اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
زین

IbW-0055.gif
میں نے زین بھائی کا کام کر دیا ہے ان کی طرف نیٹ کا مسئلہ ہے


درخت بالخاصہ افراطِ بارش کے سبب ہوتے ہیں اور جنگلی علاقوں میں بارش کا بہ کثرت ہونا اس کا شاہد ہے۔ پھر زمینداروں کو تشخیص جمع میں ایسا دھر کر کسا ہے کہ گاؤں کا سارا رقبہ ہر سال جوتا بویا نہ جائے تو سرکاری جمع گھر سے بھرنی پڑے۔ پس زمیندار بہ مجبوری زمین کو مطلق دم نہیں لینے دیتے۔ ان کا بس چلے تو یک فصلی زمین سے دو اور دو فصلی سے چار فصلیں پیدا کریں۔ یوں زمین نے دم اور کمزور اور اس کی قوت پیداوار گھٹتی چلی جاتی ہے جس کو عوام بے برکتی سے تعبیر کرتے ہیں۔​
لوگ انگریز عملداری کی نسبت ایسا بھی خیال کرتے ہیں کہ اس عملداری میں بے ایمانی بہت پھیلتی جاتی ہے۔ لوگوں اگلی سی راست معاملگی نہیں رہی۔ نیتوں میں فساد، دلوں میں دغا، باتوں میں جھوٹ، جس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ بات بات میں لوگ ایک دوسرے سے لڑپڑتے ہیں۔ جس عدالت میں جا کر دیکھو مقدمات کی یہ کثرت ہے کہ حاکم کو سر کھجانے تک کی فرصت نہیں اور جہاں ایک دفعہ عدالت جھانکی اور جھگڑا سریش کی طرح چمٹا۔ اول تو ایک کے اوپر ایک عدالتیں ہی اتنی ساری ہیں کہ ان شیرے کے کھیتوں میں سے نکلنا مشکل ۔ دوسرے، وکیل مختار ایسے جھانسے دیتے ہیں کہ کیسا ہی سیانا آدمی کیوں نہ ہو، ان کے دھوکے میں آہی جاتا ہے۔ پھر عدالت کے انصاف کی نسبت لوگوں کی عام رائے ہے کہ جو جیتا، وہ ہارا اور جو ہارا، سو مرا۔ اور فی الواقع عدالتوں کی کاروائیاں اس قدر الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ سٹامپ اور طلبانوں اور مختانوں اور شکرانوں کے خرچوں کے مارے فریقین ادھڑ جاتے ہیں یعنی عدالت میں مقدمہ جیتنے کے معنے یہ ہیں کہ جائداد متنازعہ فیہ نذر خرچ، عدالت۔ حقیقت میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب قاعدے قانون نسداد فساد کی غرض سے جاری کیے جاتے ہیں اور نتائج کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے گویا قانون باعثِ فساد ہے۔​
میرے ایک دوست ایک ہندوستانی ریاست میں نوکر ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیوں صاحب آپ کے یہاں عدالتوں کا چنداں اہتمام معلوم نہیں ہوتا اور قانون بھی آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں منضبط نہیں، پھر لوگ کیا کرتے ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اول تو ہماری رعایا اس قدر جھگڑالو نہیں۔ کسی بات میں اختلاف ہوا بھی تو اکثر آپس میں رفع دفع کر لیتے ہیں اور جو شاذنادر ہم تک فریاد لائے تو ذرا سی کوشش میں ایک دوسرے کے حلف پر حصر کر دیتے ہیں یا پنچایت پر راضی ہوجاتے ہیں۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ وہاں کے لوگ جھوٹ کم بولتے ہیں اوربڑے شدومد کے ساتھ کہتے تھے کہ میں پندرہ برس سے ایک بڑے علاقے کا عامل ہوں اور صدہا مقدمے میےر ہاتھ تلے آئے، آج تک میرے کان میں یہ بھنک نہیں پڑی کہ کسی نے جھوٹا حلف اٹھایا۔​
اگر عدالت کو لوگوں کے اخلاف کی کسوٹ نہ سمجھا جائے تو میں ایک دوسری دلیل پیش کرتا ہوں شراب خودی کی کثرت۔ جوشخص اس چیز کو مذہباَ ممنوع سمجھے اور وہ اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال کرے تو مجھ کو اس پر طعن کرنے کا کوئی ھق نہیں اور مجھ کو اس پر طعن کرنا منظور بھی نہیں۔ میں اس موقع پر اتنا ہی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ آیا تمول کے اعتبار سے ہندوستانیوں کے ایسی حالت ہے کہ ان کو شراب خوار بننے دیا جائے، جس سےآخر کار جواری، فضول خرچ، کاہل، عیاش چور، ڈاکو، اور انواع و اقسام کے امراض حبیث میں مبتلا ہو کر ایسی مصیبت مندانہ زندگی بسر کریں کہ عذاب ہوں اپنے ھق میں اور سوسائٹی کے حق میں۔ یہ ہرگز اصول نہیں ہونا چاہئے کسی عاقل گورنمنٹ کا جو عقل کے علاوہ ایک پاکیزہ مذہب کا فخر بھی رکھتی ہے۔ اگرگورنمنٹ ایسی بری چیز کی جس کو ہمارے سچے پیغمبر ؑ نے اور آپ کے نزدیک عرب کے بڑے رفار مرنے بواجب ام الخبائث کہا ہے اور ہر ایک زمانے کے عقلاء نے اس کی برائی اور ڈاکٹروں نے اس کے نقصانات پر اجماع کیا ہے، بندی نہیں بلکہ روک کر سکتی ہے تو گورنمنٹ بہ تقاضائے مصلحت ملکی کیوں اپنا سارا زور سختی کے ساتھ اس کے روکنے میں صرف نہ کرے۔​
اب مجھ کو آپ صاحبوں کی سامعہ خراشی کرتے ہوئے بہت دیر ہوگئی اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں نے نوبل صاحب کی لذیذ ضیافت کو توبےمزہ نہیں کردیا۔ بات جاپڑی اسباب غدر میں اور یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اگر ہر روز اسی طرح کہا کروں تو کہیں ہفتوں میں جا کر ختم ہو تو ہو۔ تاہم میں نے اجمالی طور پر جس قدر بیان کیا اس سے اتنی بات تو غالب ہے، آپ صاحبوں پر ثابت ہوگئی ہوگی کہ انگریزی​
 

فرحت کیانی

لائبریرین

ص 142
کثرت ہیں۔ انگریزی کا شوق بھی برسرِ ترقی ہے اور شکر ہے کہ اگلی سی وحشت اور نفرت کا کہیں پتا نہیں۔ صرف مسلمانوں کو احمقانہ تعصب کی وجہ سے رکاوٹ ہے، وہ بھی عارضی، چند روزہ۔ مگر اس تعلیم سے ملک کو فائدے کے عوض الٹا نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ صرف نوکری کی طمع سے لوگ پڑھتے ہیں ، نوکری ہی ان کے نزدیک پڑھنے کی غرض و غایت ہے، نوکری ہی کے لیے ان کو تیار بھی کیا جاتا ہے اور ان کا مبلغ علم بھی وہیں تک ہے۔ مجھ کو حقیقت میں سخت حیرت ہے کہ اتنی نوکریاں کہاں سے آئیں گی۔ میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ انگریزی عملداری میں لکھنے پڑھنے کی اس قدر کثرت کچھ اس وجہ سے بھی ہے کہ سرکاری نوکری بلا امتیاز شریف و رذیل ہر ایک کو حاصل ہو سکتی ہے اور یہی سبب ہے کہ کمینوں میں علم کا رواج زیادہ ہوتا جاتا ہے، شریفوں کو تنزل ہے، رذیلوں کو بحالی ہے۔ عموماً شریف اقوام کے لوگ غریب ہیں، اخراجات
تعلیم کے برداشت نہیں کر سکتے اور کچھ ایسے بھی شریف ہیں جن کو خدا نے دیا ہوا ہے ، وہ بڑی سے بڑی تعلیم پر خرچ کر سکتے ہیں۔ ان کی اولاد کو ایسی شیطان نے انگلی دکھائی ہے کہ خود پڑھنا بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
پس اگر سچ پوچھئے تو سر رشتہ تعلیم سے جیسا کہ اب ہے، ملک کا الٹا علاج ہو رہا ہے۔ ہم کو درکار تھے وہ علوم جو صنعت اور حرفت کو ترقی دیں اور اب لوگوں کو ایسی پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ موروثی اور آبائی پیشوں اور حرفوں سے گریز اور نفرف کرتے ہیں بلکہ انھوں نے اسی عار سے بچنے کے لیے پڑھنا اختیار کیا تھا۔
اب مجھ کو صرف تجارت پیشہ لوگوں کی نسبت کچھ کہنا چاہئے، سو میں اس کو مانتا ہوں کہ انگریزی عملداری میں اس پیشے کے لوگوں کو کسی طرح کی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔ امن میں کسی طرح کا تزلزل نہیں، مال کی آمدوشُد میں یوماً فیوماً سہولت زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے، عدالت کی کاروائی لائق اطمینان ہے، تاجر کو اور چاہئے کیا؟ مگر تجارت کو چاہئے سرمایہ اور سرمائے ہی کا تو بڑا رونا ہے۔ بس یہ پیشہ ایک محدود پیشہ ہے جس کو ہندوستان میں صرف معدودے چند اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک۔ دوسرے، حرفے اور صنعت کا کساد عین تجارت کا کساد ہے اور یہ میں ابھی تھوڑی دیر ہوئی ثابت کر چکا ہوں کہ ہمارے ملک کی صنعت پر اوس پڑتی چلی جاتی ہے، پس اسی

ص 143
نسبت سے تجارت میں بھی کمی ہے۔ سچ پوچھئے تو ساری تجارت اہلِ یورپ کی مٹھی میں ہے اور میں ہندوستانیوں کو تاجر نہیں بلکہ تاجروں کا دلال سمجھتا ہوں۔ ولایت سے مال منگواتے ہیں ، اس کے طفیل میں روپے پیچھے دھیلا دمڑی آپ بھی جھاڑ کھاتے ہیں۔
اس وقت تک میں نے رعایائے ہندوستان کو چار بڑے پیشوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کی خستہ حالی کو اپنے پندار میں دلائلِ عقلی سے ثابت کیا۔ اب میں، بہت نہیں، گنتی کی چند عام باتیں بیان کروں گا جو بلا تخصیص کسی پیشے کے عام ہندوستانیوں پر موثر ہیں اور ان میں کم و پیش ہندوستانیوں کے افلاس کا دخل ہے۔
ہندوستان کے لوگ عادتا سادگی اور کفایت شعاری سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی ضرورتوں کو اس قدر محدود کر رکھا ہے کہ ان کو بہت سا
سازوسامان درکار نہیں۔ ان کے پاس اگر روپیہ ہو تو کھانے پینے کے ضروری مصارف کے بعد اس کا ریور اپنی عورتوں کو گھڑوا دیتے ہیں یا یوں کہو کہ اس کو اس پیرائے میں جمع رکھتے ہیں۔ تو جس قوم میں عموما سادگی اور کفایت شعاری کا دستور متوارث ہو، اس کے اکثر افراد کو علیٰ قدر مراتب سرمایہ دار ہونا چاہئے اور انگریزی عملداری سے پہلے ہم میں اکثر لوگ خوش حال تھے بھی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اَدنیٰ اور اعلیٰ سب کے خرچ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کے چند در چند اسباب ہیں۔ اول یہ کہ تکلف اور آرائش اور نمود و نمائش کی نئی نئی چیزیں ولایت سے آ کر رواج پاتی ہیں اور زندگی کے لیے جدید ضرورتیں پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ خرچ کے لیے اس کثرت سئ موجبات ترغیب جمع ہو گئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں کہ انسان کیسا ہی جز رس کیوں نہ ہو ہاتھ کو نہیں روک سکتا۔ مثلا جہاں کہیں ریل جاری ہے، آمدوشد میں ریل کی وجہ سے اس قدر سہولت ہو گئی ہے کہ لوگ کبھی گھر سے باہر نکلنے کا نام نہیں لیتے تھے، اب ذرا ذرا سی ضرورتوں پر چل کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر ریل میں چلنا ٹھہرا تو کپڑوں کی گٹھری کو کون سنبھالتا پھرے۔ سب سے بھلا بیگ میں کپڑے اور ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں بھر، اوپر سے قفل لگا، مزے سے ہاتھ میں لٹکا لیا۔ پھر سفر کا نام سفر، دور جانا ہو یا نزدیک، آخر روپیہ پیسہ بھی
 

زلفی شاہ

لائبریرین
صفحہ 150,151
مجھ کو ہونا چاہیے کیونکہ مجھ کو خود مسلمان ہونے کا فخر حاصل ہے۔میں بہت وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذہب اسلام میں کوئی بات ایسی نہیں جس کی وجہ سے گورنمنٹ مسلمانوں کی طرف سے نا مطمئن ہو۔
ہمارے پیغمبر صاحب کی زندگی کی عمر سے آدھی سے زیادہ مغلوبی کی حالت میں گذری جبکہ قریش مکہ صرف مذہبی مخالفت کیوجہ سے ان کو ان کے رفقاء کو جو ان پر ایمان لائے تھے، طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے اور فقط اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایک خدا کو مانتے اور بت پرستی کی مذمت کرتے تھے، ان کو کعبے کے معبد گاہ عالم میں آنے سے روکتے تھے، ان کو اپنے طور پر خدا کی عبادت نہ کرنے دیتے،ان کے ساتھ لین دین تک موقوف کر دیا تھا اور موقع پاتے تو ان پر دست درازیاں کرتے۔ اس حالت میں جو مسلسل گیارہ برس رہی،پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے معتقدین کو برابر یہی تاکید تھی کہ خدا کی راہ میں دنیوی تکلیفات کو بہ امید فلاح عاقبت صبر کے ساتھ برداشت کرو اور مذہب اسلام تھا کہ ان مزاحمتوں اور مصیبتوں میں اپنی صداقت کی وجہ سے چپکے چپکے ترقی کرتا رہاتھا۔ مسلمانوں نے ان تکلیفات سے عاجز آ کر دو بار ترک وطن بھی کیا جس کو ہجرت کہتے ہیں۔ پھر بھی لوگوں نے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ اس اثنا میں مسلمانوں کا گروہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ اپنی حفاظت کر سکتے تھے۔دوسری ہجرت کے دوسرے برس بدر کی مشہور لڑائی ہوئی جس سے اسلام کے غلبے کی ابتدا ہوئی۔جزیرہ عرب میں مسلمانوں کی بہت سی فتوحات ہوئیں جن میں سب سے مشہور اور حقیقت میں جس نے تمام جزیرہ عرب کو بت پرستی سے پاک کر دیا، فتح مکہ تھی۔ میں نے تاریخ میں صدہا فتح مند بادشاہوں اور جنرلوں کا بلادِ مفتوح میں داخل ہونا پڑھا ہے۔ آگے آگے قتل اور پیچھے پیچھےلوٹ مار۔ اور ایک فتح مند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکے میں داخل ہونا تھا جہاں کے لوگوں نے ان کے ساتھ ایذادہی اور بے حرمتی کو کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبے میں تشریف رکھتے تھے اور شہرِ مکہ میں امن عام کی منادی ہو رہی تھی۔
غرض یہ کہ اسلام فی نفسہ ایسا عمدہ مذہب ہے کہ ادنیٰ درجے کی مغلوبیت اور اعلی مرتبے کا غلبہ دونوں حالتوں میں اس کے پیرو صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ مانا کہ انگریزی عملداری میں اسلام کو غلبہ نہیں مگر وہ اتنا مغلوب بھی نہیں جیسا ہجرت سےپہلے مکہ میں تھا۔بدون سلطنت کے جس قدر مذہبی آزادی ممکن ہے، مسلمانوں کوانگریزی عملداری میں پوری پوری حاصل ہے۔ بلکہ خود مسلمانوں کی عملداری میں بھی آزادی کا یہ رنگ نہیں۔ پس من حیث المذہب کوئی مسلمان کسی فرقے اور عقیدے کا کیوں نہ ہو، انگریزی عملداری کا شاکی ہو نہیں سکتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہندوستان مسلمان ہندوؤں کی دیکھا دیکھی کھانے میں، پینے میں،پہننے میں، نشست و برخاست میں چھوت بہت ماننے لگے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کا تنزل کا جو کچھ سبب ہو، ہندوستان کے مسلمانوں پر ہندوؤں کے اختلاط نے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ ہندوؤں میں رہ کر یہ بھی انہیں کی طرح شکی ،ڈرپوک، پست حوصلہ، گھر گھسنے، آرام طلب ہو گئے ۔ مسلمانوں کا یہ عیب کہ انگریزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اس وجہ سے انگریزی عملداری کے بہت سے فائدوں سے محروم ہیں اور یومآفیومآمفلس اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں اور گورنمنٹ کو اپنی طرف سے بدظن رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کی اتنی ہندویت تو انشاءاللہ میں دفع کر دوں گا۔ مسلمانوں کا مذہب جدید العہد ہے اور ابھی اس کی اصلیت دوسرے مذہبوں کی طرح معدوم نہیں ہوئی، پس مجھ کو اپنی کوشش میں ہر طرح کی کامیابی کی امید ہے۔
میں جانتا ہوں نصیحت کا بڑا مؤثر پیرایہ نمونے کا دکھا دینا ہے، سو میں نے یہ باتیں منہ سے نہیں نکالیں جب تک کہ میں نے خود اس وضع کو اختیار نہیں کر لیا۔ جس کو میں چاہتا ہوں کہ سبب مسلمان اختیار کریں۔ میں نے آپ سب صاحبوں کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھایا اور آپ کے رو برو میں انگریزی لباس پہنے کھڑا ہوں اور میں یقینآویسا ہی مسلمان ہوں جیسا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ خود مسلمان جن کے مفاد کے لئے میں نے یہ وضع اختیار کی ہے، چھیڑ چھیڑ کر اور ہنس ہنس کر میری زندگی تنگ کر دیں گے مگر ان کی چھیڑ چھاڑ جیسی نا چیز ہو گی ویسی ہی بے ثبات بھی ہو گی۔ تقاضائے وقت اور تعلیم دو میرے بڑے مددگار ہیں اور ان کی تائید سے مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ بہت جلد ایک گروہ میری وضع کی تقلید کرے گا۔ اب میں تقریر کو طوالت کی معذرت پر ختم کرتا ہوں۔
 

ساجد

محفلین
زمیندار تو اس وجہ سے گرے کہ ان کو گورنمنٹ نے قصداً گرایا۔رہ گئے عام کاشتکار،وہ سدا سے اس بات کے خوگر تھے کہ زمیندار ان کو انگلی پکڑا کر لے چلے تو آگے کو پاؤں اٹھائیں۔ اب زمیندار تو ہوا دست کش،ان میں کھڑے رہنے کا بوتا نہیں! یہ بھی گرے اور ایسی بری طرح گرے کہ سرکار نے ان کو اپنے پندار میں گڑھے میں پڑا ہوا دیکھ کر باہر نکالا۔ یہ جو لڑکھڑائے،دھڑام سے کوئیں میں۔ زمیندار ان کو دباتے بھی تھے،ستاتے بھی تھے مگر یہ بھی نہیں دیکھ سکتے تھے کہ بگڑ جائیں،اجڑ جائیں۔ اب ان کو پالا پڑا بنیوں سے،ساہو کاروں سے ، مہاجنوں سے ،جن کا دھرم ہے کہ ان تلوں کو پیلئے جہاں تک پیلا جائے اور پھر ان کی کھلی کو سانی والوں کے ہاتھ بیچ کر کوڑے سیدھے کیجئے۔ اب کاشتکاروں کا کیا حال ہے کہ ہزار میں شاید دو چار بچے ہوں تو خبر نہیں ، ورنہ سب کے سب گویا مہاجنوں کے مزدور ہیں۔ اتنا نہیں کہ کسی کے گھر سے وقت پر بیج نکل آئے۔ کھیت میں ہزار نعمتیں کیوں نہ پیدا ہوں، ان کی اور ان کی بال بچوں کی تقدیر کا سانوان ، کودوں، جو بنی اسرائیل کے من و سلوٰی کی طرح ستو باندھ کر پیچھے پڑا ہے ، کیا مجال کہ کبھی ناغہ ہو لے۔ ایک دفعہ مہاجن کو چھو جانا شرط ہے۔ غرض جتنے کسان پیشہ ہیں۔ کیا زمیندار۔کیا کاشت کار،سب تباہ اور خستہ حال ہیں۔ چونکہ سرکاری مال گزاری وقتِ مقررہ پر وصول ہو جاتی ہے، سرکار سمجھتی ہے کہ انتظامِ مال گزاری اچھا ہے، زمیندار و کاشت کار مقدور والے ہیں۔
رعایا کا اصلی حال سرکار پر منکشف ہو بھی تو کیوں کر ہو۔ جو شخص ایسی فریاد کو سرکار کے کان تک پہنچا سکتا ہے، ہو نہ ہو یورپین ہی حاکمِ ضلع ہو۔ ہندوستانی حاکموں میں سے نہ تو کسی کو ایسی وقعت اور نہ کسی میں اتنی جرات،رہا حاکمِ ضلع ،وہ حتی الوسع سوتی بھڑوں کو کیوں جگانے لگا؟ اگر وہی مجوز جمع بھی ہے تو پہلے اس کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ضرور ہو گا اور معمولی حالتوں میں انسان سے ایسی توقع فضول ہے اور وہ مجوز جمع نہ بھی ہو تا ہم محصل تو چار و ناچار ضرور ہو گا۔ وہ جوش اظہارِ کار گزاری میں وصول جمع کو ملتوی یا موقوف نہیں کر سکتا اور پھر تخفیفِ جمع کی کی تحریک کرنا بیٹھے بٹھائے ایک جواب دہی کا مول لینا ہے۔ گورنمنٹ ایسے مین میکھ نکالتی ہے (اور اس کا حق بھی ہے) کہ اس کا رضا مند کرنا ایک مصیبت ہے۔ یہ ہے خلاصہ ہمارے انتظامِ مالگزاری کا جو کم سے کم دو ثلث رعایا پر موثر ہے۔
اہل حرفہ کی کیفیت کسانوں سے کہیں بدتر ہے۔ یہ سچ ہے کہ گورنمنٹ اس کے حال سے کم تر تعرض کرتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ نہیں کرتی، مگر یورپ کی کلوں نے ان کو مار پٹڑا کر دیا۔ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے عمدہ اور یافت کے پیشے معدوم ہو گئے اور ہوتے چلے جاتے ہیں۔اب کہاں ہیں وہ ڈھاکے کے ململ ، بنارس کے مشروع ، اورنگ آباد کے کمخواب ،بیدر کے برتن ، کالپی کے کاغذ ، کشمیر کی شالیں ، لاہور کے ریشمی ڈور ،۔ اہل یورپ کیا اس پر بند ہیں کہ جس چیز کی مانگ ہنداستان سے ہوئی ، بنائی بھیج دی؟ نہیں وہ لوگ دن رات اس ٹوہ میں لگے ہیں کہ ہنداستان میں کیا کیا چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان کے کس مصرف کی ہے اور اس ملک کے لوگوں کو کیا درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان سے ہر طرح کی پیداوار ولایت ڈھلی چلی جاتی ہے۔ کچھ تو یورپ میں کھپی اور کچھ ہندوستانیوں کے مصرف کی بن کر الٹی آ گئی۔ ہندوستانی اہلِ حرفہ تھکے تو یوں تھکے کہ یہ جو کچھ کریں اپنے ہاتھ پاؤں سے اور انسان کی قوت کا اندازہ معلوم ہے، آٹھ پہر میں آخر وہ دم بھی لے گا، آسائش بھی کرے گا اور وہاں یورپ میں کلیں ہیں کہ سارے سارے دن، ساری ساری رات، برابر ، بے تکان چل رہی ہیں۔ ہندوستانیوں میں کلوں کا ایجاد کرنا تو کجا ابھی تو کلوں سے کام لینے کے سلیقے کو بھی عمریں چاہئیں۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوستان کے اہل حرفہ کی تباہی خود انہی کی نادانی کی وجہ سے ہے مگر ہندوستانی اس درجے کے جاہل اور کاہل ہیں کہ ان میں اپنی حالت کے درست کرنے کی گدگدی خدا نے پیدا ہی نہیں کی۔ یہ تو گورنمنٹ سے چاہتے ہیں لاد دو ، لدا دو ، لادنے والا ساتھ دو، یورپ کی تمام تر ترقی کا اصلی اور حقیقی سبب علوم جدید ہیں اور اس زمانے میں وہی تعلیم مفید ہو سکتی ہے جس سے یہاں کے لوگ ان علوم سے آگہی بہم پہنچائیں اور ان کی طبیعتوں میں اس بات کا شوق پیدا ہو کر واقعات کو سوچیں اور موجودات پر غور کریں۔ سو سر رشتہ تعلیم کا اتنا اثر تو ضرور دیکھنے میں آتا ہے کہ لکھنے پڑھنے کا چرچا پہلے سے بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ جن لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا دستور نہ تھا ، وہ بھی اپنے بچوں کو پڑھانے لگے ہیں بلکہ اس قسم کے لوگ بہ
-------------------------------
قیصرانی بھائی کے حکم پر کمپوز کیا کہ وہ اور فہیم بھائی دیگر امور میں مصروف ہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 154​
غدر تو اس شخص کو پھلا ہے، کسی بچے کی تو نکسیر تک نہیں پھوٹی، ایک پیسے کے مال کا نقصان نہیں ہوا۔ گوڑ گانوے کے ضلع میں کسی بیچارے زمیندار کا کئی ہزار کا علاقہ اسی غدر کی علت میں ضبط ہوا تھا، وہ ملا، ڈپٹی کی نوکری پائی! ایک خیر خواہی میں تو اتنی ساری کرامت نہ تھی۔​
چوتھا: مگر ہوا بڑا غضب! ایسا خاندانی آدمی کرسٹان ہو جائے، عالم فاضل۔ اسلام کی بڑی بے عزتی ہوئی۔​
دوسرا: اسلام کو خدا نے عزت دی ہے اور انشاء اللہ تا قیامت معزز رہے گا اور علم فضل کی کچھ نہ پوچھو، شیطان معلم الملکوت تھا یعنی تمام فرشتوں کا استاد، پھر وہ علم اس کے کیا کام آیا؟​
ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں جہاں دیکھو ابن الوقت ہی کا چرچا تھا۔ عوام نے تو ایک بات پکڑ پائی تھی: " کرسٹان ہو گیا کرسٹان ہو گیا۔" ان کے نزدیک انگریزوں کے ساتھ کھانا بلکہ انگریزوں کی طرح میز کرسی پر چھری کانٹے سے کھانا انگریزی لباس پہننا، سب کرسٹان ہونے ہی میں داخل تھا۔ ہندوستانی اخبار والوں کو مضمون کہاں نصیب، ان کو ایک اچھا مشغلہ ہاتھ لگا۔ ابن الوقت نے اگر شہر کا رہنا چھوڑ نہ دیا ہوتا تو لڑکوں کا اس کے پیچھے ہرو پیٹ دینا بھی کچھ تعجب نہ تھا مگر شہر کے باہر چھاؤنی میں اتنی دور جاتا ہی کون تھا اور پھر انگریزوں کے ڈر کے مارے کسی کی ایسی جرات تھی مگر ہاں کچہری میں ہر روز سو پچاس آدمی اس کو انگریزی لباس پہنے، انگریزوں کے ساتھ ٹفن کھاتے، چرٹ پیتے دیکھتے ہی تھے۔​
شامت تو اگر سچ پوچھو ابن الوقت کے گھر والوں کی تھی کہ ناحق لوگ ان کو آ آ کر چھیڑتے تھے اور یہ بیچارے ابن الوقت کے کارن مفت میں نکو بن رہے تھے۔​
قاعدہ ہے کہ جب کسی قوم پر اوبار آتا ہے تو اس کے حرکات، سکنات، معاملات، خیالات، معتقدات سبھی میں روایت آ جاتی ہے، کیا خوب کہا ہے ع: ہرچہ گیرو علتی علت شود،۔ مسلمانوں کو خدا نے کیسا تو عمدہ مذہب دیا تھا کہ اسی کی بدولت عرب کے وحشی، اونٹوں کے چرانے والے، اس قدر تھوڑے عرصے میں جس کی نظیر ساری دنیا کی تاریخ میں مفقود ہے، گویا تمام روئے زمین کے بادشاہ ہو گئے۔ پھر وہ مذہب سہل و​
صفحہ 155​
سلیس ہونے کے علاوہ نظرغور سے دیکھو تو اختیاری نہیں بلکہ فطری یعنی بہ عبارت دیگر اضطراری لازمہ انسانیت کہ کسی حال میں انسان سے منفک ہو ہی نہیں سکتا۔ پیغمبر ؐ اسلام کا خاتم النبین اوعر مرسل الی کافتہ الناس ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ دائرہ اسلام بہت وسیع ہے او رپیغمبرؐ صاحب کو کثیر الاتباع ہونے پر ناز بھی تھا۔غرض ایک مسلمان تو قرون اولیٰ کے مسلمان تھے جن کی تمام ہمت گروہ مسلمانان میں مصروف تھی یا ایک مسلمان ہمارے زمانے کے مولوی ہیں کہ بات بات پر لوگوں کو کافر یعنی اسلام سے خارج ٹھہرا دیتے ہیں۔​
ابن الوقت تو ان کے نرا کافر ہی نہیں بلکہ مجموعہ کفار تھا۔ حنفی، شافعی، سنی، شیعہ، وہابی، بدعتی، مسلمانوں کے جتنے فرقے ہندوستان میں ہیں سب کے علماء نے قرآن کی آیتوں سے، حدیثوں سے سند پکڑ پکڑ کر بالا جماع ابن الوقت کے کفر کے فتوے لکھ دیے۔ ایک فتویٰ تو خود ہماری نظر سے گزرا، فتویٰ کا ہے کو تھا، اچھا خاصا اقلیدس کا پہلا مقالہ معلوم ہوتا تھا، کیوں کہ مربع، مستطیل، بیضوی سب شکلوں کی تو مہریں ا س میں تھیں اور پھر بعضے کف دست کے برابر چوڑے چکلے طغرے، کیسے کیسے پیچیدہ کہ ہمایوں کی بھول بھلیاں کی کیا اصل ہے۔ دلی کا فتویٰ اور دلی ہی کے علماء کی مہریں اور پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کی مہر ہے۔ آخر نہ رہا گیا، پوچھنا ہی پڑا، کیوں صاحب یہ خادم الشریعت الغراء والملتہ البیضاء المحمدیہ الحافظ الحاج الشیخ ابو الفضائل محمد الشہیر بمعین الدین الحنفی القادری الا ریسی الماز ندرانی ثم البخاری کون بزرگ ہیں؟​
صاحب فتویٰ: آپ نے نہیں پہچانا! مولوی مونا جو موچیوں کی مسجد میں جمعے کے جمعے وعظ کہا کرتے ہیں۔​
ہم: بارے مولوی مونا صاحب کی مہر بھی فتووں پر ہونے لگی۔​
صاحب فتویٰ: اجی حضرت! اگر ان کی مہر نہ کراؤ تو وعظ میں نام لے لے کر ایسی بے نقط سناتے ہیں کہ معاذاللہ مگر بیچارے ہیں صلح کل، اختلافی مسائل میں دونوں طرف والے مہر کرا لے جاتے ہیں ، انکار نہیں۔​
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین

ص۔160، 162​
فصل سیزدھم​
انگریزی وضع کے ساتھ اسلام کا نبھنا مشکل ہے​
مذہب نام ہے انسان کے خاص طرح کے دل خیالات کا اور اس لفافے کو خدا نے ایسی مضبوطی کے ساتھ بند کیا ہے کہ ایک کے ضمائر پر دوسرا شخص کسی ڈھب سے مطلع ہو ہی نہیں سکتا۔ علاوہ بریں مذہب ایک معاملہ ہے بندے میں اور خدا میں اور کسی شخص کو یہ حق نہیں اور ضرورت بھی نہیں کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل دے۔ ان اصول کی بنا پر ہم کو ابن الوقت کے مذہب سے متعرض ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر از بس کہ وہ مسلمسان کی دنیا و دین دونوں کی اصلاح کا مدعی تھا ہم کو چار و ناچار دیکھنا پڑا کہ اس کے مذہبی خیالات کیا تھے۔ ہم ان لوگوں سے سنی ہوئی کہتے ہیں جن کو ابن الوقت کے ساتھ رات دن کی نشست برخواست، ہمسائیگی اور قرابت قریبہ کے تعلقات تھے کہ اٹھارہ بیس برس کی عمر تک ابن الوقت کا یہ رنگ رہا کہ جیسے بڑے عابد متشرع مسلمان ہوتے ہیں: وہ نوافل اور مستجبات کا اس قدر اہتمام رکھتا تھا کہ ایسا اہتمام فرض واجب کا خدا ہم کو نصیب کرے، پانچوں وقت جامع مسجد کی اول جماعت کی تکبیر تحریمہ ناغہ نہیں ہونے پاتی تھی اور تہجد اور اشراق کے علاوہ تحیتہ المسجد، صلواۃ التسبیح منزل فیل، دلائل الخیرات، حزب البحر اور خدا جاتے اور کتنے اور وظائف، جمعے کے دن کبھی اس کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہے تو پہر دن چڑھے سے نماز جمعہ کی تیاری ہو رہی ہے، ایام بیض کے روزے داخل معمولات تھے، پھر مدت تک ترک حیوانات اور چلہ کشی وغیرہ مذہبی ریاضتوں کی زحمت اٹھاتا رہا۔ انہیں دنوں لوگ خیال کرتے تھے کہ شاید وہ شاہ حقانی صاحب سے بیعت کرنے والا ہے۔​
پھر ایک زمانے میں اس کو ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں کی طرف میلان رہا، پھر جو سنبھلا تو اہل حدیث میں جا شامل ہوا جن کو لوگ تغتاً وہابی کہتے ہیں۔ غدر سے چند روز پہلے وہ پادریوں کا ایسا گرویدہ تھا کہ بس کچھ پوچھو ہی نہیں۔ نوبل صاحب کی صحبت میں اس کے مذہبی خیالات نے دوسرا رنگ پکڑا، یہاں تک کہ انگریزوں میں جا ملا۔​
اس سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے مذہبی خیالات میں ایک طرح کا تزلزل ضرور تھا مگر تبدیل وضع تک ضروریات دین میں اس کمی سرزد نہیں ہوئی بلکہ تبدیل وضع کے بعد بھی لوگوں نے اس کو مسجد میں جماعت سے نہیں، بارہا اکیلے نماز پڑھتے دیکھا، یہاں تک کہ شروع شروع میں جن دنوں اس کو نماز روزے کی بہت پرچول تھی، کچہری کے عملے، ہندو مسلمان، سب قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ کیسے کام میں مصروف ہوں، اویر سویر کی تو کہ نہیں جاتی مگر نماز ابھی تک تو چھوڑی نہیں، ہم تو ہر روز پرائیویٹ روم میں ظہر کی بلکہ جس دن دیر تک کچہری رہتی ہے، عصر کی بھی نماز پڑھتے دیکھتے ہیں۔​
لیکن انگریزی وضع کے ساتھ نماز روزے کا نبھنا ذرا مشکل تھا، کوٹ تو خیر اتار الگ کھونٹی پر لٹکا دیا، کم بخت پتلون کی بری مصیبت تھی کہ کسی طرح بیٹھنے کا حکم ہی نہیں، اتارنا اور پھر پہننا بھی وقت سے خالی تھا، اس سے کہیں زیادہ دقت طہارت کی تھی جو نماز کی شرط ضروری ہے۔ پھر اکثر اتفاق پیش آ جاتا تھا کہ ابن الوقت اپنے پرائیویٹ روم میں نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی صاحب اس کی کچہری میں آ نکلے اور اجلاس خالی دیکھ کر واپس چلے گئے یا نماز کا وقت ہے اور انگریزوں نے آ گھیرا ہے، ان کو چھوڑ کر جا نہیں سکتے یا کوئی صاحب کچہری برخاست کر کے جانے لگا تو ابن الوقت کے پاس سے ہو کر نکلا "کیوں مسٹر ابن الوقت! ہوا خوری کو چلتے ہو یا چلو ذرا انٹا کھیلیں۔" یہ اور اس طرح کے دوسرے اتفاقات ہر روز پیش آتے تھے اور نماز کا التزام ممکن نہ تھا کہ باقی رہ سکے۔ ایک بڑی قباحت یہ تھی کہ اکثر انگریز مطلق پابندی مذہب کو حمق اور​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 152

فصل دو از دھم
ابن الوقت کا منصوبہ اور لوگوں کی مخالفت
دنیا میں شاید قوم کی رفارم (اصلاح) سے زیادہ مشکل کوئی اور کام نہیں ہو سکتا، سو بھی یہاں پوری پوری رفارم کا کیا مذکور ہے، پوری رفارم تو وہ تھی جس کا بیڑہ ہمارے پیغمبر (ص) صاحب نے اٹھایا تھا، مبعوث ہوئے عرب میں جس اے بدتر اس وقت روئے زمین پر کوئی قوم نہ تھی۔ اس رفارم کے مقابلے میں کیا بے چارہ ابن الوقت اور کیا اس کی رفارم، وہی مِثل ہے "کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا"۔ اس کی اتنی ہی بساط تھی کہ اُس کو آپ سوجھی اور نوبل صاحب نے بھی سجھائی کہ انگریزی عملداری میں مسلمان بگڑتے چلے جاتے ہیں، یہ تھا ایک واقعۂ بدیہی۔ سبب کی تفتیش کی تو معلوم ہوا انگریزی عملداری میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر، رعیت ہو کر بادشاہ سے نفرت، محکوم رہ کر حکام سے گریز۔
یہاں تک ابن الوقت کی رائے نہایت درست تھی۔ اب اس نے قومی ہمدردی اور سرکاری خیر خواہی کے تقاضے سے چاہا کہ مسلمانوں کی وحشت اور اجنبیت کو دور کر کے حاکم و محکوم میں ارتباط و اختلاط پیدا کر دوں، بس یہ ہے خلاصہ ابن الوقت کی رفارم کا۔ اس نے سوچا کہ معاملہ ہے قوی اور ضعیف اور غالب و مغلوب میں، قوی و غالب پر تو اثر کیا ڈال سکوں گا، "نزلہ بر عضوِ ضعیف" مسلمانوں کو ترغیب دو کہ

ص 153
مماثلت سے، مشابہت سے، انگریزی سیکھنے سے، انگریزی تمدن اختیار کرنے سے، غرض جس جس دھب سے ممکن ہو، انگریزوں کی طرف کو جھکیں۔ ابن الوقت کے حالات مابعد سے ظاہر ہو جائے گا کہ تدبیر جو اس نے اختیار کی غلط تھی یا صحیح اور کہاں تک اس کو اپنے ارادے میں کامیابی ہوئی؟
ہم اس کو ابن الوقت کی کامیابی کی تمہید سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے اس نے آپ وہ طرز اختیار کر لی جس کو وہ رواج دینا چاہتا تھا۔ اس نے غدر کے دنوں میں نوبل صاحب کی جان بچانے سے سرکار انگریز کی خیر خواہی کی اور سرکار نے بھی اس خیر خواہی کا بدلہ دینے میں ایسی جلدی کی کہ برس کے اندر ہی اندر ابن الوقت جاگیردار بھی ہو گیا، ایک دم سے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بھی ہو گیا۔ اب اس نے قوم کی خیر خواہی کا دم بھرا اور رفارمر بنا تو رفارمروں کو جو انعام ہمیشہ سے ملتا آیا ہے اس کے لیے بھی تیار یعنی اگلے ہی دن سارے شہر میں غل تھا کہ ابن الوقت کرسٹان ہو گیا، انگریزوں کے ساتھ کھانا کھایا، انہیں کی طرح کپڑے پہنے۔ افواہ کا قاعدہ ہے کہ لوگوں کے منہ بات پڑی اور ایک ایک کی چار ہوئیں، کوئی یہ بھی کہہ دیتا تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اُن انگریزوں کے ساتھ گرجا میں دیکھا، آخر کو نماز ہی کو گئے ہوں گے۔
دوسرا: ارے میاں تم مسلمان ہو کر کہتے ہو' "گئے ہوں گے" توبہ کرو توبہ!
تیسرا: کیوں جی! پہلے سے تو ہم نے کوئی بات دیکھی کیا سنی بھی نہ تھی، یہ ایک دم سے ہوا تو کیا ہو۔
دوسرا: کیا خوب! یک نہ شد دو شد، تم شہر میں رہتے ہو اور اتنا معلوم نہیں (آگے کو جھک کر دبی زبان میں) کہ اس نے غدر میں انگریز کو چھپایا تھا۔
تیسرا: چھپایا تھا تو چھپانے دو اور بھی بہتیروں نے خیرخواہیاں کیں، مخبر بنے، لوگوں کے گڑے دبے مال نکلوائے، آپ کھڑے ہو کر گواہیاں دیں، پھانسیاں دلوائیں، خیر خواہی سے اور کرسٹان ہونے سے کیا تعلق؟
دورسرا: میاں بات یہ ہے کہ دنیا کا لالچ بہت برا ہوتا ہے اور دنیا بھی ایسی کہ بس
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
156​
ہندوستانیوں کی یہ چھیڑ چھاڑ جو اکثر گالیوں کے قیرب قریب ہوتی تھی، ابن الوقت کو بری تو کیوں لگتی نہ ہوگی مگر ظاہر میں تو اس نے کبھی اس کا اعتنا کیا نہیں، ہمشہ استکراہ کے ساتھ دوسرے کان سے نکال دیا۔ اگر ابن الوقت ایک دم سے کرسٹان ہوگیا ہوتا تو لوگ ایسے اس کے پیچھے نہ پڑتے۔ اس کے عزیز و قریب رو دھو کر اور ماوشما بک جھک کر کبھی چپ کرتے پر کرتے، مگر مشکل یہ تھی کہ ابن الوقت کا ظاہر حال بالکل انگریزیوں کا سا تھا اورپھر وہ کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں، اس کی اسی بات سے مسلمان چڑتے تھے۔​
نوبل صاحب کے ڈنر میں ملکی فوجی جتنے انگریز اس وقت دہلی میں تھے، سبھی تو موجود تھے۔ سب نے ابن الوقت کو دیکھا، حرف بہ حرف اس کی تقریر کو سنا۔ چند روز بعد ابن الوقت نے ساری چھاؤنی کو بڑا کھانا دیا۔ اس میں سب تو نہیں مگر جس جس سے نوبل صاحب کو زیادہ ربط تھا، چاروناچار آیا اور دوچار صاحب لوگ اور بھی آئے۔ بے تکلفی ہوتے ہی ہوتے ہوتی ہے، ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا کہ صاحب سلامت کے بعد ہی تپاک شروع ہوجائے اور یہاں تو رکاوٹ کی بہت سی وجوہ تھیں، اول تو بالکل ایک نئی بات تھی، شروع عملداری سے آج تک ان اطراف میں کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کسی ہندوستانی نے انگریزی وضع اختیار کرکے برابری کے دعوے سے انگریزی سوسائٹی میں گھسنے کا ارادہ کیا ہو۔ راجہ، بابو ، نواب، بڑے بڑے عہدہ دار انگریزوں سے ملنے کی سبھی کو ضرورت واقع ہوتی تہتی تھی مگر اپنے ہندوستانی قاعدے سے ملتے تھے: سر پر پگٹری، شملہ، عمامہ، گلے میں قبا، چغہ۔ جاڑا ہوا تو اوپر سے شالی رومال، اندر کمر بندھی ہوئی، اتوار اور کچہری کا وقت بچا کر سویرے سے جا موجود ہوئے، سواری کو احاطے کے باہر چھوڑا ، چپڑاسی سے اطلاع کرائی، منتظر طلب برآمدے میں بیٹھے، بلالیے گئے، جوتیاں دروازے کے باہر اتاریں، سامنا ہوا، درو سے جھک کر سلام کیا، آہستہ سے مختصر طور پر مطلب کی دو باتیں کیں، رخصت چاہی، صاحب کا سامنا کتراتے ہوئے باہر نکلے، اردلیوں، شاگردپیشوں کا معمول دیا اور گھر کا راستہ لیا۔​
ابن الوقت نے ملاقات کا ایک نرالا ڈھنگ نکالا کہ جب تک کوئی دوست معرفت نہ کرادے وہ کسی انگریز سے ملتا ہی نہ تھا اور ملتا بھی تو کسی طرح کہ گوڑا ہے تو گھوڑا اور بگھی ہے تو بگھی ادھر بر آمدے میں اردلی دور سے گھوڑے کی ٹاپ سن کارڈ کے لیے منتظر کھڑا ہے، چند قدم استقبال کر، کارڈ لے بھاگا ہوا اندر گیا۔ آگے آگے اردلی، پیچھے پیچھے ابن الوقت، بیس بسوئے تو صاحب خانہ سے برامدے میں مٹھ بھیٹر ہوئی ورنہ خیر عین کمرے کے درازے میں، اور اگر صاحب خانہ اس میں مضایقہ کریں تو ابن الوقت سوار ہو یہ جا وہ جا۔ پھر ادب قاعدے کی تو خبر نہیں، آنکھیں چار ہوتے ہی ایک ساتھ دونوں کے منہ سے نکلا "گڈ مارننگ، ہو ڈو یو ڈو" ایک ساتھ ہاتھ بڑھائے، مصافحہ ہوا، دونوں اندر داخل۔ معلوم نہیں کیا باتیں ہوئیں مگر زور سے ہنسنے کی آواز تو برابر چلی آتی تھی۔​
غرض ابن الوقت نے انگریزیوں کے ساتھ برتاؤ ہی اس طرح کا شروع کیا کہ اکثر انگریز اس کے ملنے سے پہلو تہی سی کرتے تھے۔ پھر ابن الوقت میں زبان انگریزی کی بھی کوتاہی تھی، علاوہ بریں اس کا تعلق انگریزوں کے ساتھ بالکل جدید تھا۔ ان وجوہ سے اس کو انگریزوں نے اپنی سوسائیٹ میں لیا تو سہی مگر کشادہ دلی کے ساتھ نہیں۔ تاہم اس کا تعارف انگریزوں کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا تھا اور ہندوستانی بھائیوں کے حسد کے مشتعل کرنے کو تنا کافی تھا۔ یہی و ہ مخالفت تھی جو تمام عمر ابن الوقت کو طرح طرح کی ایذائیں دیتی اور اس کے اصل مطلب میں کھنڈت کرتی رہی۔ انگریزوں کو رشک و حسد کی کوئی وجہ نہ تھی مگر ان میں بھی اکثر بہ زعم حکومت ابن الوقت کے سخت مخالف تھے۔ اس میں شک نہیں نوبل صاحب اس کے پورے طرف دار تھے، وہ شریف تھے، معزز عہدہدار تھے، انگریزوں میں ان کی بڑی وقعت تھی ، ان کی کارگزاری اور لیاقت گورنمنٹ کے نزدیک مسلم تھی اور سب سمجھتے تکہ ایک نہ ایک دن ان کو کوئی بڑا کام ہونے والا ہے مگر آخر تھے تو ایک متنفس، ان کی مدد سے سردست اتنا بھی کیا کم تھا کہ تمول اور تعزز نے اعتبار سے ابن الوقت کو حکام وقت سے ملنے کا حوصلہ ہوا اور انگریزوں کے ساتھ جو کچھ معرفت ہوئی وہ بھی انہیں کی وجہ سے ہوئی۔ اگر نوبل صاحب کا قدم درمیان میں نہ ہوتا تو منہ سے رفارم کا نام نکالنا بھی مشکل تھا۔​
عرض بہ نظر ںاہر جتنے اتفاقات مساعد کا جمع ہونا ممکن تھا، سب مہیا تھے: نوبل صاحب جیسا عالی رتبہ انگریز مرلی اور سرپرست، خود ابن الوقت خیرخواہ سرکار، جاگیردار،​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 162​
سخافت سمجھتے تھے۔ غرض نماز پر تو انگریزی سوسائٹی کا اثر یہ دیکھا کہ پہلے، وقت سے بے وقت ہوئی، پھر نوافل، پھر سنن جا کر نرے فرض ہوئے، وہ بھی پانچوں وقت پہلی رکعت میں سورۃ عصر تو دوسری میں سورۃ کوثر، پھر جمع بین العصرین و المغربین شروع ہوا، پھر قضائے فائتہ پھر بالکل چٹ۔​
کھانے پینے میں احتیاط کے باقی رہنے کا کوئی محل ہی نہ تھا۔ابن الوقت کو انگریزوں کے پرچانے کی پڑی تھی اور وہ بے شراب کے پرچ نہیں سکتے تھے۔ ابن الوقت نے کون سی بات اٹھا رکھی تھی کہ وہ شراب خوری کے الزام سے ڈرتا مگر ہم کو تحقیق معلوم ہے کہ وہ شراب سے نہ بہ پاس مذہب اسلام محتزر تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ڈاکٹر نے ا س کو ڈرایا تھا کہ اگر تم شراب پیو گے تو کوڑھی ہو جاؤ گے۔ اس پر بھی بہت سے انگریزی کھانے ہیں کہ شراب ان کے مسالے میں داخل ہے، بہتری دوائیں ہیں کہ بدون شراب کے نہیں بن سکتیں بلکہ ان لوگوں کی طب میں شراب خود دوا ہے کثیر الاستعمال۔ انگریزی تمدن اختیار کرنا اور شراب سے پرہیز رکھنا ایسا ہے کہ کوئی شخص کوئلوں کی دوکان میں رہے اور منہ کالا نہ کرے۔ رہے انگریزی سوسائٹی کے بڑے معزز ممبر کتے، کیوں کر ممکن تھا کہ جان نثار جو ابن الوقت کی تبدیل وضع میں مشاطہ کا کام دے رہا تھا، انگریزیت کی شرط ضروری کو بھول جاتا۔ اس نے پہلے ہی سے ابن الوقت کے لیے کئی قسم کے کتے بہم پہنچا رکھے تھے، ان میں بعض ایسے بھی تھے کہ ہر وقت ہم زاد کی طرح ابن الوقت کے ساتھ لگے رہتے تھے۔​
غرض تبدیل وضع سے ایک ہی مہینے کے اندر اندر ظاہر اسلام کا کوئی اثر ابن الوقت اور اس کے متعلقات میں باقی نہ تھا۔ اگر کوئی انجان آدمی ابن الوقت کی کوٹھی میں جا کھڑا ہوتا، ہرگز نہ پہچان سکتا تھا کہ اس میں کوئی انگریز رہتا ہے یا ہندوستانی، بھلا آدمی جس کو انگریزی کے خبط نے گھر سے، خاندان سے، ابنائے جنس سے، شہر سے، چھڑا کر تن تنہا جنگل میں لا کر ڈال دیا ہے۔ کسی انسان سے کسی طرح کی غلطی ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں مگر یہ کہ خدا نے اس کو معصوم پیدا کیا ہو۔ ابن الوقت سے بھی ایک غلطی ہوئی کہ اس تبدیل وضع کو مفید سمجھا یہاں تک اس کی غلطی اس کے یا کسی دوسرے کے حق میں کوئی بڑی قباحت پیدا نہیں ہو سکتی تھی مگر آدمی تھا ذہین، کم بخت​
صفحہ 163​
لگا اپنے افعال کے جواز و استحسان کی تاویلیں گھڑنے۔ اول تو اصرار خلقتاً اس کے مزاج میں داخل تھا، دوسرے مسلمانوں نے جو اس کی تمام حرکات و سکنات کو ارتداد کہنا شروع کیا اس سے اس کی اور بھی بڑھتی گئی اور مسلمانوں کو تو خیر اس سے کوئی فائدہ پہنچا ہو یا نہ مگر باب تاویل مفتوح کرکے اس نے مذہب اسلام میں تو بڑا بھاری رخنہ ڈال دیا۔ انگریزی تعلیم کی گھوس عمارت مذہب کے پیچھے ایسی پنجے جھاڑ کر پڑی ہے کہ کھود کھود کر سارے مذہبوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیں حتٰی کہ عیسائیت کی بھی۔ اسلام کے حصے کی یہ دیمک اور بھی نکل پڑی، قید مذہب سے طبیعتیں تھیں ملول اونگتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ملا۔ کیا کریں دل تو ہمارا بھی للچاتا ہے کہ چلیں ابن الوقت کے ہاتھ پر بیعت کر لیں، او امرو نواہی کی کشمکش سے نجات ملے مگر کانشنس بھی چین لینے دے۔​
ابن الوقت اور اس کے سارے اتباع یا یوں کہو کہ جو اس کے ہم خیال تھے۔ عقل کے کھونٹے کے بل پر کودتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انگریزی خوان جو نری ٹوٹی پھوٹی انگریزی پڑھ لینے سے اپنے تئیں بڑا دانشمند سمجھنے لگے تھے جلد اس کے مغالطے میں آ جاتے تھے۔​
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 158
اکسٹرا اسٹنٹ' اپنے ہی شیر میں حاکم اور کام بھی بغاوت کی تحقیقات کہ ان دنوں کوئی حکومت اس کو لگا نہیں کھاتی تھی۔زمینداری اور نوکری ملا کر آمدنی ایسی معقول کہ جس کی ایک ٹانگ انگریزوں کی طرح ولایت میں پھنسی ہوئی نہ ہو' جس شان سے چاہے رہے'پھر جس وضع سے رہنا چاہتا تھا با اعتبار شکل و صورت اس کے قابل اور مناسب۔ با ایں ہمہ ابتدا سے جو مذا حمتیں پیش آنی شروع ہوئیں تو آخر تک بیچارے ابن الوقت کو دم نہ لینا دیا اور کوئی ہوتا توہجوم مخالفت سے گھبرا کر اس کام کو کبھی کا چھوڑ بیٹھا ہوتا مگر ابن الوقت پرلے درجے کا مستقل مزاج آدمی تھا' مشکلات کو دیکھ کر اور دلیر ہوتا'اور رنجیدہ ہوتا'افسوس کرتا'اس کو غصہ بھی آتا مگر کبھی ایک لمحہ کے لیئے بھی اس کو یہ خیال نہیں ہوا کہ جو وضع اختیار کی ہے اس کوچھوڑوںیا جس رفارم کا بیڑا چکا ہوں اس کے رواض دینے میں کوتاہی کروں۔
شروع میں مذہبی بحث ابن الوقت کے پروگرام سے بالکل خارج تھی مگر مسلمانوں نے چھوٹتے اس سے مذہبی چھیڑ نکالی جس سے ابن الوقت کو یہ خیال ہوا کہ مذہب ہی نے مسلمانوں کو بنیایا اور مذہب ہی ان کو بگاڑ رہا ہے' بے مذہب کے یہ ٹکڑا تو توڑتے ہی نہیں' تاوقتیکہ ان کے دین کی اصلاح نہ دنیاوی فلاح ہرگز نہیں ہوسکتی۔ یہ سمجھ کر اس نے یہ مجبوری مسائل دین میں دست اندازی شروع کی۔ یہ بحث اگر اسی حد تک رہتی جہاں تک ابن الوقت کو اپنی رفارم میں اسکی ضرورت تھی تو چنداں حرج نہ تھا مگر بحث کا نام آیا اور طرفین سے کٹھ حجتی شروع ہوئی۔ ہمارے ہندوستان ہی میں کوڑیوں مذہب ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے کا رد کرتے رہتے ہیں۔ہم نے تو دیکھا کیسا' سنا بھی نہیں کہ کوئی مذہب مناظرے میں مغلوب ہوکر معدوم ہوگیا ہو بلکہ اختلاف مذاہب ہے کہ یوماََ فیوماََ بڑھتا چلا جاتا ہے۔یوں تو سنتے تھے'کہ مسلمانوں میں ستر دو بہتر فرقے ہونگے مگر ہندوستان میں سنی'شیعہ'حنفی'شافعی'صوفی گنتیکے چند فرقے دکھائی دیتے تھے۔اب ہمارے دیکھتے دیکھتےایک سُنییوں میں وہابی'بدعتی'مقلد'دوالین'ذوالین کتنے سارے تنے نکل کھڑے ہو ئے اور یہ آفت اختلاف نہ صرف ہندوستان میں ہے اور نہ فقط مذہب میں بلکہ ہر ملک میں اور ہر بات میں۔
الغرض مذہب کے اعتبار سے ابن الوقت نے ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد بنا کھڑی
صفحہ 159
کی۔انگریزی تعلیم آزادی کے خیالات دلوں میں پیدا کرچکی تھی اور مطلق العانی کی دھن نے ہزار ہا آدمیوں کو بے چین کر رکھا تھا اور دلوں کی بھڑاس نکالنے کے لیے موقع تاک رہے تھے۔ایسے لوگوں نے ابن الوقت کی آڑ کو بس غنیمت سمجھا اور نئے طور کے مسلمانوں کا گروہ بہت جلد کثیر الانفار ہوگیا جیسے حشرات الارض کہ برسات کا چھینٹا پڑا اور لگے رینگنے۔ اگر تبدیلِ وضع اور ترمیمِ عقائد کے ساتھ موجبات ترغیب بھی ہوں تو ہم لوگوں میں کچھ ایسی بھیڑیا(کذا) چال ہے کہ آدھے سے زیادہ مسلمان نیا طریق اختیہار کرلیتے مگر ادھر تو بھائی بندوں نے لتاڑا ادھر انگریزوں نے بے رخی کی اور تبدیلِ حالت کسی کو سزاوار نہ ہوئی ان لوگوں کی وہی مثل ہوگئی" ازیں سو راندہ وزاں سو درماندہ" یعنی پیدا ہوتے ہی کچھ ایسی اوس پڑی کہ ٹھٹر کر رہ گئے۔
"
 

فہیم

لائبریرین

خراب ہورہی ہیں کہ ان کی حالت نہ صرف انہی کے حق میں خطرناک ہے بلکہ انگریزی طرز انتظام، انگریزی رعایا، سبھی کے حق اور جب تک ان ریاستوں کی پوری پوری اصلاح نہ ہو، انگریزی گورنمنٹ کو کبھی اپنے انتظام کی طرف سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ ان میں سے ایک ایک ریاست، اگر اس کے انتظام میں فساد ہے، انگریزی گورنمنٹ کا استخفاف کرتا ہو۔ اس بات کو پکارے کہتا ہوں کہ ہندوستانی رئیس ہندو ہو یا مسلمان آرام طلب ہوگا، کاہل ہوگا، احمق ہوگا، عیاش ہوگا، غافل ہوگا، مسرف ہوگا، خرچ آمد سے فاضل ہوگا، غرض اس میں سب طرح کے جنون ہوں گے مگر نہیں ہوگا تو ایک جنونِ بغاوت۔​
سرکار نے اپنی فوجی طاقت کو ہندوستان میں خصوصاً بعد غدر ایسے زور سے ثابت کردیا جیسے آگ نے جلانے کی خاصیت کو۔ پس ہندوستانی رئیسوں کی طرف ایسا خیال بالکل لغو اور محض بے اصل ہے لیکن جس چیز سے گورنمنٹ انگریزی کو ہندوستانی ریاستوں کی طرف سے میں ڈرانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اکثر ہندوستانی رئیس اپنے چند در چند نالائقیوں اور گوناگوں بدکرداریوں کی وجہ سے ایسی خرابیاں کررہے ہیں کہ اول تو خود انہی کی رعایائے نا مہذب و ناشائستہ سے انگریزی گورنمنٹ کو ہمیشہ خائف رہنا چاہیے، دوسرے ان ریاستوں کے برے نمونے دیکھ کر رعایائے انگریزی کی طبیعتیں بگڑی چلی جاتی ہیں۔ جسد سلطنت میں یہ ریاستیں گویا برص کے چٹھے ہیں، کیوں کر اطمینان ہوسکتا ہے کہ ان چٹھوں کا فساد دوسرے اعضائے صحیح تک متعدی نہیں ہوگا۔​
اگر میری تقریر سے ایسا مستنبط ہوا ہو کہ میں ان ریاستوں کے ضبط کرنے کی رائے رکھتا ہوں تو مجھ سے بڑھ کر قوم و ملک کا کوئی دشمن نہیں لیکن یہ میری رائے ضرور ہے کہ ان ریاستوں کا نامنتظم حالتوں میں رہنے دینا ویسا ہی ظلم ہے جیسا ان کا ضبط کرنا۔ جب تک انگریزی گورنمنٹ اپنے تئیں ان شکمی گورنمنٹوں کا مربی اور حامی اور محافظ سمجھتی ہے اور واقع میں وہ ہے بھی تو ان کی اصلاح کا فرض لازمی ہے۔ لیکن انگریزی گورنمںٹ نے اس فرض کے ادا کرنے میں کماحقہ اہتمام نہیں کیا۔ بے شبہ سرکار کی طرف سے ایجنٹ یا ریزیڈنٹ کے نام سے ایک عہدہ دار ہر ایک ہندوستانی ریاست پر مسلط ہے مگر اس کو ریاست کے اندرونی انتظام میں حکماً کچھ مداکلت نہیں۔ وہ انی ہی بات کی نگرانی رکھتا ہے کہ ریاست میں سرکار انگریزی کا رعب و داب اچھی طرح قائم رہے اور کوئی عام بد نظمی نہ ہو۔ گر ایک باپ کی اولاد کے ساتھ وہ کرے جو انگریزی گورنمنٹ نے ہندوستانی ریاستوں کے ساتھ اب تک کیا ہے تو ہم ایسے بات کی مدح نہیں کرستکے۔ جتنا اس نے کیا، اچھا کیا مگر اس کو اس سے بہت زیادہ کرنا چاہیے تھا۔ مہذب دنیا کی نظر میں انگریزی گورنممنٹ کبھی من حیث المجموع منتظم گورنمنٹ نہیں سمجھی جائے گی تاوقتیکہ اس کی تمام شکمی گورنمنٹیں اسی طرح منتظم نہ ہوں جیسے اس کا اپنا علاقہ۔ انگریزی گورنمنٹ کبھی بیرونی دشمنوں کے خدشے سے خالی نہیں رہتی اور اس کو خالی رہنا چاہیے بھی نہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ میں اس شکمی ہندوستانی ریاستوں کی طرف سے کبھی خدشہ کرتے ہوئے نہیں پاتا حالانکہ اگر یہ ریاستیں نا منتظم رہیں جیسی کہ اب ہیں تو یہ اندرونی دشمن بیرونی دشمن سے بہت زیادہ خطرناک ہیں۔​
اب میں آپ صاحبوں کو ایک دوسرے مطلب کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا کی قوموں میں نفرت اور عداوت کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر سے سے زیادہ شدید اختلاف مذہب ہے۔ خصوصاً ہندوستانیوں کے نزدیک ہندو اپنے مذہب کے ایسے سخت متعصب ہیں کہ کسی طرح دوسرے مذہب کے لوگوں سے ملنا نہیں چاہتے۔ جو لوگ دوسری قوم کا چھوا پانی نہ پی سکیں ان سے دوستی اور اتحاد کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کے باشندوں میں انگریزوں کے ساتھ ارتباط اور اختلاط کرنے والے اگر کچھ لوگ ہیں تو مسلمان ہیں کیونکہ سچا مذہب اسلام ایسے تعصبات سے بالکل بری ہے۔ صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی مقدس آسمانی کتاب یعنی قرآن اس سے ساکت ہے بری اس میں نصاریٰ کے ساتھ مواکلت اور مناکحت دونوں کی صاف و صریح اجازت موجود ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ مواکلت اور مناکحت سے بڑھ کر دوستی پیدا کرنے کا کوئی اور بھی ذریعہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حالت میں ہم اس​
 
Top