صرف نہ کرے۔
اب مجھ کو آپ صاحبوں کی سامعہ خراشی کرتے ہوئے بہت دیر ہوگئی اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں نے نوبل صاحب کی لذیذ ضیافت کو توبےمزہ نہیں کردیا۔ بات جاپڑی اسباب غدر میں اور یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اگر ہر روز اسی طرح کہا کروں تو کہیں ہفتوں میں جا کر ختم ہو تو ہو۔ تاہم میں نے اجمالی طور پر جس قدر بیان کیا اس سے اتنی بات تو غالب ہے، آپ صاحبوں پر ثابت ہوگئی ہوگی کہ انگریزی