(ص۔236)
تھا اس وقت دلی جانا نہیں ہوا۔ اب تو سیدھا دلی جاؤں گا اور غالب ہے کہ رخصت بھر وہیں رہنا ہو گا۔ ان شاء اللہ دسویں پندرھویں عریضہ خدمت میں بھیجتا رہوں گا۔
صاحب کلکٹر: نہیں معلوم ان دنوں دلی میں حاکم کون ہے؟
حجتہ الاسلام: شارپ صاحب نامی کوئی صاحب ہیں۔
صاحب کلکٹر: ولیم تھیاڈور شارپ؟
حجتہ الاسلام: ڈبلیو۔ ٹی۔ تو ان کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے، وہی ہوں گے۔
صاحب کلکٹر: وہ تو ڈیرہ اسماعیل خاں کی طرف تھے؟
حجتہ الاسلام: کہیں اسی طرف سی بدل کر آئے بھی ہیں۔
صاحب کلکٹر: اگر ولیم تھیاڈور صاحب ہیں تو میرے رشتے دار ہیں۔ میری خالہ ذاد بہن ان کو بیاہی ہوئی ہے مگر میم صاحب ان دنوں ولایت میں ہیں۔ اگر آپ صاحب سے ملنا چاہیں تو میں ان کے نام خط لکھ دوں؟
حجتہ الاسلام: میں صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ اول تو ہمارے شہر کے حاکم، دوسرے آپ کے رشتے دار۔
صاحب کلکٹر نے شارپ صاحب کے نام چٹھی اور اپنی تصویر حجتہ الاسلام کو دی کہ چٹھی کیساتھ یہ تصویر بھی صاحب کو دیجئے گا۔ چٹھی میں حجتہ الاسلام کے متعلق یہ مضمون تھا کہ میں اس علاقے کے تمام ڈپٹی کلکٹروں میں ان کو دل سے پسند کرتا ہوں۔ اس طرف تمام سرکاری محکموں میں چھڑا بنگالی بابو ہیں، گویا سرکاری خدمتوں کے ٹھیکہ دار ہیں۔ مجھ کو اس قوم سے دلی نفرت ہے۔ انگریزی پڑھ کر یہ لوگ ایسے زبان دراز اور گستاخ اور بے ادب اور شوخ ہو گئے ہیں کہ سرکاری انتظام پر بڑی سختی کے ساتھ نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔ اگر کہیں ان لوگوں میں ہندوستان کے بلند حصے کے باشندوں کی طرح دلی جرأت اور دلیری بھی ہوتی تو انہوں نے انگریزی حکومت کا جوا اپنی گردنوں پر سے کبھی کا اتار کر پھینک دیا ہوتا مگر شکر ہے کہ ان کی ساری بہادری زبانی ہے۔ تاہم ان کا بڑبڑانا سخت ناگوار ہوتا ہے اور میں ہمیشہ افسوس کیا کرتا ہوں کہ میں نے ایسے خودسر نا احسان مند اور بد دل علاقے کو کیوں اختیار کیا تھا۔
(ص۔237)
حجتہ الاسلام کی وضع کے آدمی یہاں بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اپنی پرانی وضع کو بہت مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں اور اس کو دل سے پسند کرتے ہیں اور بندر کی طرح نقل کرنے کو ذلیل کام جانتے ہیں اور میں ان کو اس رائے کی وجہ سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ غدر کے دنوں میں یہ عرب میں تھے نہایت بے باکی کے ساتھ جو ہر ایک سچے مسلمان میں ہوتی ہے، غدر کی نسبت اپنی یہ رائے ظاہر کیا کرتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی نے مسلمانوں کی بڑی دل شکنی کی۔ اس نے ہندو مسلمانوں کو ایک نگاہ سے دیکھا اور دونوں قوموں کی حالتوں کے اختلاف پر نظر نہ کی۔ وہ کیا عمدہ ایک مثال دیتے ہیں کہ حکومت یعنی سلطنت بمنزلہ ماں کے دودھ کے ہے، مسلمان بجائے اس بچے کے ہیں جس کا دودھ حال میں چھڑایا گیا۔ اس کو دودھ کا مزہ بہ خوبی یاد ہے اور وہ اس کے لیے پھڑکتا ہے۔ مسلمان کے مقابلے میں ہندو ایسے ہیں جیسے دو ڈھائی برس کے بچے کے آگے سو برس کا بڈھا۔ اس نے بھی کبھی قرن گزرے ماں کا دودھ پیا تھا مگر اب کی مدت ہائے دراز سے اس کو یہ خبر نہیں کہ پھیکا تھا یا میٹھا۔ کیا اگر ایک دودھ چھنا ہوا بچہ کھچڑی کھاتے میں منہ بناتا ہے تو اس پر سختی کی جائے گی کہ تو بڑے آدمیوں کی طرح چاؤ سے کیوں نہیں کھاتا؟
سینکڑوں برس سے ہندوؤں کے پاس نہ لٹریچر ہے اور نہ علم ان کو انگریزی کا اختیار کر لینا کیا مشکل تھا، جیسے ایک برہنہ آدمی ایک لنگوٹی کی بھی بڑی قدر کرتا ہے لیکن مسلمان اپنی کلاسیکل لینگوئج (ام الالسنہ) عربی پر واجب فخر کرتے ہیں جس کے بدون اردو اور فارسی زبانیں بالکل پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ لاکھوں مسلمان قرآن کی بلاغت پر سر دھنتے اور اس کو زبانی یاد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا لٹریچر زندہ لٹریچر ہے، نہ سنسکرت اور لیٹن کی طرح کتابوں میں مدفون۔ ان کے علوم زمانے کے انقلاب کی وجہ سے مرجھا گئے ہیں مگر مرے نہیں۔ پس اگر مسلمان انگریزی سے کنارہ کشی کرتے رہے تو ان کے پاس کنارہ کشی کرنے کی وجہ تھی۔
حجتہ الاسلام اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ ظاہر میں انصاف اسی کا متقاضی ہے کہ ہندو مسلمانوں کے جملہ حقوق برابر سمجھے جائیں لیکن نظر غور سے دیکھا جاتا ہے تو یہ انصاف اس راجا کے انصاف سے زیادہ تعریف کا مستحق نہیں جس نے اپنے علاقے