اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سیدہ شگفتہ بہن جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ! لائبری کے ممبران کی لسٹ کہاں دستیاب ہے اور سکین شدہ صفحے کو کیسے لکھا جائے۔ کیونکہ جب میں صفحہ لکھتا ہوں تو جیسے جیسے لائنوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے صفحہ غائب ہوتا چلا جاتا ہے۔
بھائی اس کا آسان حل یہ ہے کہ آپ ورڈ کی فائل میں ٹائپ کر کے یہاں پوسٹ کر دیا کریں آسان
 

محمد امین

لائبریرین
100
سالہائے دراز تک ان کے پنپنے کی کچھ توقع نہیں۔ اب ان کے فلاح کی صرف یہی ایک تدبیر ہے کہ تلافیٔ مافات کریں اور جس قدر انگریزوں سے الگ تھلگ رہے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے بھی زیادہ ان سے ٹوٹ کر ملیں اور ہمارے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ کوئی آدمی کیوں ایسی تدبیریں عمل میں نہ لائے جو اس کے حق میں مفید ہیں۔
مسلمان کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، اب بھی ان کے سروں میں تعزر کے خیالات بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں تک میں نے آزمایا ہے، مسلمانوں کے مزاج کار فرمائی کے لیے نہایت مناسب ہیں۔ میں نے ان کو کبھی زلیل خوشامد کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ لوگ سختی اور مصیبت کو بڑے استقلال کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں جودت، ان کی عقلوں میں رسائی دوسری قوموں سے بہت زیادہ ہے۔ راست بازی، راست گوئی، دیانت، حمیت اور غیرت میں یہ لوگ اپنے ہم وطنوں سے ضرور سر بر آوردہ ہیں۔ میں نے مختلف اضلاو میں یہ تعلقِ خدمتِ سرکاری ہندوستانیوں کی اکثر قوموں کا تجربہ کیا ہے۔ خدمت گار، چپراسی، عملہ کچہریی، حکام، پیشہ ور تاجر، کوئی حیثیت کیوں نہ ہو، میں نے ہمیشہ مسلمانوں کو بہت بہتر پایا ہے۔ یہ مقابلہ دوسری قوم کے میں ان کے مذہب کو (آپ معاف کیجیے گا) سپاہیانہ مذہب خیال کرتا ہوں اور میرے نزدیک ہر مسلمان مذہباً سپاہی ہے۔
ایک مسلمان تحصیل دار صاحب میرے دوست ہیں۔ نہیں معلوم غدر میں ان کو کیا پیش آئی مگر آدمی تیز مزاج شدید الحکومت تھے، ضرور مبتلائے بغاوت ہوں گے۔ ایک روز ہندوؤں اور مسلمانوں کے تذکرے میں کہنے لگے کہ میں بدون دیکھے فقیر کی آواز پہچان لیتا ہوں۔ ہندو فقیر جب بھیک مانگے گا گڑگڑا کر اور مری ہویئ آواز سے: "بھگوان بھلا کریں" برخلاف مسلمان فقیر کے کہ فقیری میں بھی طنطنے کو نہیں جانے دیتا "یا علی" کہہ کر جو ایک ڈانٹ بتاتا ہے تو سارا محلہ چونک پڑتا ہے۔
میں ایسا سمجھتا ہوں کہ مدتوں اس قوم میں سلطنت رہی۔ یہ تمام صفات اسی کےآثار ہیں لیکن سو برس بھی مسلمانوں پر افلاس کے اور گزرے تو ضرور ان کی نسلیں ایسی بگڑ جائیں گی کہ پھر ان کی اصلاح شاید نا ممکن ہو۔ یہ قوم ایک رفارمر کی پہلے سے محتاج تھی اور اب تو رفارمرکے ہونے نہ ہونے پر انہی کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ


101

ہے۔ میں کہتا ہوں وہ رفارمر تمہیں کیوں نہ ہو۔ شخصی عزتیں فروع ہیں قومی عزت کی۔ کوئی شخص دولت یا ہنر یا کسی اور وجہ سے کیسا ہی قابلِ عزت کیوں نہ ہو، جب تک وہ ایک ذلیل قوم کا آدمی ہے، اس کو پوری پوری عزت کی توقع ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ ذلیل قوموں کے لوگ دولت پیدا کر کے بڑے مال دار ہو جاتے ہیں مگر ناصیہ امارت سے قومی ذلت کے داغ کو نہیں چھڑا سکتے اور سوسائٹی کبھی ان کی ایسی وقعت نہیں کرتی جس کے وہ امیری کی وجہ سے مستحق ہیں۔ میں اب نہیں غدر سے بہت پہلے اسی ہندوستان کے بڑے شہر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک بازار میں کوئی چار گھڑی دن رہے لوگوں کی آمد و شد اس کثرت سے تھی کہ اس سرے سے اس سرے تک گویا ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ جو لوگ سواریوں پر تھے وہ اور ان کے نوکر سبھی تو چلاتے تھے، ہٹو، بچو! کون سنتا ہے۔ اتنے میں سامنے سے ایک گورا نظر پڑا، کہ اکیلا پیپ پیتا ہوا سیدھا چلا آ رہا ہے اور لوگ ہیں کہ آپ سے آپ کائی کی طرح اس کے آگے پھٹتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اس وقت خیال کیا تھا کہ یہ قومی تعزز کا اثر ہے۔ شخصی تعزز پر اگر قومی تعزز مستزاد ہو تو نورٌ علیٰ نور، ورنہ بدون قومی تعزز کے شخصی تعزز اصلی عزت نہیں بلکہ عزت کا ملمع ہے۔
دنیا میں نیکی کے بہت سے کام ہیں لیکن قوم کی رفارم سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ یہی وہ نیکی ہے جس کا فائدہ عام اور اثر نسلاً بعد نسل باقی رہ سکتا ہے۔ جن کو آپ پیغمبر کہتے ہیں وہ بھی میری نزدیک اپنے وقت کے رفارمر تھے۔
ابن الوقت: "مسلمانوں میں رفارمر کی ضرورت کو میں تسلیم کرتا ہوں مگر یہ کام میرے بوتے کا نہیں۔ ایک آدمی بگڑا ہوا ہوتا ہے تو کوئی اس کی اصلاح کا بیڑا نہیں اٹھا سکتا نہ کہ قوم۔ یہ کام مقدورِ بشر نہیں، قوم کے دلوں کو پھر دینا میرے نزدیک تصرفِ الٰہی ہے۔"
نوبل صاحب: "تصرفِ الٰہی ہی سہی اور سہی کا لفظ میں نے غلط کہا، مجھ کو کہنا چاہیے تھا تصرفِ الٰہی ہے لیکن دنیا میں تصرفاتِ الٰہی ہمیشہ اسبابِ ظاہری سے ہوتے ہیں۔ آئندہ کا حال کسی کو معلوم نہیں، کون کہہ سکتا ہے، شاید مسلمانوں کی تباہی حد کو پہنچ چکی ہو اور اب خدا کو ان کی حالت کا بہتر کرنا منظور ہو اور عجب نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

یہ لیجیے خرم بھائی نیا صفحہ ۔ ابھی تک تین لوگوں نے اپنے آپ کو ٹیگ کیا ہے اس سلسلے میں ، ان میں سے ایک نام آپ کا ہے !

IbW-0038.gif
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ لیجیے خرم بھائی نیا صفحہ ۔ ابھی تک تین لوگوں نے اپنے آپ کو ٹیگ کیا ہے اس سلسلے میں ، ان میں سے ایک نام آپ کا ہے !

IbW-0038.gif

فضل نہم

ابن الوقت تبدیل وضع کے بارے میں جاں نثار سے
صلاح اور استمداد کرتے ہیں
ابن الوقت یہ کہہ کر پھر مردانے میں چلا آیا۔ نماز مغرب کے تھوڑی دیر بعد جاں نثار آپہنچا۔ بیٹھتے کے ساتھ ہی پہلی بات اس نے یہی کی کہ " آج صاحب ہوا خوری کو بھی نہیں گئے۔ آپ کے چلے جانے کے بعد سے جو چٹھیاں لکھنے بیٹھے تو میرے شیر نے چراغ ہی جلا دیے۔ پھر مجھ کو بلا کر آپ کے پاس حاضر ہونے کا حکم دیا کہ ابھی چلے جاؤ۔ صاحب آپ سے اس قدر خوش ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ جو ملاقاتی آتا ہے آپ کا تذکرہ اس سے ضرور کرتے ہیں اور میز پر تو صاحب لوگوں میں برابر آپ ہی کا مذکور رہتا ہے۔ وہ تو آپ شہر میں رہتے ہیں اور آپ کا مکان بھی پیچ در پیچ گلیوں میں ہے اور گلیاں بھی صاحب ستھری نہیں: اگر کہیں آپ انھی لوگوں کے میل میں شہر کے باہر کسی بنگلے میں رہتے ہوتے تو دیکھتے کہ سارے سارے دن اور آدھی آدھی رات تک انگریز آپ کا پیچھا نہ چھوڑتے۔ صاحب، ہیں تو یہ لوگ کہنے کو کافر مگر مروت اور خدا ترسی اور اخلاق، غرض نیکی کی کل باتیں جیسی میں نے ان لوگوں میں دیکھیں ہم لوگوں میں تو کہیں پاسنگ بھی نہیں۔ یہ نہ ملنے تک ہوا ہیں اور ملے پیچھے ایسے ملتے ہیں کہ کیا کوئی اتنا ملے گا۔ میم صاحب گئی چھٹی والایت سے آتی ہے تو سائیسوں تک کو سلام لکھتی ہیں اور نام بہ نام ایک ایک کے بی بی بچوں کی خیرو غافیت پوچھتی رہتی ہیں۔ سامنے والی نیلی کوٹھی میں فوج کے ایک صاحب رہتے ہیں ان کی میم صاحب اور بابا لوگ بھی ہیں۔ کل نہیں پرسوں کوئی رات کے دو بجے ایک آیا کے سینے میں درد اٹھا، اسی وقت صاحب آپ جا کر ڈاکٹر کو لائے اور دونوں میاں بی بی صبح کے پانچ بجے تک اس آیا کے پاس سے ٹلے نہیں۔ بھلا آج کوئی ہندوستانی سردار ہے جو ادنیٰ نوکروں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کرے۔ معاملے کے ایسے سچے کہ کسی نوکر کو کیسے ہی ناراض ہو کر موقوف کریں، کیا مجال کہ کسی کی تنخواہ کی کوڑی لگا رکھیں۔ ہم لوگوں کی طرح نہیں کہ پہلے چوری کی تہمت کا منصوبہ سوچ لیں، تب نوکر کے نکالنے کا نام لیں اور تنخواہ تو تنخواہ اگر نوکر تن بدن کے کپڑے سلامت لے کر عزت آبرو سے رخصت ہو جائے تو بڑا خوش نصیب۔ ہم لوگوں میں سے جو کوئی تھوڑے دنوں کے لیے بھی انگریز کو چھو گیا، پھر کسی ہندوستانی کی نوکری اس سے ہو ہی نہین سکتی۔ اگر مذہب کا فرق نہ ہوتا تو چاہے آپ اس کی نمک کی تاثیر سمجھیں، انگریز میرے نزدیک چوجنے کے قابل تھے۔ بال بجوں کی طرح نوکروں کی پرداخت کرتے ہیں۔"
ابن الوقت: "سب انگریز ایک مراج کے نہ ہوں گے۔ اتفاق سے تم کو جن لوگوں کے ساتھ معاملہ پڑا، اچھے ہی اچھے ملے۔"
جاں نثار: " ہرگز نہیں ! ایسے بھلے مانس، دل کے سخی اور بے تکلف کہ ملکی انگریز کی دسوتی نہ فوجی کی صاحب سلامت۔ ہاں دوغلے جن میں ہندوستانیوں کا تخم ملا ہوا ہے، ان کی جس قدر برائی کی جائے تھوڑی۔ " خدا گنجے کو ناخن نہ دے" ان کا بس چلے تو ہندوستانیوں کے ہاتھ سے طرح طرح کی ایذائیں ان لوگوں کو پہنچی ہیں۔ اس سے دلوں میں غصہ بھرا ہوا ہے، اور سری کا ہوتا تو ملک میں گڈھوں کا ہل پھروا کر بھی بس نہ کرتا۔ پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ یہ انھی لوگوں کے حوصلے ہیں کہ رعیت نے اتنا ظلم کیا اور ان کو رعیت کا اجاڑنا منظور نہیں۔ صاحب تو ایسا فرماتے تھے کہ یہ پکڑدھکڑ بھی تھوڑے دن کی اور ہے۔ ہمارے یہاں تو صاحب لوگوں کا بڑا جمگٹھا رہتا ہے۔ یہ لوگ آپس میں اکثر غدر ہی کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ میں انگریزی خوب تو نہیں سمجھتا مگر اتنا معلوم ہے کہ اب رحم کی نظر زیادہ ہے۔ یہ غدر بھی ایک کسوٹی تھی۔ جس


شکریہ شگفتہ آپی ایک بار پھر خرم شہزاد خرم
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین

تو باورچی خانے یا اصطبل میں پاؤ گھنٹے، آدھ گھنٹے کھڑے کھڑے دم لیا اور جب سانس اچھی طرح پیٹ میں سمانے لگا تو رومال سے منہ ہاتھ پونچھا، ہاتھ سے داڑھی مونچھ کو سنوار، آہستہ سے عمامے کو ذرا اور جما لیا، چغے کے دامن سمیٹے اور بڑے مؤدب اور مقطع بن کر ہاتھ باندھے، نیچی نظریں کیے، ڈرتے ڈرتے، دبے پاؤں کوٹھی کی طرف کو بڑھے۔ خدمت گار اور اردلی کے چپراسیوں نے تو احاطے کے باہر ہی سے تاڑ لیا تھا، کوٹھی کے پاس آتے دیکھ کر، قصداً ادھر ادھر کو ٹل گئے۔ تھوڑی دیر زینے کے نیچے ٹھٹکے کہ کوئی آدمی نظر آئے تو اوپر چڑھنے کا قصد کریں۔ چلنے کی، باتوں کی اور چیزوں کے رکھنے اٹھنے کی آوازیں ہیں کہ چلی آتی ہیں مگر کوئی آدمی نظر نہیں آتا۔ آخر ناچار ستون کی آڑ میں جوتیاں اتار کر ہمت کر کے بے بلائے اوپر پہنچے۔ کرسی نہیں، مونڈھا نہیں، فرش نہیں، کھڑے سوچ رہے ہیں کہ کیا کریں، لوٹ چلیں۔ آئینوں میں سے دیکھ لیں۔ شرمندگی کے ٹالنے کو وہیں سی جگہ میں ٹہلنا شروع کیا۔ اتنے میں باورچی خانے کی طرف سے ایک آدمی آتا ہو نظر آیا۔ جی خوش ہوا کہ اس سے صاحب کا اور اردلی کے لوگوں کا حال معلوم ہو گا۔ وہ لپک کر ایک دوسرے دروازے سے اندر گھس گیا اور ادھر کو رخ بھی نہ کیا۔ غرض کوئی آدھے گھنٹے (اور اس انتظار میں تو ایسا معلوم ہوا کہ دو گھنٹے) اسی طرح کھڑے سوکھا کیے۔ بارے خدا خدا کر کے ایک چپراسی اندر سے چٹھی لیے ہوئے نمودار ہوا۔ کیا کریں اپنی غرض کے لیے گدھے کو باپ بنانا پڑتا ہے حیا اور غیرت بالائے طاق، آپ منہ پھوڑ کر اس کو متوجہ کیا: "کیوں جمعدار کچھ ملاقات کا بھی ڈھنگ نظر آتا ہے؟" بس اس کو ڈپٹی کلکڑی کا ادب سے سمجھو یا شکایت کا ڈر، مگر میں جانتا ہوں کہ ادب اور ڈر تو خاک بھی نہیں صرف اتنی بات کا لحاظ کہ شہر کی فوج داری سپرد ہے، خدا جانے کب آ پڑے، چار و ناچار اچٹتا ہوا سا سلام کر کے جیسے کوئی مکھی اڑاتا ہے، اس کو کہنا پڑا کہ آج ولایت کی ڈاک کا دن ہے، ملاقات تو شاید ہی ہو مگر آپ بیٹھئے، ابھی تو صاحب غسل خانہ میں ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پھر اندر کو جانے لگا تو آخر نہ رہا گیا اور زبان سے نکلا کہ کہاں بیٹھوں اپنے سر پر۔ تب اس نے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی، تکیہ اور ایک بازو ندارد، گویا بید کی تپائی لا کر ڈال دی۔ جس کے بعد جب کوئی چپراسی یا خدمت گار باہر آتا، یہی معلوم ہوتا کہ صاحب ابھی غسل خانے سے نہیں نکلے (الہٰی کیا غسل میت ہے)، اب کپڑے بدل رہے ہیں، اب میم صاحب کے کمرے میں ہیں، اب چھٹی لکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آخر کو معلوم ہوا کہ کھانے کی میز پر ہیں۔ یہ سن کر جی ہی تو بیٹھ گیا کہ اب کیا خاک ملاقات ہو گی۔ ارادہ ہوا کہ گھر کی راہ لیں۔ پھر خیال ہوا کہ کون وقتوں سے انتظار کر رہے ہیں، آنا تو پڑے ہی گا، دوسرے دن کا کیا بھروسہ، اتنی محنت کیوں ضائع کی، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اور صبر کرو۔ بڑی دیر بعد چپراسی یہ حکم لے کر نکلا کہ سر رشتہ دار کو رپورٹ خوانی کے لئے بلایا ہے۔ اب رہی سہی امید اور بھی گئی گزری ہوئی۔ تب تو اپنا سا منہ لیتے ہوئے چپراسی سے یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ خیر میں تو اب جاتا ہوں، صاحب سے میرے آنے کی اطلاع کر دینا۔ تب خدا جانے چپراسی کے دل میں کیا آئی کہ کہنے لگا: "میں دو بار آپ کی اطلاع کر چکا ہوں، کچھ بولے نہیں۔ اب پھر کہے دیتا ہوں، خفا ہوں گے تو میری آدھ سیر آٹے کی فکر رکھنا۔"غرض بلائے گئے۔ صاحب کو دیکھا تو پیٹ منہ میں لئے ٹہل رہے ہیں۔ بس معلوم ہو گیا کہ مطمئن ملاقات نہیں ہو سکتی۔ سر جھکائے کوئی کاغذ یا کتاب دیکھ رہے ہیں۔ اب کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں کر ان کو خبر کروں کہ میں آیا ہوا کھڑا ہوں اور کیا معلوم ہے کہ شاید جان بوجھ کر کھڑا رکھا ہو بلکہ مجھ کو تو اس بات کو بھی شبہ ہے کہ میرے آنے کی بہت دیر پہلے سے ان کو خبر تھی۔ چپراسی نے شاید نہ بھی کہا ہو مگر چاروں طرف آئینے کی کواڑ ہیں، عین سامنے کی دروازے سے آیا، درختوں کے نیچے ٹہلتا رہا پھر بڑھ دیر تک برآمدے میں بیٹھا رہا: کیا اتنے عرصے میں ایک بار بھی ان کی نظر نہ پڑی ہو گی؟ ضرور پڑی ہو گی۔ خیر آخر آپ ہی سر اٹھایا "او ڈپٹی صاحب!" حاکم بالا دست ہو کر جو اتنی آؤ بھگت کرے تو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ صاحب نے بندہ نوازی میں کچھ کمی نہیں کی۔ آنکھیں چار ہوتے ہی اپنے مقابل میز کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اپنے گھر یا آپس میں ایک دوسرے کے گھر کرسیوں پر بیٹھنا کون نہیں جانتا لیکن میں تو اپنے سے زیادہ تنخواہ کے ہندوستانی صدر الصدرووں اور ڈپٹیوں کا انگریزوں کے رو برو کرسی پر بیٹھنا دیکھے ہوئے تھا۔ کہنے کو کرسی پر بیٹھنا مگر حقیقت میں بید پر چوتڑ ٹیکے نہ ہوں تو جیسے چاہو قسم لو۔ تم خدا کے بندے ہو، یقین مانا، بس ڈنڈے پر الگ​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ لیجیے خرم بھائی

IbW-0039.gif
طرح کھوٹے کھرے ہندوستانی الگ پہچانے گئے، اسی طرح برے بھلے انگریز۔ جو لوگ ان میں شریف خاندانوں کے ہیں وہ در گذرہی کی رائے دیتے ہیں۔ ایک روز ہمارے صاحب تذکرہ کرتے تھے کہ ولایت میں پہلے یہ قاعدہ تھا کہ سرکار شریف خاندانوں کے لڑکوں کو اپنے خرچ سے پڑھالکھا کر ہندوستان کی نوکریوں کے واسطے تیار کرتی تھی۔ ان دنوں جو انگریز آتے تھے سب خاندانی ہوتے تھے۔ اب چند سال سے سرکار نے اس دستور کو موقوف کر کے امتحان کا طریقہ جاری کیا ہے۔ لوگ اپنے طور پر ہندوستان کی نوکری کے لیے لیاقت بہم پہنچا کر امتحان دیتے ہیں، جو امتحان پاس کرتا ہے اس کو نوکری مل جاتی ہے۔ شریف اور رذیل کا امتیاز نہیں ہوتا۔ اکثر عوام کے بلکہ دھوبی، حجام، موچی، بھٹیارے وغیرہ پیشہ وروں کے لڑکے جن کی والایت میں کچھ بھی عزت نہیں، محنت کر کے امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے تعلیم یافتہ ہونے میں کچھ شک نہیں مگر تاہم: ع اصل بداز خطا خطا نہ کند، ان کی ذات سے رعایا کو کم تر فیض پہنچتا ہے۔ مگر میں تو یہی کہوں گا کہ ان کے برے بھی ہمارے اچھوں سے اچھے اور بہت اچھے ہیں۔ آپ ان سے ملیں تو میرے کہےکی تصدیق ہو۔"​
ابن الوقت: "نوبل صاحب بھی مجھ کو یہی صلاح دیتے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ مجھ کو برابری کے دعوئے سے انگریزوں مین ملائیں۔"​
جان نثار: "ملنے کا مزہ بھی برابری ہی میں ہے۔ یہ کیا کہ امیدوارانہ گئے، اردلیوں کے دھکے کھائے، سارے دن کی محنت میں دور سے سلام، نہ بات نہ چیت اور خدانکواستہ آپ کو اس طرح ملنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ چلئے ادھر ہی ایک کوٹھی کرائے لے کر رہے تو بڑا مزہ ہو۔"​
ابن الوقت: "کیا تم سمجھتے ہو کہ انگریز مجھ کو اپنی سوسائٹی میں لینا پسند کریں گے؟"​
جاں نثار: "آپ کو اور آپ کے غلاموں کو!آپ کی صورت شکل اور شان میں ماشاءاللہ کسی طرح کی کمی نہیں۔ خدا نے آپ کو امیر کیا ہے، کچھ یہ بات نہیں کہ آپ اونچی حیثیت سے رہ نہیں سکتے۔ انگریزی میں کسی قدر کمی ہے، سو آپ باتیں سمجھ تو سب لیتے ہیں، بولنے میں جھجک ہے، دو چار مہینے میں ملنے جلنے سے خودبخود نکل جائے گی اور سب سے بڑھ کر تو صاحب کا زبردست پایہ ہے۔ خدا ان کو سلامت رکھے، دن جاتا ہے آپ کو کچھ کام بھی ضروری ہونے والا ہے۔"​
ابن الوقت: "مگرہندوستانی لوگ اس کی نسبت کیا خیال کریں گے؟"​
جاں نثار: "ہندوستانی تو یہی سمجھیں گے کہ آپ کرسٹان ہوگئے اور میں تو جانتا ہوں اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ کوئی بیسیوں آدمیوں نے تو آج ہی مجھ سے پوچھا ہے۔"​
ابن الوقت: "تم انگریز کے ساتھ کھانا کھانے کو کیسا خیال کرتے ہو؟"​
جاں نثار: "صاحب کے منہ سے سنا ہے کہ روم اور مصر اور ایران اور عرب کہیں کے مسلمان پرہیز نہیں کرتے، بے تکلف انگریزوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک کے لوگ تو بڑی چھوت مانتے ہیں۔"​
ابن الوقت: "خیر جیسی پیش آئے گی، دیکھی جائے گی۔ میں نے نوبل صاحب سے وعدہ کر لیا ہے مگر انگریزوں کی شان کے مطابق سامان کا بہم پہنچنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔"​
جاں نثار: "جناب، ذرا بھی مشکل نہیں۔ اس کا تو آپ خیال بھی نہ کیجئے۔ کلکتے میں جنرل سپلائیر، ایک کمپنی ہے، اس کا ایجنٹ یہاں آیا ہوا ہے۔ ایک بنگلہ تجویز کر کے اس کو دیکھایا جائے گا کہ اس طور پر اس کو سجادو۔ ہمارے صاحب نے بھی تو یہی کیا تھا۔ اس کوٹھی کی تو چھت تک بھی اکھاڑ کر لے گئے تھے۔ صاحب جھجر جاتے ہوئے اس ایجنٹ سے کہتے گئے۔اس نے ایک ہی مہنے میں مکان بھی بنوادیا اور جتنا ساز و سامان آپ دیکھتے ہیں، سب مہیا کر دیا۔ ہماری کوٹھی کے مقابل سٹرک پار 42 نمبر کا بنگلہ خالی ہے، صاحب سے بھی قریب ہے، موقع بھی اچھا ہے، شاید چالیس ، پینتالیس، ایسا ہی کچھ کرایہ ہے، اگر حکم ہو ، اس کو روک دیا جائے۔ جس مہاجن کا بنگلہ ہے، اس نے حال ہی میں اس کودرست کرایاہے، غدر میں یہ بھی بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ جنرل سپلائیر کا ایجنٹ دو ہفتے کے قریب میں جیسا فرمائے گا، سجادے گا۔ ان لوگوں میں ٹھہرانے چکانے کا دستور نہیں۔ بل بنا کر بھیج دے گا، آپ اس کی رقم چکا دینا۔​
@خرم شہزاد خرم​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ لیجئے خرم بھائی

IbW-0041.gif
ہے اس سے بہتر اور کون سا موقع ہوگا کہ نوبل صاحب پچ پر ہیں۔​
غرض ابن الوقت ہر وقت سوچ میں رہتا تھا اور زیادہ دیر تک سوچتے سوچتے گھبرا اٹھتا تھا اور چاہتا تھا کہ جو کچھ ہونا ہے پرسوں کا ہوتا کل اور کل کا ہوتا آج ہو جائے۔ صرف ایک آدمی نوبل صاحب تھے جن کے ساتھ وہ اس بارے میں صلاح یا مشورہ یا گفتگو یا بحث جو کچھ کہو کر سکتا تھا۔ وہ بھی ان دنوں کسی سرکاری ضرورت سےباہر چلے گئے تھے۔ پس ابن الوقت کا ایک مہنہ کیوں، خاصے دس دن اوپر ایک مہینہ بہت ہی پریشانی میں گزرا مگر اس کو انگریزی اے ٹی کٹ سیکھنے کی خوب مہلت ملی۔ اسی اثناء میں جاں نثار نے ضروری ادب آداب اس کو سب تعلیم کر دیے گویا انگریزی سوسائٹی کی یونیوورسٹی کا انٹرنس پاس کرادیا۔​
بارے مئی 1858 ء کی تیرھیوں تاریخ تھی کہ جاں نثار نے آکر خبردی کہ" لیجئے حضرت، آج دن کے چار بجے سب سامان آپ کو مہیا ملے گا۔ دیر تو ہوگئی مگر کوٹحی کو بھی ایجینٹ نے ایسا سجایا ہے کہ پڑی جگمگا رہی ہے۔ دیکھئے گا تو پسند کیجئے گا اور آج رات کو نو بجتے بجتے صاحب بھی خدا نے چاہا تو آپہنچیں گے، آپ چاہیں آج رات کو وہیں چل کر آرام کریں، دن بھی اچھا ہے، مہورت بھی اچھی ہے، خدا مبارک کرے!"​
ابن الوقت: "بہتر ہے صاحب کو آلینے دو خود دھیان کر لوں، کسی چیز کی کسر تو نہیں رہ گئی۔"​
جاں نثار: " میں نے اچھی طرح خیال کر لیا ہے۔ اور وہ ایک اور ژخصوں کو بھی دیکھا لیا ہے۔ بس اگر کسر ہے تو آپ ہی کی ہے۔ انشاءاللہ ہر چیز آپ تیار پائیں گے۔"​
آفتاب نکلا ہی تھا کہ اگلے دن نوبل صاحب کا بلاوا آ موجود ہوا۔ نوبل صاحب، جیسا ان کا دوستور تھا، بہت تپاک سے ملے اور کچہری کے بکس سے ایک چھٹی نکال ابن الوقت کے حوالے کی کہ "لیکئے مبارک ، ڈھائی سو کی اکسٹرا اسسٹنٹی کی منظوری آئی ہوئی چار دن سے میرے پاس رکھی ہے۔ چونکہ میں آنے کو تھا، میں نے چاہا کہ آپنے ہاتھ سے چٹھی اور اپنی زبان سے مبارک باد دوں ۔ ایک بات میں نے آپ کے بس پوچھے کی کہ مقدمات تحقیقات بغاوت میں مجھ کو آپ سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ، اس کام کے ختم ہونے تک میں نے آپ کو اپنے محکمے میں لے لیا ہے۔"​
ابن الوقت: "آپ نے تو احسانات سے اس قدر مجھ کو لاد دیا کہ شکر گزاری کا نام منہ سے نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بھلا خیر زمیں داری تک تو مضایقہ نہ تھا، یہ اکسٹرا اسٹنٹی کیوں کر میرے سنبھالے سنبھلے گی؟"​
نوبل صاحب: "ایسی سنبھلے گی کہ دوسروں کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ ضوابط کچہری سے آپ کو ایک طرح کی ناآشنائی بے شک ہے، سو کچھ بڑی بات نہیں اور ایسی غرض سے میں نے آپ کو اپنے محکمے میں لیا ہے۔ ایک ہوشیار سامنشی آپ کے اجلاس میں تعینات کر دیا جائے گا اور وہ تھوڑے دنوں میں آپ کو ضوابط سے آگاہ کر دے گا۔ آپ کے لیے زمین داری کے ساتھ اس خدمت کی تجوزی ہو چکی تھی مگر ایک دم سے اتنی بڑی نوکری دیتے ہوئے لوگ ہچکچاتے تھے، آخر لاٹ صاحب کے یہاں سے منظوری منگوائی گئی۔ حسنِ اتفاق سے آج غدر کو بھی پورا برس ہوا، بس کل سے ضلع کی کچہری میں میرا اجلاس کے پہلو میں اجلاس شروع کیجئے۔ میں جاں نثار سے یہ بات سن کر بہت ہی خوش ہوا کہ آپ نے 44 نمبر کا بنگلہ اپنے رہنے کے لیے تجویز کیا ہے اور وہ بہ ہمہ وجوہ مرتب بھی ہوگیا ہے۔"​
ابن الوقت: " شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ میں مکان کے ساتھ لباس اور تمام ہندوستانی طرز کو بھی بدلنے والا ہوں۔:​
نوبل صاحب: " آہا! تو آپ کو پورا پورا رفارمڈ اور رفارمر جنٹلیمین دیکھ کر میں بہت ہی کوش ہواں گا۔"​
کھانے کا وقت تھا قیرب ، نوبل صاحب نے چاہا کہ ابن الوقت بھی شریک ہو مگر اس نے عذر کیا کہ بس آج اس وقت اور معاف کیجئے ۔ اس وقت کے بدلے اگر آپ چاہیں تو میں رات کو کھانے میں وضع جدید کے ساتھ شریک ہوسکتا ہوں، مجھ کو اس حالت سے آپ کے پاس بیٹھنا ، باتیں کرنا اور آپ کے ساتھ کھانا کھانا بھلا نہیں معلوم ہوتا۔ نوبل صاحب نے اس بات کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ آج ڈنر پر میں آپنے احباب کو بھی جمع کروں گا اور کھانے کے بعد سب سے آپ کی تقریب بھی کرودوں گا تا کہ ایک جلسے میں سب صاحب لوگوں سے معرفت ہوجائے۔​
@خرم شہزاد خرم​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ لیجیے شمشاد بھائی۔ ایک صفحہ پہلے بھی ٹیگ کیا ہوا ہے اس دھاگے کے پچھلے صفحات میں ۔

IbW-0040.gif
میں نے شمشاد بھائی کا کام بھی کر دیا ہے ان کو کوئی اور کام دے دیں




نہ ہڑ ہڑ نہ کھڑ کھڑ۔ بلکہ فرمائیے تو میں صاحب سے عرض کردوں، وہ تو خوشی خوشی اس کا انتظام کر دیں گے مگر کہیں گے وہ بھی ایجنٹ ہی سے۔"​
ابن الوقت" " نہیں ، صاحب کو کیوں تکلیف دو، تمھی جس طرح مناسب سمجھو کر دھر لو۔ اور ہاں بھائی کپڑے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟"​
جاں نثار: "ہر چیز میل سے بھلی معلوم ہوتی ہے۔ پیروں میں انگریزیو ہاف بوٹ، ٹانگوں میں ڈھیلے پانچوں کا پاجامہ، آدھی پنڈلیاں کھلی ہوئی یا کوٹ پتلون کے ساتھ سر پر عمامہ یا اسی طرح کی دوسری بے جوڑ چیزیں مجھ کو تو بری معلوم ہوتی ہیں۔ نقل کیجئے تو پوری پوری کیجئے ورنہ دونون جگہ ہنسی ہوگی۔ آگے آپ کو اختیار ہے۔"​
ابن الوقت: "خیر، تو ایک سال کے کپروں کے لیے بھی اسی ایجنٹ سے فرمائش کر دینا اور چونکہ تم انگریزی سوسائٹی کے دستور سے بہ خوبی واقف ہو، اس بات کا خیال رکھنا کہ انگریزوں کی نظر میں سبکی نہ ہو۔"​
جاں نثار: "کیا مجال، خدا نے چاہا تو آپ کی کوٹھی سر تاپا ایسی آراستہ ہوکہ لیڈیاں دیکھنے کو آئیں اور ساری چھاؤنی میں آپ کے کھانوں کا غل ہو۔ اصل چیز ہے روپیہ اور سلیقہ سو روپے کی خدا کی فضل سے آپ کے پاس کمی نہیں اور سلیقہ تو خاک چاٹ کر کہتا ہوں، پرسوں میم صاحب کی جھڑکیاں سیس، گھر کیاں سنیں، صاحب نے لاٹ گورنر کو کھانا دیا، شاہزادہ بلیجیم کی دعوت کی۔ خیر اپنے منہ سے اپنی بڑائی کرنی مناسب نہیں ، دیکھ لیجئے گا۔ اس بات کو آپ دریافت کر لیجئے کہ چھاؤنی میں جب کبھی کوئی بڑا کھانا دیاجاتا ہے، آپ کے خانہ زادی ہی کو بلاتے ہیں۔ فرنیچر کا سجانا بڑا مشکل کام ہے، اچھے اچھے چوک جاتے ہیں مگر میم صاحب نے میرے پیچھے بڑی جان ماری ہے، تب کہیں برسوں میں جا کر یہ بات حاصل ہوئی ہے۔ خیر اور سب باتوں کو تو میں دیکھ بھال لوں گا، مگر آپ کو خود بھی انگریزی قاعدہ سیکھنا چاہئے کیونکہ آپ ہوں گے صاحب خانہ۔ آؤ بھگت ، استقبال، رخصت، مزاج پرسی، تواضع وغیرہ وغیرہ بہت سے کام آپ کو اپنی ذات سے کرنے پڑیں گے۔ ایک ذرا سیبے تمیزی سے سارا کیا دھرا اکارپ ہوجاتا ہے۔ لیڈیوں کے ساتھ ملنے میں خاص کر بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ میم صاحب کی دی ہوئی اے ٹی کٹ کی میرے پاس ایک کتاب ہے، میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ ایک دفعہ وہ کتاب نظر سے گزر جائے گی تو سارے کام سدھ ہو جائیں گے اور آخر ان لوگوں کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے بھی تو آپ دیکھیں گے۔ شروع شروع میں ذرا اس کا خیال کھئے گا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کیونکر برتاؤ کرتے ہیں۔"​
نوبل صاحب بیچارے کا کچھ دوس نہیں۔ انہوں نے اپنے انگریزی خیالات کے مطابق نیک نیتی سے اپنے دوست ابن الوقت اور اس کی قوم کے حق میں مفید سمجھ کر اس کو ایک صلاح دی۔ ابن الوقت دودھ پیتا بچہ نہ تھا کہ نوبل صاحب کے جھانسے میں آگیا۔ اس کو اپنی قابلیت ، قوم کی حالت، اطراف و جوانب، نتائج و عواقب پر نظر کر کے کام کرنا تھا۔ بات یہ ہے، خود اسی کی طبیعت شروع سے اس طرف راغب تھی۔ نوبل صاحب کا کہنا اونگھنتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوگیا۔ اپنی قوم اور قوم کی ہر چیز کی حقارت اور انگریز اور ان کی ہر بات کی وقعت پہلے سے اس کے ذہن میں مرتکز تھی مگر وہ ایک شخص رائے تھی نہ کسی کے حق میں مفید، نہ کسی کے لیے بہ کار آمد۔ اتنی بات ابن الوقت کو نوبل صاحب نے سجھائی کہ اس خیال سے کسی طرح پر اس کو اور اس کی قوم کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔​
ابن الوقت کی ظاہری حالت کے بدلنے میں ابھی دیر ہے مگر جاں نثار کے چلے جانے کے بعد بھی وہ اسی خیال میں مستغرق ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا نوبل صاحب کی سی کوٹحی ہے اور خانہ باغ میں کرسی بچھائے صاحب لوگوں کی شکل بنائے بیٹھاہوا ، شب ماہ کی مزے لے رہا ہوں۔ پھر وہ آپ ہی آپ چونک پڑا کہ اس حالت میں کسی نے مجھ کو دیکھا تو نہیں۔ تب وہ اس خیال کو دفع کرتا ہے کہ اوکھلی میں سردیا تو دھماکوں کا کیا ڈر۔ رہ رہ کر اس کو خیال آتا ہے کہ اپنے عزیز رشتہ دار، دوست آشنا، جان پہچان ، اہلِ محلہ، اہلِ شہر، اہلِ ملک میرے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔ یہ تصور یہ کہ رفارم پر طبیعت کو مطلا نہیں جمنے دینا کہ اس کا کچھ منصوبہ سوچے۔ نوبل صاحب کو زبان دیے پیچھے اس ارادے سے دست کش ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ کبھی جی ہی جی میں اپنے تئیس ملامت کرتا ہے کہ جلد ناحق کی، پھرکہتا​
 
Top