(ص۔190)
صاحب کلکٹر: اوہو ابن الوقت نے اس قدر اپنی شان بڑھا رکھی ہے۔
سر رشتہ دار: ان کے شاہانہ خرچ ہیں، ہندوستانیوں کا کیا مقدور ہے، صاحب لوگ بھی اس طرح بے دریغ نہیں خرچ کر سکتے۔ ایک ہمارے جنٹ صاحب ہیں، ڈپٹی صاحب سے چوگنی تنخواہ پاتے ہیں، دو گھوڑوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتے۔ ایک گھوڑا میم صاحب کی سواری میں رہتا ہے۔ ان کی اپنی سواری کا گھوڑا کچھ بیمار ہو گیا تھا تو اس گرمی میں پیدل کچہری آتے تھے۔
صاحب کلکٹر: کیا ابن الوقت صاحب گھر کے بڑے امیر ہیں؟
سر رشتہ دار: ان کا خاندان تو مسلمانوں کے پادریوں کا خاندان ہے، یہ اپنی ذات سے ایک بیگم کے مختار تھے۔ بیگم صاحب قلعے کے باہر کشمیری دروازے رہتی تھی، غدر ہوا تو حکم دیا کہ تمام مال و اسباب قلعے پہنچوا دو۔ اہتمام کرنے والے ہمارے ڈپٹی صاحب۔ سنا ہے کہ کچھ کاٹھ کباڑ تو قلعہ پہنچا، باقی انہوں نے سب یہاں اپنے ہاں ڈھلوا منگوایا۔ اتنے میں بیگم صاحب مر گئی، سارا اثاثہ جہاں کا تہاں رہ گیا۔
صاحب کلکٹر: اگر ایسا ہوا تو بڑی نمک حرامی کی بات ہے اور میں کبھی خیال نہیں کر سکتا کہ ایسے شخص نے سچے دل سے نوبل صاحب کی جان بچائی ہو گی۔
سر رشتہ دار: صاحب بہادر کی قسمت اچھی تھی کہ سرکار کی طرف کی کوئی لڑائی نہیں بگڑی ورنہ مسلمان کسی دوسرے مذہب کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتے۔ انگریز تو خیر بھلا نئے آئے ہوئے ہیں، ہم ہندوؤں کو ان کے ساتھ رہتے ہوئے سینکڑوں برس ہر گئے اور اب ان کا بس چلے تو ایک ہندو کو زندہ نہ چھوڑیں۔
صاحب کلکٹر: اگر واقع میں نوبل صاحب کی جان کو نیک ارادے سے بچایا تو اس کا یہ صلہ کچھ کم نہیں تھا کہ سرکار نے ان کی اور ان کے خاندان کی جان بخشی کی اور ان کے گھروں کو لٹنے نہیں دیا یا خیر! زمینداری تک کا بھی مضائقہ نہیں لیکن ایسے شخص کو حکومت کا ایک عہدہ دینا میرے نزدیک شاید بالکل خلافت مصلحت ہو۔ کیوں سر رشتہ دار! لوگ کیا خیال کرتے ہیں؟
سر رشتہ دار: ڈپٹی کلکٹری تو ان سے ایک دن نہ چلتی مگر نوبل صاحب بہادر کی
(صفحہ 191)
پرورش سے سارے کام سدھ گئے اب ذرا مشکل پڑے گی، عملہ ناراض، اہل معاملہ شاکی
صاحب کلکٹر: لوگوں کی نا رضا مندی کا اصل سبب کیا ہے؟
سر رشتہ دار: عملے تو سخت گیری اور بد زبانی سے ناراض ہیں اور کام بھی وقت پر نہیں نکلتا۔ اہل معاملہ دیر کی وجہ سے نالاں ہیں مہینوں لوگ پڑے جھولتے ہیں، تب بہ مشکل چھٹکارا ملتا ہے۔
صاحب کلکٹر: معلوم ہوتا ہے کہ ابن الوقت صاحب کھیل تماشے میں بہت لگے رہتے ہیں۔
سر رشتہ دار: یہ بھی ہے اور لوگ کچھ اور بھی کہتے ہیں۔ یہاں سے جو کوئی کبھی کاغذ طلب کیا گیا تو اکثر یہی جواب آیا کہ ڈپٹی صاحب کے نج پر ہے، ابھی حکم اخیر شاملِ مثل نہیں ہوا۔
صاحب کلکٹر: اب ڈپٹی صاحب کے شاہانہ خرچ کے لئے کسی آمدنی کا تلاش کرنا ضروری نہیں، انہوں نے بہت کچھ کما لیا ہو گا۔
سر رشتہ دار: اگر کمایا ہے تو پھر اتنا کمایا ہے کہ اس سے چہار چند خرچ بھی رکھیں تو اُن کو کسی طرح کی کمی نہیں۔
صاحب کلکٹر: تعجب ہے کہ کوئی نالش کیوں نہیں دائر ہوئی!
سر رشتہ دار: نوبل صاحب کے ڈر سے کسی نے دم نہیں مارا۔ اب دیکھا چاہیے، ڈپٹی صاحب بھی متردو تو معلوم ہوتے ہیں۔
صاحب کلکٹر: خیر، اب کام کا کیسا انتظار کرنا ہو گا۔
سر رشتہ دار: فدوی کے نزدیک تو مناسب یہ ہے کہ ڈپٹی صاحب کو تو صرف مثلوں کی تکمیل پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ بھی بڑا بھاری کام ہے اور باقی ماندہ مقدمات کو حضور اپنے اجلاس میں منتقل فرما لیں یا کسی حاکم ماتحت کو دے دیں۔ منشی رام سیوک صاحب کی اجلاس میں بھی کام کی کمی ہے۔ حضور کو معلوم ہے کہ منشی صاحب کیسے