سید مقبول شیرازی زلفی بھیا
نہیں تھی۔ آپ نے ہم کو غیر بھی نہیں بلکہ دشمن سمجھا۔دنیا میں اونچ نیچ سبھی کے ساتھ لگی ہے،ایسا لوبھ رکھیں تو ہماری بات دو کوڑی کی ہو جائے۔ ڈپٹی صاحب! لوبھ سے دولت نہیں جمع ہوتی۔ ہم کو جو کچھ بھگوان نے دے رکھا ہے، بزرگوں کی نیت کا پھل ہے۔ فرد کے عوض فارغ خطی حاضر ہے، جب بھگوان آپ کو اطمینان دے گا آپ آہستہ آہستہ ادا کر دینا لیکن اس وقت تو ہم آپ سے نہیں لے سکتے۔ بیاج بٹی کی آپ ذرا چنتا نہ کریں۔ ہم نے آپ کی بدولت قلعے سے بہت کچھ کمایا۔ ہم سے آنکھوں پر ٹھیکری نہیں دھری جاتی۔‘‘
ابن الوقت: خزانچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکوڑی مل: مجھ کو معلوم ہے کہ آپ کو خزانچی کا بھی کچھ دینا ہے اور مجھ کو بھی یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے اپنا لینا طلب کیا ہے یا طلب کرنے والے ہیں، سو آپ کو تو بھگوان نے حاکم کیا ہے، اپنا اپنا کرنا اپنا بھرنا۔ اول تو وہ ٹھہرے نوکر دوسرے ان کا نتنا بنج ہے سب سرکاری روپے سے۔ ان سے اتنی سار نہیں ہو سکی۔ آپ حکم دیں تو خزانچی کا حساب بھی چکتا کر دیا جائے۔
ابن الوقت: نہیں، ان کا حساب کچھ ایسا بہت نہیں ہے، اس کی سبیل یہیں سے کر دی جائے گی اور آپ سے فرد کے منگوانے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرکاری ملازم کو اپنے علاقے میں قرض لینے کی ممانعت ہے۔ شروع شروع میں تو مجھ کو اس ممانعت کا علم نہ تھا، علم ہو تو میں نے کچھ پروا نہ کی۔
تکوڑی مل: آپ نے بھلا اس کا خیال کیا! ممانعت اگر ہے بھی تو کوئی اس پر عمل تو کرتا کراتا نہیں۔ صاحب کلکٹر اور جو چاہیں سو کریں، اس بارے میں کان ہلائیں تو میں کہتا نہیں، ملکی انگریز تو کوئی ایسا برلا ہی نکلے گا کہ دلی میں اس کو کام ملا ہواور اس کا نام آپ کی کوٹھی کے بہی کھاتے میں نہ ہو،اور نوکری تو آپ کے غدر کے پیچھے کی ہے، ہمارا آپ کا لین دین بزرگوں کے وقت سے چلا آ تا ہے۔پھر آپ کی نوکری دوسروں کے سری کی نہیں ہے۔ آپ ہی فرمائیں، آپ کے سوائے کوئی اور اپنے وطن میں حاکم ہے۔ آپ کے ساتھ سرکار کی خاص رعایت ہے۔ صاحب کلکٹر اگر اس کی چھیڑ نکالیں گےبھی تو کچھ ہوتا ہواتا نہیں۔اس بات کو تو میں بیمہ لیتا ہوں۔