دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

خوشبو سے پُر ہوائیں۔ دیوانہ کررہی ہیں
دنیا کے رنج و غم سے بیگانہ کررہی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو ذرا چمن میں کیا دلنشیں سماں ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکؔیل احمد خان
دنیا
دنیا تیرے وجود کو کرتی رہی تلاش
ہم نے تیرے خیال کو یزداں بنا لیا
تلاش
 

سیما علی

لائبریرین
دل اے دل یہ طرز نہیں کچھ عشق کے عہدے داروں کا
سنتے ہو مجبوروں کی اور کہتے ہو مختاروں کی
مختار وں ،مختار
مجبور شب کو صبح کا مختار دیکھ کر
حیراں ہے عقل وقت کی رفتار دیکھ کر

بیمار کو ہے آپ کے آنے کا انتظار
سب رو رہے ہیں حالت بیمار دیکھ کر

اخترؔ سکون دل کے سوا تھی ہر ایک شے
ہم لوٹ آئے رونق بازار دیکھ کر

اختر واجدی

سکونِ دل
 
مجبور شب کو صبح کا مختار دیکھ کر
حیراں ہے عقل وقت کی رفتار دیکھ کر

بیمار کو ہے آپ کے آنے کا انتظار
سب رو رہے ہیں حالت بیمار دیکھ کر

اخترؔ سکون دل کے سوا تھی ہر ایک شے
ہم لوٹ آئے رونق بازار دیکھ کر

اختر واجدی

سکونِ دل
پایا تھا کچھ سکون دل داغدار میں
زخموں پھر نکھار دیا ہے بہار نے
پھر ہے تیرے کرم کی ضرورت نگاہ دوست
آواز دی ہے مجھ کو غم روزگار نے

دوست
 
عہدہ ، منصب ، رتبہ، درجہ، ہوش رہا نہ گیانی کو
سُدھ بُدھ کھوئی ، عقل گئی اب پِیٹ اپنی نادانی کو
دنیا جس کوسمجھا سب کچھ جُل دے کر وہ ہاری کیا
کہت گُرو تو بات نہ مانی عقل گئی تھی ماری کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکیل احمد خان
تھی
 
رُکے رُکے سے قدم رُک کے بار بار چلے
قرار دے کے تیرے در سے بیقرار چلے
قرار لے کے تیرے در سے بیقرار چلے
اُٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر
اُٹھائے پھرتے تھے احسان دل کا سینے پر
چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اُتار چلے
لے تیرے قدموں میں یہ قرض بھی اُتا رچلے
نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی
نظر میں دھول جگر میں لیے غُبار چلے
سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
صبح نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
تھی رات رات کی یہ زندگی گزار چلے
تھی ایک رات کی یہ زندگی گزار چلے
ملی ہے شمع سے یہ رسمِ عاشقی ہم کو
گناہ ہاتھ پہ لیکر گنہ گار چلے
گلزارکی یہ غزل فلم کے لیے منتخب ہوئی تو بعض فلمی ضرورتوں کے تحت کچھ تبدیلیاں کی گئیں ۔اُن تبدیلیوں کی نشاندہی سرخ الفاظ سے کی گئی ہے۔۔۔
زندگی
 

سیما علی

لائبریرین
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت

جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت

گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی
اردو ادب میں اس موضوع پر ڈاکٹر صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جو بعدازاں ’راگ رت، خواہش مرگ اور تنہا پھول‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
اردو ادب میں جس شاعر کی خودکشی کے واقعے نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ شکیب جلالی تھے۔
شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1934 کو انڈیا کے قصبے بدایوں میں پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر صفیہ عباد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ ’جب شکیب کی عمر تقریباً نو، دس برس تھی تو ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد سید صغیر حسین نے ان کی والدہ کو ٹرین کے سامنے دھکا دے دیا، اس حادثے میں شکیب کی والدہ کی موت واقع ہو گئی۔ یہ حادثہ بریلی ریلوے سٹیشن پر پیش آیا۔
والدہ کی اندوہناک وفات کے وقت شکیب جائے حادثہ پر موجود تھے۔ یہ واقعہ ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوا اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی نفسیاتی بیماری اور ذہنی عدم توازن کی صورت میں زندگی بھر شکیب کے ساتھ رہا۔ شکیب کی شاعری میں جگہ جگہ اس کیفیت کا عکس نظر آتا ہے۔
ان کا ایک مشہور شعر ہے:
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دل کشی نہ رہی
یہ 12 نومبر 1966 کا دن تھا، شام ساڑھے تین بجے وہ گھر سے نکل گئے، ساڑھے پانچ بجے اطلاع گئی کہ انھوں نے خود کو ٹرین کے آگے گرا کر خودکشی کر لی ہے۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے جہاں ان کی وفات ہو گئی۔
شکیب جلالی نے صرف 32 برس کی عمر پائی مگر انھوں نے اتنی کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انھیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
تحریر
مصنف, عقیل عباس جعفری
عہدہ, محقق و مورخ، کراچی
شیکب جلالی کی شاعری اور
اورحالات زندگی پڑھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ۔۔مگر انھو ں نے بہت کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انھیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی


صدی
 

سیما علی

لائبریرین
عہدہ ، منصب ، رتبہ، درجہ، ہوش رہا نہ گیانی کو
سُدھ بُدھ کھوئی ، عقل گئی اب پِیٹ اپنی نادانی کو
دنیا جس کوسمجھا سب کچھ جُل دے کر وہ ہاری کیا
کہت گُرو تو بات نہ مانی عقل گئی تھی ماری کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکیل احمد خان
تھی
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا۔

سسکیاں بھر کے اویس روتی تھی
فسانہ جگر لخت لخت ایسا تھا
شکیب جلالی

فسانہ
 
سچی بات تو یہ کہ شکیب جلالی کا مختصر مگر نہایت غمگیں کردینے والا سوانحی خاکہ پڑھ کر ابھی تک (یعنی دس منٹ پہلے اوپر کے مراسلے میں آپا کی تحریرکردہ معلومات پڑھ کر)سناٹے کی سی کیفیت میں ہوں۔ یاالہٰی یہ شاعر لوگ ایسے سریع الحس، نازک مزاج اور حسرت زدہ ہوتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توبہ توبہ۔مجھے یقین نہیں آتا کہ اِس بتیس سالہ ملول و رنجیدہ شاعر کا انجام اِس قدر حسرتناک تھا۔بہرحال آپا کے دئیے ہوئے لفظ ’’صدی ‘‘پر جاں نثار اختر کا یہ شعر۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی آسودہ نہیں اہلِ سیاست کے سِوا، یہ صدی دشمنِ اربابِ ہنر لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک نہیں کئی صدیوں پر محیط شکیب جلالی کا یہ شعر:صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ،گلشن کو لَوٹتے ہوئےپل بھر لگا مجھے ۔۔۔۔۔اور آپا ہی کے دئیے ہوئے لفظ ’’فسانہ ‘‘ پرشکیب جلالی کی آواز:ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی، فسانہ ٔ جگر لخت لخت ایسا تھا۔۔۔اِسی عنوان سے شکیب کا ایک اور شعر:آج بیمارِ محبت بھی فسانہ ہوگیا،اُن کا آنا موت کا گویابہانہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔یقین کیجیے مجھے تو شکیب جلالی کاہر شعراُن کی اپنی اندوہناک موت کے تناظر میں ہی کہا معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اوس
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
کوئی آسودہ نہیں اہلِ سیاست کے سِوا، یہ صدی دشمنِ اربابِ ہنر لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک نہیں کئی صدیوں پر محیط شکیب جلالی کا یہ شعر:صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ،گلشن کو لَوٹتے ہوئےپل بھر لگا مجھے ۔۔۔۔۔اور آپا ہی کے دئیے ہوئے لفظ ’’فسانہ ‘‘ پرشکیب جلالی کی آواز:ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی، فسانہ ٔ جگر لخت لخت ایسا تھا۔۔۔
یقین کیجیے مجھے تو شکیب جلالی کاہر شعر اُس کی اندوہناک موت کے تناظر میں ہی کہا معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اوس
گل پہ نجانے اوس پڑی کیا

صبح اسے بھی گریاں دیکھا

بام و افق سے ہم نے اکثر
حسن کو آنکھ پہ عریاں دیکھا

وجد سے پھر نکلا نہ وہ جس نے
ماجد! تجھ کو غزلخواں دیکھا
ماجد صدیقی
واجد
 
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت

جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت

گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی
اردو ادب میں اس موضوع پر ڈاکٹر صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جو بعدازاں ’راگ رت، خواہش مرگ اور تنہا پھول‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
اردو ادب میں جس شاعر کی خودکشی کے واقعے نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ شکیب جلالی تھے۔
شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1934 کو انڈیا کے قصبے بدایوں میں پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر صفیہ عباد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ ’جب شکیب کی عمر تقریباً نو، دس برس تھی تو ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد سید صغیر حسین نے ان کی والدہ کو ٹرین کے سامنے دھکا دے دیا، اس حادثے میں شکیب کی والدہ کی موت واقع ہو گئی۔ یہ حادثہ بریلی ریلوے سٹیشن پر پیش آیا۔
والدہ کی اندوہناک وفات کے وقت شکیب جائے حادثہ پر موجود تھے۔ یہ واقعہ ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوا اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی نفسیاتی بیماری اور ذہنی عدم توازن کی صورت میں زندگی بھر شکیب کے ساتھ رہا۔ شکیب کی شاعری میں جگہ جگہ اس کیفیت کا عکس نظر آتا ہے۔
ان کا ایک مشہور شعر ہے:
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دل کشی نہ رہی
یہ 12 نومبر 1966 کا دن تھا، شام ساڑھے تین بجے وہ گھر سے نکل گئے، ساڑھے پانچ بجے اطلاع گئی کہ انھوں نے خود کو ٹرین کے آگے گرا کر خودکشی کر لی ہے۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے جہاں ان کی وفات ہو گئی۔
شکیب جلالی نے صرف 32 برس کی عمر پائی مگر انھوں نے اتنی کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انھیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
تحریر
مصنف, عقیل عباس جعفری
عہدہ, محقق و مورخ، کراچی
شیکب جلالی کی شاعری اور
اورحالات زندگی پڑھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ۔۔مگر انھو ں نے بہت کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انھیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی


صدیا

شام اُترتی ہے۔ تو واؔجد میں یہی سوچتا ہوں
آج کا دن بھی گیا یادوں کے انبار کے بیچ

شام
تو نے دیکھا ہے کبھی اک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اس امید پہ در شام کے بعد
فرحت عباس شاہ
امید
 
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا۔

سسکیاں بھر کے اویس روتی تھی
فسانہ جگر لخت لخت ایسا تھا
شکیب جلالی

فسانہ
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
آتش
جہاں
 
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت

جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت

گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی
اردو ادب میں اس موضوع پر ڈاکٹر صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جو بعدازاں ’راگ رت، خواہش مرگ اور تنہا پھول‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
اردو ادب میں جس شاعر کی خودکشی کے واقعے نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ شکیب جلالی تھے۔
شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1934 کو انڈیا کے قصبے بدایوں میں پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر صفیہ عباد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ ’جب شکیب کی عمر تقریباً نو، دس برس تھی تو ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد سید صغیر حسین نے ان کی والدہ کو ٹرین کے سامنے دھکا دے دیا، اس حادثے میں شکیب کی والدہ کی موت واقع ہو گئی۔ یہ حادثہ بریلی ریلوے سٹیشن پر پیش آیا۔
والدہ کی اندوہناک وفات کے وقت شکیب جائے حادثہ پر موجود تھے۔ یہ واقعہ ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوا اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی نفسیاتی بیماری اور ذہنی عدم توازن کی صورت میں زندگی بھر شکیب کے ساتھ رہا۔ شکیب کی شاعری میں جگہ جگہ اس کیفیت کا عکس نظر آتا ہے۔
ان کا ایک مشہور شعر ہے:
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دل کشی نہ رہی
یہ 12 نومبر 1966 کا دن تھا، شام ساڑھے تین بجے وہ گھر سے نکل گئے، ساڑھے پانچ بجے اطلاع گئی کہ انھوں نے خود کو ٹرین کے آگے گرا کر خودکشی کر لی ہے۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے جہاں ان کی وفات ہو گئی۔
شکیب جلالی نے صرف 32 برس کی عمر پائی مگر انھوں نے اتنی کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انھیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
تحریر
مصنف, عقیل عباس جعفری
عہدہ, محقق و مورخ، کراچی
شیکب جلالی کی شاعری اور
اورحالات زندگی پڑھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ۔۔مگر انھو ں نے بہت کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انھیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی


صدی
اک پل میں اک صدی کا مزہ ہم سے پوچھئے
دو دن کی زندگی کا مزہ ہم سے پوچھئے
زندگی
 

سیما علی

لائبریرین
اک پل میں اک صدی کا مزہ ہم سے پوچھئے
دو دن کی زندگی کا مزہ ہم سے پوچھئے
زندگی
ایثار، خودشناسی، توحید اور صداقت
اے دل ستون ہیں یہ ایوانِ بندگی کے

رنج و اَلَم میں کچھ کچھ آمیزشِ مسرّت
ہیں نقش کیسے دلکش تصویرِ زندگی کے

فرضی خدا بنائے، سجدے کیے بُتوں کو
اللہ رے کرشمے احساسِ کمتری کے

قلب و جگر کے ٹکڑے یہ آنسوؤں کے قطرے
اللہ راس لائے، حاصل ہیں زندگی کے

صحرائیوں سے سیکھے کوئی، رُموزِ ہستی
آبادیوں میں اکثر دشمن ہیں آگہی کے

جانِ خلوص بن کر ہم، اے شکیبؔ، اب تک
تعلیم کر رہے ہیں آدابِ زندگی کے

شکیب جلالی

آگہی
 
شعرپیش کرنے کے لیے کیا ہی اچھا لفظ ملا ہے ۔شعر مرزامحمد رفیع سؔودا کا ہے ۔ یہ میرتقی میؔر کا ہمعصر اور خواجہ میردرد کا ہم زمانہ شاعرتھا۔غربت اِس نے دیکھی نہ تھی اِس لیے فلسفہ اور فکر کی گہرائی اِس کی شاعری میں دوردور تک نہیں۔ اِس کے باوجود مندرجہ ذیل شعر میں میں دیکھتا ہوں کہ یوں لگتا ہے اُسے انسانی نفسیات ، زمانے کا چلن اور وقت کے تقاضوں کا مکمل شعورتھا:​
سوؔدا جو بیخبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے۔ اُن کو جو رکھتے ہیں آگہی​
مشکل
 

سیما علی

لائبریرین
شعرپیش کرنے کے لیے کیا ہی اچھا لفظ ملا ہے ۔شعر مرزامحمد رفیع سؔودا کا ہے ۔ یہ میرتقی میؔر کا ہمعصر اور خواجہ میردرد کا ہم زمانہ شاعرتھا۔غربت اِس نے دیکھی نہ تھی اِس لیے فلسفہ اور فکر کی گہرائی اِس کی شاعری میں دوردور تک نہیں۔ اِس کے باوجود مندرجہ ذیل شعر میں میں دیکھتا ہوں کہ یوں لگتا ہے اُسے انسانی نفسیات ، زمانے کا چلن اور وقت کے تقاضوں کا مکمل شعورتھا:​
سوؔدا جو بیخبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے۔ اُن کو جو رکھتے ہیں آگہی​
مشکل
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر: آخری مغل بادشاہ اور اردو کے عظیم شاعر​

بہادر شاہ ظفر، جن کا اصل نام مرزا ابو ظفر سراج الدین محمد تھا، 24 اکتوبر 1775 کو دہلی کے لال قلعہ میں پیدا ہوئے۔ وہ مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے بیٹے اور مغل سلطنت کے آخری بادشاہ تھے۔ ان کی والدہ کا نام لال بائی تھا، جو ایک ہندو راجپوت خاتون تھیں۔

تعلیمی اور ادبی پس منظر​

ظفر نے ابتدائی تعلیم اردو، فارسی اور عربی میں حاصل کی۔ انہیں بچپن سے ہی شاعری، موسیقی، تصوف اور خوشنویسی کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنے اساتذہ مرزا غالب اور مولانا ابراہیم ذوق سے شاعری کی تربیت حاصل کی۔ بہادر شاہ ظفر ایک ممتاز اردو شاعر تھے اور ان کی غزلیں اپنے جذباتی اور گہرے مواد کی وجہ سے مشہور ہیں۔

حکومت اور بادشاہت​

1837 میں اپنے والد کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر مغل سلطنت کے بادشاہ بنے، لیکن ان کی حکمرانی محض نام کی تھی۔ ان کا اقتدار صرف دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک محدود تھا۔ انگریزوں نے دہلی میں ان کے اقتدار کو برائے نام تسلیم کیا اور انہیں ایک معمولی پنشن دیتے تھے۔
1857 کی جنگ آزادی کے دوران، بہادر شاہ ظفر کو باغیوں نے اپنا علامتی بادشاہ منتخب کیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے مرزا مغل کو فوج کا سربراہ مقرر کیا، لیکن جنگ میں ناکامی کے بعد انہیں ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینی پڑی۔ برطانوی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا اور 1858 میں رنگون (برما) جلا وطن کر دیا۔

زندگی کا آخری دور​

رنگون میں ظفر نے زندگی کے آخری سال انتہائی مایوسی اور مشکلات میں گزارے۔ 7 نومبر 1862 کو ان کا انتقال ہوا اور انہیں وہاں دفن کیا گیا۔ ان کی قبر کا پتہ بعد میں چلا اور 1991 میں وہاں ایک مزار تعمیر کیا گیا۔

شاعری اور ادبی خدمات​

بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں مغل سلطنت کے زوال کی جھلک ملتی ہے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ "کلیاتِ ظفر" کے نام سے شائع ہوا جس میں ان کی غزلیں شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں درد، غم اور انسانی حالت کی عکاسی پائی جاتی ہے۔

مائل
 
Top