اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھیا
نہیں تھی۔ آپ نے ہم کو غیر بھی نہیں بلکہ دشمن سمجھا۔دنیا میں اونچ نیچ سبھی کے ساتھ لگی ہے،ایسا لوبھ رکھیں تو ہماری بات دو کوڑی کی ہو جائے۔ ڈپٹی صاحب! لوبھ سے دولت نہیں جمع ہوتی۔ ہم کو جو کچھ بھگوان نے دے رکھا ہے، بزرگوں کی نیت کا پھل ہے۔ فرد کے عوض فارغ خطی حاضر ہے، جب بھگوان آپ کو اطمینان دے گا آپ آہستہ آہستہ ادا کر دینا لیکن اس وقت تو ہم آپ سے نہیں لے سکتے۔ بیاج بٹی کی آپ ذرا چنتا نہ کریں۔ ہم نے آپ کی بدولت قلعے سے بہت کچھ کمایا۔ ہم سے آنکھوں پر ٹھیکری نہیں دھری جاتی۔‘‘
ابن الوقت: خزانچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکوڑی مل: مجھ کو معلوم ہے کہ آپ کو خزانچی کا بھی کچھ دینا ہے اور مجھ کو بھی یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے اپنا لینا طلب کیا ہے یا طلب کرنے والے ہیں، سو آپ کو تو بھگوان نے حاکم کیا ہے، اپنا اپنا کرنا اپنا بھرنا۔ اول تو وہ ٹھہرے نوکر دوسرے ان کا نتنا بنج ہے سب سرکاری روپے سے۔ ان سے اتنی سار نہیں ہو سکی۔ آپ حکم دیں تو خزانچی کا حساب بھی چکتا کر دیا جائے۔
ابن الوقت: نہیں، ان کا حساب کچھ ایسا بہت نہیں ہے، اس کی سبیل یہیں سے کر دی جائے گی اور آپ سے فرد کے منگوانے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرکاری ملازم کو اپنے علاقے میں قرض لینے کی ممانعت ہے۔ شروع شروع میں تو مجھ کو اس ممانعت کا علم نہ تھا، علم ہو تو میں نے کچھ پروا نہ کی۔
تکوڑی مل: آپ نے بھلا اس کا خیال کیا! ممانعت اگر ہے بھی تو کوئی اس پر عمل تو کرتا کراتا نہیں۔ صاحب کلکٹر اور جو چاہیں سو کریں، اس بارے میں کان ہلائیں تو میں کہتا نہیں، ملکی انگریز تو کوئی ایسا برلا ہی نکلے گا کہ دلی میں اس کو کام ملا ہواور اس کا نام آپ کی کوٹھی کے بہی کھاتے میں نہ ہو،اور نوکری تو آپ کے غدر کے پیچھے کی ہے، ہمارا آپ کا لین دین بزرگوں کے وقت سے چلا آ تا ہے۔پھر آپ کی نوکری دوسروں کے سری کی نہیں ہے۔ آپ ہی فرمائیں، آپ کے سوائے کوئی اور اپنے وطن میں حاکم ہے۔ آپ کے ساتھ سرکار کی خاص رعایت ہے۔ صاحب کلکٹر اگر اس کی چھیڑ نکالیں گےبھی تو کچھ ہوتا ہواتا نہیں۔اس بات کو تو میں بیمہ لیتا ہوں۔

3.gif
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم شہزاد خرم بھائی ، ناعمہ آپ کے ٹیگ صفحات پر کام کر رہی ہیں ۔ آپ یہ اسکین صفحہ ٹائپ کر لیں ۔

IbW-0101.gif
میں تمام دھان پانچ پنسیری کے حساب سے بکوائے تھے۔ مسلمان اس ملک کے اصلی باشندے نہیں۔ وہ ملک کو تفخ کرنے آئے اور رہ پڑے۔ انہوں نے زمینداریوں پر قبضہ کرنے کا ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں کیا اور نہ ان کو خیال کرنے کی ضرورت تھی۔ ذرائع معاش میں سے ان دونوں نوکری زیادہ معزز سمجھی جاتی تھی اور وہ ان کی مٹھی میں تھی۔ زوالِ سلطنت سے معاش کا وہ ایک ذریعہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا، جب کہ ہندو دوسرے تمام ذرائع پر بدستور قابض ہیں اور پھر نوکری میں آدھے کے دعوے دار، وہ بھی کہنے کو، کیونکہ نفس الامرمیں ہندوتین چوتھائی سےزیادہ نوکریوں پر مسلط ہیں۔​
یہ جو کچھ میں نے لکھا، اگر میں نے سمجھنے میں غلطی نہ کی ہو، حجتہ الاسلام صاحب کی شخصی رائے ہے۔ مجھ کو ان سے کسی کسی بات میں اختلاف بھی ہے لیکن اگر آپ ان کو بات کرنے کا موقع دیں گے تو آپ کوئی مضمون ایسا نہ پائیں گے کہ اس پر وہ معقول رائے نہ دے سکیں۔ وہ بڑے خوش تقریر آدمی ہیں، سننے والوں کو بہت جلد اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔​
ایک بات حجتہ الاسلام صاحب نے اسی قسم کی مجھ سے اور بھی کہی تھی اور وہ بھی دل کو لگتی ہوئی سی ہے۔ وہ ہندوؤں پر اپنی قوم کو اس وجہ سے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ مذہب اسلام سلف رسپکٹ (self respect) سکھاتا ہے یعنی انسان کو اس کی نظر میں معزز کرتا ہے۔ مسلمان اس میں انسانیت کی توہین سمجھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے ایک کلے پر طمانچہ مارے تو عیسائی کی طرح وہ دوسرا کلہ بھی اس کے سامنے کر دے کہ لے اور مار۔ اسلام نے خدا کی توحید کو بالکل نتھار دیا ہے اور کسی طرح کا شائبہ اس میں باقی نہیں رکھا۔ مسلمان سوائے ایک خدا کے جس کو کوئی انسان دیکھ نہیں سکتا، موجودات عالم میں سے ارضی ہوں یا سماوی، کسی چیز کی عبادت یعنی اعلیٰ درجے کی تعظیم نہیں کرتا۔ حجتہ الاسلام صاحب کےت بیان کے مطابق اسلام خود داری اور بے کگلفی اور سادگی اور توکل اور صبر کا مجموعہ ہے۔ لیکن ہندوبندر اور سانپ اور گائے اور پیپل اور تسلی اور آگ اور پانی اور پھتر اور چاند اور سورچ ہر چیز کے آگے ماتھا ٹیکنے کو موجود ہے، جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ آدمی سب میں ادنیٰ درجے کا مخلوق ہے اور اس کو دنیا ادنیٰ بن کر رہنا چاہیے۔ حجتہ الاسلام صاحب اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمان کار فرمائی اور حکموت کے لیے بنایا گیا ہے، جس طرح ہندو کارکنی اور اطاعت کے لیے۔ وہ کہتے ہیں خوشامد اور ابتذال اور دنائت کی باتیں مسلمان سے ہو نہیں سکتیں اور اگر کوئی مسلمان کرتا ہو تو جان لینا کہ مذہب میں پکا نہیں اور سرکاری خدمتوں میں مسلمانوں کی کمی کا ان کے نزدیک ایک سبب یہ بھی ہے۔ میں تو ان کو ایسی باتوں میں اکثر چھیڑا کرتا ہوں، اس غرض سے کہ کچھ کہیں، تو ایک دن گرم ہو کر بولے کہ مسلمان چاہیں مٹ ہی کیوں نہ جائیں مگر ان کے دل پر سے یہ بات تو نہیں مٹے گی کہ انہوں نے چھ سو برس اس ملک میں حکمرانی کی ہے۔​
باایں ہمہ حجتہ الاسلام صاحب کےخیالات گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ نہایت درجے کے خیر خواہی کا کوئی کار نمایاں کرتے۔ انہیں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے عرب میں اسلامی سلطنت کا نمونہ دیکھا ہے۔ ملک نہایت تباہی کی حالت میں ہے اور افسوس ہے کہ جس جگہ مسلمانوں کی قوم پیدا ہوئی اور جہاں ان کی سلطنت کی بنیاد پڑی اس کا یہ حال ہو کہ باوجود مکہ ہر سال بلاناغہ لاکھوں مسلمان جاتے ہیں مگر نہ امن ہے اور نہ آسائش۔ صرف دوسرے ملکوں کے صدقات پر دہال کے لوگوں کی گزران ہے۔ وہ لوگ تنزل کے ایسے درجے میں پہنچ گئے ہیں کہ نہ صرف بدترین نمونے مسلمانوں کے ہیں بلکہ بدترین نمونے انسانوں کے۔​
یہ چھٹی مسٹر شارپ کے پاس جمعے کی شام کو پہنچی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود حجتہ الاسلام لے کر آئے ہیں اور اسی خیال سے پڑھتے کے ساتھ باہر نکل آئے مگر معلوم ہوا کہ ملاقات کے لیے وقت فرصت دریافت کیا ہے۔ جواب میں کہلا بھیجا کہ اوقات کچہری کے علاوہ جس وقت جہ چاہے۔ اگلے دن ایسے کوئی پونے سات بجے ہوں گے، حجتہ الاسلام پالکی میں سے اترتے ہی تھے کہ شارپ صاحب ہوا خوری سے واپس آئے۔دونوں نے ایک دوسرے کو اٹکل سے جان لیا۔ یوں تو شارپ صاحب کا معمول تھا کہ ہوا خوری سے آئے پیچھے اچھے کامل ایک گھنٹے بعد ملاقاتیوں کی نوبت پہنچتی تھی​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کردی ہے، اب محلے میں رہنے کا ذرا بھدرک نہیں۔ تم جس طرح ہوسکے تھوڑے ہی دن کے لیے آؤ اور ہم لوگوں کا کہیں ٹھکانا کرو۔ مگر حجتہ الاسلام لطائف الحیل سے ٹالتا رہا۔​
اپنوں میں اور غیروں میں اتنا ہی تو فرق ہوتا ہے کہ ابن الوقت کی تبدیل وضع سے جس کو لوگ اپنے پندار میں تبدیل مذہب سمجھتے تھے، خویش و بیگانے سبھی ناراض تھے لیکن اب جو مشہور ہوا کہ صاحب کلکٹر پیچھے پڑے ہیں تو غیر اکثر لگے شماتت کرنے اور اپنوں کےسناتو سب کے سب گھبرا کر ابن الوقت کی پھوپھی کے پاس دوڑے آئے کیوں کہ گھر میں سب سے بڑی بوڑھی وہی تھیں۔رشتے ناتے کے علاوہ ابن الوقت کی خیر خواہی سے تھوڑے بہت فائدے بھی ان سب کو پہنچے تھے۔ غدر کے بعد کا وقت مسلمانوں پر ایسی سختی کا گزر گیا کہ کرتوڈر اور نہ کر تو خدا کے غصب سے ڈر۔ ہزارہا ناکردہ گناہ بغاوت کی لپیٹ میں آگئے، الا ابن الوقت کے رشتہ دار کہ اگر کسی نے جھوٹوں بھی ابن الوقت کا نام لے دیا تو کم سے کم اتنا تو ہوتا تھا کہ کوئی مخبر اس کی طرف آنکھ اٹھا کرن ہیں دیکھ سکتا تھا۔ ابن الوقت ذات سے روکھاتھا، کھرا تھا، پھر بھی لوگوں کو اس سے بڑی تقویت تھی۔ وہ کسی کا مقولہ بہت درست ہے "عنالمصاتب تذھل الاحقاد۔" اب کسی کو اس کا مطلق خیال نہ تھا کہ ابن الوقت نے ترک اسلام کیا ہے یا وہ انگریزوں کے ساتھ کھانا پیتا ہے یا قوم اور برادری اور گھر کو چھوڑ کر انگریزوں میں جاملا ہے یا اس نے برزرگوں کے نام کو بٹا لگایا ہے یا اس نے خاندان کی آبرو کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ سارے رنج و شکوے بھول بسر کر سب کو اسی کی بڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ہو۔ اس کی پھوپھی تو اس طرح بین کر کر کے روتی تھیں جیسے کوئی مردے کو روتا ہے مگر ملا کی دوڑ مسجد، سب نے ملہ کر منتوں ور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی اور ختم خواجگاں اور " لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین" اور "امن پجیب المضطر انا دعا و بکشف السوع" اور "قلم تقتلوہم و لکن اللہ قفلھم و ماربت اذرعیت و لکن اللہ رہی" اور اللھم انا نجملک فی نحوردم و نموذہک من شروہم"حزب البحر و اور دلائل الحیرات اور یاسین اور صلوتھ الحاجتہ اور اعمال حصر اللسان کے حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔​
دنیاوی تدبیروں میں سے تو اور کوئی تدبیر بن نہ پڑی مگر اس دفعہ ابن الوقت کی پھوپھی نے داماد کون ہیں بلکہ بیٹی کو لکھوا دیا کہ دو مہنے پورے ہو کے یہ تیسرا لگا کہ دلی کا سب سے بڑا انگریز ناحق، نادوا تمہارے بھائی ابن الوقت کے پیچھے پڑا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ کنبہ میں کوئی اس جوگا نہیں کہ اس مصیبت میں ان کا ساتھ دے۔ میں تمہارے میاں کو لکھتے لکھتے تھک گئی، آنے کی حامین ہیں بھرتے۔ خدا کے لئے تم ان کو سمجھا کر ساتھ لاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں آکر پیو، وقت نکل جائے گا اور بات رہ جائے گی۔ بھلا اگر رشتے ناطے کا پاس نہ کرو تو اتنا ہی سمجھو، اگر خدانخواستہ اس کی دشمنوں پر ایسی دیسی بن گئی تو ہم کو دلی میں کون چین سے بیٹھنے دے گا؟ ہم کو تو اسی کے دم کا سہارا ہے۔ خدا اس کو جیتا رکھے اور نیک ہدایات دے اور الہیٰ سدا کو اس کا بول بالا رہے! سارے کنبے کے لوگ عذر خواہی کو آئے اور تمہارے اور تمہارے میاں کے نہ آنے پر سبھی نے تو اچنبھا کیا۔ میں نے ہر ایک سے یہ کہہ کہہ دیا کہ نوکری کا معاملہ ہے، صبح شام آنے ہی والے ہیں۔ غرض جس طرح بن پڑے اپنے سو کام حرج کرو اور بہت جلد آؤ۔ تھوڑے لکھے پر بہت سا عمل کرو۔​
خط پر خط تو پہلے ہی سے چلے جا رہے تھے، اب تو ایک اُدھر سے یہ تقاضا پہنچا اور ادھر ابن الوقت نے بارہ دری بیچتے کی فوری ضرورت ظاہر کی۔ حجتہ الاسلام نے سمجھایا کہ ابن الوقت کے سنبھالے کچھ سنبھلتی ہوئی نظر نہیں آتی، اب دیر کرنی کچھ ٹھیک سی بات نہیں۔ ابن السوقت کو لکھا کہ اپنی کوٹھی میں میرے ٹھہرنے کا ٹھکانہ کرو اور مجھ کو پہنچا ہوا سمجھو۔​
بس اسی اثناء میں جان نثار بھی نوبل صاحب کو بمیئ پہنچا کر آگیا بلکہ وہ صاحب سے پوچھ کر دس دن اپنے گھر میں بھی رہ آیا۔ اس نے یہاں آکر سنا کہ اتنے ہی دن میں کیا سے کیا ہوا گیا۔ چھوٹتے ہی ابن الوقت سے جاشکایت کی: "آپ نے کیا غضب کیا! اگر صاحب کو ذرا بھی معلوم ہو تو جہاز پر سوار ہو نے کا نام نہ لیں۔"​
ابن الوقت: یہ کیا مناسبت تھی کہ میں اس طرح کی علالت میں اور اس پر سفر کی پریشانی، صاحب کو تکلیف دیتا اور ہر چنف سرتاسر کلکٹر کی زیادتی ہے مگر جو لوگ حقیقت​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کردی ہے، اب محلے میں رہنے کا ذرا بھدرک نہیں۔ تم جس طرح ہوسکے تھوڑے ہی دن کے لیے آؤ اور ہم لوگوں کا کہیں ٹھکانا کرو۔ مگر حجتہ الاسلام لطائف الحیل سے ٹالتا رہا۔​
اپنوں میں اور غیروں میں اتنا ہی تو فرق ہوتا ہے کہ ابن الوقت کی تبدیل وضع سے جس کو لوگ اپنے پندار میں تبدیل مذہب سمجھتے تھے، خویش و بیگانے سبھی ناراض تھے لیکن اب جو مشہور ہوا کہ صاحب کلکٹر پیچھے پڑے ہیں تو غیر اکثر لگے شماتت کرنے اور اپنوں کےسناتو سب کے سب گھبرا کر ابن الوقت کی پھوپھی کے پاس دوڑے آئے کیوں کہ گھر میں سب سے بڑی بوڑھی وہی تھیں۔رشتے ناتے کے علاوہ ابن الوقت کی خیر خواہی سے تھوڑے بہت فائدے بھی ان سب کو پہنچے تھے۔ غدر کے بعد کا وقت مسلمانوں پر ایسی سختی کا گزر گیا کہ کرتوڈر اور نہ کر تو خدا کے غصب سے ڈر۔ ہزارہا ناکردہ گناہ بغاوت کی لپیٹ میں آگئے، الا ابن الوقت کے رشتہ دار کہ اگر کسی نے جھوٹوں بھی ابن الوقت کا نام لے دیا تو کم سے کم اتنا تو ہوتا تھا کہ کوئی مخبر اس کی طرف آنکھ اٹھا کرن ہیں دیکھ سکتا تھا۔ ابن الوقت ذات سے روکھاتھا، کھرا تھا، پھر بھی لوگوں کو اس سے بڑی تقویت تھی۔ وہ کسی کا مقولہ بہت درست ہے "عنالمصاتب تذھل الاحقاد۔" اب کسی کو اس کا مطلق خیال نہ تھا کہ ابن الوقت نے ترک اسلام کیا ہے یا وہ انگریزوں کے ساتھ کھانا پیتا ہے یا قوم اور برادری اور گھر کو چھوڑ کر انگریزوں میں جاملا ہے یا اس نے برزرگوں کے نام کو بٹا لگایا ہے یا اس نے خاندان کی آبرو کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ سارے رنج و شکوے بھول بسر کر سب کو اسی کی بڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ہو۔ اس کی پھوپھی تو اس طرح بین کر کر کے روتی تھیں جیسے کوئی مردے کو روتا ہے مگر ملا کی دوڑ مسجد، سب نے ملہ کر منتوں ور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی اور ختم خواجگاں اور " لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین" اور "امن پجیب المضطر انا دعا و بکشف السوع" اور "قلم تقتلوہم و لکن اللہ قفلھم و ماربت اذرعیت و لکن اللہ رہی" اور اللھم انا نجملک فی نحوردم و نموذہک من شروہم"حزب البحر و اور دلائل الحیرات اور یاسین اور صلوتھ الحاجتہ اور اعمال حصر اللسان کے حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔​
دنیاوی تدبیروں میں سے تو اور کوئی تدبیر بن نہ پڑی مگر اس دفعہ ابن الوقت کی پھوپھی نے داماد کون ہیں بلکہ بیٹی کو لکھوا دیا کہ دو مہنے پورے ہو کے یہ تیسرا لگا کہ دلی کا سب سے بڑا انگریز ناحق، نادوا تمہارے بھائی ابن الوقت کے پیچھے پڑا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ کنبہ میں کوئی اس جوگا نہیں کہ اس مصیبت میں ان کا ساتھ دے۔ میں تمہارے میاں کو لکھتے لکھتے تھک گئی، آنے کی حامین ہیں بھرتے۔ خدا کے لئے تم ان کو سمجھا کر ساتھ لاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں آکر پیو، وقت نکل جائے گا اور بات رہ جائے گی۔ بھلا اگر رشتے ناطے کا پاس نہ کرو تو اتنا ہی سمجھو، اگر خدانخواستہ اس کی دشمنوں پر ایسی دیسی بن گئی تو ہم کو دلی میں کون چین سے بیٹھنے دے گا؟ ہم کو تو اسی کے دم کا سہارا ہے۔ خدا اس کو جیتا رکھے اور نیک ہدایات دے اور الہیٰ سدا کو اس کا بول بالا رہے! سارے کنبے کے لوگ عذر خواہی کو آئے اور تمہارے اور تمہارے میاں کے نہ آنے پر سبھی نے تو اچنبھا کیا۔ میں نے ہر ایک سے یہ کہہ کہہ دیا کہ نوکری کا معاملہ ہے، صبح شام آنے ہی والے ہیں۔ غرض جس طرح بن پڑے اپنے سو کام حرج کرو اور بہت جلد آؤ۔ تھوڑے لکھے پر بہت سا عمل کرو۔​
خط پر خط تو پہلے ہی سے چلے جا رہے تھے، اب تو ایک اُدھر سے یہ تقاضا پہنچا اور ادھر ابن الوقت نے بارہ دری بیچتے کی فوری ضرورت ظاہر کی۔ حجتہ الاسلام نے سمجھایا کہ ابن الوقت کے سنبھالے کچھ سنبھلتی ہوئی نظر نہیں آتی، اب دیر کرنی کچھ ٹھیک سی بات نہیں۔ ابن السوقت کو لکھا کہ اپنی کوٹھی میں میرے ٹھہرنے کا ٹھکانہ کرو اور مجھ کو پہنچا ہوا سمجھو۔​
بس اسی اثناء میں جان نثار بھی نوبل صاحب کو بمیئ پہنچا کر آگیا بلکہ وہ صاحب سے پوچھ کر دس دن اپنے گھر میں بھی رہ آیا۔ اس نے یہاں آکر سنا کہ اتنے ہی دن میں کیا سے کیا ہوا گیا۔ چھوٹتے ہی ابن الوقت سے جاشکایت کی: "آپ نے کیا غضب کیا! اگر صاحب کو ذرا بھی معلوم ہو تو جہاز پر سوار ہو نے کا نام نہ لیں۔"​
ابن الوقت: یہ کیا مناسبت تھی کہ میں اس طرح کی علالت میں اور اس پر سفر کی پریشانی، صاحب کو تکلیف دیتا اور ہر چنف سرتاسر کلکٹر کی زیادتی ہے مگر جو لوگ حقیقت​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کردی ہے، اب محلے میں رہنے کا ذرا بھدرک نہیں۔ تم جس طرح ہوسکے تھوڑے ہی دن کے لیے آؤ اور ہم لوگوں کا کہیں ٹھکانا کرو۔ مگر حجتہ الاسلام لطائف الحیل سے ٹالتا رہا۔​
اپنوں میں اور غیروں میں اتنا ہی تو فرق ہوتا ہے کہ ابن الوقت کی تبدیل وضع سے جس کو لوگ اپنے پندار میں تبدیل مذہب سمجھتے تھے، خویش و بیگانے سبھی ناراض تھے لیکن اب جو مشہور ہوا کہ صاحب کلکٹر پیچھے پڑے ہیں تو غیر اکثر لگے شماتت کرنے اور اپنوں کےسناتو سب کے سب گھبرا کر ابن الوقت کی پھوپھی کے پاس دوڑے آئے کیوں کہ گھر میں سب سے بڑی بوڑھی وہی تھیں۔رشتے ناتے کے علاوہ ابن الوقت کی خیر خواہی سے تھوڑے بہت فائدے بھی ان سب کو پہنچے تھے۔ غدر کے بعد کا وقت مسلمانوں پر ایسی سختی کا گزر گیا کہ کرتوڈر اور نہ کر تو خدا کے غصب سے ڈر۔ ہزارہا ناکردہ گناہ بغاوت کی لپیٹ میں آگئے، الا ابن الوقت کے رشتہ دار کہ اگر کسی نے جھوٹوں بھی ابن الوقت کا نام لے دیا تو کم سے کم اتنا تو ہوتا تھا کہ کوئی مخبر اس کی طرف آنکھ اٹھا کرن ہیں دیکھ سکتا تھا۔ ابن الوقت ذات سے روکھاتھا، کھرا تھا، پھر بھی لوگوں کو اس سے بڑی تقویت تھی۔ وہ کسی کا مقولہ بہت درست ہے "عنالمصاتب تذھل الاحقاد۔" اب کسی کو اس کا مطلق خیال نہ تھا کہ ابن الوقت نے ترک اسلام کیا ہے یا وہ انگریزوں کے ساتھ کھانا پیتا ہے یا قوم اور برادری اور گھر کو چھوڑ کر انگریزوں میں جاملا ہے یا اس نے برزرگوں کے نام کو بٹا لگایا ہے یا اس نے خاندان کی آبرو کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ سارے رنج و شکوے بھول بسر کر سب کو اسی کی بڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ہو۔ اس کی پھوپھی تو اس طرح بین کر کر کے روتی تھیں جیسے کوئی مردے کو روتا ہے مگر ملا کی دوڑ مسجد، سب نے ملہ کر منتوں ور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی اور ختم خواجگاں اور " لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین" اور "امن پجیب المضطر انا دعا و بکشف السوع" اور "قلم تقتلوہم و لکن اللہ قفلھم و ماربت اذرعیت و لکن اللہ رہی" اور اللھم انا نجملک فی نحوردم و نموذہک من شروہم"حزب البحر و اور دلائل الحیرات اور یاسین اور صلوتھ الحاجتہ اور اعمال حصر اللسان کے حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔​
دنیاوی تدبیروں میں سے تو اور کوئی تدبیر بن نہ پڑی مگر اس دفعہ ابن الوقت کی پھوپھی نے داماد کون ہیں بلکہ بیٹی کو لکھوا دیا کہ دو مہنے پورے ہو کے یہ تیسرا لگا کہ دلی کا سب سے بڑا انگریز ناحق، نادوا تمہارے بھائی ابن الوقت کے پیچھے پڑا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ کنبہ میں کوئی اس جوگا نہیں کہ اس مصیبت میں ان کا ساتھ دے۔ میں تمہارے میاں کو لکھتے لکھتے تھک گئی، آنے کی حامین ہیں بھرتے۔ خدا کے لئے تم ان کو سمجھا کر ساتھ لاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں آکر پیو، وقت نکل جائے گا اور بات رہ جائے گی۔ بھلا اگر رشتے ناطے کا پاس نہ کرو تو اتنا ہی سمجھو، اگر خدانخواستہ اس کی دشمنوں پر ایسی دیسی بن گئی تو ہم کو دلی میں کون چین سے بیٹھنے دے گا؟ ہم کو تو اسی کے دم کا سہارا ہے۔ خدا اس کو جیتا رکھے اور نیک ہدایات دے اور الہیٰ سدا کو اس کا بول بالا رہے! سارے کنبے کے لوگ عذر خواہی کو آئے اور تمہارے اور تمہارے میاں کے نہ آنے پر سبھی نے تو اچنبھا کیا۔ میں نے ہر ایک سے یہ کہہ کہہ دیا کہ نوکری کا معاملہ ہے، صبح شام آنے ہی والے ہیں۔ غرض جس طرح بن پڑے اپنے سو کام حرج کرو اور بہت جلد آؤ۔ تھوڑے لکھے پر بہت سا عمل کرو۔​
خط پر خط تو پہلے ہی سے چلے جا رہے تھے، اب تو ایک اُدھر سے یہ تقاضا پہنچا اور ادھر ابن الوقت نے بارہ دری بیچتے کی فوری ضرورت ظاہر کی۔ حجتہ الاسلام نے سمجھایا کہ ابن الوقت کے سنبھالے کچھ سنبھلتی ہوئی نظر نہیں آتی، اب دیر کرنی کچھ ٹھیک سی بات نہیں۔ ابن السوقت کو لکھا کہ اپنی کوٹھی میں میرے ٹھہرنے کا ٹھکانہ کرو اور مجھ کو پہنچا ہوا سمجھو۔​
بس اسی اثناء میں جان نثار بھی نوبل صاحب کو بمیئ پہنچا کر آگیا بلکہ وہ صاحب سے پوچھ کر دس دن اپنے گھر میں بھی رہ آیا۔ اس نے یہاں آکر سنا کہ اتنے ہی دن میں کیا سے کیا ہوا گیا۔ چھوٹتے ہی ابن الوقت سے جاشکایت کی: "آپ نے کیا غضب کیا! اگر صاحب کو ذرا بھی معلوم ہو تو جہاز پر سوار ہو نے کا نام نہ لیں۔"​
ابن الوقت: یہ کیا مناسبت تھی کہ میں اس طرح کی علالت میں اور اس پر سفر کی پریشانی، صاحب کو تکلیف دیتا اور ہر چنف سرتاسر کلکٹر کی زیادتی ہے مگر جو لوگ حقیقت​
 

زلفی شاہ

لائبریرین
فصل بست و یکم
ابن الوقت کی پھوپھی زاد بہن کے شوہر حجۃ الاسلام کی آمد آمد
1857ء کے غدر سے پہلے حجۃ الاسلام حج کو گئے ہوئے تھے۔ غدر کی اڑتی سی خبریں انہوں نے عرب میں سنیں۔ دلی کو فتح ہوئے ایسے کوئی بیس دن ہوئے ہوں گے کہ یہ بمبئی واپس پہنچے۔ یہاں غدر کے تفصیلی حالات معلوم ہوئے۔ رخصت میں اتنی گنجائش تھی کہ چاہتے تو دلی ہو کر بلکہ فراغت سے مہینے سوا مہینے رہ کر اپنے کام پر جاتے مگر معلوم ہوا کہ ابھی جابہ جا شورش ہے اور خاص کر دلی کے مسلمانوں پر ایک طرح کا تشدد ہو رہا ہے۔ یہ صلاح ٹھہری کہ سمندر سمندر مدراس ہوتے ہوئے کلکتے جائیں اور وہاں سے اپنے ضلع میں جا داخل ہوں۔
غرض ابن الوقت کے حالات میں جو تبدل واقع ہوا، حجۃ الاسلام کی غیبت میں ہوا۔ دونوں میں رسم مراسلت بھی بس ایسی ہی تھی کہ کبھی اوپر تلے کئی کئی خط آتے جاتے اور کبھی مہینوں ندارد۔ یوں تو ابن الوقت نے بڑے تپاک کے ساتھ حج سے مع الخیر واپس آنے کی مبارک باد کا خط لکھا، ادھر سے انعام خیر خواہی اور نوکری کی لمبی چوڑی تہنیت آئی مگر تبدیل وضع کے بارے میں ابن الوقت کی طرف سے تو کیا ابتدا ہوتی، حجۃ الاسلام نے بھی ایسی خاموشی اختیار کی کہ گویا خبر ہی نہیں۔ ابن الوقت کی پھوپھی نے کئی بار داماد کو لکھوا لکھوا بھیجا کہ لوگوں کے طعنوں مینوں نے زندگی دشوار
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کردی ہے، اب محلے میں رہنے کا ذرا بھدرک نہیں۔ تم جس طرح ہوسکے تھوڑے ہی دن کے لیے آؤ اور ہم لوگوں کا کہیں ٹھکانا کرو۔ مگر حجتہ الاسلام لطائف الحیل سے ٹالتا رہا۔​
اپنوں میں اور غیروں میں اتنا ہی تو فرق ہوتا ہے کہ ابن الوقت کی تبدیل وضع سے جس کو لوگ اپنے پندار میں تبدیل مذہب سمجھتے تھے، خویش و بیگانے سبھی ناراض تھے لیکن اب جو مشہور ہوا کہ صاحب کلکٹر پیچھے پڑے ہیں تو غیر اکثر لگے شماتت کرنے اور اپنوں کےسناتو سب کے سب گھبرا کر ابن الوقت کی پھوپھی کے پاس دوڑے آئے کیوں کہ گھر میں سب سے بڑی بوڑھی وہی تھیں۔رشتے ناتے کے علاوہ ابن الوقت کی خیر خواہی سے تھوڑے بہت فائدے بھی ان سب کو پہنچے تھے۔ غدر کے بعد کا وقت مسلمانوں پر ایسی سختی کا گزر گیا کہ کرتوڈر اور نہ کر تو خدا کے غصب سے ڈر۔ ہزارہا ناکردہ گناہ بغاوت کی لپیٹ میں آگئے، الا ابن الوقت کے رشتہ دار کہ اگر کسی نے جھوٹوں بھی ابن الوقت کا نام لے دیا تو کم سے کم اتنا تو ہوتا تھا کہ کوئی مخبر اس کی طرف آنکھ اٹھا کرن ہیں دیکھ سکتا تھا۔ ابن الوقت ذات سے روکھاتھا، کھرا تھا، پھر بھی لوگوں کو اس سے بڑی تقویت تھی۔ وہ کسی کا مقولہ بہت درست ہے "عنالمصاتب تذھل الاحقاد۔" اب کسی کو اس کا مطلق خیال نہ تھا کہ ابن الوقت نے ترک اسلام کیا ہے یا وہ انگریزوں کے ساتھ کھانا پیتا ہے یا قوم اور برادری اور گھر کو چھوڑ کر انگریزوں میں جاملا ہے یا اس نے برزرگوں کے نام کو بٹا لگایا ہے یا اس نے خاندان کی آبرو کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ سارے رنج و شکوے بھول بسر کر سب کو اسی کی بڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ہو۔ اس کی پھوپھی تو اس طرح بین کر کر کے روتی تھیں جیسے کوئی مردے کو روتا ہے مگر ملا کی دوڑ مسجد، سب نے ملہ کر منتوں ور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی اور ختم خواجگاں اور " لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین" اور "امن پجیب المضطر انا دعا و بکشف السوع" اور "قلم تقتلوہم و لکن اللہ قفلھم و ماربت اذرعیت و لکن اللہ رہی" اور اللھم انا نجملک فی نحوردم و نموذہک من شروہم"حزب البحر و اور دلائل الحیرات اور یاسین اور صلوتھ الحاجتہ اور اعمال حصر اللسان کے حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔​
دنیاوی تدبیروں میں سے تو اور کوئی تدبیر بن نہ پڑی مگر اس دفعہ ابن الوقت کی پھوپھی نے داماد کون ہیں بلکہ بیٹی کو لکھوا دیا کہ دو مہنے پورے ہو کے یہ تیسرا لگا کہ دلی کا سب سے بڑا انگریز ناحق، نادوا تمہارے بھائی ابن الوقت کے پیچھے پڑا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ کنبہ میں کوئی اس جوگا نہیں کہ اس مصیبت میں ان کا ساتھ دے۔ میں تمہارے میاں کو لکھتے لکھتے تھک گئی، آنے کی حامین ہیں بھرتے۔ خدا کے لئے تم ان کو سمجھا کر ساتھ لاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں آکر پیو، وقت نکل جائے گا اور بات رہ جائے گی۔ بھلا اگر رشتے ناطے کا پاس نہ کرو تو اتنا ہی سمجھو، اگر خدانخواستہ اس کی دشمنوں پر ایسی دیسی بن گئی تو ہم کو دلی میں کون چین سے بیٹھنے دے گا؟ ہم کو تو اسی کے دم کا سہارا ہے۔ خدا اس کو جیتا رکھے اور نیک ہدایات دے اور الہیٰ سدا کو اس کا بول بالا رہے! سارے کنبے کے لوگ عذر خواہی کو آئے اور تمہارے اور تمہارے میاں کے نہ آنے پر سبھی نے تو اچنبھا کیا۔ میں نے ہر ایک سے یہ کہہ کہہ دیا کہ نوکری کا معاملہ ہے، صبح شام آنے ہی والے ہیں۔ غرض جس طرح بن پڑے اپنے سو کام حرج کرو اور بہت جلد آؤ۔ تھوڑے لکھے پر بہت سا عمل کرو۔​
خط پر خط تو پہلے ہی سے چلے جا رہے تھے، اب تو ایک اُدھر سے یہ تقاضا پہنچا اور ادھر ابن الوقت نے بارہ دری بیچتے کی فوری ضرورت ظاہر کی۔ حجتہ الاسلام نے سمجھایا کہ ابن الوقت کے سنبھالے کچھ سنبھلتی ہوئی نظر نہیں آتی، اب دیر کرنی کچھ ٹھیک سی بات نہیں۔ ابن السوقت کو لکھا کہ اپنی کوٹھی میں میرے ٹھہرنے کا ٹھکانہ کرو اور مجھ کو پہنچا ہوا سمجھو۔​
بس اسی اثناء میں جان نثار بھی نوبل صاحب کو بمیئ پہنچا کر آگیا بلکہ وہ صاحب سے پوچھ کر دس دن اپنے گھر میں بھی رہ آیا۔ اس نے یہاں آکر سنا کہ اتنے ہی دن میں کیا سے کیا ہوا گیا۔ چھوٹتے ہی ابن الوقت سے جاشکایت کی: "آپ نے کیا غضب کیا! اگر صاحب کو ذرا بھی معلوم ہو تو جہاز پر سوار ہو نے کا نام نہ لیں۔"​
ابن الوقت: یہ کیا مناسبت تھی کہ میں اس طرح کی علالت میں اور اس پر سفر کی پریشانی، صاحب کو تکلیف دیتا اور ہر چنف سرتاسر کلکٹر کی زیادتی ہے مگر جو لوگ حقیقت​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 220 اور 221)

حجتہ الاسلام : بس ایسا ہی عالم اسباب مانتا ہوں کہ متصرف فی الامور وہ خود ہے اور کسی مصلحت سے اس نے اسباب کا جال پھیلا رکھا ہے۔ اسباب اور نتائج میں جو تعلق ہے اس کو میں اسرار ِ الٰہی میں سے سمجھتا ہوں ، فہم بشر سے خارج۔ اسباب کو ایجاد اور تکوین میں اتنا بھی تو مدخل نہیں جتنا ایک کاریگر کے اوزار کو اس کے عمل میں ہوتا ہے۔ کاریگر اوزار کا محتاج ہے اور خدا جل و علاشانہ کو کوئی سبب درکار نہیں۔ مگر ہاں عادت الٰہی یوں ہی جاری ہے ، اِلاَّ ماشاء اللہ ، کہ ہر واقعے کے لیے کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اسباب نامتناہی ہیں اور ان پر بتمامہا احاطہ کرنا مقدورِ بشر نہیں ، مگر خدا نے جب جب جتنا مناسب سمجھا انسان پر منکشف کیا۔ "وما اوتیتم من العلم الا قلیلاََ"۔ اگرچہ عقلِ انسانی کسی حالت میں خطا سے محفوظ نہیں مگر اسباب کے بارے میں تو لوگ ایسی ایسی مکروہ غلطیاں کرتے ہیں کہ معاذ اللہ۔ عالمِ اسباب میں پیدا ہوئے ، عالمِ اسباب میں رہے ، کوئی واقعہ نہیں جس کے لیے ان کو سبب کی تفتیش نہ ہو اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصلی سبب کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا تو ادعائی اسباب ٹھہرا لیتے ہیں۔ نجوم اور جفر اور اکثر رمل اور قیافہ وغیرہ بہت سے لغویات ہیں جن کا ماخذ سوائے اسباب ادعائی کے اور کچھ نہیں اور کبھی سبب تو ہوتا ہے ٹھیک مگر اس کے شرائط کا خیال نہیں رہتا ، مثلاََ فرض کرو کہ سیسے کی ایک گولی ہو اور اسی قدوقامت کی دوسری کوئی روئی کی ہو ہلکی پھلکی اور قطب صاحب کی لاٹ پر جاکر دونوں گولیوں کو ایک ساتھ چھوڑ دیں ، تو ضرور سیسے کی گولی پہلے گرے گی۔اب یہ ایک واقع ہے اور اس کا سبب ہے ثقل مگر اس کے ساتھ ہی ایک شرط بھی ہے کہ لاٹ کی چوٹی سے زمین تک گولیوں کے رستے میں خلا نہ ہو کیوں کہ خلا ہوگی تو گرنے میں ہلکی بھاری دونوں برابر۔ پھر انسان سبب بھی اپنی مرضی کا ڈھونڈتا ہے یعنی جس قسم کے اسباب سے خوگر ہے مثلاََ اگر کوئی مریض کیسی ہی ردی حالت اس کی کیوں نہ ہو اگر کسی دوا سے دفعتاََ اچھا ہو جائے اگرچہ وہ دوا چولھے کی راکھ ہی کیوں نہ ہو تو کسی کو بھی استعجاب نہ ہو کیونکہ دوا درمن سے اچھا ہونا ایک معمولی بات ہے۔ لیکن فرض کرو کہ بجائے دوا کے کوئی شخص دم کردینے سے یا نظر بھر کر دیکھ لینے سے سلب مرض کردے تو سننے والوں میں سے تو شاید سو میں ایک کو بھی یقین نہ آئے اور دیکھنے والے بھی اکثر جادو اور نظر بندی اور مغالطہ دہی پر محمول کریں اور اس بنا پر فلاسفہ اور دہری معجزات انبیا پر( علی نبینا و علیہم السّلام) بڑے شدومد کے ساتھ اعتراضات کرتے چلے آئے ہیں۔ میں نے کسی دہری کی تحریر دیکھی ہے جس میں اس نے لکھا تھا کہ قانون فطرت یا عادت اللہ شہادت کے لیے کسوٹی ہے۔ شہادت وہیں تک معتبر ہوسکتی ہے کہ قانون فطرت کے مطابق ہو۔ یعنی اس کا مقولہ یہ تھا کہ قانونَ فطرت کے خلاف ہم کسی شہادت کو نہیں مان سکتے یا بہ عبارتِ دیگر مخالفت قانونِ فطرت شہادت متہم با لکذب بلکہ مردود کرنے کو کافی ہے۔ یہ صاف مصادرہ علی المطلوب ہے۔ جب ایک شخص کہتا کہ فلاں واقعہ خلاف معمول مستمر واقع ہوا مثلاََ یہ کہ ایک شخص نے ایک ڈول پانی سے ایک لشکر کو سیراب کردیا ، تو اب صرف اس وجہ سے کہ یہ واقعہ عجیب و غریب ہے وقوع واقعہ سے انکار کرنا ہیکڑی اور ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی نہیں تو کیا ہے؟ "بل کذبو ابمائم یحیطوا بعلمہ و لما یاتیھم تاویلہ کذلک کذب الذین من قبلھم فلنظر کیف کان عاقبتہ الظالمین۔" اسباب کے بارے میں ایک کثیر الوقوع اور خطرناک غلطی یہ ہے کہ نتائج کو اسباب کی طرف اس طرح منسوب کیا جاتا ہے گویا اسباب ہی فاعل اور مکون اور متصرّف ہیں ، پانی غلّہ اگاتا ہے ، کونین دافعِ تپ ہے ، سنکھیا سمِ قاتل ہے اور یہی ہے مظنئہ شرک خفی ، اعاذنا اللہ منہ اور میرے پندار میں "وما یومن اکثرھم باللہ الا وہم مشرکون" میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔ غرض اسباب کا مسئلہ بڑا نازک اور مشکل اور مزلۃ الاقدم ہے۔

ابن الوقت : یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ طب کے احکام مسائل ہندسی کی طرح یقینی ہیں مگر اس فن میں اس قدر ترقی ضرور ہوئی ہے کہ یورپ میں عمروں کا اوسط بڑھا ہوا ہے۔ مردم شماری کی افزائش کا پرتا زیادہ ہے ، خاص خاص امراض کے ایسے حکمی علاج دریافت ہوئے ہیں کہ سارے ملک میں کہیں ان بیماریوں کا نام نہیں۔ بہت سے روگ جو درمان پذیر نہ تھے ، اب ڈاکٹر دعوے کے ساتھ ان کا علاج کرتے ہیں۔ حفظانِ صحت کے قواعد اگرچہ ظنی ہیں مگر یقینیات کے لگ بھگ۔ غرض واقعات سے ، نتائج سے یہ بات بخوبی ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کی تدبیر کو اس کی تندرستی اور زندگی میں بڑا دخل ہے اور اس سے انکار کرنا گویا بداہت سے انکارکرنا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 222 اور 223)

حجتہ الاسلام : کیوں ! کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی بڑی عمریں نہیں ہوتیں؟ ہمارے یہاں بھی لوگ کثیر الاولاد ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بہت نکلیں گے جو ہمیشہ یا اکثر تندرست رہتے ہیں اور ان کو علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ جو زیادہ احتیاط کرتے ہیں وہی زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔
ابن الوقت : میں خلاف قاعدہ کو داخل اتفاقیات سمجھتا ہوں۔
حجتہ الاسلام : تم نے اچھی طرح غور نہیں کیا۔ اول تو سرے سے علم طب ہی فی حد ذاتہ ، مکمل نہیں پھر ناقص و ناتمام و مظنون جیسا کچھ ہے ، اگر ساری دنیا کی مردم شماری پر نظر کی جائے تو سو میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ٹھہرے گا جو احکامِ طب کی پوری پوری پابندی رکھتا ہو۔ بات یہ ہے خداوندِ کریم نے ہر انسان کا طبیب اسی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ کیا ہے؟ اس کی طبیعت۔ انسان کی تندرستی پر داخلی اور خارجی بے شمار خطرات ہیں اور اُن میں سے خدا جانے کتنے ہیں جو اس وقت تک مخفی ہیں اور کتنے ہیں جو معلوم ہیں مگر انسان کے بس کے نہیں تو اُن کا جاننا نہ جاننا برابر۔ الغرض کسی کو خبر نہیں کہ کلک بلکہ اب سے چند لمحے بعد ، کون سی آفت اس کی تندرستی پر آنے والی ہے کہ اس کی روک تھام کرلے۔ نزولِ آفت پر فوراََ اس کی طبیعت مرض کی مقاومت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ طبیعت صرف مدبر و معالج نہیں بلکہ اسی طبیعت مرض پر غالب آجاتی ہے ورنہ مغلوبِ مرض ہو کر آدمی ہلاک ہوجاتا ہے۔ رہ گئی دوا ، وہ صرف طبیعت کی تقویت ہے ، بلکہ مجھ سے پوچھو تو صرف طبیعت ہی کی نہیں بلکہ بیشتر اوپر والوں کی۔ بڑے بڑے حاذق طبیبوں کو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں سے مریض مرتے بھی ہیں اور شفا بھی پاتے ہیں ، مرے تو کہتے ہیں خدا نے اتنی ہی حیات لکھی تھی ، حکیم جی نے اپنی سی بہتیری کی ، زندگی ہی نہ ہو تو کیا کریں اور اچھے ہوئے تو نہ خدا ہے ، نہ تقدیر ہے حکیم صاحب ہیں اور اُن کی تشخیص و تدبیر ہے۔

ابن الوقت : آپ تو کچھ جبریوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ آپ کی تقریر کا ماحصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ تدبیر لاحاصل ہے اور انسان کی تندرستی اور زندگی محض ایک امر تقدیری ہے ، من جانب اللہ ، ہر انسان کو اس میں کسی طرح کا مدخل نہیں۔ مگر یہ آپ ہی کی منفرد رائے ہے۔ ایک عالم طب کا معتقد ہے۔ طب سے میری مراد ہومیو پیتھی یا ایلو پیتھی یا یونانی یا وید کی ، کسی خاص طرح کی طباعت نہیں بلکہ میری غرض اسی قدر ہے کہ ساری دنیا سدا سے اس امر کی معتقد چلی آئی ہے کہ حفظِ صحت دفعِ مرض یا ابقائے حیات جن لفظوں سے چاہیے تعبیر کر لیجئے ، تدبیر پذیر ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ تدبیر فی نفسہٖ صحیح ہو یا غلط۔ جادو اور منتر اور ٹونے ٹوٹکے اور تعویذ اور گنڈے اور ہر طرح کی دوا درمن ، سب داخلِ تدبیر ہیں۔ الغرض ہر زمانے میں اس بات پر تمام عالم کا اجماع ہورہا ہے کہ زندگی اور تندرستی میں انسان کی تدبیر کو دخل ہے اور یہ میرا پہلا دعویٰ ہے اور ہر زمانے کے عقاء اور جہلاء اور حضری اور بدوی سب کا اجماع اس دعوے کا ایسا قوی ثبوت ہے کہ اس سے زیادہ قوی کوئی ثبوت ہو نہیں سکتا۔ آپ پیچ دار باتیں کرکے اصل مطلب کا کہاں گم کیے دیتے ہیں۔ میرا دوسرا دعویٰ جو پہلے دعوے پر متفرغ ہے ، یہ ہے کہ جتنی تدبیریں حفظانِ صحت کی لوگ عمل میں لاتے ہیں سب میں رو بہ صواب طب انگریزی اور اس کی متعلقات ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے واقعات پیش کرتا ہوں جن کو مردم شماری کے کاغذات سے استنباط کیا گیا ہے۔"

حجتہ الاسلام : ہاں جی ہاں ! میں تمہارے مطلب کو خوب سمجھتا ہوں تم کو اگر میرے مدعا کےسمجھنے میں کچھ تزلزل واقع ہوا ہے تو لو اب سنو ! صرف اتنی بات سے کہ ہر زمانے میں لوگ حفظانِ صحت کی تدبیریں عمل میں لاتے رہے ہیں ، لازم نہیں آتا کہ انسان کو اپنی تندرستی میں مدخل ہے۔ تم نے اتنی ہی بات ثابت کی کہ لوگوں کو حفظِ صحت کی حاجت ہے اور ہر شخص فی زعمہ اس کی کچھ تدبیر کرتا ہے ، صحیح یا غلط ، درست یا نا درست۔ اسی طرح ہر شخص کو علم مستقبلات کی حاجت ہے اور ہر زمانے میں لوگ اس کے بھی درپے رہے ہیں۔ نجوم اور رمل اور جفر اور فال اور شگون اور تعبیر خواب اور قیافہ اور سعد و نحس اور ہاتھ کی لکیریں اور سانس اور کیا اور کیا سارے پاکھنڈ اسی غرض سے ہیں اور یہ نہ سمجھنا کہ صرف ایشیا کی وحشی قومیں اس خبط میں گرفتار ہیں ، جہاں تک مجھ کو معلوم ہے اہلِ یورپ بھی اس الزام سے بری نہیں۔ غرض فکرِ
 

قیصرانی

لائبریرین
حجتہ السلام نے خدمت گار سے کہاَ:"بھائی یہاں تو کہیں وضو کا ٹھکانہ نظر نہیں آتا، برآمدے میں لوٹا رکھ دو" اور داروغہ سے پوچھا "یہاں آس پاس کہیں مسجد بھی ہے"؟
داروغہ: (چاروں طرف دیکھ کر) کہیں نظر تو نیہں آتی۔
حجتہ السلام: تم کتنے مسلمان ڈپٹی صاحب کے ساتھ ہو؟
داروغہ: (آہستہ آہستہ انگلیوں پر گن کر) درزی ایک، سقا دو، چوکیدار تین، باورچی کے ہاتھ تلی کے دو میٹ، کے ہوئے پانچ، دو سائیس، دو چپراسی نو، ایک میں دس (پکار کر) دس۔
حجتہ السلام: ماشاء اللہ، پھر تم اور تمہارے سرکار نمازیں کہاں پڑھتے ہو؟
داروغہ نے شرما کر گردن نیچے کر لی۔ وضو کے بعد حجتہ السلام نے اپنے خدمات گار سے پوچھا کہ تم کو وضو ہے؟
خدمات گار: جی ہاں، مجھ کو تو وضو ہے۔
حجتہ السلام: اچھا تو نیک مرد دوسرے خدمات گار کا نام ہے) کو بھی اسی طرف کو بلا لو اور کہہ دینا دونوں جانمازیں گاڑی میں سے لیتے آئیں۔ یہاں نماز وغیرہ کا کچھ اہتمام معلوم نہیں ہوتا۔ تمام کمروں میں جدھر دیکھو تصویریں ہی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ بس یہی برآمدہ ٹھیک ہے۔
یہ کہہ کر حجتہ السلام نے خود اذان کہی۔ اذان کی آواز سے کسی کے کان آشنا نہ تھے۔ اصطبل میں گھوڑوں نے کنوتیں کھڑی کیں اور کتے لگے رونے بھونکنے۔ بارے حجتہ السلام نے اپنے دونوں نوکروں کے ساتھ جماعت کی نماز تو پڑھی مگر بہ استکراہ۔ نماز کے بعد داروغہ سے پوچھا "تہمارے سرکار کس وقت واپس آیا کرتے ہیں؟
داروغہ: ان دنوں تو اکثر دن چھپنے سے ذرا پہلے چلے آتے ہیں۔
حجتہ السلام: پھر کیا کرتے ہیں؟ ان کے سارے معمول بیان کرو۔
داروغہ: پہلے تو کوئی نہ کوئی صاحب ضرور ان کے ساتھ آتا تھا اور کوٹھی پر ایک دو صاحب آ موجود ہوتے تھے۔ آج کل لوگوں کا آنا جانا بہت کم ہو گیا ہے اور سرکار بھی کہیں نہیں جاتے۔ دس بجے کھانا کھاتے ہیں، اس وقت تک اخبار یا کتاب پڑھتے رہتے ہیں۔ کھانے کے بعد آدھا گھنٹہ انٹا کھیلتے ہیں، پھر چائے پی کے سونے کے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ صبح کے آٹھ بجے بیدار ہوتے ہیں، غسل کیا، کپڑے بدلے، کھانا کھایا، کچہری چلے گئے۔
حجتہ السلام: اوہو! صبح کے آٹھ بجے اٹھتے ہیں۔
داروغہ: پھر جناب رات کے بارہ بجے سے ادھر تو سوتے بھی نہیں ہوں گے۔ ان دنوں کا ٹھیک حال معلوم نہیں، صاحب لوگوں کی آمد و رفت کثرت سے تھی، رات کے دو دو بجے تک جمگھٹا رہتا تاھ۔
حجتہ السلام: کھانا کس قسم کا پکتا ہے اور کون پکاتا ہے؟
داروغہ: انگریزی کھانا ہوتا ہے اور مدارس کی طرف کا کشٹیا نامی ایک باورچی ہے، وہی پکاتا ہے۔"
حجتہ السلام: کون ذات ہے؟
داروغہ: ہندو مسلمان انگریز سب کا جھوٹا کھا لیتا ہے۔ اس سے پوچھو تو اپنے تئیں یرادڑد بتاتا ہے۔ نہیں معلوم یراوڑو کون ہوتے ہیں مگر اس کے کھانے کی تعریف ہے۔ صاحب کمشنر کے یہاں جب کوئی بڑا کھانا ہوتا ہے، اسی کو بلوا بھیجتے ہیں۔
غرض اچھے سوا ڈیڑھ گھنٹے حجتہ السلام نے داروغہ سے باتیں کیں۔ اسی اثناء میں اس کے خدمات گار نے گاڑی سے اسباب اتارنے کا پوچھا بھی مگر اس نے کہا ابھی ٹھہرو۔ تھوڑی دیر بعد کہوں گا"۔ اب نماز مغرب کا وقت قریب آیا تو خدمات گار نے کہا: "حضور کوچوان بہت جلدی مچا رہا ہے"۔
حجتہ السلام: "اس کو سمجھا دو کہ صبر کرو، مغرب کی نماز پڑھ لیں، ڈپٹی صاحب بھی آنے ہی والے ہیں، ان سے ملنے کے بعد چلیں گے۔ گھوڑے کو کھول دو، گھاس ڈال دو اور تقاضا مت کرو۔ عصر کےو قت تو کتے صرف اذان پر کھورو لائے تھے، اب اذان کے علاوہ نماز بھی جہری تھی، ایک دوسرے کتے مغرب سے ذرا پہلے دستور کے مطابق کھول بھی دئے گئے تھے بہتیرا داروغہ اور کتوں پر جو بھنگی تھا، وہ اور دوسرے لوگ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 200 اور 201)

تو ایسی زبردست رپورٹ ہو کہ وار خالی نہ جائے۔ ڈپٹی صاحب کی جڑ بہت مضبوط ہے۔ نوبل صاحب بہادر نے تعریفیں لکھ کر ان کی لیاقت اور دیانت حکام صدر کے ذہن نشین کردی ہے۔ مثلیں داخل دفتر ہورہی ہیں ، فدوی عملوں کو اشارہ کردے گا ، ساتھ کے ساتھ بے ضابطگیاں چھانٹتے جائیں گے اور اس اثناء میں عجب نہیں ڈپٹی صاحب پر کچھ مقدمات بھی دائر ہوجائیں۔"

بارے سر رشتہ دار کے سمجھانے سے صاحب کلکٹر کا طیش فرو ہوا اور رپورٹ ملتوی رہی مگر لوگوں میں یہی مشہور تھا کہ روانہ ہوگئی۔ سر رشتہ دار موذی اپنی طرف سے مقدمات دائر کرا دینے کی بہتیری کوشش کرتا تھا لیکن سچ کہا ہے :
تو پاک باش برادر مدار از کس باک​
زنند جامہ ناپاک گازراں برسنگ​

اس کچہری کا در و دیوار تک ابن الوقت کا دشمن ہورہا تھا مگر چونکہ اس کا معاملہ صاف تھا کسی کو اس کے سامنے پڑنے کی جرائت نہ ہوتی تھی اور یہ میرا شیر بدستور اسی شان سے کچہری جاتا تھا۔ لوگ اُس سے بہ خوف کلکٹر کنیاتے تھے اور یہ بہ حقارت کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ غرض صاحب کلکٹر کی نارضامندی کا اس کو افسوس تھا نہ ہراس ، ملال تھا نہ خوف۔ کام تو اس سے بالکل چھین لیا گیا تھا ، یہ اپنے ساتھ اخبار کا بنڈل لاتا اور فراغت سے بیٹھا پڑھتا۔ بایں ہمہ صاحب کلکٹر کی طرف سے چھیڑ چھاڑ برابر چلی جاتی تھی۔ اپنا ہی عملہ وقت کی ہوا دیکھ کر ایسا خود سر ہوگیا تھا کہ حکم کی تعمیل اور کام کو جانفشانی کے ساتھ کرنا تو درکنار ، پابندی وقت تک کا لحاظ اٹھا دیا تھا۔ شاذونادر کوئی دن خالی جاتا ہوگا کہ صاحب کلکٹر کےیہاں سے تاکیدی روبکار نہ آتا ہو اور تاکید بھی معمولی طور کی نہیں بلکہ اس قدر سختی اور بے تہذیبی کے ساتھ کہ کوئی جابر کوتوال کسی چوکیدار کو بھی ایسے الفاظ نہیں کہتا۔ ادھر ابن الوقت اپنے عملے پر دباؤ ڈالتا تو کچھ موثر نہیں ہوتا تھا اور ہو تو کیوں کر ہو؟ دو چار بار عملوں پر جرمانہ کرکے دیکھا ، سیدھے صاحب کلکٹر کے اجلاس پر گئے اور منسوخ کرا لائے۔ چونکہ ہر طرح دق کرنا منظور تھا یہاں تک نوبت پہنچی کہ اجلاس کا کمرہ تک خالی کرا لیا۔ وہ جگہ شان دار اور آسائش کی تھی ، اس کے عوض میں کمرہ دیا گیا جس میں نہ دھوپ کی آڑ اور نہ بوچھاڑ کا بچاؤ اور عملہ ہے کہ سارے دن پتھر کی طرح چھاتی پر دھرا ہے۔

اسی اثناء میں گمنام عرضیاں بھی گزرنی شروع ہوگئیں جن میں سخت گیری اور بے انصافی کی صراحتاََ اور رشوت ستانی کی کِنایتاََ شکایتیں درج تھیں۔ ان عرضیوں کا گزرنا صاحب کلکٹر کے لیے حجت ہوگیا۔ سارے شہر میں ڈونڈی پٹی ، جگہ جگہ اشتہار آویزاں ہوئے کہ جس کو ڈپٹی ابن الوقت پر فریاد کرنی ہو بے تامل صاحب کلکٹر بہادر کی اجلاس میں حاضر ہو۔ ادھر عملوں نے مثلوں کی خوب روئی دھنکی۔ غرض ابن الوقت پر دو سوا دو مہینے پر چہار طرف سے ایسا نرغہ رہا کہ ہر روز اس کی موقوفی اور بدلی اور معطّلی اور سپُردگئ فوجداری کی گرم خبر اڑتی تھی اور پھر آپ ہی آپ ٹھنڈی پڑ جاتی تھی۔

جب زیادہ دن گزر گئے تو خود بخود لوگوں کے خیالات سے بدلنے لگے اور سمجھ گئے کہ بس کلکٹر سے اتنا ہی ہوسکتا تھا کہ کام نکال لیا ، کمرہ چھین لیا دو چار اینڈے بینڈے روبکار لکھوا دیے ، مگر واہ رے ڈپٹی صاحب ذرا جو آنکھ پر میل آیا ہو۔ کیوں نہ ہو ، مزاج میں اتنا طنطنہ رکھ لے تو حکومت کا نام لے۔کوٹ پتلون کی خوب شرم رکھی۔ پہلے تو اکثر ایک گھوڑے کی بگھی میں بھی آیا کرتے تھے جس دن سے کلکٹر کے ساتھ مورچہ لیا ، وہ دن اور آج کا دن جوڑی کے معمول کو ناغہ نہیں ہونے دیا۔ انگریزوں کے سارے کام تڑ پڑ کے ہوتے ہیں ، کلکٹر نے رپورٹ تو ضرور کی ہوگی ، مگر اب تک جو اس کا کچھ ظہور نہیں ہوا معلوم ہوتا ہے کہ صدر والوں نے مطلق لحاظ نہیں کیا۔ ہاں نوبل صاحب کا بھی بڑا زبردست کھونٹا ہے اور چاہے مفصلات کے حکام قدر نہ کریں مگر غدر کی خیر خواہیاں سرکار کے دفتر میں چڑھ چکی ہیں ، ان کو کون میٹ سکتا ہے۔ صاحب کلکٹر بہت بے جا الجھے۔ یہ بھی انہوں نے لالہ بھائی ڈپٹی کلکٹر سمجھے ہوں گے کہ ذرا گھورا اور مارے ڈر کے لگے گڑگڑانے بلکہ الٹا صاحب کلکٹر سے جواب طلب ہو تو تعجب نہیں اور ہوا ہو تو کس کو خبر ہے؟
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 224 اور 225)

مستقبل سے کوئی فرد بشر فارغ تو نہیں ، تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ انسان کو علمِ غیب میں دخل ہے پھر دخل ایک مشتبہ لفظ ہے۔ اگر اس سے ملابست مراد ہے ، اگرچہ ادنیٰ درجے ہی کی کیوں نہ ہو ، یعنی تعلق تو دنیا کا سارا کارخانہ انسان کے لیے ہے اور اس کو کل موجودات عالم سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق ہے یا ہوسکتا ہے۔موجودات عالم میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں اس کو تصرف کا اختیار ہے۔اگرچہ اس کا اختیار محدود ہے مگر اسی اختیار کی وجہ سے اس کو "خلیفتہ اللہ فی الارض" کہا جاتا ہے۔ جسمانی توانائی کے اعتبار سے وہ چنداں زبردست مخلوق نہیں مگر عقل کے بل پر وہ آسمان تک اُچک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا عمدہ طور پر انسان کا حال بیان کیا ہے۔

خاک کے پتلے نے دیکھ کیا ہی مچایا ہے شور
فرش سے لے عرش تک کر رہا ہے اپنا زور
سینے میں قلزم کو لیے قطرے کا قطرہ رہا​
بل بے سمائی تری اف رے سمندر کے چور​

وہ زمین پر بیٹھا بیٹھا اجرامِ فلکی پر اور زیادہ دست رس نہیں تو ان کی رفتار سے اپنے اوقات کو منضبط کرتا ہے۔"ھو الذی جعل الشمس ضیااََء وَ القمر نوراََ و قدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب۔ " روئے زمین پر اس نے اپنا تسلط بٹھا رکھا ہے کہ نہ صرف جمادات اور نباتات میں تصرفات اور عناصر پر حکمرانی کرتا ہے بلکہ بڑے سے بڑے قوی اور خون خوار جانور اس سے ڈرتے اور اس کی خدمت کرتےہیں۔ ہا ایں ہمہ انسان کسی کام کا فاعل مستقل اور کسی چیز میں حقیقی موثر نہیں۔ اس مطلب کو سورہ واقعہ میں بڑی ہی عمدگی سے بیان کیا ہے :


" افرءیتم ما تمنون۝‬ ءانتم تخلقونہ ام نحن الخالقون۝‬ نحن قدرنا بینکم الموت و ما نحن بمسبوقین علی ان نبدل امثالکم و ننشئکم فی ما لا تعلمون۝‬ ولقد علمتم النشاۃ الاولیٰ فلو لا تذکرون۝‬ افرءایتم ما تحرثون۝‬ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون۝‬ لو نشاء لجعلناء حطاماََََ فظلتم تفکھون۝‬انا لمغرمون۝‬ بل نحن محرومون۝‬ افرئیتم الماء الذی تشربون۝‬ ءانتم انزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون ۝‬ لو نشا جعلناء اجاجا فلو لا تسکرون افرئیتم النار التی تورون۝‬ ءانتم انشاتم شجرتہا ام نحن المنشون۝‬ نحن جعلناھا تذکرۃ و متاعاََ للمقوین۝‬ فسبح باسم ربک العظیم۝‬"

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے چار چیزوں کو بیان فرمایا ہے ، اولاد اور کھیتی اور پانی اور آگ اور ان چاروں میں سے ہر ایک میں جہاں ت انسان کو دخل ہے اس میں بھی صراحت کی اور پھر تبکیت کے لیے پوچھا کہ بھلا پھر اولادکو تم نے پیدا کیا یا ہم نے اور کھیتی کو تم نے اگایا یا ہم نے اور پانی بادل سے تم نے برسایا یاہم نے اور آگ کا ایندھن تم نے بنایا یا ہم نے؟ ہم نے تمہارے لیے موت کا ٹھہراؤ کردیا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ ہماری پکڑ سے نکل بھاگے۔ ہم چاہیں تو کھیتی کو ڈانٹ بنا دیں کہ اس میں پھل کا کہیں نام نہ ہو ، ہم چاہیں تو پانی کو کھاری کردیں۔ غرض انسان کا اختیار اور اس کی بے اختیاری دونوں حالتیں دکھا دی گئی ہیں جس کا خلاصہ ہے۔ "امَر بین الجبر والاختیار"۔ ابن الوقت : "ہمارے آپ کے درمیان لفظی اختلاف ہے۔ انسان کا اختیار آپ بھی مانتے ہیں مگر محدود اور ہم بھی کہتے ہیں کہ انسان کا اختیار ابھی تک محدود رہا ہے مگر اس کا اختیار اس کی جہالت کی وجہ سے محدود ہے۔ اب جو نئی نئی چیزیں ایجاد ہوتی چلی جاتی ہیں تو انسان سمجھتا جاتا ہے کہ اس کو بڑی قدرت ہے۔ کتنی مدت کے بعد اب اس نے جانا کہ مثلاََ اسٹیم اور الکٹریسٹی کیا چیز ہے اور میں اس پر کیا اختیار رکھتا ہوں۔ اسی طرح اس نے اپنی تندرستی اور زندگی پر بھی اپنا اختیار معلوم کرنا شروع کیا ہے۔ بہت سے امراض کو اس نے اپنے بس میں کر لیا ہے کہ چاہے تو ان کو پیدا ہی نہ ہونے دے یا اگر پیدا ہوں بھی تو ان کو جس وقت چاہے معدوم کردے اور اگر علومِ طب اور کیمیا اور طبیعیات وغیرہ اسی نسبت سے ترقی کرتے رہے جیسے کہ پچھلے سو برس میں تو وہ دن کچھ دور نہیں کہ انسان اپنی تندرستی پر آپ حاکم ہوگا اور کیا عجب ہے کہ رفتہ رفتہ اپنی زندگی پر بھی۔"
 
Top