یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئی ہے پسینوں میں سحر آج
وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج
راج بہادر اوج
قضا
او دیس سے آنے والے بتا
برسات کے موسم اب بھی وہاں
ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
جھولے اور گانے ہوتے ہیں
اور دور کہیں کچھ دیکھتے ہی
نوعمر دیوانے ہوتے ہیں
اختر شیرانی