ہونٹوں پہ قرضِ حرفِ وفا عمر بھر رہا
مقروض تھا سو چپ کی صدا عمر بھر رہا
کچھ درگزر کی ان کو بھی عادت نہ تھی کبھی
کچھ میں بھی اپنی ضد پہ اڑا عمر بھر رہا
اختر ہوشیارپوری
تیری محفل بھی مداوا نہیں تنہائی کا
کتنا چرچا تھا تری انجمن آرائی کا
داغ دل نقش ہے اک لالۂ صحرائی کا
یہ اثاثہ ہے مری بادیہ پیمائی کا
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
وہ ترے جسم کی قوسیں ہوں کہ محراب حرم
ہر حقیقت میں ملا خم تری انگڑائی کا
افق ذہن پہ چمکا...
یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو
فیض احمد فیض
وہی چشمہِ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
کوئی یار جاں سے گزرا، کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے
فیض احمد فیض