ذیشان ابن حیدر
لائبریرین
ص۔126
ابھی تک غدر سے پوری پوری نجات حاصل نہیں ہوئی لیکن اس کی جڑ کٹ گئی ہے اور شاخ و برگ اگر کوشش نہ بھی کی جائے، آپ سے آپ خشک ہو کر اور گل سڑ کر خاک میں مل جائیں گے۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ نتیجے کے واقع ہونے کے بعد اس کے اسباب جستجو کی جاتی ہے لیکن مبارک ہیں وہ لوگ جو وقوع نتیجہ سے پہلے اسباب پر نظر کرتے ہیں۔ ع: مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست۔ خیر، اگر وہ موقع ہم سے فوت ہو گیا تاہم بعد الوقوع اسباب غدر کا خیال کرنا اس وقت دلچسپ اور آئندہ مفید ہو گا۔ اخبار والوں نے اس کی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے اور ہر شخص جو کچھ اس کے منہ میں آتا ہے کہتا ہے لیکن گورنمنٹ جس کو واقعی اسباب غدر کا جاننا سب سے زیادہ ضروری ہے، اخبار والوں کی رائے میں عمل کرے گی اور اخبار والے تو آخر اسی غرض سے خامہ فرسائی کر ہی رہے ہیں تو میں گورنمنٹ سے اور آپ سے صاحبوں سے معافی مانگ کر یہ بات کہتا ہوں کہ گورنمنٹ بڑا دھوکا کھائے گی اور گورنمنٹ کی خیر خواہی مجھ کو اس بات کے کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید وہ ویسی ہی نا واقف اور بے خبر گورنمنٹ رہے گی جیسی غدر سے پہلے تھی۔
سلطنت میں رعایا اور گورنمنٹ دونوں کی اغراض وابستہ یک و گر ہیں۔ اگر ہندوستانیوں کو انگریزی سلطنت سے امن اور آزادی کے گوناگوں فائدے پہنچے ہیں جو فی الواقع ان کو کسی زمانے میں نصیب نہیں ہوئے تو اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ انگلستان اسی سلطنت کی بدولت مالا مال ہو گیا ہے اور اسی سلطنت کے برتے پر اس نے تمام یورپ کی سلطنوں کی کنی وبائی ہے۔ ممکن ہے بعض احمق ہندوستانی اسی کو انگلستان کا بڑا مفاد سمجھتے ہوں کہ انگریز بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں، یہ تو ان فائدوں کا پاسنگ بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انگلستان ہنرمندی اور صناعی کا گھر ہے اور اس کے تمول کا بڑا ذریعہ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں تنہا ذریعہ تجارت ہے۔ سو ہندوستان کی سلطنت نے انگلستان کی تجارت کو ہزار ہا گونہ تو اب بڑھا رکھا ہے اور کوئی کہہ نہیں سکتا آئندہ اس میں کہاں تک افزائش ہو گی۔ پس اگر اغراض کا موازنہ کریں تو میرے نزدیک انگلستان کی اغراض کا پلہ جھکتا رہے گا۔ یہ سبب ہے کہ انگریزوں کو غدر کا زیادہ فکر ہونا چاہیے۔
ص۔ 127
میں اس انگریزوں کی اقبال مندی سمجھتا ہوں کہ حسن اتفاق سے اس وقت کوئی معاصر سلطنت ہندوستان کی دعوی دار نہیں ہوئی اور اہل ہند میں اس سرے سے اس سرے تک کسی فرد بشر میں سلطنت کی صلاحیت نہ تھی اور ہندوستان کی مختلف اقوام میں اتفاق کا رنگ پیدا ہونے نہیں پایا تھا۔ انگریزوں نے اس ملک کو بہ زور شمشیر فتح کیا اور بہ زور شمشیر اس پر قابض رہے اور بہ زور شمشیر غدر کو بھی فرو کر دیا مگر زور شمشیر رعایا کے جسموں کو مسخر کر سکتا ہے نہ دلوں کو۔ یہ ملک صدہا بلکہ ہزارہا برس سے شخصی سلطنوں کا محکوم رہا ہے اور یہاں کی رعایا نے ابھی تک انگریزی سلطنت کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور یہ لوگ حکام ضلع کو بادشاہ کا اوتار خیال کرتے ہیں، پس اس ملک کے عہدہ دار ان انگریزی کے ذمے دوسرے فرائض خدمت کے علاوہ ایک بڑا ضروری فرض مزید ہے کہ ہر وقت اپنے تئیں ملکہ کا قائم مقام سمجھ کر لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کریں جو ملکہ کے لئے زیبا ہے۔ اب آپ صاحبوں میں سے ہر شخص اپنے دل میں خیال کر سکتا ہے کہ اس نے اس فرض کو کہاں تک ادا کیا ہے۔ انگریز اِالَّا مَا شَاءَ اللہ اس ملک میں ایسا روکھا مزاج بنائے رکھتے ہیں اور ہندوستانیوں کو ایسی حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس نہیں بھٹکتا تا وقتیکہ اس کو ضروری مجبور نہ کرے۔ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں محبت اور اخلاص کا ہونا ایسا شاذ ہے جیسے شیر اور بکری میں۔ میں ہندوستانیوں کے ڈفیس میں ایک لفظ نہیں کہنا چاہتا اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ کوئی انگریز جنٹلمین ان کی ملاقات سے کبھی محفوظ ہو نہیں سکتا لیکن اگر بروں سے پالا پڑ جائے تو تھوڑا بہت اپنی طبیعت پر بھی جبر کرنا چاہیے۔ ع:چہ تواں کد مردماں ایستد۔ اور جو شخص اس تکلیف کا متحمل نہیں ہونا چاہتا تو اس کو ان بروں سے بھلائی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ غدر کے بعد سے ہر انگریز کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ہندوستانیوں نے اس کی مدد نہیں کی لیکن ذرا گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیے کہ وہ کس احسان، کس سلوک، کس مہربانی کے عوض میں اس مدد کا مستحق تھا۔ وہ شاید اپنا ایک حق بھی کسی ہندوستانی پر ثابت نہیں کر سکے گا۔ اس اصولِ منصفانہ کو پیشِ نظر رکھیں تو بغاوت کی لمبی فہرست صرف ایک فرد مختصر رہ جائے گی۔